Friday, April 19, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکربلا: اردو شاعری میں احتجاج کی نئی علامت

کربلا: اردو شاعری میں احتجاج کی نئی علامت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

پروفیسر شارب ردولوی

سانحہ کربلا تاریخ انسانیت کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کے نقوش کو آج تک وقت اور زمانے کی گرد دھندلانہ کر سکی۔ شاید اس لئے ہی نہیں کہ یہ حق و صداقت کی حمائت کی جنگ تھی بلکہ اس لئے بھی کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف ایک مہیب تاریکی اور پر ہول سناٹا اور ناانصافی وظلم و جور کے خلاف نحیف سی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی امام حسینؑ نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں اور عزیزوں کے ساتھ اس جبر و استبداد کے خلاف انقلاب کا نعرہ بلند کیا اور اپنے خون سے ریگ زار کربلا میں ایسی شمع روشن کردی کہ کربلا بساط ارض پر آنے والی نسلوں کے لئے ، ظلم وجور اور ناانصافی کے خلاف جد و جہد اور احتجاج کی ایک علامت بن گیا۔
واقعہ کربلا اور شہادت امام حسینؑ پر اردو میں مذہبی عقیدت کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اتنا دنیا کی کسی زبان میں کسی واقعہ پر نہیں لکھا گیا لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے اور یہ اردو کے رثائی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اس سے الگ واقعہ کربلا نے جس طرح ذہن و فکر کو متاثر کیا اس کا اثر کسی نہ کسی شکل میں پوری اردو شاعری میں نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس دور اور اس جگہ کی شاعری میں جہاں ظلم وجور کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ اردو شاعری میں اس کی دو نمایاں صورتیں ملتی ہیں۔ پہلی صورت وہ ہے جہاں ایسی لفظیات اور تراکیب کا استعمال ہوا ہے جو کربلا کے تلازمات، استعارات او رتمثیلات کی حیثیت رکھتی ہیں اور جو خاص طور پر اردو غزل او رنظم میں عام ہیں مثلاََ شام غریباں، نوک سناں دشت ، قافلہ ، دمشق ، کربلا، مشکیزہ ، لشکر اور نیزہ وغیرہ کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کا براہ راست بیان نہ ہونے کے باوجود یہ الفاظ علامت اور استعارے بے کسی و بے بسی اور احتجاج کے اس پس منظر کو سامنے لے آتے ہیں۔
احتجاج کا یہ پہلو اپنے عہد کی شکایت ناقدری ، زمانے کی بے انصافی ، سیاست کی سفلگی کی صورت میں میرؔ، سوداؔ یا دوسرے قدیم شعرا کے یہاں بھی کربلا اور ان کے تلازمات کی شکل میں مل جاتا ہے اس نہج سے اگر خود میر انیس کا کلام دیکھا جائے تو بین السطور میںکہیں دعائیہ اور کہیں زمانے کی شکایت میں اس عہد کے تہذیبی اور سیاسی Crisis کا ذکر نظر آسکتا ہے۔ اقبالؔ نے کربلا اور حسین ؑکو عشق اور صبر کی علامت کی شکل میںدیکھا اس لئے کہ ان کے یہاں عشق کی دیوانگی ہی غلامی سے نجات اور آزادی کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ اس لئے انھوں نے کہا ؎
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسینؑ بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
اس طرح قدیم شعرا سے لے کر آج تک ہر شاعر کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں واقعہ کربلا کی گونج ان کے یہاں شعری تراکیب، استعارات ، تلازمات اور علامات کے استعمال میں نظر آتی ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ لہجہ جد و جہد اور احتجاج کی ایک نئی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی مثال مولانا محمد علی جوہرؔ کا مشہور شعر ہے ؎
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یہاں ان مخصوص حالات اور وقت کے پس منظر میں حسینؑ ، یزید ، اسلام اور کربلا ایک نئی علامت کی شکل میںسامنے آتے ہیں ، اس جگہ ایک اور بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس عہد میں جتنا جور وستم ، زیادتی ، ظلم اور Reprasion ہوگا اتنی ہی کربلا زیادہ وسیع اور زیادہ معنی خیز ہوتی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کی تحریک کا زمانہ سب سے زیادہ مظالم اور زباںبندی کا زمانہ تھا۔ ایک طرف ستیہ گرہ ، احتجاج اور مظاہرے کی شدت تھی دوسری طرف انگریزوں کے جبر واستبداد کی، اسی لئے جوش کی نظموں میں اس علامت کی احتجاجی لے سب سے زیادہ بلند نظر آتی ہے۔
کربلا ایک تزلزل ہے محیط دوراں
کربلا خرمن سرمایہ پہ ہے برق تپاں
کربلا طبل پہ ہے ضربت آواز اذاں
کربلا جرأت انکار ہے پیش سلطاں
فکر حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کر سکتی
جب تک اس خاک پہ باقی ہے وجود اشرار
دوش انساں پہ ہے جب تک حشمِ تخت کابار
جب تک اقدار سے اغراض ہیں گرم پیکار
کربلاہاتھ سے پھینکے گی نہ ہر گز تلوار
کوئی کہہ دے یہ حکومت کے نگہبانوں سے
کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے
کربلااور امام حسینؑ نے دبے اور کچلے ہوئے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ مٹھی بھر انسان بے پناہ طاقت کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں اور اس سے ٹکراسکتے ہیں کربلا کے سامنے تاج وتخت اور کثیر افواج کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ترقی پسند تحریک نے Repression اور جبر و ظلم کو اپنی شاعری کا خاص موضوع بنایا اور دنیا کے کچلے ہوئے عوام کی طاقت ور طبقوں اور سرمایہ داروں کی فریب کاریوں سے نجات دلانے کے لئے آواز بلند کی اس لئے ان کے یہاں، خاص طور پر فیضؔ، سردار جعفری، کیفیؔ اعظمی،نیاز ؔحیدر، مخدومؔ اورشمیم کرہانی وغیرہ کے یہاںکربلا اور حسینؑ کی علامت اور اس سے متعلق دوسرے تلازمات اور استعارات کا استعمال زیادہ ملتا ہے کیفی ، فیض اور بعض دوسرے شاعروں کے یہاں کربلا اور حسین ؑ کی علامت براہ راست نہیں استعمال ہوئی لیکن ان کی نظموں میںلہو،قاتل، سرخی لب خنجر، نوک سناں اور اسی طرح کے بہت سے تلازمات اور استعارات استعمال ہوئے ہیں جو بالواسطہ سانحہ کربلا کی یاد لاتے ہیں۔ دوسرے شعرا کے یہاں اس کی واضح اور براہ راست مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ سردار جعفری کی ایک نظم کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجئے ؎
پھر العطش کی ہے صدا
جیسے رجز کا زمزمہ
پھر ریگ صحرا پررواں
نہر فرات آتش بجاں
راوی و گنگاخوں چکاں
کوئی یزید وقت ہو
یاشمر ہو یا حرملہ
اس کو خبر ہو یا نہ ہو
روز حساب آنے کو ہے
نزدیک ہے روز جزا
اے کربلا
اے کربلا
جدید دور میں جیسے جیسے دنیا کے سیاسی منظرنامے پر جبرو استبداد کا رنگ گہرا ہوتا گیا کربلا کی معنویت میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہی سبب ہے کہ جدید شعرا نے اپنی نظموں اور غزلوں میں کربلا، حسینؑ اور سانحہ کربلا کے تلازمات اور علامات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ جن کے یہاں یہ ذکر واضح انداز میں ملتا ہے ان میں احمدفراز، افتخار عارف ، وحید اختر، باقر مہدی، عرفان صدیقی، نازش پرتابگڑھی ، شہاب جعفری، اشفاق حسین ، شاہدماہلی، حسن نعیم ، شاذ تمکنت ، عابد جعفری، عزیزی قیسی، اختر حسین جعفری، احسن علی خاں، شہرت بخاری، نقاش کاظمی، غلام محمد قاصر، عقیل عباس جعفری، عاشور کاظمی ، زاہد مسعود، اسرار زیدی اور مجید امجد نمایاں حیثیت رکھتیہ یں۔ مثلاََ یہ چند شعر ملاحظہ ہوں
حسینؑ پھر ہیں رواں کربلا کی سمت حسن
خوشا کہ اب کے نہیں کم حسینی لشکر بھی
(حسن نعیم)
وہ بے کسی ہے کہ العطش کی صدائیں خاموش ہوگئی ہیں
کہاں ہے کوئی حسینؑ یارو کہ ہر طرف ہے سراب روشن
(باقرمہدی)
نہ روکو ظلم کا سارا سمندر پی کے دم لیں گے
حسینؑ ابن علی نے سرکشوں کو تشنگی دی ہے
(باقر مہدی)
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
(عرفان صدیقی)
وہ اپنے عہد کا شبیرؑ کھو چکے ہیں عقیل
جو اپنے دیس میں دو ریزید رکھتے ہیں
(عقیل عباس جعفری )
لاہور کی کربلا ہے میں ہوں
لازم ہے کہ سرمرانشاں ہو
(شہربخاری)
جب بھی کوئی مشکیزہ آئے میرے خیمے کو
ایک قنات نیزوں کی راستے میں تنتی ہے
(غلام محمد قاصر)
یہ شام شام غریباں ہے بے سروساماں
یہ شہراپنی صلیب سکوت اٹھائے ہوئے
(شاذ تمکنت)
رگ گلو سے بھی کٹتی ہے ظلم کی شمشیر
بشر کی فکر اگر ساتھ کربلا کے چلے
(عاشور کاظمی)
نیچے دھرتی ہے اور اوپر آکاش ہے
میرے ہاتھوں پہ ایک بے کفن لاش ہے
(شہاب جعفری)
علم بکف اناپرست حریف کی متابعت نہ کر سکے
جنھیں سفارتیں عزیزی تھیں وہ خواہش مبارزت نہ کرسکے
(زاہد مسعود)
اجڑی ہوئی آنکھوں میں مری کسی دشت کامنظر آج بھی ہے
جلتے ہوئے خیمے آج بھی ہیں نیزوں پہ کوئی سر آج بھی ہے
(والی آسی)
وہی کرب و بلا، وہی جورو جفا وہی آہ وبکا رونے کی صدا
وہی شام غریباں جیسی فضا ہر شہر میں گھر گھر آج بھی ہے
(والی آسی)
رنگ لایا ہے شہیدوںکالہو
کند ہو کر رہ گئی خنجر کی دھار
(اقبال ردولوی)
دونوں کو پیاسا ماررہا ہے کوئی یزید
یہ زندگی حسینؑ ہے اور میں فرات ہوں
(نامعلوم)
جب بھی ضمیر وظرف کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسینؑ کے انکار کی طرح
(احمد فراز)
وہی سپاہ ستم خیمہ زن ہے چاروں طرف
جو میرے بخت میں تھا اب نصیب شہر بھی ہے
میں آج اسی کربلا میں بے آبرو ،نگوں سر، شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حسینؓ کل سرخرو گیا تھا
میں جاں بچا کر ،فنا کی دلدل میں جاں بلب ہوں
زمین اور آسمان کے عزّ و فخر
سارے حرام مجھ پر
وہ جاں لٹاکر
منارئہ عرش چھوگیا ہے
سلام اس پر
سلام اس پر (بے آواز گلی کوچوں میں)
افتخار عارف کے تخلیقی وجدان کا ایک حصہ ہے بلکہ میر اخیال ہے کہ ان کے شعور و لاشعور پر واقعہ کربلا اس طرح ثبت ہے کہ وہ ان کے تخلیقی عمل میں مہمیز کا کام کرتا ہے اور ان کی شاعری میں ایک قوت بن کر ابھرتا ہے۔ افتخار عارف زندگی کے وسیع منظر نامے اور اس کے سماجی بحران کو کربلا کے تلازمات سے معنویت دیتے ہیں ، انھوں نے جس طرح ان تلازمات اور علامات کو جس تخلیقی قوت اور فنی حسن کاری کے ساتھ استعمال کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے ان کی شاعری میں یہ تلازمات آج کی زندگی کے کرب ، ناہمواری کی تصویر بن کر ابھرتے ہیں۔افتخار عارف نے کربلا کی علامتوں کو خصوصیت کے ساتھ آج کے سیاسی و سماجی تقاضوں اور پس منظر میں استعمال کیا ہے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں ؎
خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
دمشق مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ
فقان قافلہ بے نوا کی قیمت کیا
خیمۂ صبر سے ٹکراکے پلٹنے لگے تیر
اب انھیں سینہ قاتل میں در آیا جانیں
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑنا ہے اور کس گھمسان کارن
راتوں رات چلاجائے جس جس کو جانا ہے
غزل کے علاوہ جدید نظم میں بھی کربلا سے متعلق علامات اور استعارات کو بڑی خوبی کے ساتھ شعرا نے نظم کیا ہے۔ان میں مجید امجد، افتخار عارف، جعفر حسین جعفری ، احمد وصی ، شاہد ماہلی، زبیر رضوی، وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ لئے جا سکتے ہیں۔ مثلاََیہ چند اقتباس ملاحظہ ہوں
فرات کے ساحل پہ ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
(افتخار عارف)
بسے رہے تیرے بصرے کوفے
اور نیزے پہ بازاروںبازاروں گزرا
سر ۔ سرورکا
(مجید امجد)
زیست کے دشت میں اس کرب وبلا کے بن میں
زیر خنجر تن تنہا ہے اکیلا ہے حسینؑ
ہر طرف صرف ستمگار ہیں نیزے تانے
ہر طرف صرف جفاکار ہیں شمیر بہ کف
(احمد وصی)
یہ کون گزرا
لہو کے مقتل سے
کس کی آواز پایہ سجدے کئے ہیں
شہ زور لشکروں نے
(زبیر رضوی)
یہ صرف چند شعرا کے کلام کی مثالیں ہیں ورنہ آج کے اردو شعرا میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے واقعہ کربلا کی علامات کو نہ استعمال کیا ہو۔ ان علامات تلازمات ، استعارات اور تمثیلات کا اپنے عہد کے سیاسی اور احتجاجی معنوں میں استعمال جس شدت، معنوی تہہ داری ، گہرائی اور نئی معنویت کے ساتھ نئے شعرا کے یہاں ملتاہے اس نے واقعہ کربلا ،اس کے کردار اور تلازمات کو آج کے عہد کے جبرو استبداد ، ظلم وستم ، ناانصافی و حق تلفی ، استحصال اور استعمار کے خلاف احتجاج کی سب سے موثر اور توانا علامت بنا دیا ہے۔
��

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular