Thursday, April 18, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldڈھونگی بلّا

ڈھونگی بلّا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی

’’نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔میں ۔۔۔شاہین سے شادی نہیں کروں گا‘‘
’’کیوں؟‘‘
میری والدہ نے لفظ ’’کیوں‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ہر کیوں کا جوا ب نہیں ہوتا ‘‘
’’لیکن !مجھے جواب چاہئے۔۔۔کتنی خوب صورت لڑکی ہے۔۔۔تیرے ساتھ بی ٹی سی بھی کی ہے ۔۔۔ٹیچر بھی ہے۔۔پھر کیا پریشانی ہے؟؟؟‘‘۔
میری والدہ شاہین کا ذکر کر رہی تھیںجہاں تک میں نے اسے سمجھا تھا وہ میری ٹرینگ کے دو سال تھے جن میں وہ میری ہم جماعت تھی۔وہ ایک کم گو اور قبول صورت لڑکی تھی۔اس کا اس دو سال کے عرصے کے دوران نہ کسی سے جھگڑا ہواتھا اور نہ کسی سے اس نے آنکھیں چار کیںتھیں ۔اس کا رشتہ میرے لئے آیا تھا اور اس کی وہی بہن رشتہ لیکر آئی تھی جس کے میں نے کئی رنگ دیکھے تھے جس کی تصویر میری نگاہ میںنہایت قبیح تھی کیونکہ اس کا اندازِ گفتگو،اس کی عیاری اور حد سے زیادہ اس کی بدتمیزیاںجو اکثر وہ ہمارے گھر آکر اپنے شوہر کے ساتھ معمولی سی معمولی بات پر کرتی تھی مجھے یاد رہتی تھیں۔اس کا نام یوں توشاہجہاں تھا لیکن رانی کے نام سے مشہور تھی۔اس کا قد ناٹا ،جسم موٹا اور چہرہ گول تھا۔فطرت میں اس کی لالچ، گفتگو میں جہالت اور ادھر کی باتیں ادھر کرنے میں اسے مہارت تھی۔اس کا تعلق بھی ہمارے وطن شکارپور سے تھا لیکن اس کے والد نے علی گڑھ کو اپنا وطن بنا لیا تھا دور کی رشتے دار ہونے کی وجہ سے وہ اکثر ہمارے گھر آتی تھی اور والدہ کے ساتھ اس کی دانت کاٹی دوستی تھی۔وہ کبھی اکیلی آتی تو کبھی اپنے بیٹے کے ساتھ تو کبھی اپنے شوہر ظہیر صاحب کے ساتھ۔
ظہیر صاحب کا آنا ہمارے گھر پر ایک زمانے سے تھا وہ میرے والد کو اپنا استاد مانتے تھے اور ان کے بڑے عقیدت مند تھے۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ظہیر صاحب کو اپنے گھر آتے ہوئے دیکھا وہ دیر تک والد صاحب کی گفتگو سنتے اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ۔ وہ علی گڑھ کے ایک مشہور تاجراور اپنے ہی ہمنام ظہیر عالم کی تالوں کی فیکٹری’’سنگ لوک‘‘(Sing lock) میں اکائونٹینٹ (Accountant)تھے۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ وہ حساب کتاب میں بڑے ماہر تھے انھوں نے لکھنو یونیورسٹی سے بی کام امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھالیکن کسی وجہ سے ان کے دماغ میں خلل پیدا ہوگیا تھا جو کبھی کبھی ان کو جوش و جنون کا شکار کر دیتا تھا لیکن عموماً وہ خوش مزاج اور پر سکون نظر آتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ان کی تصویر چاند میں نظر آتی ہے اسی نسبت سے وہ خود کو ’’چاند کا بچہ‘‘ کہتے تھے اور اکثر والد صاحب سے چاند اور اپنی تصویر سے متعلق باتیں کرتے تھے۔مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دن انھوں نے والد صاحب سے مخاطب ہو کر کہا:
’’جلال بھائی!!!کیا میں چاند پر موجود نہیں ہوں؟؟؟‘‘۔
’’کیوں نہیں؟؟؟آپ چاند پر ہر وقت موجود ہیں‘‘۔
والد صاحب نے جواب دیاتو وہ خوش ہوکر بولے:
’’جی! یہی بات مشہور عالمِ دین اور مقرر جناب قلبِ عباس نوری نے مجھ سے کہی تھی‘‘۔
’’کیا ۔۔۔کیا بات کہی تھی؟؟؟‘‘۔
والد صاحب نے مسکراتے ہوئے ظہیر صاحب سے سوال کیا۔
’’جلال بھائی!!!۔۔۔ ایک روز وہ حسینیہ زہرا امام بارگاہ میں مجلس پڑھنے آئے تھے۔۔۔مجلس کے بعد میں نے ان سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ میں چاند پر ہوں۔۔۔تو انھوں نے کہا کہ آپ چاند پر ہی رہیں۔۔۔لیکن جلال بھائی کچھ لوگ اس بات کو نہیں مانتے۔۔۔یہاں تک کہ میری بیوی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتی کہ میں چاند پر ہوں‘‘۔
والد صاحب اکثر ان کی ان باتوں پر ان کی تائید کرتے اور ان سے کبھی یہ نہ کہتے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کا وجود چاند پر بھی ہو اور زمین پر بھی جب کہ چاند پر زندگی محال ہے۔ وہ والد صاحب سے بہت خوش رہتے اور دورانِ گفتگو کہتے رہتے کہ ’’شاہجہاں نہیںمانتی کہ میں چاند کا بچہ ہوں۔۔۔یعنی ظہیر رضوی۔۔۔چاند پر رہتا ہے۔۔۔وہ چاند کا بچہ ہے‘‘۔
یوں تو وہ لکھنو کے مرزا خاندان سے تعلق رکھتے تھے بقول ان کے ان کاآبائی گھر مفتی گنج لکھنو میںمبارک کے احاطے کے نذد تھا جہا ں ان کے آج بھی کچھ عزیز رہتے ہیں مگر انھوں نے اور ان کے بھائی بہن نے علی گڑھ کو جائے مسکن بنا لیا تھا۔ان کے بڑے بھائی ’’عابد مرزا‘‘ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ فلاسفی میں پروفیسر تھے۔سارے علی گڑھ کے لوگ جانتے تھے کہ وہ مرزا تھے اور مرزا عابد یا عابد مرزا کے نام سے اپنی پہچان رکھتے تھے لیکن جب کوئی شخص ظہیر صاحب سے کہہ دیتا کہ آپ مرزا ہیں تو وہ بھڑک اٹھتے اور ان پر ایک جنونی کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ اس شخص سے لڑنے کو تیار ہوجاتے اگر ایسا موقع کبھی والد صاحب کے سامنے پیش آتا تو والد صاحب ہی انھیں سنبھالتے اور ان کے غصے کو ختم کرتے۔
وہ مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے اور جب بھی گھر میں آتے تو کچھ نہ کچھ میرے کھانے کے لئے لیکر آتے یہی وجہ تھی کہ میں ان سے تھوڑا بے باک ہو گیا تھا ۔میں جب بھی ان سے ان کے بارے میں ان کی نجی معلومات حاصل کرتا تو وہ کبھی برا نہ مانتے بس مجھ سے پوچھتے کہ’’کیا میں چاند کا بچہ نہیں؟؟؟‘‘۔۔۔کیا میری تصویر چاند میں نہیں؟؟؟‘‘میں کہتا :
’’کیوں نہیں!!! آپ چاند کے بچے ہیں‘‘۔
وہ اکثر چاندنی راتوں میں اس بات کا اصرار کرتے کہ میں انھیں چاند کا بچہ کہہ کر پکاروں۔مجھے یاد ہے جب چوندھویں تاریخ ہوتی اور چاند پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہوتا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے صحن میں لے جاتے اور چاند کی طرف اشارہ کرکے کہتے:
’’وہ ۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔جاوید بیٹے ۔۔۔وہ دیکھوچاند میں میری تصویر‘‘۔
’’ہاں۔۔۔یہ تو آپ ہی ہیں۔۔۔بالکل ۔۔۔بالکل آپ کی تصویر ہے‘‘۔
میں جب ان کی ہاں میں ہاں ملاتا توان کا گورا چہرہ مزید گورا ہوجاتا اور ایسا معلوم ہوتا کہ چاند بھی ان کے چہرے پر اپنی سفید روشنی بکھیر کر ان کی بات کی دلیل پیش کرنا چاہتا ہے۔ان کی آنکھیں چمک اٹھتیں اور وہ مسکرا کر میری پیشانی چوم لیتے۔کبھی کبھی وہ چاندنی راتوں میں چاند کی طرف ہاتھ اٹھا کر اپنے سر اور چہرے اور تمام بدن پر ہاتھوں کو ملتے میں ان سے اس کا سبب پوچھتا توبتاتے کہ اسے غسلِ ماہتابی کہتے ہیں اور میں چاندنی میں نہا کر نئی قوت و توانائی حاصل کر رہا ہوں۔
والد صاحب کو بھی وہ اسی طرح چوندھویں کا چاند دکھاتے اور کہتے :
’’وہ دیکھئے میں ۔۔۔میں چاند پر ہوں۔۔۔دائیں جانب میری تصویر ہے اور بائیں جانب ممتا کی تصویر ہے۔۔۔وہ دیکھئے جلال بھائی ممتا مسکرا رہی ہے۔۔۔وہ آج بھی بالکل جوان ہے اور حسین ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ اپنے لکھنوی رنگ میں آجاتے اور رومانی شاعری سنانے لگتے۔ان کو قدیم شعراء سے لیکر جدید شعراء تک کے سینکڑوں اشعار یاد تھے جنھیں وہ اس وقت سناتے جب ان کا موڈ بہتر ہوتا یا ان کی نگاہیں چاند کی طرف ہوتیں۔وہ اکثر ایسی کیفیت میں خود کچھ بڑبڑاتے اور ایک یا دو بار ممتا کانام ان کی زبان پر ضرو ر آتا۔ایک دن جب والد صاحب گھر پر نہیں تھے اور میں موجود تھا اتفاق سے ان کی آمد ہوئی میں نے از راہِ مزاح ان سے سوال کیا:
’’ظہیر انکل!یہ ممتا کون ہے؟؟؟۔۔۔جس کو آپ اکثر چاند میں دیکھتے ہیں‘‘۔
’’ممتا۔۔۔ممتا۔۔۔ممتا۔۔۔‘‘۔
وہ یہ نام سن کر کچھ چپکے چپکے بڑبڑانے لگے اور میں نے دیکھا ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی لیکن آنکھیں کچھ بھیگی ہوئی معلوم ہوئیں۔وہ تھوڑا خاموش ہوئے اور پھر گویا ہوئے:
’’ممتا ۔۔۔میری بیسٹ فرینڈ۔۔۔‘‘۔
’’کون بیسٹ فرینڈ؟؟؟یہ کہاں کی ہیں؟؟؟
مجھے معلوم تھا کہ ظہیر انکل کی شادی رانی سے ہو چکی تھی اور ان کے ایک لڑکا بھی تھا۔جو کہنے کو کمسن تھا لیکن اس کی ماں کے لاڈ پیار نے اسے انتہائی بدتمیز بنا دیا تھا اور اکثر وہ بدکلامی اس انداز میں کرتا تھا کہ کوئی بے حیا تجربے کار شخص اس کی زبان سے بولتا ہوا معلوم ہوتاتھا۔ظہیر صاحب پھر خاموش ہو گئے تھے لیکن میں نے پھر سوال کیا :
’’کون ممتا؟؟؟کیا آپ کے آفس میں ورک کرتی ہیں ممتا؟؟؟‘‘۔
’’نہیں میرے جاوید میاں۔۔۔وہ میرے آفس میں نہیں ۔۔۔میرے ساتھ چاند پر رہتی ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر صحن میں لے گئے اور چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:
’’وہ دیکھو بیٹے۔۔۔وہ ہے ممتا۔۔۔چاند میں ممتا ہے ۔۔۔ہاں اب چاند ہی میں رہتی ہے وہ‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ ممتا ان کے ساتھ لکھنو یونیورسٹی میں بی کام میں ساتھ ساتھ پڑھتی تھی اس کا تعلق گومتی نگرکے ایک اعلیٰ ہندو گھرانے سے تھاوہ ذات کی شرما تھی لیکن وہ شیعہ حضرات سے بہت متاثر تھی۔اکثر محرم کی مجالس میں پابندی سے شریک ہوتی تھی یہی وجہ تھی کہ ظہیر صاحب سے وہ کافی دلی رغبت رکھنے لگی تھی پھرظہیر صاحب کلاس میں پڑھنے میں سب سے اچھے بھی تھے تمام اساتذہ اور ان کے ساتھی بھی انھیں بہت پسند کرتے تھے۔رفتہ رفتہ ممتا ظہیر صاحب کو پسند کرنے لگی اور اس کی پسند عشق میں تبدیل ہوگئی اس عشق کی راہ میں ممتا اکیلی نہ تھی بلکہ ظہیر صاحب بھی اس کے دیوانے تھے۔محبت جب تک راز رہے عذاب نہیں بنتی لیکن جب یہ ظاہر ہو جاتی ہے تو قیامت کے مناظر مہیا کر دیتی ہے یہی ہوا دونوں کے گھر والوں کو پتا لگاتو خاص طور سے ممتا کو زیادہ پابندیوں کا شکار ہونا پڑا ایک دن اس کے بیاہ کی تاریخ بھی طے کر دی گئی لیکن اس کا بیاہ نہ ہوسکااور جس تاریخ کو بیاہ ہونا تھا اس دن کے اخبار نے اس کی موت کی خبر چھاپ کرظہیر صاحب کے دل و دماغ کو مضطرب کردیا ۔ممتا تو وقتی طور پر زندگی میں ہی نذرِ آتش ہوئی تھی لیکن ظہیر صاحب عمر بھر کے لئے ایسی آگ میں جلے کہ جس نے ان کو دیوانہ کر دیا۔ان کا علاج کرایا گیا لیکن ممتا کی تصویر ان کی آنکھوں سے دور نہ ہو سکی اور انھیں یہ لگا کہ جس آگ میں ممتا کا پاکیزہ بدن جل کر خاک ہوا تھا وہ چاند کے نور کی مثل تھی اور اس نور پر نہ صرف ممتا کی حکومت ہے بلکہ وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ چاند پر موجود ہیں۔
ظہیر صاحب کی اس کہانی نے ان کی زوجہ کو بھی یقیناً متاثر کیا تھا لیکن دیگر افراد سے ذرا ہٹ کر ۔وہ اکثر ان کی یہ باتیں سن کر تیش میں آجاتی اور ان سے بے انتہاء بدتمیزی کرتی یہ بدتمیزی اس کی اپنے گھر تک ہی محدود نہ رہتی بلکہ وہ اکثر ہمارے گھر بھی آکر ان سے بد کلامی کرتی اور خوب لڑتی جھگڑتی اورہمارے سامنے ہی ان پر ہاتھ تک چھوڑ دیتی لیکن ظہیر صاحب سوائے محبت بھرے جملوں کے اس سے کچھ نہ کہتے بڑے پیار سے اس سے مخاطب ہوکر کہتے:
’’رانی!!!چلو۔۔۔گھر چلو‘‘۔
وہ جب یہ کہتی تو رانی اور تیش میں آجاتی کہتی:
’’ہٹ ڈھونگی بلے۔۔۔ابے تونے میری زندگی برباد کردی‘‘۔۔۔۔تجھے موت بھی نہیں آتی‘‘۔
وہ انکساری سے کہتے :
’’میں نے تمہاری زندگی کہاں برباد کی۔۔۔ظہیر عالم صاحب سے جو تنخواہ ملتی ہے سب تمہیں ہی تو لاکر دیتا ہوں‘‘۔
’’ہٹ۔۔۔۔جھوٹے۔۔۔وہ بھی کوئی تخواہ ہے۔۔۔گنتی کے دس ہزار روپے‘‘۔
’’میں کیا کروں میری نوکری پرائیویٹ ہے ۔۔۔جتنی تنخواہ ملتی ہے سب تمہیں لاکر دے دیتا ہوں‘‘۔
رانی اکثر میری والدہ سے مخاطب ہوکر کہتی:
’’زینب باجی۔۔۔میری تو زندگی تباہ ہوگئی۔۔۔میں اس پاگل کو کب تک بھگتوں؟؟؟‘‘۔
اور پھر وہ آنکھیں نکال کر اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر کہتی:
’’تیرے مقدر میں موت بھی نہیں ہے۔۔۔ابے ۔۔۔تو مجھے اور اپنے بیٹے کو کھا کر مرے گا کیا؟؟؟‘‘۔
میں دیکھتا ظہیر صاحب خاموشی سے میرے والد کی طرف دیکھتے ایسے موقع پروالد صاحب ہی دونوں زن و شوہر کی نفسیات کا دھیان رکھتے ہوئے بات کا رخ موڑتے اور جھگڑا ختم کرادیتے۔
ایک مرتبہ کافی عرصہ گذر گیا ظہیر صاحب نے ہمارے گھر کا رخ نہ کیا میری مصروفیت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ ان کے گھر جاکر ان کا حال چال معلوم کروں پھر مجھے ان کی بیوی سے کوفت بھی تھی مجھے لگتا تھا کہ ظہیر صاحب شادی کے بعد زیادہ پاگل ہوئے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ کسی مجنون انسان کو اگر بار بار یہ احساس دلایا جائے کہ وہ پاگل ہے تو اس کے مرض میں اضافہ ہوتا ہے ۔چنانچہ میں ظہیر صاحب کے گھر نہ گیا لیکن ایک شام جب گرمی کی شدت کی وجہ سے میں گھر کے باہر اپنے محلے ذاکر نگر کی ایک سڑک پر چہل قدمی کی غرض سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ ظہیر صاحب چلے آرہے ہیں میں نے دیکھا وہ پہلے سے کمزور اور لاغر تھے ان کے پر نور چہرے پرجہاں چاند کا عکس نمودار ہوتا تھا گھنی اور لمبی بے ترتیب ڈاڑھی پھن پھیلائے بیٹھی تھی۔
’’ارے۔۔۔آپ۔۔۔سلام علیکم ظہیر انکل‘‘۔
’’واعلیکم السلام ۔۔۔بیٹے۔۔۔کیسے ہو؟؟؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔آپ کی یہ حالت۔۔ ۔؟؟؟‘‘۔
میرا جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔
’’ہاں۔۔۔بیٹے مجھے ۔۔۔ٹی بی ہو گیا ہے‘‘۔
’’تو اس کا علاج تو کر رہے ہیں؟‘‘
’’وہ اس سوال پر ذرا سا خاموش ہوکر بولے :
’’پرسوں دوا ختم ہو چکی ہے‘‘۔
’’کیا علاج مکمل ہوگیا؟؟؟‘‘۔
’’نہیں۔۔۔ابھی نہیں‘‘۔
’’تو۔۔۔پھر؟؟؟‘‘۔
’’بیٹے تم تو جانتے ہو ۔۔۔میری تنخواہ محدود ہے۔۔۔پھر گھر کا خرچہ۔۔۔۔محسن کی پڑھائی۔۔۔میں تو تنخواہ رانی کو دے دیتا ہوں۔۔۔۔وہی خرچہ کرتی ہے‘‘۔
میرے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا البتہ رانی کی تصویر میرے ذہن میں گھوم رہی تھی جس تصویر میں آنکھوں کے بجائے دو کالے ناگ تھے۔ہونٹوں سے خنجر نما دانت باہر نکلے ہوئے تھے جن میں گوشت کے ریشے نظر آرہے تھے ۔خدا جانے یہ گوشت کس کا تھا؟۔
میں نے ذرا رکتے ہوئے ظہیر صاحب سے کہا :
’’اب کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘۔
’’نائی کی دکان تک۔۔۔آج ایک صاحب سے پانچ روپے ادھار لیکر آیا ہوں‘‘۔
’’کیا مطلب۔۔۔پانچ روپے کیوں ادھار لئے ہیں؟‘‘۔
میرے سوال پر وہ ذرا سا ٹھٹھک کر بولے:
’’بیٹے!!!۔۔۔ تقریباً ایک مہینے سے ڈاڑھی نہیں بنوائی ہے۔۔۔رانی شیونگ تک کے پیسے نہیں دیتی۔۔۔کہتی ہے تمہارے مرنے کے بعد محسن کے کام آئیں گے‘‘۔
تو آپ اب ڈاڑھی نہیں بنواتے ؟؟؟‘‘۔
میں نے پھر ایک سوال ان کے سامنے پیش کر دیا۔وہ تھوڑا مسکرا کربولے:
’’بیٹے ! کبھی کبھی رانی ہی میری ڈاڑھی بنا دیتی ہے‘‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد میں کس طرح اپنے گھر پہنچا لیکن میری نگاہ سے ظہیر صاحب کے مسکرانے کا منظر دور نہ ہو سکا آج تک ان کی وہ مسکراہٹ جس میں ان کا کرب ان کی بیچینی ان کی مفلسی ان پر ہونے والاجبرصاف طور سے عیاں تھا میرے ذہن سے محو نہیں ہوتی۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس واقعہ کے کچھ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا لیکن ان کی موت کی خبر ہم تک نہ پہنچ سکی۔ایک سال گزرنے کے بعد ان کی برسی کے موقع پر جب میں ان کے گھر کچھ لوگوں کے ساتھ فاتحہ خوانی کے لئے گیا تو ان کی بڑی سی تصویردیوار پر لٹکی ہوئی دیکھ کر پتا نہیں کیوں میرے تن بدن میں آگ لگ گئی مجھے لگا اس سے بڑی انسانیت کی توہین کیا ہوگی کہ جسے جیتے جی مار دیا گیا آج اس کی قسم قسم کے کھانوں اور پھلوں پر فاتحہ ہو رہی ہے اور اس کی تصویر کو کمرے میں بھی سجایا گیا ہے۔میری والدہ کی آواز ایک بار پھر میرے کانوں سے ٹکرائی تو میں اپنی سوچ کی دنیا سے آزاد ہوا۔وہ کہہ رہی تھیں:
بتاتو۔۔۔رانی کی بہن سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتا؟؟؟‘‘۔

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
ہلالؔ ہائوس
4/114نگلہ ملاح
سول لائن علی گڑھ یوپی
موبائل:9219782014

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular