ویرانی

0
119

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

الیاس مضمر

اہل محلہ کی میٹنگ بلائی گئی جو میٹنگ میں آنے سے رہے انہیں گھروں سے لایا گیا۔ چند بااثر افراد نے نئی کمیٹی پہلے ہی تشکیل دے رکھی تھی جن کے اسموں کا اعلان مجمع کے ساتھ ہی کیا گیا۔ صاحب صدر کچھ یوں مخاطب ہو ئے ۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ علیہ وبرکاتہ۔۔۔ میرے پیارے اسلامی بھائیو۔۔۔ آج ہم نے ایک بہت ہی اہم دینی کام کے لیے آپ حضرات کو یہاں دعوت دی ہے جس کے دعوت نامے ایک ہفتہ پہلے ہی آپکے گھروں تک پہنچائے تھے تاکہ ہر کسی کو اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا موقع ملے۔ آخرت کا کام آج کر دینا کا کام کل پر چھوڑدے یہ بڑے رنج کی بات ہیکہ ہم اس کے مخالف سمیت میں چل رہے ہیں۔ دنیاوی خوابوں کی تکمیل کے لیے تو ہم سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں لیکن آخرت کے لیے نہ ہمارے پاس وقت ہے اور نہ سرمایہ۔۔ آخر میں آپ لوگوں سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنی قیمتی آرا ء سے نوازیں ‘‘
’’جناب صدر صاحب بے شک ‘نیک بات کا ثواب صدقہ دینے کے برابر ہے، میں اپنی طرف سے دس ہزار روپے وقف کرتا ہوں،‘
دوسرا شخص ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا’’ جب تک آمدنی کی پوری تفصیل فراہم نہ کی جائے ہم اس کے حق میں نہیں ہیں ‘‘
تیسرا شخص بولا ’’اس پر جتناخرچہ آتا ہے اس کا تخمینہ لگا کر سارے گھروں پر تقسیم کیا جائے‘‘
یہ سنناتھا کہ ایک فرد بڑے غصے سے بولا’’دیکھو جی ذریعہ آمدنی کا خاص خیال رکھا جائے۔ جن کہ آمدنی بہت قلیل ہو ان کو صرف ایک چوتھائی حصہ ہی ہونا چاہیے‘‘
اس پر ایک صاحب بڑے زور سے چلا کر بولے‘‘نہیں نہیں اس سے ہماری آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ اسی طرح صرف ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر کسی پر برابر برابر تقسیم ہونا چاہیے ‘‘
لوگوں میں کافی بحث ومباحثہ ہوا ہر کوئی اپنی اپنی رائے پیش کر رہا تھا کوئی بھی متفق ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ایک بار پھر صاحب صدر سب کو خاموش کراتے ہوئے بولے
’’جو غصے کو پیتا ہے خدا اسے اجر دیتا ہے، غصہ کسی مسلے کا حل نہیں ہے ہم سب مل جل کراس اہم ضرورت کو انجام تک پہچانے کی کوشش کریں گے۔۔ جو میری بات سے متفق نہیں ہیں وہ اپنا ہاتھ کھڑا کریں۔ ‘‘
سبھی لوگ خاموش تھے کہ اتنے میں موزن کھڑا ہو کر صدر سے مخاطب ہوتے بولا ’’ ہر کوئی ڈیڑھ انیچ کی مسجد بنانے کی تاک میں لگا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ہماری تو بس آپ لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر یہی گزارش ہے کہ ایک بار پاس کی مسجد کا جائزہ ضرور لیں۔کئی بار تو وہاں آذان ہونے سے رہ جاتی ہے۔ بجلی کے تار کوکٹے مہینہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ زیادہ بارش یا برف باری ہونے کی صورت میں پانی اندر داخل ہو جاتا ہے۔ جس کہ وجہ سے سارے بچھونوںکی حالت ابتر ہوگئی ہے۔جب سے ماہ مبارک گرمیوں میں آیا ہے تب سے حمام بھی بند پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابتر حالات سے دو چار ہو گئے ہیں‘‘۔ یہ کہتے کہتے ان کی آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب جاری ہوتاہے۔۔۔۔۔
9797144538

دراس کرگل

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here