موجودہ حکومت آزادی کے بعدکی سب سے ناقص حکومت ہے:حسن کمال 

0
249
موجودہ حکومت آزادی کے بعدکی سب سے ناقص حکومت ہے:حسن کمال
حسن کمال کے قلم نے ہمیشہ حق وانصاف کی آواز بلند کی:پروفیسر شارب ردولوی
اردو میڈیا سینٹر میںمعروف صحافی شاعر اور فلمی نغمہ نگار حسن کمال سے ایک مکالمہ
ڈاکٹر ہارون رشید
لکھنؤ۔11؍مئی ۔معروف صحافی شاعر اور فلمی نغمہ نگار حسن کمال ان دنوںاپنے آبائی شہر لکھنؤ میں ہیں۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے اردو میڈیا سینٹر(نزد عجائب گھر نرہی) میںاردو رائٹرس فورم نے حسن کمال کا معززین شہر اور صحافیوں سے مکالمہ کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر حسن کمال نے سیاسی سماجی ادبی اور اردو کی صورت حال پر کھل کر اظہار خیال کیا اور پروگرام میں موجود لوگوںکے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دئے۔پروفیسر شارب ردولوی نےابتدا میںسامعین سے حسن کمال کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ حسن کمال دوران طالبعلمی سے ہی بہت فعال رہے ہیں۔نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ سیاسی اور سماجی میدان میں بھی فعال رہے ہیں۔انھوں نے اپنے پرانے دنوںکو یاد کرتے ہوئے کہا کہ۱۹۵۴ میں لکھنؤ میں طلبہ کی ایک ایسی تحریک شروع ہوئی کہ اتنی بڑی تحریک پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہوئی ۔حسن کمال اس تحریک میں بھی نمایاں رہے اور وہ حق و انصاف کی جنگ میں ہمیشہ شامل رہے ہیں۔بعد میں وہ ممبئی چلے گئے اور وہاں بھی ان کے قلم نےبحیثیت شاعر اور بحیثیت صحافی ہمیشہ حق و انصاف کی آواز بلند کی۔پروفیسر شارب ردولوی کے تعارفی تقریر کے بعد سوال جو ا ب کا سلسلہ شروع ہوا ۔سب سے پہلے وقار رضوی نے ہندوستان میں آزادی کے بعد جو حکومتیں آئیں اور موجودہ حکومت کی کاردگی کے تناظر میں حسن کمال کا خیال جانناچاہا۔
حسن کمال نے اس سوال کے جوابا میں کہا کہ حکومتیں جو بھی آتی ہیں ان سے عوام پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے اور نہ کوئی حکومت عوام کے پیمانوں پر کبھی پوری طرح اتر سکتی ہے۔لیکن اس کے با وجود موجودہ حکومت ہندوستان میں آزادی کے بعد سب سے زیاد ناقص حکومت ہے۔
سینئر صحافی عبیداللہ ناصر نے میدیا اور مالکان کے رشتوں پر چھیڑا تو حسن کمال نے کہامیڈیا کا ۹۰ فیصد حصہ اشرافیہ طبقہ کے قبضہ میں ہے اس لئے جو وہ چاہتے ہیں وہی میدیا پیش کرتا ہے اور جیسے جیسے وقت گذرتا جا رہا ہے میڈیا میں یہ خرابی بڑھتی جا رہی ہے۔انھو ں ےنے اردو میدیا کے بارے میں بھی یہی کہا کہ اردو میڈیا اگرچہ دوسری زبانوں کے مقابلہ کمزور ہے لیکن صورت حال وہاں بھی ویسی ہی ہے۔کہ ۹۰ فیصد حصہ اشرافیہ کے پاس ہے۔اگرچہ سوشل میدیا ابی اپنے موجودگی برابر درج کرا رہا ہے اور ایک بہت مضبوط میڈیم بن کر ابھر رہا ہے۔اور ایک بڑا طبقہ سو کال میڈیا کا مق ابلہ بھی کر رہا جس کا اثر اب معاشر ہ پر نظر آنے لگا ہے۔
