قوم کی محبت میں گھر کو بھی بھلا بیٹھے کچھ نہ رکھا سرمایہ وہ حسین ؑ والے ہیں

0
186

بیگم کلب صادق صاحب نے 23 اپریل کو اودھ نامہ کے آخری صفحہ پر شائع اپنی ایک نظم میں جس طرح سے اپنے جذبات اور عقیدت کا اظہار اس اقرار کے ساتھ کیا کہ نہ تو وہ شاعرہ ہیں اور نہ ادیبہ ہیں بس یہ اُن کے جذبات اور عقیدت ہے جسے وہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں یہ صرف ایک زوجہ کی محبت اور قربت کے جذبات نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ انہوں نے تو کئی سال چوبیس گھنٹے ایک ساتھ گذارے ہیں اس لئے ان سے بہتر ڈاکٹر کلب صادق صاحب کو جاننے کا نہ تو کسی کو حق ہے اور نہ کسی اور کو اس کا دعویٰ کرنا چاہئے۔
اُن کی نظم کا ایک شعر
قوم کی محبت میں گھر کو بھی بھلا بیٹھے
کچھ نہ رکھا سرمایہ وہ حسین ؑ والے ہیں
’’قوم کی محبت میں گھر کو بھی بھلا بیٹھے‘‘ یہ کہنے کا حق صرف اُن کی شریک ِ حیات کو ہی ہے اور جو وہ کہیں اُسے ہی سو فیصد صحیح سمجھا جانا چاہئے لیکن دوسرا مصرعہ سے شاید بہت لوگ متفق نہ ہوں، وہ اس لئے کہ جب اس نظم میں اس بات کا اقرار بار بار کرلیا کہ’’ وہ حسین ؑ والے ہیں‘‘ تو حسین ؑ والے کی صفت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر سے زیادہ قوم کو ترجیح دے۔ امام حسین ؑ نے بھی صرف اپنے نانا کی اُمت کی اصلاح کے لئے اپنے پورے گھر کو قربان کردیا، بظاہر امام حسین ؑ نے کوئی سرمایہ اپنے پاس نہیں رکھا لیکن پوری دنیا میں ہر عزادار کے گھر میں ایک عزاخانہ آپ کو ضرور ملے گا، دشمن بھی ان کے نام کے آگے اپنا سرخم کردیتاہے یہی ان کا سرمایہ ہے۔


ایسا ہی کچھ منظر کربلا میں تھا جب کربلا میں یہ خبر اودھ نامہ چینل، اودھ نامہ اخبارآن لائن ایڈیشن اور مختلف ذرائع سے عام ہوئی تو ہر ایک کے لب پر بس ایک دعا جو سب سے پہلے آتی تھی کہ مولیٰؑ کلب صادق صاحب کو شفا دے کہ ابھی ان کی قوم کو ضرورت ہے، یہی ان کا سرمایہ ہے۔ کئی بار سنا کہ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ ایسے بنو کہ جب تک دنیا میں رہو لوگ ملنے کے خواہشمند رہیں اور جب نہ رہو تو لوگ تمہیں یاد کریں، تمہاری ضرورت سمجھیں۔ یہ سنا تو کئی بار لیکن اس کا مصداق اپنی محدود وسعت نظر ہونے کی وجہ سے ابھی تک دیکھ نہ سکا۔ حکیم اُمت مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب کی جس وقت طبیعت ناساز ہوئی ہم بھی کربلا میں تھے، جس جس نے یہ خبر سنی اس نے اپنی تمام دعائوں پر کلب صادق صاحب کی دعا کو تقویت دی، جہاں ڈاکٹر عباس رضا نیرنے اپنی محافل میں نظامت کے دوران بار بار کلب صادق صاحب کی صحت کی دعا کرائی وہیں جس جس نے سنا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے اُن سب نے روضے پر ان کی صحت کی دعا کو اپنی تمام دعائوں پر ترجیح دی۔ ظاہر ہے اس میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے جو براہِ راست کبھی مولانا سے نہ ملے ہوں گے، کئی ہم جیسے ایسے بھی ہوں گے جو خود ذاتی طور پر کبھی فیضیاب نہ ہوئے ہوں لیکن پوری قوم کو اُن کی جدوجہد سے فیضیاب ہوتے ہوئے دیکھا ہو۔ یہی اُن کا سرمایہ ہے۔
یوں تو اس دنیا سے سبھی کو جانا ہے لیکن حکیم اُمت کے لئے پوری دنیا میں اور خصوصاً کربلا میں روضے کو پکڑکر کی گئی دعائیں یوں ہی رائیگاں نہیں جائیں گی، انشاء اللہ وہ بہت جلد پوری طرح سے صحت یاب ہوکر گھر واپس آئیں گے۔ انہوں نے بیمار ہوکر بتا دیا کہ انہوں نے اپنی قوم کی اصلاح اور اُسے عمل میں لانے کیلئے جو کچھ بھی کیا اس کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد ’’لاتعداد ‘‘ہے۔ صرف گھر کے لوگ ہی ان کے لئے فکرمند نہیں بلکہ جو بھی حق پرست ہیں ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے، اس لئے گھر والوں سے زیادہ نہیں تو ان سے کم بھی نہیں ان کی صحت کو لے کر فکرمند ہیں اور ہر لمحے ان کی صحت کے لئے دعا گو ہیں۔٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here