Tuesday, April 16, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldہیوی لنچ

ہیوی لنچ

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

ایچ۔ایم۔یٰسین

مجھے حیرانی تھی کہ اس نے میرا پتہ کہاںسے حاصل کیا اور وہ بھی معہ فون نمبر کے،جس پر اسنے کال کیا تھا ۔ مجھے دہلی میں آئے ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے اور سوائے گھر والوں یا چند قریبی اعزاء کے کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرا ٹرانسفر دہلی ہو گیا ہے اور فیملی ابھی سری نگر میں ہی ہے۔ اس لیے جب موبائل کی گھنٹی بجی تو اجنبی نمبر دیکھ کر میں تجسس میں تھا کہ ایک کچھ کچھ مانوس کچھ غیر مانوس سی سریلی آواز میں کیئے گئے سوال نے مجھے مزید چونکا دیا۔
’’پہچانا مجھے‘‘؟
میں نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کچھ سوچا لیکن سمجھ نہ سکا۔
’’ارے بولو بھئی کیا سانپ سونگھ گیا جو خاموشی اختیار کر لی‘‘ دوسری طرف سے پھر سوال داغاگیا۔
’’معاف کیجئے محترمہ!۔۔۔۔
’’جائو معاف کیا ، لیکن اگر سامنے آنے پر بھی نہ پہچانا تو بہت بڑا جرمانہ ہوگا‘‘ بڑی بے باکی سے کہا گیا،
کون ہے جو اسقدر بے تکلفی سے مخاطب ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ پھر آواز آئی۔
’’ندیم، ندیم ہی بول رہے ہیں نہ آپ؟‘‘
’’جی، جی میں بول تو ندیم ہی رہا ہوں۔ میں نے ذرا گھبراتے ہوئے جواب دیا۔ لیکن آپ کون صاحبہ ہیں؟‘‘
’’ہم صاحبہ نہیں تمہارے صاحب بول رہے ہیں‘‘ میں حیران تھا کہ نسوانی آواز میں ہمارے صاحب یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کون صاحب! کس کا صاحب؟لیکن میں یہ سوال کے طور پر نہ دہرا سکا۔ البتہ گویا ہوا۔
’’محترمہ میرا کوئی صاحب ایسی سریلی اور نسوانی آواز میں کبھی نہیں ہوا۔‘‘
’’ارے بدھو۔ ہم شیریں بول رہے ہیں،تمہارے بڑے بھائی کی سالی تمہاری AMU بیچ میٹ‘‘
’’اوہ ڈاکٹر شیریں! آپ آپ کہاں سے بول رہی ہیں۔ معاف کیجئے گا، ہم پہچان نہیں سکے تھے۔ اور پہچانتے بھی کیسے بارہ سال کا عرصہ کم تونہیں ہوتا۔ وہ بھی زندگی کی گہماگہمی اور تنہائیوں کی تمازت میں گھرا ہوا۔
’’ٹھیک کہتے ہو لیکن ہم کو تو یہ امید تھی کہ تم ہم کو فوراً پہچان لوگے۔ پرانی یادیں، دوستی، عزیزداری۔۔۔‘‘
’’دوستی تو ٹھیک ہے لیکن عزیزداری؟ اسی نے تو ہماری مشکل میں اضافہ کیا۔ بھائی جان کی شادی دو سال بھی نہ چل سکی اور اس تلخی نے گوہماری ہم جماعتی پر تو کوئی اثر نہیں چھوڑا لیکن کلاسیز ختم ہو جانے کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ ضرور درہم برہم ہوگیا اور ایک دوسرے کاٹریس(Trace) ہی نہ مل سکا۔ محبت پروان کیا چڑھتی۔ نیم جاں ہو کر دم توڑ گئی۔
تم کہاں گئیں کیا کیا کیا کچھ پتہ ہی نہ چلا‘‘۔
’’ارے ہم کیا بتائیں ندیم۔ اس دوران زندگی کے جو نشیب و فراز ہم نے جھیلے خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ بہرحال ہم آرہے ہیں تم سے ملنے۔ابھی لندن کی فلائٹ سے آئے ہیں، جہاز میں خرابی کی وجہ سے مسافروں کواتار لیا گیا ہے ٹرانزٹ میں ہیں انشاء اللہ دوپہر تمہارے ساتھ گزاروں گی کسی اچھے ہوٹل میں، تب تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ پانچ بجے ہماری فلائٹ شری نگر کے لیے ہے بس یہ درمیانی وقت ہم تمہارے ساتھ گزاریں گے۔‘‘
شیریں کی اس اچانک آمد، ہمارا پتہ اور فون نمبر حاصل کرنے اور پھر دوپہر ساتھ گزارنے کے پر وگرام پر ہم کو بڑی حیرانی تھی بلکہ تھوڑی سی پریشانی بھی تھی لنچ تو کرانا ہی ہوگا، مہینے کا آخیر تھا۔ بڑے سنبھال کر خرچ کر رہے تھے اور پہلی تاریخ پکڑنے کے لیے جو رقم جٹا کر رکھی تھی اسکی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ میں یہ بتلاتا چلوں کہ شیریں اورہم AMU میں میڈیکل کی تعلیم میں ساتھ ساتھ تھے۔ دوستی ہوئی، جو پھر عزیزداری میں اس طرح بڑھی کہ وہ ہماری تو کچھ نہیں ہمارے بڑے بھائی کی سالی ہو گئیں۔ ہم یہ سوچ کر ذرا زیادہ ہی خوش ہوئے کہ شاید یہی سیریز آگے بڑھے اور بہت سے گھرانوں کی طرح ’’دونوں بھائیوں کی بیویاں دونوں بہنیں ہیں‘‘ والا مقولہ ہمارے ساتھ بھی دہرا دیا جائے۔ لیکن ہماری قسمت کے چپّو محبت کی نیا کو ابھی ٹھیک سے کھے بھی نہ سکے تھے کہ بھائی صاحب کی خانگی زندگی کا جہاز بیچ سمندر میں غرق ہو گیا۔ بھابھی اور بھیا کے شدید اختلاف نے طلاق کو جنم دیا اور اس زلزلے میں ہماری محبت کا پودا شجر ممنوعہ اس لیے ہو گیا کہ دونوں خاندانوں میں نفرت اور غصہ کی آگ نے تعلقات کو منقطع کر دیا جس نے کسی کے بھی ایک دوسرے سے ملنے پر دفع چوالیس نہیں بلکہ کرفیو لگا دیا اور اس طرح یہ دس بارہ سال کا طویل عرصہ ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر بیت گیا۔
ہم ابھی یہی سوچ ہی رہے تھے کہ شیریں کو کس ہوٹل میں لے جائیں کہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ہم نے دروازہ کھولا تو شیریں کو موجود پایا۔ اسقدر جلد ہم نے سوچاہی نہ تھا۔ بہر حال اسے اندر لے کرآیا۔ مجھے شرمندگی ہورہی تھی کہ پرانی دلّی میں جہاں مکانوں کی اسقدر قلّت ہے اورمیرے اس ایک کمرے کے مکان کو جو مجھے ملا تھا، لوگوں نے خوش قسمتی سے جوڑدیا تھا، میں کہاں بٹھائوں، کہاں اٹھائوں۔لیکن وہ اندر آچکی تھی اسلئے اسی شرمندگی میں لپٹا خاموش رہا۔ وہ خود ہی بولی’’ نائس ہائوس‘‘ (Nice House) پتہ نہیں طنز تھا یا حقیقت، میں نے باتوں کا رخ بدلنے کے لیئے اس سے کہا۔’’ چلو پہلے لنچ کر لیں پھر باتیں کریں گے، ڈھیرساری باتیں۔‘‘
ہوٹل پہنچ کر اس نے اپنی درد بھری داستان والدین کی موت، جاب کی پریشانی اور پھر شادی کی کھٹاس جو اس کے ڈاکٹر شوہر نے اسے اس لیے دی ہوئی تھی کہ اس کی جاب اور ریپوٹیشن دونوں اس سے بہتر تھی۔ وہ احساس کمتری کا مریض تھا جس کی نمائش ان کی خانگی زندگی میں صبح شام ہوتی رہتی۔ اس کو شبہ رہتا کہ میرا رجحان باس کی طرف زیادہ ہے وہ کھل کے تو نہ کہتا لیکن میرے کردار پرشک میں مبتلا رہتا ہے۔ ایسی طبیعت کی کدورتوں کے باوجود ہم لوگ ساتھ ساتھ ہیں۔ طلاق جیسے ناپسندیدہ فعل سے ہمارے والدین نے ہم لوگوں کو نہیں کھیلنے دیا۔ چلو یہ تو تھی میری داستان اب تم بتائو کیا گزری ان بارہ سالوں میں۔ میں نے کہا’’ کچھ خاص نہیں، مختصر یہ کہ میں پردیس میں ایک اسپتال میں ڈاکٹر ہو گیا تھا۔ پرائیوٹ نرسنگ ہوم تھا۔ پانچ سال وہاں کام کیا پھر قسمت کی دیوی نے چاک الٹا گھما دیا۔ ایک بڑے گھر کے مریض کی موت ہو گئی جس کا الزام مجھ پر لگا ۔ میری لاپرواہی ثابت کر دی گئی ۔ بڑے لوگ ان کی بڑی بڑی باتیں۔ نرسنگ ہوم کا مالک تو صاف بچ گیا لیکن میرا لائیسنس رد کر دیا گیا اور تب سے میں ہندوستان آ کر ایک پرائیویٹ اسپتال میں جاب کر رہا ہوں۔ کشمیر سے آئے ابھی تین ماہ ہوئے ہیں۔فیملی یعنی امی اور ایک بھانجی جو امی کے ساتھ ہے ابھی اس لیے نہیں لایا کہ بڑا مکان مل جائے تو لائوں ۔‘‘ ’’لیکن تمہاری بیوی‘‘؟ وہ کہا ںہے؟ کیا شادی نہیں کی؟‘‘
’’کی تھی، تمہارا تو پتہ نہیں تھا اور پھر ملاقات اور بات چیت پر خاندان والوں کا ایمبارگو(Embargo) جو لگا تھا۔‘‘
’’میں ہوتی بھی تو تم سے شادی کیوں کرتی؟‘‘ شیریں اِٹھلائی ۔ ’’کیوں مجھ میں کیا عیب تھا۔ عشق میں ہی تو ذرا کچہ تھا تمہیں بھگا جو نہ سکا‘‘ ’’اچھا چھوڑو اس بحث کو۔ وہ بات ادھوری ہے تم نے شادی کی تھی۔۔۔تو پھر۔۔۔۔’’ارے وہ تمہاری جیسی نہیں تھی۔ہماری شادی دو سال چلی اور میرے یہ کیس کی الجھنیں اور پھر لائسنس کے کینسل ہو جانے سے وہ گھر جا بیٹھی اور آج بھی بیٹھی ہے۔ طلاق کا سہارا ہم دونوں نے بھی نہیں لیا، ہم گنہگار ہیں لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ خداکوجائز چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔‘‘
اسی لمحے آرڈر کے لینے کے لیئے ویٹرآ کھڑا ہوا۔
’’ کیا لوگی؟ میں نے شیریں سے پوچھا۔ گوجیب کے ہلکے پن کا خوف طاری تھا۔
’’میں تو لنچ نہیں لیتی۔ زمانہ ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پھر بھی ۔ہم لوگ یہاں آئے ہیں تو کچھ تو لینا ہی ہوگا۔‘‘ ’’اچھا تم ضد کرتے ہو تو ا یسا کرو فرائی فش منگا لو‘‘ بیرا چلا گیا۔ ’’میں نے کہا صرف فش‘‘ اس نے پھر لنچ نہ لینے کی بات کی۔’’ مجھے پچھلے پانچ سال ہو گئے لنچ چھوڑے‘‘۔
’’ارے ایسا کیسے، ناشتہ اور ڈنر میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ اور آرڈر کیجئے‘‘۔
اس نے کہا ’’پھر تندوری منگا لو‘‘ میں نے بیرے کو بلا کر آرڈر تو دے دیا لیکن خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں بل کی رقم جیب پر بھاری نہ پڑ جائے۔ لیکن تکلّفاً کہا۔ ’’سوئیٹ ڈش میں کیا لوگی‘‘؟ اس نے پھر لنچ نہ لینے کا راگ الاپا اور کسی ڈھیٹ کی طرح بیرا سے کہا ’’انڈوں کا حلوہ مل سکتا ہے تمہارے یہاں؟‘‘
’’جی ہاں۔ بس دس منٹ انتظار کیجئے۔ ‘‘ بیرا بولا۔ حلوہ آگیا۔ اور اب بیرے نے بھی اس بے تکلفی میں یہ کہہ کر شرکت کی۔’’ڈرنکس میں کچھ میڈم‘‘ بل میری بساط سے باہر ہوتا جارہا تھا اور میرا دل بھی یہ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اگر یہ خدانخواستہ لنچ ترک نہ کیئے ہوتی تو کیا ہوتا ’’میں لنچ نہیں لیتی، لنچ نہیں لیتی‘‘ کے باوجود مکمل لنچ آرڈر ہو چکا تھا۔ اور میرا دم خشک ہو رہا تھا کہ آج عزت کا فالودہ ضرور ہوگا۔ بل کی رقم پورا کرنے کے لیے کیا اسی سے ادھار لینا پڑ ے گا۔ مجھے شرم اور پریشانی دونوں بے کل کررہی تھیں۔ میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ شیریں نے مجھے چونکا دیا وہ کھڑی ہو گئی اور گھڑی کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’میری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے۔ ندیم، میں چلتی ہوں ورنہ میر ی فلائٹ مس ہو جائے گی‘‘ اور وہ باہر نکل گئی۔ ندیم ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ وہ آخر کیوں آئی تھی ۔ اسنے میرا پتہ، فون نمبر وغیرہ کہاں سے لیا اور لنچ نہ کرنے کی عادت کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر ہیوی لنچ کیا اور مہینے کے آخر میں میرے بجٹ کا کباڑا کر دیا۔ یہ معمہ حل نہ ہوا، اسی وقت بیرا بل لے کر آگیا جس کو دیکھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے تین ہزار کا بل تھا جبکہ میرے پرس میں دوہزار روپئے ہی تھے میں نے بیرے سے دو ہزار روپئے دے کر باقی شام میں آکر دینے کے لیے کہا لیکن بیرے نے منیجر سے جا کر سارا معاملہ بیان کر دیا۔ منیجر نے بل چکانے کا اصرار کیا۔ میں پریشان تھا رقم میرے پاس نہ تھی، حجت ہونے لگی ،میں نے منیجر سے بھی درخواست کی وہ دو ہزار روپیہ لے لیں باقی میں شام کو دے دوں گا لیکن منیجر نے کہا ’’سوری سر، آپ کو رول کے مطابق یا تو بل ادا کرنا ہوگا یا تین دن ہوٹل کے برتن صاف کرنے ہوں گے۔ ‘‘جب میں نے اس سے انکار کیا تو منیجر نے مجھے پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس اسٹیشن میں میں نے ایک ہزار روپیہ دے کر خود کو آزاد کرالیا۔ اور پھر اپنے دوست کے ہمراہ ہوٹل آکر منیجر سے مخاطب ہوا۔ ’’میں آپ کو دو ہزار روپئے دے رہا تھا۔ لیکن وہ آپ کی قسمت میں نہیں تھے۔ دیکھئے! میں پولیس میں صرف ایک ہزار روپیہ دے کر آزاد ہو گیا ہوں اور ایک ہزار مزید میرے پاس باقی ہیں۔ یقینا یہ دو ہزار روپیہ آپ کی قسمت میں نہیں تھے۔
میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ شیریں کی اس آمد کا مقصد اس کے دیگر نجی کاموں کے علاوہ میرے بارے میں یہ معلومات بھی کرنا تھی کہ میری شادی اگر نہ ہوئی ہو تو وہ اپنے شوہر سے اس طلاق کے بعد جو بالکل آخری مراحل میں ہے طے ہو جانے پر اپنی پرانی پسند اور عشق کو پروان چڑھانے کے راستے پر گامزن ہو سکے!!٭

 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular