Wednesday, April 24, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldموضوع: ناکامی کا ایک اہم سبب احساسِ کمتری

موضوع: ناکامی کا ایک اہم سبب احساسِ کمتری

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

احمد علی جوہر

 

سامعین!
انسان کی ناکامی کے جہاں بہت سے اسباب ہیں، وہیں اس کی ایک بڑی وجہ اس کے اندر احساس کمتری کا پیدا ہونا ہے۔ احساس کمتری ایک طرح کی ذہنی بیماری ہے جو انسان کے اندر ڈر، خوف، بزدلی اور شرمیلے پن جیسے منفی خیالات کو جنم دیتی ہے۔ احساس کمتری انسان کو اس کے فضول، بے وقعت، بے حیثیت، گھٹیا، بے فائدہ اور حقیر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ احساس کمتری انسان کو اس کے اندر کی خامیوں اور کمزوریوں کو تو دکھاتا ہے مگر اسے اس کی خوبیوں پر نظر ڈالنے نہیں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احساس کمتری میں مبتلا افراد دوسروں کو افضل اور خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ اعلی ذہانت اور بہت زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی یہ سوچتے ہیں کہ ان میں کوئی قابلیت اور خوبی نہیں۔ وہ زیادہ تر وقت اور صلاحیت، اپنی شخصیت کا مقابلہ دوسروں سے کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ چوں کہ احساس کمتری والے لوگ اپنی صلاحیتوں کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں، اس لیے وہ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھ کر انہیں اپنے سے زیادہ اچھا خیال کرتے ہیں۔ وہ اکثروبیشتر اپنی ہی سوچوں میں دوسرے افراد کی خوبیوں کا اپنے سے مقابلہ کرکے دکھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح احساس کمتری میں ملوث افراد ہر وقت اپنی بُرائی کرتے، اپنے آپ کو کوستے اور ہرٹ کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی فطری صلاحیتیں اس قدر دب جاتی اور پست ہوجاتی ہیں کہ وہ کسی چیلینج کا مقابلہ کرنے کے لائق نہیں رہتے۔ احساس کمتری میں مبتلا افراد معاشرے میں دوسرے افراد سے بہت پیچھے ہی نہیں رہ جاتے ہیں بلکہ جب وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں اور کڑوی سچائیوں سے آنکھ نہیں ملا پاتے ہیں تو وہ زندگی سے راہ فرار اختیار کرتے اور بُری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی بھی ایک بڑی وجہ کہیں نہ کہیں احساس کمتری ہے۔ مفکرین کا ماننا ہے کہ آج کا زمانہ بڑی کشمکش کا زمانہ ہے۔ ایک طرف دنیا نے جہاں حیرت ناک ترقی کی ہے، وہیں دوسری طرف بے شمار پیچیدہ قسم کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ ایسے میں آج کا انسان حیرت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ آج کا انسان جلد باز بھی ہے۔ اس کی آرزوئیں اور تمنائیں لامحدود ہیں۔ جب کہ اس کے پاس قوتِ برداشت کی بے حد کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آرزوئیں جب شکستہ ہوتی ہیں تو وہ شدید احساس محرومی و مایوسی میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کی تاب نہ لاکر خودکشی کر بیٹھتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی احساس کمتری آج کی انسانی زندگی پر بہت بُری طرح سے اثرانداز ہورہی ہے جسے ہم اچھی طرح سے محسوس کرسکتے ہیں۔
انسان کے اندر احساس کمتری پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ کسی انسان کا اپنے آپ کو کسی پیشہ یا فن میں پہلے سے اپنے آپ کو مکمل سمجھنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی انسان کسی فن میں بقدرِاستعداد اور بتدریج ہی مہارت حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنی پہلی ہی کوشش میں اور ایک دم سے کسی فن میں کامل نہیں ہوسکتا۔ امریکہ میں پال نامی ایک انیس سالہ لڑکا تھا جو آرٹسٹ بننا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ اس نے اس فن کو سیکھنا شروع کیا اور بہت جلد اپنے آپ کو کامل سمجھ بیٹھا۔ جب وہ آن لائن فارمس اور گیلریز کو دیکھنے لگاجہاں دنیا کے بہترین آرٹسٹوں کے کام موجود تھے تو وہ ان حیرت ناک اور دلچسپ کاموں کو دیکھ کر عجیب و غریب الجھن اور کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔ اس کی پینٹنگس دنیا کے بڑے آرٹسٹوں کی پینٹنگس سے کہیں میل نہیں کھاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمت ہار کر اس نے مشق کرنا چھوڑنا دیا۔
احساسِ کمتری کی ایک وجہ دوسروں سے اپنا موازنہ و مقابلہ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ دوسروں سے موازنہ و مقابلہ شخصیت کو محدود کردیتا ہے۔ دراصل ہر انسان کے اندر الگ الگ قسم کی صلاحیتیں ہوتی ہیں جسے بروئے کار لاکر ہی وہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ دوسروں کی نقالی اور دوسروں سے موازنہ کرکے ان کی طرح بننے کی کوشش میں انسان اپنا وقت اور صلاحیت ہی ضائع نہیں کرتے، بلکہ اپنی فطری استعداد کھو بیٹھتے ہیں اور نتیجہ میں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ دوسروں سے موازنہ کرکے اگر اپنی کمزوریوں کو جاننے، اس پر قابو پانے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
احساسِ کمتری کی ایک وجہ بچوں سے اندھی محبت، بے جا لاڈ و پیار، نازبرداری اور جھوٹی تعریفیں ہیں جو بچوں کو خودپرست بنادیتی ہیں۔ ایک لڑکے کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور ان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ والدین اس کی حددرجہ نازبرداری کرتے اور اس کی ہر ضرورت اور ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ وہ لڑکا گھر میں نمایاں اور یکتا تھا۔ اسی یکتائیت کا احساس لیے وہ کالج پہنچا جہاں طلبہ کی بے رُخی اسے ایک آنکھ نہ بھائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے کئی کالج بدلنے پڑے اور بڑی مدت بعد وہ گریجویٹ ہوسکا۔ اس قدر تلخ تجربات کے باوجود اس کے دل سے اپنے متعلق غلط فہمی دور نہ ہوئی۔ جب وہ ایک صنعتی کارخانے میں بطور کیمسٹ ملازم ہوا تو وہ یہاں بھی نمایاں اور یکتا شخصیت کا مالک بن کر رہنا چاہتا تھا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اس کارخانے میں اس جیسے کئی اور کیمسٹ سالہا سال سے ملازم ہیں اور ان کی حالت نہایت خستہ ہے تو وہ گھبرایا اور گھبراکر ملازمت سے استعفی دے دیا۔
احساس کمتری کی ایک بڑی وجہ بچوں کو بات بات پر ٹوکنا اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ ہے۔ دور حاضر کے ایک مشہور و معروف ماہر نفسیات میکڈوگل (McDougall)لکھتے ہیں کہ بچوں کو ان کی خوداعتمادی میں بغیر کسی استثنے کے حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ انہیں بات بات پر ٹوکنا بُرا ہے۔ بہت سے ہونہار بچوں کی فطری استعدادیں محض حوصلہ افزائی کے فقدان کے باعث دب کر رہ گئیں اور بعض دفعہ ایک ہی جملہ ان کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔
ایک آدمی کا ذکر ہے کہ وہ بیچارا چالیس برس کی عمر تک کہیں مستقل طور پر کام نہ کرسکا۔ کئی جگہ ملازم ہوا اور پھر نکال دیا گیا۔ آخر وہ ایک بہت بڑے شہر میں پہنچا جہاں ایک اچھی اور معقول اسامی خالی تھی۔ لیکن جب وہ مینیجر کے سامنے انٹرویو دینے کے لیے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کانپ رہا تھا۔ حالاں کہ اس اسامی کے لیے جس قدر صفات کی ضرورت تھی، وہ اس میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ جب اس سے سوال کیا گیا تو اس کی زبان رُک گئی۔ وہ ’’ہاں‘‘ کی جگہ ’’نہ‘‘ اور ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’ہاں‘‘ میں جواب دینے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بیچارا وہاں سے مایوس ہوکر لوٹا۔ ایک اور جگہ خالی تھی۔ وہاں وہ پہنچا۔ مینیجر کے سامنے آتے ہی اس نے دونوں ہاتھوں سے مُنہ چھپاکر سسکیاں لینی شروع کیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سبب اسے خود بھی معلوم نہ تھا لیکن اس کا تجزیہ نفس کرنے سے معلوم ہوا کہ اس کی پیدائش محض ایک ’’حادثہ‘‘ تھی۔ والدین کو اس کی پیدائش سے کوئی خوشی نہ تھی۔ اس کی تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ لی گئی۔ اس کی موجودگی میں اس کے دوسرے بھائی بہنوں کی تو تعریف کی جاتی لیکن اسے اس کا باپ ہمیشہ یہی کہا کرتا کہ ’’خدا جانے تم زندگی میں کیا کروگے، تم تو محض نکمّے ہو، تمہیں تو کوئی ایک پیسہ کی ملازمت بھی نہ دے گا۔ چنانچہ لڑکپن میں ہی ایک رات گھر کے لوگوں نے اسے اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے سسکیاں بھرتے دیکھا۔ کسی نے پوچھا۔ لڑکے! روتے کیوں ہو؟ تو اس نے جواب دیا۔ اس لئے کہ مجھے کوئی نہیں چاہتا۔ مجھ سے کوئی پیار سے بات نہیں کرتا۔ گھر والوں نے اسے مکاری پر محمول کیا جب کہ یہ حقیقت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اس آدمی کو خود اپنے آپ پر بھی اعتماد نہ رہا اور اپنی زندگی میں بری طرح ناکام ہوا۔
انسان کے اندر احساس کمتری پیدا ہونے کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ گھر، خاندان، دوست، احباب اور سماج کا نفرت و حقارت آمیز سلوک، حاکم ومالک اور بڑوں کا آمرانہ رویّہ، غیرانسانی برتائو، ذہنی و جسمانی نقص، اپنے پاس کسی چیز کے نہ ہونے یاکم ہونے کا احساس، یہ تمام باتیں احساسِ کمتری کو جنم دیتی ہیں۔ احساس کمتری میں مبتلا افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کے روشن پہلوئوں کو تلاش کرے اور اس پر نظر رکھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کلاس میں ایک ڈاکٹر چند نرسوں کو لکچر دے رہا تھا۔ لکچر ختم کرنے کے بعد اس نے چند سوال کرنے شروع کردیئے۔ پہلی نرس نے نامکمل سا جواب دیا۔ دوسری نرس کے جواب پر ڈاکٹر ذرا جھنجھلایا اور تیسری نرس کا جواب بھی کچھ یوں ہی سا تھا۔ اس پر ڈاکٹر نے اس کا مذاق اڑایا۔ ان تینوں کے جوابات اور ڈاکٹر کے رویے نے چوتھی نرس پر جسے اپنی فروتنی کا زیادہ احساس تھا، بہت بُرا اثر کیا۔ جب اس کی باری آئی تو وہ اتنی گھبرائی کہ وہ ایک لفظ بھی مُنہ سے نہ نکال سکی۔ اس واقعہ نے اس نرس کو ناخوش بنا دیا اور اسے اپنے آپ پر بڑا غصّہ آیا۔ رات بھر وہ بستر پر لیٹے ہوئے بھی یہی سوچتی رہی کہ وہ کس طرح اپنی اس کمزوری کو دور کرسکتی ہے۔اچانک اسے یاد آیا کہ چند دن پہلے اس نے ایک مضمون لکھا تھا جس پر اسی ڈاکٹر نے لکھا تھا۔ ’’پُرازمعلومات اور نہایت اچھا‘‘۔ اسے خیال آیا کہ اگر وہ اتنا اچھا مضمون لکھ سکتی ہے تو یقینا اس کا دماغ بہت اچھا ہے۔ اس لئے اس نے اس روشن پہلو پر زیادہ توجہ کرنی شروع کردی اور آہستہ آہستہ اس کے اندر احساس کمتری کم ہوتا گیا۔
احساس کمتری ہم میں سے ہر ایک میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو جسے کبھی نہ کبھی یہ احساس نہ ہوا ہو۔ بہت سے عالموں کا ماننا ہے کہ صرف احساس کمتری کوئی بات نہیں۔ اگر کوئی چیز ہے تو وہ ہمارا اس احساس کے متعلق رویہ ہے کہ اس سے ہم کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر جرئات و ہمت سے احساس کمتری کا مقابلہ کیا جائے تو اس سے انسان اعلی بلندی پر پہنچ سکتا ہے۔ عصمت انونو (Ismet Inonu) کان سے ذرا بہرے تھے لیکن اس جسمانی کمزوری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے ترکی کو بچا لیا اور آج وہ ترکی قوم کے نجات دہندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کتنے کمزور بدن کے انسان تھے لیکن انہوں نے اس احساس کمزوری کے باوجود ایسا کام کیا کہ ہندوستان کی تاریخ کو بدل دیا۔ صدر جمہوریہ امریکہ روزویلٹ (Roosevelt) بچپن میں منحنی جسم کے انسان تھے جس کا اثر ان کی ابتدائی زندگی اور شخصیت پر نمایاں رہا لیکن انہوں نے طاقت حاصل کرنے کے لیے میدانِ عمل میں وہ سرگرمی دکھائی جس کا نتیجہ ان کی شخصیت اور خود اعتمادی کے رنگ میں ظاہر ہوا۔
احساس کمتری ایک منفی احساس ہے۔ اگر شروعاتی دور ہی میں جرات سے اس کا مقابلہ کرکے اس پر قابو پالیا جائے تو یہ شخصیت کے کردار پر بُرا اثر نہیں ڈالتا لیکن اگر کسی انسان کے اندر احساس کمتری کا غلبہ ہوجائے تو یہ اس کی شخصیت کے ارتقا کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ احساس کمتری انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج اور اس کی شخصیت کو مسخ کردیتا ہے۔ اس لیے احساس کمتری میں مبتلا لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو قبول کریں، اس کا سامنا کریں اور اس پر غلبہ پانے کی کوشش کریں۔ قدرت نے انھیں جو مخصوص قسم صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، انھیں وہ پہچانیں۔ وہ زندگی اور اس کے حوادث کا مقابلہ جرئات و استقلال اور سعی بلیغ سے کریں۔ وہ سمجھ لیں کہ کوئی کام ان کے بس سے باہر نہیں ہے اور اپنی لگن کو بڑھاتے جائیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
اگر پانے کی خواہش ہے لگن اپنی بڑھائے جا
جو سچی پیاس ہو تو ہر ندی آواز دیتی ہے
احساس کمتری میں ملوث افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیں اور ہر حال میں جیت کر دکھانے کی ٹھان لیں۔ بقول شاعر:
آندھیوں کو ضد ہے جہاں بجلیاں گرانے کی
مجھ کو بھی ضد ہے وہیں آشیاں بنانے کی
اگر کوئی ناکامی ہاتھ لگے تو گھبرائیں نہیں بلکہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں اور زیادہ کردیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
احساس کمتری والے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کریں، مثبت لوگوں کے ساتھ رہیں، مثبت ماحول اختیار کریں، اپنے منفی خیالات و احساسات کو درکنار کرکے اپنی مثبت استعداد کو پہچانیں، اپنی عزت کریں، اپنے آپ کو اہم سمجھیں، اپنی صلاحیتوں پر یقین کریں، ہمت و حوصلہ سے چیلینج کا مقابلہ کریں اور کامیاب ہوکر دکھانے کے لیے جدوجہد کرنا شروع کردیں۔ ایسا کرنے سے وہ صرف ناکامی ہی سے نہیں بچیں گے بلکہ ایک دن ضرور کامیاب ہوکر رہیں گے۔ ٭٭٭
(جواہر لعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular