(مَلال ایک ملاق (افسانہ

0
215
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

نگینہ ناز منصورساکھرکر

بقرہ عید کا موقعہ تھا ۔۔۔۔آج کام بہت تھا۔۔۔۔عید سر پر تھی
اور تیاریاں عروج پر۔۔۔۔ کام ختم کر کے میں ائینہ کے سامنے آ
کھڑی ہوئی تھکان سے چہرہ سُست ساہو گیا تھا۔۔۔۔ اس لئے سوچا چلو پارلر کا چکر لگا آتی ہوں۔۔۔۔
پارلر پہنچ کر دیکھا تو بڑی بھیڑ تھی سبھی عورتیں اپنے نمبر کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی اپنا نمبر لگایا اور صوفے پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگی تبھی ایک چوبیس پچیس سال کی لڑکی نے پارلر میں انٹری کی دیکھنے میں بھلی چنگی لگ رہی تھی ۔۔۔۔پر آتے ہی وہ پارلر والی سے لڑنے لگی۔غصے میں گالیاں بکنے لگی کے میرے بالوں کو کیا کر دیا ۔۔۔۔اسٹریٹنگ کے بعد بہت جھڑ رہے ہیں ۔۔۔۔اس کی باتوں سے جاہلیت ٹپک رہی تھی ۔۔۔۔ پارلر والی بھی سبھوں کے سامنے اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اہستہ سے کہا ۔۔۔۔ دھیرے بولو۔۔۔۔کتنا چلاتی ہو۔۔۔۔وہ مجھ پر بگڑ کے بولی آپ چُپ رہو۔۔۔۔آپ سے نئے بولتائے میں۔۔۔۔میں سمجھ گئی اس کا غصہ بہت بڑھ گیا ہے اور تمیزبھول گئی ہے میں نے کُسم کو اشارہ کیا تو چپ ہو جاووہ میرا اشارہ سمجھ کر چپ ہو گئی۔۔۔۔وہ لڑکی بولے جا رہی تھی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی میں نے دھرے سے اس کے کاندے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔پیار سے اسے اپنی جگہ پر بھٹایا اس نے میرے ہاتھوں کو غصے سے جھٹک دیا پر پھر بھی میں نے اسے زبردستی بٹھا دیا اور پانی کی بوتل آگے بڑھائی ۔۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس نے دو گھونٹ پانی پیا۔۔۔۔ پانی پی کر وہ تھوڑی سی شانت ہوئی تو میں نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔کیا کرتی ہو؟وہ پھربھڑک گئی ۔۔۔۔تنک کر بولی۔۔۔۔دھندا کرتی ہوں میں ۔۔۔۔اہ۔۔۔۔میں سن ہو گئی ساری عورتوں نے مڑ کراس کی جانب دیکھا وہ میری طرف ہاتھ ہلا کر بولی دیکھا میڈم جی ۔۔۔۔ابھی آپ پیار سے ہاتھ لگا رہی تھی اب آپ بات بھی نہی کرینگی ۔۔۔۔سارا تمارا شریف لوگوں کا نکھرا نہیںہے اور تمارا آدمی لوگ ہمارا تلوا چاٹتا ہے وہ اٹھ کھڑی ہوئی بیٹھ تو ادھرِچ تماری جگہ پر بیٹھنے کا اپن کو حق نہیں ۔۔۔۔مجھے شرمندگی سی محسوس ہوئی انکھیں بھر آئی ایک چھوٹی سی لڑکی جس نے ابھی پیارے پیارے خواب بُننے کی عمر تھی اس باتوں مییں اتنا درد۔۔۔۔میں نے اسے ہاتھ بڑھا کر اسے کندے سے پکڑا اور اپنے سینے سے لگا لیا وہ بت بنی سینے سے لگی رہی میں نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ وہ مجھ سے لپٹ کے رو پڑی۔۔۔۔ساری لیڈیز ہمیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کچھ نے ناک منہ چڑھائے تو کچھ کی انکھوں میں انسو آگئے۔۔۔۔وہ جب تک روتی رہی میں اس کے سر پر پیار سے ہاتھ گُھمایا۔۔۔۔جب رو کر اس کا دل ہلکا ہوا تو اس نے پیار سے میرے گالوں پر بوسہ دیا اور بولی دس بارہ سالوں میں پہلی بار کسی نے پیار سے مجھے گلے لگایا ہے ۔ابھی تو اپن کو ماں کا ہاتھ بھی یاد نئے۔۔۔۔میں اس کے پاس والی میبر پر بیٹھگئی۔۔۔۔تم چاہو تو اپنا دل ہلکا کر سکتی ہو میں نے دھیمے سے اسے کہا۔۔۔۔نہیں بولنے کا اپن کو کچھ بھی آپ کیا کرو گے جان کر۔۔۔۔میں ایک رائٹر ہوں اسٹوری لکھونگی تماری آزادی کے لئے مدد کرونگی اگر بتانا چاہو تو اپنا درد بتاو تا کہ لوگ تمارے جیسوں کا بھی درد جان سکے۔۔۔۔ نا جانے کیا سوچا اس نے اور تیار ہوگئی ۔۔۔۔!
ناز : تمارا نام کیا ہے ؟
لڑکی: میرا باپ نے میرا نام نیتی رکھا ۔۔۔۔مگر ادھر اپن کو سب سونی بلاتائے۔۔۔۔
ناز: تم کہا سے ہو تمارے زبان سے تو تم بنگالی لگتی ہو؟
نیتی : اپن بنگلہ دیش سے ہے اپن کا گاوں باڈر کے بازو بیچ ہے ۔
ناز: گھر میں کون کون ہے تمھارے ؟
نیتی : جب گھر کو چھوڑ کے آیا توماں، بابا،تین بہناور بھائی تھا ۔ ابھی ادھر کو اکیلا چ رہتاہے۔
ناز: میں نے تھوڑا رک کر پھر پوچھا ۔ بابا کیا کرتے ہیں تمھارے؟
نیتی : میرا بابا کا چھوٹا سا تالاب ہے جس میں وہ مچھی پالتا ئے اور پھر کچھ مچھی بازار لے جا کر
بیچتائے۔۔۔۔۔۔شام کو جب واپس آتا ہے تو تھوڑا چاول دال لے کر آتا ئے اُئچ کھا کر اُپن بڑا
ہوا۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی تو مچھی نہیں ہوتی تو اس رات بھوکہ ہی سونے کا سب لوگ ۔۔۔۔۔۔ماں
توہر دم بیمار رہتی میں اکیلا ئچ گھر سنبھالتا بڑا میں ہی تھا نا ۔۔۔۔۔
ناز: کبھی اسکول گئی ہو؟
نیتی: ہاں ! اپنی بھاشا میں پانچ کلاس پڑھی ہے نہیں گاوں کی پانچ شالہ میں
ناز : تم بنگلہ دیش سے ممبئی کیسے پہنچی؟
نیتی: اپن کی غریبی کا حال تو ایسا تھا کہ پیٹ بھر کھانا کبھی نہیں کھایا ۔۔۔۔۔۔پریشان تو ہر دم رہتا
۔۔۔۔۔۔روز بھوک سے روتا بھائی اور درد سے بلکتی ماں کو دیکھ کر اور بھی
غصہ آتا ۔۔۔۔سارا دن گھر کا کام کر کے اور سب بھائی بہن کو سنبھالتے دماغ الگ سے کھپتا تھا
۔۔۔بارہ سال کا تھا تب میں ۔۔۔۔
ناز: میں نے پھر پوچھا تم ممبئی کیسے پہنچی؟
نیتی: ارے میڈم جی وہ اِئیچ بولتی ہے ۔۔۔۔ ہمارا پڑوس میں ایک کاکا رہتا وہبپبئی کو رہتا تھا ۔۔۔۔اس کا
ایک بیٹی تھا بائیس تیس سال کا وہ بھی گاوں کو آیا تھا ۔۔۔۔ گاوں میں سب سے پکا گھر اس کااُسکا ئیچ
اسکے گھر کو کلرکا ٹی وی تھا۔۔۔۔جب بھی وہ گاوں کو آتا میں ٹی وی دیکھنے اسکے گھر جاتا تھا ۔۔۔۔
وہ ٹائم بھی وہ گاوں کو آیا میں باہر کو تالاب کے پاس بیٹھ کر برتن گھس رہا تھا۔۔۔۔میں نے اس کو دیکھ
کر اواز دیا۔۔۔۔اور پوچھا ۔۔۔اکاکیسا ہے رے تو ؟ وہ بولا اچھا ہے میں نے اس سے پوچھا
بمبئی کیسا ہے جیسا ٹی وی میں دیکھتا ویسائیچ ہے کیا ؟وہ ہنس کے بولا ہاں ایک دم ویسا ئیچ۔۔۔۔
میئں نے کبھی ئیچ بمبئی نہیں دیکھا تھا شوق تھا بہت دیکھنے کا۔۔۔۔میں پریشان تھا بہت ۔۔۔۔
اسکو بولا اکا تو کیا کرتا ئے اُدھر؟۔۔۔۔میرے کو بھی پیسہ کمانے کا ہے بہت سارا ۔۔۔تو میرے کو
بھی وہاں پر لے کرجا ۔۔۔۔میں کدھر بھی کام کرے گی۔۔۔۔وہ بولی میںپاپڑ بنانے کی کمپنی میں
کام کرتی ہے مجھے پاپڑ بیلنے آتے ہیں ۔۔۔روٹی تو روز ہی بناتی تھی پاپڑ بھی بیل ہی لونگی ۔
دوسرے دن میں ٹی وی دیکھنے ان کے گھر کو گیا پھر میرے کو بولاتیرے کو بمبئی آنے کا ہیتو چل میں کل کو جائیگا۔۔۔۔میں نے پوچھا کے کتنا گھنٹا لگتا ہے ؟ کاکا بولا تین گھنٹہ میں میں سوچا کام پسند نہیں آیا تو تین گھنٹہ کا تو بات ہے واپس آجائے گا ۔۔۔۔میں نے میں تو آیے گا پر ماں بابا نہیں بھیجے گا ۔وہ بولا چپ چاپ چل کسی کو بھی نہیں بتائے گا ۔تو بمبئی دیکھ پائے گا ۔۔۔۔میں گھر کو واپس آیا آج بابا کومچھی بھی نہیں ملا تھا تو کھانے کو بھی کچھ نہیں لایا ۔ماں بھا ئی بہن سب منہ لٹکا کر بیٹھا تھا ۔ماں نے تھوڑا سا چاول تھا اس میں بھگونہ بھر کے پانی ڈالا تھا آج ہم کو پہنی پی کر ہی سونا تھا بابا بولا نیتی کا سادی کا بات آیا ہے ۔۔۔۔۔ہمارا ادھر کو لڑکی بڑا ہوتے ہی سادی کرتا ہے میں بھی بارہ سال کا ہوگیا تھا ۔ ۔۔۔اسلئے بابا بھی سادی کرنے کو بول رہا تھا ۔اور پیسہ نہیں تھاذات والے ہنسے گے کچھ نہیں دیا تو ۔۔۔۔وہ تالاب ہے وہ بیچے گا ایک بیٹی تواچھے سے سادی کرئے جائیگا ۔۔۔۔ان[ماں بولا تالابسے مچھی بیچ کر تو ہم ہفتہ کا چار دن کھانا کھاتائے وہ بھی بیچے گا تو کیا کھائے گا ؟۔۔۔۔میرے کو ادھر ہی ڈر لگنے لگا۔ ۔۔۔اِدھر کو سبوچ لوگ غریب ہے سادی کرکہ دوسرے ایک نئے بھوکے ننگے گھر کو جانے کا ۔۔۔۔اس پر تالاب بیچے گا تو ماں بابااور سب تو بھوکائچ مرنے کا ۔۔۔۔میں کام ختم کر کے چپ چاپ سوگیا۔۔۔۔ سبیرے سارا کام جلدی جلدی کیا ۔۔۔۔آج میں نے سارا گھر اچھے سے صاف کیا ماں کا بستر بھی دھوپ میں سوکھیا۔۔۔۔بابا مچھی بیچ کر سامان لایا تو میں نے کھانا بنایا سب کو دیا جلدی سے برتن دوئے اور اماں کو بولا بازار کو ٹی وی دیکھنے جاتا ئے ۔۔۔۔۔ کاکا بولا تھا فراک کے اندر دوسرا کپڑا پہن لے ایک جوڑی تو چایئینا ۔۔۔۔میں نے فراق میں ایک اسکرٹ اور شرٹ پہن لی اور چپ چاپ چلی آئی ۔۔۔۔وہ لوگ پہلے سے تیار تھے چپ چاپ رات کے اندھرے میںہم لوگ ندی کے پاس پہنچ گئے۔۔۔۔
ناز : تم نے ندی کیسے پار کی
نیتیـ: ندی میں بہت پانی تھا پر ہم اس میں سے چل چل کر آیا کپڑے کا گھٹہ سر پر رکھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ
کر ۔۔۔۔میرے منہ میں پانی جانے کو ہوتا پر ہم کیسے بھی کر کہ ندی پار کیا اور تار کانیچو سے باڈر کراس کیا
میں تھک گیا تھا پر بمبئی کیا آتا نہیںمیں نے کاکا کو پوچھا ممبئی کب آئے گا ابھی تو راستہ پار کرنا ہے ۔۔۔۔میں ڈڑ گیا رات بہت ہو گئی تھی اندھرا ہی اندھرا تھا سب طرف میں نے اکا کا ہاتھ پکڑا اور بولا اکا میرے کو جانے دو ماں بابا کے پاس میرے کو بمبئی نہیں آنے کا ۔۔۔۔تو کاکا بولا ابھی تو نہیں جا سکتا اکا کا ہاتھ پکڑ کے چپ چاپ چلی چلو ۔۔۔۔ ادھر شور مت مچاو نہیں تو فوجی لوگ گولی مار دے گا ۔۔۔۔میں ڈر کر چپ ہو گیا چل چل کر پاوں دُکھنے لگا تھا ۔۔۔۔پیٹ میں درد ہونے لگا تھا ۔۔۔ ماں بابا کی یاد آنے کو لگا ۔۔۔۔میں نے اکا کو بولا میرے کو واپس بھیج میں اکیلا ئچ جائیگا ۔۔۔۔وہ بولا ڈر مت ابھی ریلوے اسٹیشن آئے گا تب تک صبر کر سُبو ہونے والا تھا ۔۔۔۔ہم ریلوے ٹیشن کو پہنچ گیا۔۔۔پہلی بار ریلوے دیکھا تھا ۔۔۔۔ٹیشن دیکھا تھا ۔۔۔۔اتنا سارا لائٹ دیکھا تھا۔۔۔۔سب تھکان بھولنے کو جیسے ہوا ۔۔۔۔ابھی اپن بھی ممبئی دیکھیگا یہ سوچ کر من کو ارام لگا۔۔۔۔ریلوے میں بیٹھ کر خود کو اکدم خوش محسوس کر رہا تھا ٹرین چالو ہوا تو ٹھنڈی ہوا سے کب انکھ لگا معلوم نہیں اپن کا انکھ کُھلا تو اپن ممبئی میں تھا
ناز:ـ تم کہاں رہتی تھی ممبئی میں ؟
نیتی : کیا معلوم میڈم جی کون سا گلی میں پر جدھر کو رہتا وہ گھر بہت اچھا تھا اکا اور کاکا ساتھ میں ریتا پیٹ بھر کو کھانا دیتا فقط گھر پانئچ کام
کیا اکا کبھی شام کو تو کبھی سُبو کو ہی گھر میں ہوتا وہ اور کاکا ہر دم کام پر جاتا وہ بولا چار پانچھ دن آرام کر پھر تیرے کو بھی کام پر لے
جائے گا۔
ناز: کیا وہ لوگ تیرے ساتھ اچھے رہتے تھے ؟
نیتی: ہاں بہت اچھا رہتا اکا بھی اور کاکا بھی ایک دن اکا نے میرے کو لالی پاڈور لگایا بال دھویا اور کھلا کیا بال میرا ائچ وہ فراق پہنا تھا میں نے اس نے پوچھا ناچنے کو آتا ہے نا ۔۔۔۔ میرے کو کمر ہلانے کو آتا ہے ا کا بولا چل جیسے میں کرے گا ویسا ہی کرنا میں ہاں بولا۔۔۔۔وہ میرے کو ہوٹل کو لے کر گیا ادھر کو دوسری اور بھی اکا جیسی لڑکی لوگ تھا ۔۔۔۔گانا چالو ہوا سب ناچنے کو لگا میں بھی جیسا جیسا گول گول گھومتانوٹ آکر آکر گرتا میرے کو معلوم ئیچ نہیں یہ کیا ہوتا اپن نے تو دس کا نوٹ بھی نہیں دیکھا ہوتا ۔۔۔۔ایک روپیہ بھی ماں سنبھال کر رکھتی ۔۔۔۔تو دس روپے کدھر کو دیکھے گا۔۔۔۔سب لڑکی لوگ بولا جا تیرا اپر کو پھینکا ہے نوٹ اٹھا کر لا ۔۔۔۔میرے فراق میں معلوم نہیں کتنا نوٹ جمع تھا پر گھر کو آیا تو اکا اور کاکا بہت خوش تھا ۔۔۔۔وہ بولا یہ سب دس کا نوٹ ہے پیسے دیکھ کر اپن بھی خوش ہوگیا ۔۔۔۔ میں نے اکا کو پوچھا تم تو میرے کو پاپڑ بیلنے کو لایاپر زرا سا ناچا تو اتنا سارا پیسہ کیسے دیتا لوگ؟
وہ بولا یہ ممبئی ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے پاپڑ بیلنے کا نہیں ہے یہئیچ کام ہے۔۔۔۔ میں بولا چلے گا چھوٹا تھا کیا بھی نہیں سمجا تھا ۔۔۔۔ سوچا ناچنے کا ہی تو ہے اور ہوٹل میں کھانا کو بھی ملتا ہے ۔۔۔۔پر ایک دن کُچھ آدمی لوگ پیسے دیتے دیتے میرے کو ہاتھ لگانے لگا اکا کو بولا ادھر کا لوگ اچھا نہیں گندہ ہے میں نئے ناچے گی کچھ نہیں رہ اورہنس کر چھوڑ دیا ۔ دوسرے دن پھر وہی ہوا میں بولا اکا میں نہیں ناچے گا چپ چاپ رہ نہیں تو یہ لوگ تجھے مار ڈالے گا اکا نے ہلکے سے بولا جیسے دھیرے اواز میں ڈانٹ رہی ہو میں ڈر گیا ۔۔۔۔۔!
ناز: تم نے کسی سے شکایت کیوں نہی کی ؟
نیتی: کیا نا ۔۔۔۔ دوسرا دی دی لوگوں کو بولا میرے کو گاوں جانے کا ہے۔۔۔۔پر دی دی لوگ بولا اگر ادھر اکوجا سکتا تو ہم بھی
اپنے گھرکو جاتا اور بھاگ کر جا ہی نہیں سکتا تھا آنے کو اکا ہوتا اور جاتے کو اکا اور کاکا دونوں لے کو جاتا۔۔۔۔
ناز: تمارے گھر سے کسی نے تمہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہی کی ؟
نیتی : کی نا! رات کو ٹی دیکھ کو میں واپس نہیں گیا تو بابا دیکھنے کو آیا پر گھر کو تالا تھا ۔۔۔۔وہ باجو میں سب لوگوں کو پوچھا پر میں نہیں ملا اور
کاکا کا گھر بند تھا تو وہ لوگ سمجھ گیا میں انکے ساتھ بھاگ گیا یا یہ لوگ میرے کو لے کر آیا گاوں والا سب مل کر پولیس کے پاس گیا تب ادھر کاکا کو معلوم ہوا اس کا اپر گاوں والوں نے کیس کیا ہے تبھی اس دن کاکا میرے کو بہت مارا اورفون کرنے کو بولا وہ میرے کو پوسٹ افس کے نمبر پر فون لگا کر دیا اور بولا بول بابا کو بلوا کر دواور ائے تو بول میں ادھر کو اچھا ہے فکر نکو کرو اور کیس واپس لینے کو بول نہیں تو تیرے کو ادھر ہی کاٹ ڈالے گا میں ڈر گیا ۔۔۔۔بابا فون پر آیا تو میں ڈر کے رونے لگا وہ میرا گلا پکڑ کر کھڑا ہوا بولا جو بولا وہ بول میں بھی ڈر کو بابا کو ویسا ئیچ بولا بابا بھی ڈر گیا اور کیس واپس لیا ۔۔۔۔۔
دوسرا دن تیسرا دن میرے کو ہوٹل نہیں لیجایا۔۔۔۔دودھ دیا پینے کو پارلر کو گیا بال کٹوائے سٹائیل میں اس رات کو شکروار تھا اکا میرے کو نیا فراق لایا بہت خوبصورت لال رنگ کا ۔۔۔۔نئی چوڑیاں نیا کان کا پہنایا اور لالی پاڈور لگا کر ایک دوسرے ہوٹل کو لے کوگیا ادھر کو بہت سارا لوگ بیٹھا تھا بہت لڑکی لوگ بھی تھا پر اپن کا تو نصیب ئیچ ہی خراب تھا ۔
(اوہ میرے منہ سے نکل گیا اسکی اواز کا درد میرے اندر ہی اترنے لگا تھا )اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہنا شروع کیا ہم سب لائن میں کھڑا ہو گیا پھر بولی لگنا شروع ہو گیا پانچھ ہزار سے ایک لاکھ تک لڑکی لوگ بک گیا میرا بھی ستر ہزار میںبولی لگااس کی انکھوں سے مانو انسوں کا سیلاب امڑ پڑا ہو پر اس نے اپنی بات روکی نہیں وہ رات کو ایک بڑا سیٹھ ہوٹل کے کمرے میں لے کر گیا میں چلایا رویا پر کوئی بھی سننے کو نئے تھا ۔میرا رونے چلانے سے سیٹھ کو اور زیادہ مزہ آ رہا تھا ۔اس رات کو بمبئی دیکھنے اور پیسا کمانے کے شوق نے مجھے برباد کر ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔!پھر ہر روز بکا بار بار بکا بار بار بکا کبھی گھنٹے کا 200کبھی رات کا دس ہزار کبھی ایک رات کو چار بار بھی بکا ۔اس کی انکھوں میں
درد تھا انسوں میرے گلے میں اٹک گئے وہ بھی جیسے آج دل کا گبار نکالنے پر تلی تھی بولے جا رہی تھی
ناز: اب اتنے سال ہو گئے ہیں تم نے کبھی واپس جانے کا نہیں سوچا ؟
نیتی : ہم ! ایک بار چار سال پہلے ایک دی دی سے ملاکات ہوئی تھی اس نے مجھے اپنے بابا کا نبر دینے کو بولا میں نے اکا کے موبائیل
سے نمبر نکالااور دی دی کو دیا ۔۔۔۔اس نے میرے بابا کو فون کیا پوسٹ افس میں اسکو بولا کے آپ کا بیٹی یہاں ہے اپ اس کو بچاو۔۔۔۔۔میرا بابا اور میرا بہن میرے کو لینے بمبئی کو آیا مینا دی دی میرے کو چھپا کے ان کے پاس لایا ہم بھاگ کو گاوں چلا گیا ۔۔۔۔۔!
ناز: اُوہ !پھر تم یہاں کیسے پہنچی؟
نیتی: میں گاوں گیا تو پتا چلا اماں میرے دُکھ میں کبھوکائچ کا مر گیا تھا گھر کا حالت بہت ہی خراب تھا تالاب بھی بکھ گیا تھا ۔۔۔۔بابا کے پاس اب کام بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔گھر میں سب کمزور اور بیمار تھا ۔۔۔۔سب میرے کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے میں کوئی خونی ہے کھانا کھانے کو نہیں ہوتا اور جب ہوتا بھی میں کسی کے سامنے ایک نوالہ بھی نہیں کھا سکتی تھی بابا کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔گاوں والا بھی باتیں بناتا گھر کا حالت دیکھ کر سوچا ادھرکو اپنے سے اچھا تو اچھا تھا کے میںبمبئی کو جاوں اور کدھر کو دوسرا کام کروں پھر ایک دن بابا کو بول ہی دیا بابا! میں بمبئی کو واپس جاتا اور وہاں دوسرا کچھ کام کریے گا پھر گھر کو پیسیہ بھیجگا بابا بھی لوگوں کی نظروں سے پریشان تھا بولا چلی جا گھر کا حالت نہیں تھا کے روکتا ۔۔۔۔۔۔۔؛پھر میں خد بمبئی کو ایا ایک سہیلی کے گھر کو رکا ۔۔۔۔پڑھا لکھا تو تھا نہیں کے کسی کمپنی میں کام کر سکتا ۔اسلیے گھر کام کرنے کو گیا ہر کوئی کام ہی نہیں دینے کو مانگتا کے میں جوان تھا یہ بول کے کو ہمارے گھر میں لڑکا لوگ ہے ہمارا آدمی ہے اور جن لوگوں نے کام دیا ان کا آدمی لوگ اچھا نہیں تھا ۔۔۔۔
ناز: تم اس دھندے میں واپس کیسے آگئی؟
نیتی: جس کے ساتھ رہتا تھا وہ میرے کو گھر سے نکالا کون کس کو کھانا دے گا اور رہنے کو بھی کتنا دن ۔۔۔۔۔میں آکو اسٹیشن پر بیٹھ گیا اب گھر کو واپس کیسے جائے گا ۔۔۔۔اخر کو وہ ہی ہوٹل کو گیا جدھر کو پہلے ایک بار کام کا پوچھا تھا ۔۔۔۔پھر وہی ناچ گانا دھندہ پر
ابھی یہ اپن اپنی مرضی سے کرتا ہے کسی کا زبردستی سے نہیں گاوں کو بھی پیسہ بھیجتائے ۔۔۔۔
ناز: یہاں اب کس کے ساتھ رہتی ہو ؟
نیتی: ایک سیٹھ کے ساتھ ۔۔۔۔اس نے ایک کھولی دیا ہے ہفتہ بھر دھندہ اور جب وہ آتا ہے پھر اس کے ساتھ ۔۔۔۔میڈم جی یہ
ایئچ اپنا نصیب ہے اب اپن کدر کوئچ سیٹ نہیں ہو سکتا ۔ (وہ اٹھ کھڑی ہوئی میرے گلے کو لگی پیار کیا ) بولی آپ کو مل کر ایک عجیب سکون آیا ابھی اپن چلتا ہے دھندے کا ٹائم ہوا ۔۔۔۔اپن اپنے ہی فیصلے سے پچھتا یا ہے کسی کو کیا الزام دے گا (اس نے اپنی جوتی پہنی اور نکل گئی)
ایک ملال زندگی کے غلط فیصلے کا اسے تھا اور ملال مجھے بھی کہ چاہ کر بھی میں اسکی کوئی مدد نہیں کر سکتی کیونکہ وہ پھر مجھے ملی نہیں ۔۔۔۔

واشی نوی ممبئی
97696000126

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here