سید نظام علی کے فلموں میں اردو کے حوالے سے سوال پر حسن کمال نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے فلم انڈسٹری کے تین دور دیکھے ہیں۔پہلا دور وہ دیکھا کہ جب فلم کے جو اداکار تھے خواہ وہ کسی مذہب یا علاقہ کے ہوں وہ رائٹر سے اردو میں مکالموں کا مطالبہ کرتے تھے۔چاہے وہ راجکمار ہوںچاہے وہ راجیندر کمار ہوںچاہے وہ دھرمیندر ہوں چاہے وہ منوج کمار ہوںکیونکہ یہ لوگ اردو کے علاوہ اور کچھ جانتے ہی نہیں تھے۔ پھر میں نے وہ دور دیکھا کہ ۸۰ کی دہائی اور اس کے بعد کا ،جہاں لوگ بلا اختلاف مذہب وعلاقہ سبھی اپنے مکالمے ہندی میں مانگنے لگے کیونکہ یہ جو نسل فلموں میں آئی تھی وہ ہندی پڑھ کے آئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں’’ اکبر دی گریٹ ‘‘لکھ رہا تھا اس میں کام کرنے والے زیادہ تر مسلم تھے اور یو پی کے مسلمان تھے لیکن وہ اردو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ان لوگوں کو اردو کے مکالمے ہندی میں لکھ کر دینا پڑتے تھے۔پھر میں نے وہ تیسرا دور دیکھا جو اب ہے۔یہ نسل اب اپنے مکالمے رومن میں مانگتی ہے۔چاہے وہ کسی بھی مذہب قوم یا علاقہ کے رہنے والے ہوں وہ اردو یا ہندی نہیں جانتے۔کیونکہ اب جس دور سے فلم انڈسٹری گذر رہی وہاں بڑے ذہین لوگ ہیں وہ سب انگیزی میڈیم سے پڑھ کر آئے ہیں۔وہ اپنی مادری زبان چاہے وہ مادری زبان کوئی بھی ہو اردو ہو ،ہندی ہو،مراٹھی ہویا گجراتی ہووہ اپنی مادری زبان صرف اتنی ہی جانتے ہیں جتنے کی ضرورت انھیں اپنے نوکروںاور پھیری والوں سے بات کرنے اورکام لینے میں پڑتی ہے ۔
ڈاکٹر حسان نگرامی کے علی گڑھ میں محمد علی جناح کے تعلق سے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ صرف الیکشن اسٹنٹ ہے اور یہ لوگ ہر بار ایک نیا فارمولہ ٹرائی کرتے ہیں اس مرتبہ کرناٹک میں الیکشن کی فضا اپنے حق میں سازگار بنانے کے لئے جناح کا مسئہ کھڑا کیاگیا ہے۔ڈاکٹر انیس انصاری نے مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب میں سیاست میں حصہ نہ ملنے کی وجہ جاننی چاہی۔اور یہ بھی ہپوچھا کہ ۲۰۱۹ میں بی جے پی کو ہرانے کے لئے کیا حکمت عملی ہونا چاہئے۔اس سوال کا جو اب دیتے ہوئے حسن کمال نے کہا کہگذشتہ لیکنش میں تو میرا پختہ ایمان ہے کہ ووٹنگ مشین کی گڑبڑ ی کا بڑا اہم رول رہا ہے۔اس سے قطع نظر مسلمانوں کی کیکڑا صفت بھی مسلمانوں کو کسی میدان میں آگے نہ نکل پانے کی ایک وجہ ہے ،مزید یہ کہ انتخابات میںعام طور سے ٹکٹ اشرافیہ کو دیا جاتا ہے جو عوام کے مسائل سے ٹھیک سے واقف نہیں ہوتے۔لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے۔آئندہ انتخابات میں اگر ایس پی اور بی ایس پی کا متحدہ محاذ بن گیا تو بی جے پی کو شکست
کھانے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔
اردو اور نئی نسل کے رشتہ پر مشترکہ سوالوں کے جواب دیتے ہوئے حسن کمال نے کہا کہ آج جو نسل ہے وہ وسمپورن آنند اور پروشوتم داس اور مدن موہن مالویہ کی وراثت کا بوجھ لے کر نہیں چل رہی ہے ۔یہ سب باتیں سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اربن مڈل کلاس کی جو نئی نسل ہے وہ اپنی مادری زبان سے دور ہوتی جارہی ہے،انگریزی ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ہمارے بچوں کے لئے بہت ضروری ہے۔کیونکہ انگریزی جو ہے وہ کمپیوٹر کی زبان بھی ہے اور سائنس کی بھی۔اس سے آپ بھاگ ہی نہیں سکتے ۔اب دنیا میں ہرجگہ انگریزی بہت ضروری ہے،چینی سیکھ رہے ہیں،جاپانی سیکھ رہے ہیں۔لیکن جو ہندوستان میں ہو رہا ہے وہ کہیں نہیں ہو رہا ہے۔ہندوستان میں بچوں کو انگریزی ان کی مادری زبان کی قیمت پر سکھائی جا رہی ہے۔باقی جگہ انگریزی مادری زبان کے ساتھ سکھائی جارہی ہے۔آپ پتہ کر لیجئے اپر کلاس میں جن کی مادری زبان ہندی بھی ہوسکتی ہے کیا ان کے گھر میں ہندی کا کوئی اخبار آتا ہے۔ہندی کا کوئی میگزین آتا ہے۔کیا پڑھیں گے ان کے بچے۔ان کے بچے بول لیتے ہیں یہ الگ بات ہے ۔کیونکہ وہ زبان بولی جاتی ہے مگر انھیں وہ زبان آتی نہیں ہے۔اب پتہ نہیں یہ اچھا ہو رہا ہے کہ برا ہو رہا ہے یہ بیماری لوور کلاس میں بھی پھیلتی جارہی ہے،جگہ جگہ انگریزی میڈیم اسکول کھل رہے ہیں۔میں پھر کہتا ہوں کہ انگریزی بہت ضروری ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ انگریزی پڑھانے والے کیا انگریزی پڑھا رہے ہیں۔وہ انگریزی سیکھنے والے کیا انگریزی سیکھ رہے ہیںاور ہماری اپنی جو زبانیں ہیں ان کا کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہےہندوستا ن ہو یا باہرممالک ہوں ۔ ہمارا اپنا یہ تجربہ ہے کہ اردو کا مقابلہ اگر وہاں کی زبان سے ہے تب اردو کو مشکل پیش آئے گی ۔لیکن اگر اردو کا مقابلہ وہاں کی زبان سے نہیں ہے تو اردوکے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔میں آپ کو مہاراشٹر کی مثال دیتا ہوں۔مہاراشٹر میں ۴۰۷۶۳(چار ہزار سات سوترسٹھ )اردو میڈیم اسکول ہیں۔لیکن اتر پردیش میں کیا ہے یہاں تو سینکڑوں میں بھی نہیں ہیں۔اور یہ اردو میڈیم  اسکول ہیں جن میں غیر مسلم بچے زاویہ قائمہ اور اقلیدس پڑھتے ہیں ۔کیونکہ وہاں کی زبان کااردو سے مقابلہ نہیں ہے اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔آندھرا میں تیلگو کو اردو سے کوئی سے ڈر نہیں ہے ۔کرناٹک میں کنڑ کو اردو سے کوئی ڈر نہیں ہے تمل ناڈو میں تمل کو اردو سے کوئی ڈر نہیں ہے۔شروع شروع میں یہاں ہندی و الوں کو اردو سے ڈر لگتا تھا۔ان کو لگتا تھا کہ اگرذرا بھی اردو کو اسپیس دی گئی تو ہندی کو نقصان پہنچے گا اور اردو حاوی ہو جائے گی۔ظاہر ہے کہ امریکہ میں کناڈا میں خلیج میں جہاں اردو مشاعرے اور سمینار ہوتے ہیں ان کو اردو سے کیا ڈر ہے۔وہاںاردو پھل پھول رہی ہے۔۔سہ لسانی فارمولہ کے تحت طے یہ ہوا تھا کہ ہندوستان کی ہر اسٹیٹ میں بچوں کو تین زبانیںشروع میں پڑھائی جائیں گی لیکن ایک برہمن ایک کھتری اورایک کائیستھ نے بڑی ہوشیاری سے اردو کو ہٹا کر اس کی جگہ سنسکرت رکھ دی ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کتنے غیرمسلم ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان مانتے ہیں۔ اردو کے لئے ہم نے وہ جدو جہد نہیں کی جو کرنا چاہئے۔وقار رضوی نے لامارٹنیئر اسکول کی مثٓل دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جب وہان مظابلہ کیا گیا تو دو سال سے وہان اردو با قاعدہ پڑھائی جانے لگی۔
مینا عرفان نے پوچھا کہ آپ شاعر ہیںفلمی نغمہ نگار ہیں اسکرپٹ رائٹراور مکالمہ نگار ہیں اور ایک صحافی بھی۔آپ اپنی کس حیثیت سے زیادہ مطمئن ہیں ۔حسن کمال نے کہا یہ سب میری شخصیت کے لازمی حصے ہیں۔اور سبھی مجھے عزیز ہیں۔میں ماسٹر آف نن نہیںبننا چاہتا تھا بلکہ جیک آف آل بننا چاہتا تھا اور بنا رہنا چاہتا ہوں۔
آخر میں سامعین کی فرمائش پر حسن کمال نے اپنے مشہور نظمیں اور غزلیںبھی سنائیں۔ پروگرام میںڈاکٹر ریشماں پروین،کلثوم طلحہ،شاہانہ سلمان عباسی،پردیپ کپور،محمدیامین،ایچ ایم یاسین،نجم الحسن،ڈاکٹر مسعود الرحمن،ڈاکٹر حسان نگرامی،طارق صدیقی،رفعت عالم،احسن عثمانی،ایم ایم محسن،جمیل احمد،زاہدفاروقی کے علاوہ متعددصحافیوں اور معززین شہر کی بڑی تعداد موجود تھی۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here