Friday, April 19, 2024
spot_img

کُتّے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محمد قمر سلیم

ملک کی شمال اور مشرق کی ریاستوں میں کتوں کی دہشت برقرار تھی۔ تین مہینے کے اندر تقریباً چھ سو بچے کتوں کے نوالۂ اجل بن چکے تھے۔ مرنے والوں میں بارہ سے پندرہ سال کے بچے شامل تھے۔مرکزی اور ریاستی حکومتیں پریشان تھیں۔خاص ہدایتیں جاری کر دی گئی تھیں جیسے بچوں کو اکیلا کہیں نہ بھیجیں، بچے گروہ بنا کر جائیں، بہت صبح اور سورج ڈوبنے کے بعد گھر سے باہر نہ بھیجیں، کم آمدو رفت کی جگہ سے گذر نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کے والدین بے پناہ خوف زدہ تھے۔ اسکول ویران ہوگئے تھے۔کتوں کی دہشت کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ بڑی عمر کے لوگ بھی باہر نہیں نکل رہے تھے ان میں عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ لوگ بہت محتاط ہو گئے تھے۔بازار ، سڑکیں سنسان ہوگئی تھیں ۔عجب خوف کا عالم طاری تھا۔
حکومت نے کتوں کو پکڑنے کی مہم چلا رکھی تھی۔ ہر شہر میں مجسٹریٹ اور کمشنرکی نگرانی میں دستے تیار کیے گئے تھے جن کا کام شہر میں دہشت پھیلانے والے کتوں کو پکڑنے کا تھا۔ٹی ۔وی ، سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اہم فون نمبروں کی جانکاری دی جا رہی تھی کہ اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو فوراً اطلاع دی جائے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ روزانہ تمام ریاستوں سے ہزاروں کتے پکڑے جا رہے تھے لیکن نہ تو ان کی تعداد کم ہو رہی تھی اور نہ ہی کتوں کی دہشت کم ہو رہی تھی ۔ہر روز دس بارہ بچوں کی اموات کی خبر آجاتی تھی۔ سیاست بھی زوروں پر تھی۔ حزبِ اختلاف حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا تھا، حکومت حزبِ اختلاف کو موردِ الزام ٹھہرا رہی تھی کہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جا رہاہے لیکن ان سب کے بیچ عام آدمی پس رہا تھا۔
کتوں کی دہشت کا واقعہ سمے پور سے شروع ہوا تھا۔ سمے پور شمالی ریاست کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔تین مہینے پہلے سمے پور کی نرمل چوک پر کچھ کتوں نے ایک تیرہ سال کے بچے پر حملہ کر دیا تھا۔اس بچے کو انھوں نے اتنی بری طرح چیر پھاڑ کی تھی کہ اس کا چہرہ بھی پہچاننا مشکل تھا۔یہ واقعہ رات آٹھ بجے کا تھا۔کچھ لوگوں نے اس بچے کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کتے اتنے خونخوار تھے کہ کوئی بھی ان سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔اور وہ کتے اس بچے کو ایک اندھیری گلی میں لے کر چلے گئے۔دوسرے دن اس بچے کی لاش سے پورے شہر میں تہلکہ مچ گیا۔کہا یہ گیا کہ کچھ کتے پاگل ہوگئے ہیں اس لیے جہاں بھی ملیں گے مار دیے جائیں گے۔ایک دو روز بعد پھر ایسا ہی واقعہ ہوا اور آہستہ آہستہ ہفتہ بھر میں ہی سات آٹھ بچے ان کتوں کا شکار ہوگئے۔لوگوں میں خوف پیدا ہونے لگا شہرکی انتظامیہ بھی حرکت میں آئی۔کچھ کتے پکڑے بھی گئے لیکن وارداتیں کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگیں اور اسکی آگ بہت سی ریاستوں میں پھیل گئی تب مرکز اور ریاستی حکومتیں حرکت میں آئیں۔
سمے پور کے ہی ایک خستہ حال گھر میں عالیہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کی عمرتیرہ چودہ سال ہوگی ۔وہ تقریباً پندرہ دن سے اسکول نہیں جا رہی تھی اور نہ ہی اسے باہر جانے کی اجازت تھی ۔گھر میں بیٹھے بیٹھے وہ اکتا گئی تھی ۔ان پبندرہ دن میں وہ اپنی تمام درسی کتابیں ختم کر چکی تھی۔اسکول کا کام ، گھر کا کام کر کر کے تھک چکی تھی۔ اس وقت وہ گھر کے ایک کونے میں بیٹھی کل کااخبار پڑھ رہی تھی ۔وہ بھی وہ پوری طرح چاٹ چکی تھی ۔ اس نے اخبار ایک طرف پھینکا اور بڑی بے چینی کی حالت میں اٹھ کر اپنی ماں پاس گئی۔
ــ’’ اماں ! میرا اسکول کب کھلے گا۔‘‘
’’جب کتوں کی دہشت ختم ہو جائے گی۔‘‘ ماں نے کہا۔
’’ کب ختم ہوگی کتوں کی دہشت‘‘
’’جب سارے کتے پکڑ لیے جائیں گے۔‘‘
’’ کب پکڑے جائیں گے سارے کتے۔‘‘
’’ارے، کیوں میرا دماغ کھا رہی ہے۔ تیرے باپ آئیں تو ان سے ہی پوچھنا۔‘‘
’’اماں! ابا کہاں گئے ہیں۔‘‘
’’کام پر‘‘
’’تو ابا کو کام مل گیاکیا‘‘
’’ہاں‘‘
’’اماں ، ابا کس کام پر گئے ہیں۔‘‘
’’کتے پکڑنے‘‘
’’سچ اماں‘‘
’’ہاں‘‘
’’اماں! تو ابا کو بہت سے روپے ملیں گے۔‘‘
’’ارے مجھے کیا معلوم،تو چپ بیٹھ جا‘‘
’’اماں، اخبار میں لکھا ہے کہ سرکار ایک کتا پکڑنے کے ۵۰۰ روپے دے رہی ہے۔‘‘
’’ارے بابا دیتی ہوگی، تو مجھے بخش دے‘‘
’’اماں ! میں کیا سوچ رہی ہوں کہ میں بھی کچھ کتے پکڑ لوں۔‘‘
’’تجھے نا ، چیر پھاڑ کے کھا جائیں گے‘‘
’’نہیں کھائیں گے‘‘
’’کیوں! تو ان کی رشتے دار ہے کیا‘‘
’’نہیں اماں! اس اخبار میں لکھا ہے کتے لڑکیوں پے حملہ نہیں کرتے ‘‘
’’اچھا‘‘
’’اور اماں ، میری سہیلی نمیرا ہے نا، اس کے بھائی کو بھی تو کتوں نے مار دیا۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’نائلہ اور اس کا بھائی کاوش دونوں ساتھ ساتھ تو جا رہے تھے ، کتے کاوش کو لے کر بھاگ گئے تھے اور پھر دوسرے دن اس کی لاش ملی تھی۔‘‘
’’اماں میں بس پانچ چھ کتے پکڑوں گی۔پھر مجھے بھی ۳۰۰۰ روپے تک مل جائیں گے۔‘‘
’’ارے تو کیا کرے گی پیسوں کا‘‘
’’اماں! جاڑے آرہے ہیں تمہارے اور اباکے پاس پہننے کو سوئٹر تک نہیں ہے۔ میں ان پیسوں سے تمہارے لیے ایک سوئٹر اور ایک شال اور ابا کے لیے بھی ایک سوئٹر اور لوئی لے کر آوں گی۔‘‘
اس کی ماں کی آنکھیں بھر آئیں۔’’ نہیں میرے لال! تو فکر نہ کر ، اب تیرے ابا کو پیسے ملیں گے تو ہم سوئٹر خرید لیں گے۔‘‘
عالیہ ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئی اور کاپی پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی ماں کا اسکیچ بنا ڈالا اور اپنی ماں کو دکھایا ۔اس کی ماں نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور سینے سے لگا لیا۔ یہ کام ختم ہی ہوا تھا کہ پھر اس پے کتوں کی دھن سوار ہوگئی۔
’’اماں! ایک بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔‘‘
’’کیا‘‘
’’ یہ کتے ۱۲ سے ۵ا سال کے بچوں پر ہی حملہ کیوں کر رہے ہیں۔‘‘
’’ارے مجھے کیا معلوم ! جا کتوں سے ہی جاکر پوچھ‘‘
’’اچھا اماں! میں ابھی آئی۔‘‘
’’خبردار ! ٹانگے توڑ کے رکھ دوں گی جو باہر قدم نکالا۔‘‘
عالیہ ایک طرف جاکر کھڑی ہوگئی ۔اس کی ماں نے دروازہ دیکھا ۔کڑی لگی ہوئی تھی۔اس نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’اماں ! تمہیں معلوم اخبار میں اور کیا لکھا ہے کہ یہ کتے صرف ہماری ذات والوں پر ہی حملہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’تو پاگل ہو گئی ہے کیا‘‘
’’اماں دیکھو، میں تمہیں نام پڑھ کر سناتی ہوں۔‘‘
اور اس نے پڑھنا شروع کیا، ’’ علیم، راشد، ضمیر، ناصر، آصف ، کاظم، شکیل ، وحید۔۔۔‘‘ وہ پڑھتی جا رہی تھی ۔ اس کی ماں نے کانوں پر انگلیاں رکھ لیں اور چیخ کر بولیں، ’’ بس چپ کر‘‘
عالیہ سہم گئی اور خاموش ہوکر اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئی۔
رات کے نو بج رہے تھے ۔ عالیہ کے ابا نے گھر میں گھستے ہی پوچھا، ’’ ارے ، عالیہ سو گئی کیا۔‘‘
’’ہاں، آج تو تمہاری بیٹی نے دماغ کھا لیا۔کتوں کی دھن سوار تھی۔ کب کتے ختم ہو اور کب وہ اسکول جائے۔‘‘
’’ہاں وہ تو ہے ۔ بچی گھر میںپڑے پڑے بھی تو اکتا گئی ہے۔‘‘
’’اور آج کتنے کتے پکڑے ‘‘
’’آج سات کتے پکڑے ہیں۔‘‘
’’کل ملا کر کتنے کتے ہو گئے ‘‘
’’دیکھو! میں نے تو اب ۴۶ کتے پکڑے ہیں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے ، اب بڑی رقم مل جائے گی‘‘
’’ہاں، میں سوچ رہا ہوں، سب قرضے نکال کر عالیہ کے لیے چار چوڑی اور تیرے لیے جھمکی لے لوں گا۔کم سے کم کچھ تو جمع پونجی ہو جائے گی ۔ نہیں توسب پیسا ایسے ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
’’ نہیں تم میرے لیے جھمکی ومکی مت لو، عالیہ کے لیے ایک سیٹ لے لینا۔کچھ سالوں میں شادی تو کرنا ہی ہے۔‘‘
’’میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہم چھ لوگ دس دن سے کتے پکڑ رہے ہیں۔قریب ۳۰۰ کتے پکڑ چکے ہوں گے لیکن ابھی تک نہ تو کتے کم ہو رہے ہیں اور نہ ہی وارداتیں۔روزجب بھی کتے پکڑنے جاتے ہیں اتنے ہی کتے گھومتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔‘‘
عالیہ کی ماں کچھ نہیں بولی بس اس کو حیرت سے دیکھتی رہی ۔وہ بہت تھک گیا تھا۔ کھانا کھاتے ہی اس پے نیند کا غلبہ چھا گیا۔
دوسرے دن وہ پھر اپنے کام پر چلا گیا۔اس کی بیوی اپنے کام میں لگ گئی ۔عالیہ کب اس کی نظروں سے بچ کر باہر اپنے باپ کے پیچھے پیچھے نکل گئی۔ اس کی ماں جب اپنے کام سے فارغ ہوئی تو دیکھا عالیہ گھر پر نہیں ہے وہ گھبرا گئی۔سب جگہ چھان مارا لیکن عالیہ کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔کسی طرح عالیہ کے باپ کو اس کے گم ہونے کی خبر مل گئی ۔ وہ دوڑا دوڑا گھر آیا۔گھر پر کہرام مچا تھا۔عالیہ محلے کی گلی میں بے ہوش پڑی ملی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے انجکشن دے دیا تھا ۔
’’آپ سب لوگ اس کے پاس سے ہٹ جائیے ۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ دیکھیے جیسے ہی اسے ہوش آئے مجھے خبر کر دیں‘‘
آہستہ آہستہ سب لوگ چلے گئے۔شام کا وقت ہوگیا تھا۔ عالیہ کو گھر آئے ہو ئے تین گھنٹے ہوگئے تھے اور ہوش ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اس کی ماں بارگاہ ِ الٰہی میں دعاگو تھی تبھی عالیہ کی نقاہت سے بھری آواز آئی، ’’ اماں‘‘
وہ اور عالیہ کا باپ اس کی طرف دوڑے۔اس کی ماں نے اسے اپنے آنچل میں لے لیااور زارو قطار روئے جارہی تھی ۔اس کے باپ نے بھی بیٹی کے چہرے پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور دروازے کی طرف یہ کہہ کر بڑھنے لگا، ’’میں داکٹر کو بلا کر لاتا ہوں۔‘‘
عالیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، ’’نہیں ابا آپ وہا ں مت جانا۔ ‘‘ نقاہت اس کی آواز سے جھلک رہی تھی لیکن وہ بولے جا رہی تھی، ’’ ابا، وہ بہت خراب لوگ ہیں ۔ ابا وہ سب بچوں کو مار دیں گے۔اسے میں نے ٹی وی پر بھی دیکھا ہے، وہ کہہ رہا تھا، ’’سالوں کو چن چن کے ختم کردو ، ان کی نسل دوبارہ پیدا نہ ہونے پائیں۔ اباوہاں بہت سے بچے تھے۔ بہت سے ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر ان لڑکوں کا آپریشن کر رہے تھے۔وہ آدمی ان سب کو حکم دے رہا تھا ۔ ابا اس کا فوٹو اس اخبار میں بھی ہے۔ اماں تم ابا کو وہاں مت جانے دینا۔ ‘‘
اس کا باپ وہیں رک گیا، ’’بیٹا یہ تو کیا کہہ رہی ہے‘‘
’’ابا میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ابا اسی بلڈنگ میں جس میں تم گئے تھے۔ابا بچوں کوکتے نہیں مار رہے ہیں۔ ابا میں میں میں۔۔۔سچ کہہ ۔۔رہی ۔۔ہو۔۔‘‘ اور پھر اس کی آواز ایکدم بند ہو گئی ۔ ماں باپ نے اسے بری طرح دبوچ لیا لیکن جب تک وہ دم توڑ چکی تھی۔اس کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔پولس کو بھی اس کی موت کی خبر مل گئی تھی۔
سورج ڈوب چکا تھا۔تھوڑی دیرمیں عالیہ کی تدفین ہونا تھی ۔ ۔عالیہ کا باپ بت بنا بیٹھا تھا، پولس کا ایک دستہ آیا اور عالیہ کے گھر کو چارون طرف سے گھیر لیا۔ انسپیکٹر نے عالیہ کے باپ کو گرفتار کر لیا۔اس نے لاکھ کہا اس کا قصور کیا ہے۔ وہ اپنی بچی کو تو دفنا دے لیکن انھوں نے اس کی ایک نہیں سنی۔
آٹھ بجے تک ہر نیوز چینل پر بڑی خبر، اہم خبر کی کلپ گشت کرنے لگی :پولس کی اہم کامیابی، ایک خونخوار دہشت گرد گرفتار۔اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ ملک کی عظیم ہستیوں کو مارنے کی سازش رچ رہا تھا۔ یہی نہیں اس نے اپنی بیٹی کو بھی مار ڈالا کیوں کہ اسے اس کا راز معلوم ہو گیا تھا۔پولس باقی دہشت گردوں کو بھی تلاش کر رہی ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف
ایجوکیشن واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular