میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا

0
257

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

  پروفیسر شکیل احمدقاسمی   
رئیس الاحرار محمد علی جوہر کی شخصیت قائدین ملک وملت کی صف میں منفرد ، عزت نفس، دولت استغنا ان کی زندگی کا لازمی حصہ، فقیری میں شاہانہ خیالات اور پریشانی میں خودداری پر قائم رہنا دائمی خصلت ، مخلص، بہادر ، اسلام کے شیدائی اور اظہار حق میںدوست دشمن کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات سامنے رکھنے والے ۔ مولانا محمد علی کے دل میں ملت اسلامیہ کا بڑا درد تھا، ان کی خدمات کئی لحاظ سے قابل قدر ہیں، ملک کی آزادی کی جد وجہد، تحریک خلافت، اشاعت تعلیم، فروغ اردو،صحافت کے ذریعہ عوامی بیداری میں وہ بہت کامیاب رہے۔
برطانوی حکومت نے جب کلکتہ کے بجائے دہلی کو ہندوستان کی راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا تو محمد علی نے ’کامریڈ‘کا دفتر بھی 14؍ستمبر 1912کو دہلی منتقل کرلیا، اور 12؍ اکتوبر کو یہیں سے ’کامریڈ‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا، انہوں نے مسلمانوں کی آسانی کے لئے ’نقیب ہمدرد‘ نامی اردو پرچہ کا اجرا کیا، جو بعد میں روزنامہ ہمدرد کے نام سے مشہور ہوا، باشندگان ہند کو آزادی وطن کے لئے بیدار اور تیار کرنے کی غرض سے مولانا نے صحافت کو موثر ذریعہ بتایا۔ جانباز قائد اور بے باک صحافی مولانا محمد علی جوہر نے صحافت کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کیا جسے انہوں نے اپنے معروف انگریزی اخبار ’کامریڈ‘  میں 6جون 1913کو شائع کیا تھا، صحافتی حلقہ میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی اور لوگوں نے اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا ۔یہ ضابطہ اخلاق صحافیوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا۔ اس کے نکات اس طرح تھے:  -1اخبارات کو ذاتیات سے مبرا ہونا چاہئے ، نہ کسی دشمن کے خلاف زیادہ لکھنا چاہئے نہ کسی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے چاہییں۔ مخالفت ہمیشہ اصول کے دائرے میں محدود رہے۔ 2 –  جو کچھ لکھا جائے وہ عبارت آرائی کے خیال سے نہیں، نہ لوگوں کی چٹکیاں لینے کی غرض سے ، بلکہ متانت اور مناسب سنجیدگی سے لکھا جائے۔    -3 اخبار کا مقصد یہ ہو کہ اپنی قوم کو فائدہ پہونچایا جائے ۔ یہ مقصد ہرگز نہ ہو کہ کسی دوسری قوم کو نقصان پہونچایا جائے، مذہبی مباحثت سے بھی اخبار کو مبرا اور معرا ہونا چاہئے۔ 4 –  اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتا ہے، اخبار میں ہمیشہ صحیح و مصدقہ خبریں چھاپنی چاہئے۔ 5 –   ایڈیٹوریل محض بھرتی کے لئے نہیں ہے۔ کسی اہم اور تازے واقعہ پر لکھا جائے اور اس کے لئے پوری محنت ، تحقیق اور مطالعہ سے کام لیا جائے۔6 –  صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے ، اسے خیال رکھنا چاہئے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مورخ ا س کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کر سکے۔ 7 –  صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں، راہ نما بھی ہوتا ہے ، اسے صرف عوام کی تائید ہی نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ صحافتی ہنر سے عوام کو درس بھی دینا چاہئے۔ان اصولوں کی روشنی میں صحافیوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئیں۔
تحریک خلافت نے ملک میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی ہر فرد کے دل میں علی برادران کے لئے محبت جاگزیں ہوگئی، اس تحریک نے انگریزی اسکولوں، کالجوں اور سرکار کی نگرانی میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو چھوڑ دینا فرض قرار دے دیا، چنانچہ تعلیمی محاذ پر ترک موالات کے لئے مولانا محمد علی نے علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے پہل کی۔بالآخر 29اکتوبر 1920 کو جمعہ کے دن ایم اے او کالج کی مسجد میں بعد نماز جمعہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘‘ کا افتتاح شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒنے فرمایا۔ حکیم اجمل خاں اولین امیر جامعہ، مولانا محمد علی پہلے شیخ الجامعہ، حاجی موسی خاں سکریٹری، اور تصدق احمد شیروانی جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔مولانا محمد علی نے  22نومبر 1920کو فاؤنڈیشن کمیٹی کے جلسے میں یہ تجویز منظور کرالی کہ جب تک نیا نصاب تعلیم تیار ہوکر نہیں آجاتا مجوزہ نصاب ہی کو اصلاح وترمیم کے ساتھ جاری رکھا جائے اور اس میں دینیات کے مضمون کا اضافہ کردیا جائے۔اس موقع پر ایک نصاب کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں مولانا محمد علی ، ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولوی عبد الحق، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا آزاد سبحانی، مولوی صدر الدین، ڈاکٹر انصاری، محی الدین، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولوی  عنایت اللہ، پرنسپل ایس کے رودرا، پرنسپل گڈوانی، پروفیسر سہوانی، سی ایف اینہ ریوز، جواہر لال نہرو، راجندر پرشاد اور سید سلیمان شامل تھے۔اس عمومی نصاب پر غور وخوض کے بعد مولانا محمد علی جوہر کی خصوصی نگاہ دینیات کی طرف متوجہ ہوئی چونکہ محمد علی مسٹر سے مولانا ہوچکے تھے اور جدید وقدیم پر ان کی نگاہ ماہرانہ تھی، انہوں نے پھر دینیات کے نصاب کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل کی، جس میں مولانا آزاد سبحانی، مولانا سلامت اللہ، مولانا صدر الدین، مولانا عبد القیوم، مولانا داؤد غزنوی، مولانا عبد الماجد بدایونی،ذژ مولانا عبد القادر، مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر خود بھی شامل رہے۔
ایام اسیری میں جھنڈوارہ میں قیام کے دوران وہ قرآن کریم کی تلاوت اورباقاعدہ تفسیر کے مطالعہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے،
اس لئے نصاب تعلیم میں قرآن کریم، دینیات اور تاریخ کو فوقیت دینا چاہتے تھے اور اس ذہن کے ساتھ نصاب تیار کئے جانے پر ان کی توجہ تھی، مولانا محمد علی جوہر کا نظریہ تعلیم تجربات کی روشنی میں ان کے سامنے واضح ہو کر آ چکا تھا، وہ اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کا منفی اثر ہندوستان کے باشندوں پر پڑے گا ،ملت اسلامیہ کو اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی حساس رہنا چاہئے، چنانچہ مصروفیت کے باوجود وہ نصاب تعلیم پر پوری توجہ دے رہے تھے اور اس کی جزئیات پر ان کی نگاہ بار بار جارہی تھی، اس لحاظ سے ان کی نگاہ میں ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘کا تصور بہت ارفع اور اعلی تھا،یہی وجہ ہے کہ اسلامیات اور دینیات کے بلند پایہ عالم دین شیخ الہندحضرت مولانا محمود حسن کے ذریعہ جامعہ کا افتتاح عمل میں آیا اور نصاب کمیٹی میں عصری علوم کے ماہرین کے ساتھ نامور اور بالغ نظر علماء کی بڑی تعداد کو انہوں نے اس کمیٹی میں شامل رکھا، اس سے ان کے تعلیمی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا نے کانگریس اور خلافت کے پلیٹ فارموں سے اور اپنے دونوں اخباروں کے ذریعہ اتحاد کی فضا برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ آپ نے شدھی تحریک کے جواب میں پیدا ہونے والی تنظیموں اور تحریکوں کو بند کرنے پر زور دیا تاکہ امن واتحاد برقرار رہ سکے، وہ برابر اتحاد پر زور دیتے رہے۔مارچ 1926ء کو دہلی میں مولانا کی کوششوں سے ہر طبقہ خیال کے مسلمان رہنمائوں کی کانفرنس ہوئی اور مختلف مسائل پر تجاویز پاس ہوئیں جن میں اتحاد پر زور دیا گیا جو ’دلی قرار داد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ان کوشش وکاوش کے تناظر میں اگر مولانا محمد علی جوہر پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ مولانا اتحاد واجتماعیت کے ساتھ چلنے کو پسند کرتے تھے اور اسی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر یوسف حسین اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ:-’مولانا محمد علی جوہر جب بولتے تھے تو فصاحت وبلاغت کا دریا بہادیتے، گھنٹہ دو گھنٹہ چارگھنٹے متواتر تقریر کا سلسلہ جاری رہتا، مولانا محمد علی کا بولتے بولتے گلا پڑ جاتا اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔‘ان کی تاریخی تقریر کا یہ حصہ جو انہوں نے گول میز کانفرنس لندن میں کی تھی ملاحظہ فرمائیں’میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا میں ایک غیر ملک میں بشرطیکہ وہ آزاد ملک ہو مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ ہم کو ہندوستان میں آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو مجھے قبر دینی پڑے گی۔‘(آزادی یا موت)۔عزم و ارادے کا پختہ اور قول کا سچا محمد علی بالآخر غلام ملک واپس نہیں آیا۔4؍ جنوری 1931کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں جہاں ان کا قیام تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اولین شیخ الجامعہ ، ہندوستان کے صف اول کا رہنما اپنے وطن سے دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگیا، مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مولانا کے جسد خاکی کو پیغمبروں کے مدفن اور قبلۂ او ل بیت المقدس میں دفن کیا گیا اور وہ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ :
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا
بقول ڈاکٹر ذاکر حسین ’محمد علی کی زندگی کابیان در اصل ایک قوم اور ایک ملت کے حال اور مستقبل کی تفسیر کرنا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کے قائد تھے اور نمائندہ بھی۔‘  برطانوی ادیب ایم جی ویلز کا محمد علی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ’محمد علی نے برک کی زبان، میکالے کا قلم، اور نپولین کا دل پایا ہے‘۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ان پر باضابطہ مرثیہ لکھا ۔ سید ابوالحسن علی ندوی  ؒ کے خیال میں  ’انہوں نے حق کہنے میں نہ اپنے شیخ طریقت مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی پرواکی نہ اپنے سب سے محترم ومحبوب شریک کار اور جنگ آزادی کے رفیق کار گاندھی جی کی، نہ اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت (برطانیہ) کے وزیر اعظم کی، نہ سب سے زیادہ قابل احترام سرزمین کے فرمانروا اور بانئی سلطنت سلطان
 عبد العزیز ابن سعود کی، انہوں نے ہر جگہ حق بات کہی اور صاف وبے لاگ کہی۔‘ مولانا بے حد مقبول تھے وہ ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دہلی پہونچے تو چاندنی چوک پر ایک شاندار استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔اس موقعہ پر خواجہ حسن نظامی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا تھا
 ’… دہلی کی سر زمین پر کتنے ہی عظمت وجلال والے تاجدار اور شاہزادے اور حکام بلند مقام آئے اور چلے گئے لیکن سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد سے آج تک اس خلوص وعقیدت کے ساتھ شاید ہی کسی شخص کا خیر مقدم کیا گیا ہو‘۔
محمد علی رام پور کے معزز وممتاز خاندان میں 10؍ دسمبر 1878کو پیدا ہوئے، دو برس کی عمر میں ہی ان کے والد عبد العلی خاں کا انتقال ہوگیا، والدہ کی عمر بیوگی کے وقت 27؍ برس تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد1890 میں علی گڑھ کے لئے رخصت سفر باندھا اور 8؍سا ل علی گڑھ میں گزارکر بی اے کی ڈگری1898میں ایم۔اے۔او کالج سے امتیازی نمبرات سے حاصل کی، میر محفوظ علی کے مطابق وہ کلاس میں لکچر سنتے، فیلڈ میں کرکٹ کھیلتے اور یونین میں تقریر کرتے، ان کے بڑے بھائی شوکت علی نے روپے کا انتظام کرکے انہیں آکسفورڈ یونیورسیٹی میں داخلہ دلوادیا، جہاں سے وہ تاریخ جدید میں بی اے آنرز کی سند حاصل کرکے 1903میں ہندوستان واپس آگئے۔ ان کی ذھنی وفکری تربیت میں ان کی والدہ بی اماں کا بڑا رول تھا۔
 محمد علی جوہر کی غیرت دینی اور حمیت اسلامی، مسلمانان ہند کے لئے مشعل راہ ہے، انہوں نے وطن عزیز کے لئے جو قربانی دی وہ ناقابل فراموش ہے۔ملت کی شیرازہ بندی، ان کی تعلیمی ترقی اور جدید وقدیم مواد پر مشتمل نصاب کی تیاری سے ان کی دردمندی کا اندازہ ہوتا ہے، انہوں نے جدید اعلی تعلیم کے حصول کے بعد بھی اپنی مذہبی شناخت کو اہتمام کے ساتھ نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کے داعی اور مبلغ ہوگئے ۔ ان کے کارنامے لائق تحسین بھی ہیں اور قابل تقلید بھی ۔
شعبۂ اردو اورینٹل کالج، پٹنہ ،09431860419
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here