Tuesday, April 23, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldقرۃالعین حیدر کے افسانوں کی اسطوری جہتیں

قرۃالعین حیدر کے افسانوں کی اسطوری جہتیں

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

شہناز رحمن 
قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں تاریخی عناصر کی کارفرمائی کو کسی ادبی و فنی جستجو کے بغیر محض ان کے گہرے تاریخی شعور سے وابستہ کر کے خشک اوربوجھل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ اگر غور کیا جائے تواندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے فکشن میں تاریخی واقعات کو تخلیقی انداز میں ایک خا ص نظم و ضبط کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اپنے اس مخصوص انداز کو توانا رکھنے کے لیے اظہار کے مختلف طریقے استعما ل کرتی ہیں جن میں اساطیر کا استعمال بھی ان کے گہرے شعور کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
اساطیر انسانی زندگی اور اس کی سائیکی کا  ایک حصہ ہے۔کیوں کہ قدیم قصے اور عہد نامہ عتیق کے حقائق ہی ابتدائی تربیت کی تما م ترمشقوں ،زندگی گزارنے کے طریقوں، سماجی و اخلاقی قدروں اور زندگی و موت کی حقیقت وغیرہ کے معلو مات کا سر چشمہ ہیں۔ ان اسطوری قصوں اور قیاسات میں بیشتر کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ۔اس کے باوجود انسان ان پر یقین کرتا ہے ۔اس ضمن میں کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں:۔
’’اساطیر نے اس حقیقت کو ایک قطعی شکل اور ہیئت دی ہے ،جسے لوگوں نے وہبی طور پر محسوس کیا ،اساطیر نے لوگوں کو سمجھایا کہ یوتاؤں کا رنگ ڈھنگ کیا ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ نہ تو بے کار تجسس کی پیداوار ہیں نہ یہ تفریحی کہانیا ں ہیں ۔بلکہ یہ مردوں اور عورتوں کو ان طاقتور ہستیوں کے نقش قدم پر چلنا اور الوہیت کا خود تجربہ کرنا سکھاتی ہیں۔‘‘
اساطیر اس لیے وضع کی گئیں کہ وہ غیر یقینی انسانی صورتحال سے نپٹنے میں ہماری مدد کریں۔اساطیر نے دنیا میں ۔۔۔اور اپنی حقیقی منزل متعین کرنے میں لوگوں کی مدد کی ۔ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ،مگر چونکہ ہماری انتہائی شروعات قبل تاریخ کی دھند میں گم ہو چکی ہیں ،اس لیے ہم نے اپنے آباو اجداد کے بارے میں دیو مالائیں تخلیق کیں جو ہر چند تاریخی نہیں ہیں پر وہ اپنے ماحول، ہمسایوں اور رواجوں سے متعلق ہمارے موجودہ رویوں کو سمجھنے میں ہماری دست گیری کرتی ہیں۔‘‘1
کیرن آرم کے اس مطالعہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر نے اخلاقیت،روحانیت ، مفا پرستی ،تہذیبی اقدار کی شکست وریخت اور دوسرے انسانی جذبات وخیالات کو بیان کرنے کے لیے مناسب اسطوروں کو استعمال کیا جس کی وجہ سے انھیںاپنی تحریروں میں فکری و جمالیاتی گہرائیاں برقرار رکھنے میں کافی مدد ملی۔
  قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانے’’ ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی ‘‘’’سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات‘‘ اور’’روشنی کی رفتار ‘‘وغیرہ میں ایسی فضا خلق کی ہے جس سے ماورائی تجربے کا احساس ہوتا ہے ۔قاری ان فضاوں میں کھو کر لمحاتی طورپر خو د کو اپنی ذات سے الگ محسو س کر نے لگتا ہے ۔ ’’روشنی کی رفتار ‘‘میں جدید زمانے کی ایک لڑکی پدما ٹائم راکٹ کے ذریعہ کئی سال پیچھے قبل مسیح کے زمانے میں چلی جاتی ہے ۔ماقبل مسیح کے ایک کردار ثوث سے اس کی ملاقات ہوتی ہے وہ پدما کو قدیم مصری تہذیب،مذہب ،اخلاقیات اور دوسرے تمام اساطیری واقعات سے آگاہ کراتا ہے ۔ پدما ایک ایسے زمانے کی لڑکی ہے جس میں تعقل پسندی نے فکر کے وجدانی اور اساطیری نتائج کو ابتدائی دور کے ناپختہ نظریات کہہ کر رد کر دیا ہے لیکن پدما کو انھیں قدیم قصے ،کہانیوں کی واقفیت کی وجہ سے عبرانیوںکے درمیان بڑی عزت ملتی ہے ۔وہ لوگ پدماکی علمیت سے متحیر ہو کر اسے کاہنہ تصور کرنے لگتے ہیں۔تب پدما انھیں سائنسی دور کی تیز رفتاری کے بارے میں اور اس ٹائم مشین کی کا ر کردگی کے بارے میں بتاتی ہے ۔وہ لوگ پدما سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے دور میں لے چلو۔پدماکہتی ہے :
’’یہ ممکن نہیں ۔ہم اپنے اپنے وقت سے آگے یا پیچھے نہیں جا سکتے۔ اپنے اپنے دور کی آزمائش سہنا ہمارا مقدر ہے ہم تاریخ کو آگے یا پیچھے نہیں سر کا سکتے ۔کاش۔۔ وہ سب ہوتا جو ناہونا چاہیے تھا ۔میں اسرا ئیل کی نبیہ دیورہ کی طرح تم کو یہ سب بتا رہی ہوں ۔دیورہ چند صدیوں بعد تمہارے یہاں پیدا ہوگی مگر جس زمانے سے میں آئی ہوں ،وہ انبیا ء کے بجائے سائنس دانوں کا دور ہے ۔‘‘2
جیساکہ مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخ کا واقعاتی ترتیب اٹل ہے لیکن مصنفہ نے سائنسی ایجادات،مصری اور ایرانی اساطیر سے فائدہ اٹھا کرانتہائی پر اثر اور آ رکی ٹائپل بیان سے قدیم عہد کی صورتحال کو جدید دور کی مکاریوں سے وابستہ کردیا ہے۔دوسرے یہ کہ اساطیر ی واقعات اور کرداروں کی وجہ سے بیانیہ میں حقیقت کا پرتو نظرآتاہے جو قاری کو انسانی وجود کے لا زمانی تصور کی طرف لے جا تے ہیں ۔اور اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اسطور گرچہ واہمہ ہی سہی مگر اس دنیا کو ایک مثالی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ۔آسمان کو الوہیت سے وابستہ کرنے کا تصور ۲۰۰۰ قبل مسیح کااسطورہ ہے جو اب تک مختلف تہذیبوں میں موجود ہے ۔ اس کا استعمال افسانے میں بھی کیا گیا ہے۔ جب عبرانی سپاہی پدما کو اشوری جاسوس سمجھ کر اسے گرفتار کرنے کے لیے تلاش کر رہے ہوتے ہیںاسی دوران دو پہریدار اپنی سادہ لوحی کے باعث اسے دوشیزہ فلک سمجھ کر بڑی عزت و احترام سے دربار میں لے جاتے ہیں اور ان کا بادشاہ طلائی تاج و لباس فاخرہ زیب تن کر کے مودبانہ لہجہ میں کہتاہے :
’’زہرہ جبیں دختر افلاک !یہ مصر کی عین خوش نصیبی ہے کہ اشوریہ سے جنگ کے دنوں میں مادر خداوند نے تم کو یہاں بھیجا اور فتح کی بشارت دی ۔مابدولت چونکہ خود رع دیوتا کے فرزند ارجمند ہیں ،ہمارا فرض ہے کہ بطور مہمان نوازی و سپاس گزاری کل شام میں پانچ بجے تم سے شادی کر لیں ۔‘‘
’’دوشیزہ فلک مراقبے میں چلی گئیں ـ‘‘چیف کاہن نے آہستہ سے کہا۔کمرے میں بڑی مودبانہ خاموشی طاری تھی ۔اس وقت پدما کے ذہن میں ایک خیال کوندا ۔ایک موہوم سی امید ۔۔چند لمحوں کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور کمزور آواز میں کہا ۔‘‘تخلیہ تخلیہ ۔۔۔میں دیبی سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘3
سماوی خدا کے تصور کے تحت اس قوم نے پدما کو دوشیزہ فلک تسلیم کر کے اس کی عبادت اور احکام کی تعمیل شروع کردی جو کہ پدماکے لیے مضحکہ خیز تھا۔لیکن اس پورے سحر انگیز ماحول کی وجہ سے وہ ان کی گرفت سے نکل کر ٹائم راکٹ کے ذریعہ واپس لوٹنے میںکامیاب ہو جاتی ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ثوث بھی غلطی سے چلا آتا ہے۔ چند سالوں قیام کے بعد اس دنیا کی عیاریوں سے اس کی طبیعت گھبرا جاتی ہے اور وہ اپنے پچھلے وقت میں جانے کی منتیں کرتا ہے ۔پدما اسے خبر دار کرتی ہے کہ یہ راکٹ روشنی کی رفتار کے آگے صرف چار بار سفر کر سکتی ہے اب یہاں سے جانے کے بعد تم دوبارہ نہ آسکو گے ۔بالآخر وہ دونوں جب راکٹ سے وہاں پہنچتے ہیں ،میخائیل نام کا شخص ایک خط چھوڑ کر راکٹ لے کر غائب ہو جاتا ہے اور پدما ہمیشہ کے لیے ۱۳۰۶ ق۔م میں واپس چلی جاتی ہے ۔اس افسانے کی اساطیری جہتیںیہ بھی واضح کرتی ہیں کہ روحانی اور وہبی دنیا انسانی نفسیات کا ایک حصہ ہے اسی لیے بعض دفعہ خسارہ آمیز چیزوں کو بھی وہ معقو ل سمجھ لیتا ہے ۔
اسی طرح’’ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی ‘‘میں صوفیاء کے اقوال ،پند و نصائح کو بیانیہ میں شامل کر نے کی وجہ سے اساطیری رنگ پیدا ہو گیا ہے۔انسان ہمیشہ کراماتی اشیاء کی طرف ملتفت ہوتا ہے تاکہ وہ اسے ماورائی اقدار کا تجربہ کرنے کے قابل بنائیںاور اس کی فوری ضرورتوں کی تکمیل کر سکیں۔لہٰذا اس افسانے میں بھی افسانے کاواحد متکلم جو مرکزی کردار بھی ہے ایک عورت کے گم شدہ شو ہر کی تلاش میں نکلتی ہے اور بیکتاشی فقیر کے پاس جاتی ہے۔لیکن وہ خود کسی مؤکل کی اختیار میں ہیں اور اس کی موت کے بعد کا انجام سوچ کر گریہ کرنے لگتے ہیں :
  ’’درویش نے سر جھکایا اور رونے لگے پھر آ نسو آستین سے پونچھے اور خود بھی ایک قطعی غیر متعلق بات کہی ۔’’حانم ‘‘حاجی سلیم نے فرمایا۔ ’’میں اس لیے روتا ہوں کہ قانون خدا وندی کے مطابق میرا ہمزاد جو اندر بیٹھا ہے ۔میرے مرنے سے ٹھیک چالیس دن قبل مر جائے گا۔ان چالیس دنوں میں،میں کیا کروںگا؟ کیوں کہ وہ مجھے خبردار کرتا رہتا ہے ۔‘‘
دفعتاً حاجی سلیم پھر چلائے ۔’’مولائے کائنات شاہ نجف نے فرمایا ہے ۔ جو کچھ لکھا گیا ہے ہمیشہ موجود رہے گا  ۔‘‘4
مصنفہ نے اس افسانے میں حانم اور حاجی سلیم بیکتاشی کے ذریعہ دو نسلوں کے تہذیبی تشخص اور ذہنی و فکری رویوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔حاجی سلیم ایسے صوفیانہ حکایات بیان کرتے ہیں جن کی وابستگی روحانیت کے دوام اور فطری یا الوہی قانون مکافات کی پیچیدگیوں سے ہے ۔مثلاً جب وہ کہتے ہیں :
’’ہم بیکتاشی محض دعا نہیں کرتے ۔حانم تم نماز پڑھتی ہو ؟سیدھی سادی نماز ؟ہم نماز کو دار منصور پر چڑھنا کہتے ہیں ۔میں روز دار منصور پر چڑھتا ہوں اور فنا ہوتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں ۔چوںکہ تم ایسا کبھی نہیں کروگی تمہیں کچھ معلوم نہ ہوگا ۔میں روزانہ خواہشات کو باندھتا اور قناعت کو کھولتا ہوں ۔خدا صابر ہے کیوں کہ حی و قیوم ہے۔ بندہ بے صبر ہے کیوں کہ اس کی زندگی چند روزہ ہے اور وقت تیزی سے گزرتا جاتا ہے ۔
تب میں نے ذرا بے ادبی سے کہا ۔آفندم آپ کو ہسپانیہ کے حاجی یوسف بیکتاشی کا نام یاد ہے ؟پندرہویں صدی عیسوی میں وہ علیہ الرحمہ اندلس میں موجود تھے ۔جب مسلمانوں پر  قہر ٹو ٹا ،ان کا اور ان کے مریدوں کا صبر و رضا کام نہ آیا ۔‘‘5
حانم کے بیان کردہ قصے کی اسطوری جہتیں اس سحر کو توڑ دیتی ہیں ان کی تہہ داری سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ موت اور زوال زندگی کی ناگزیر حقیقت ہیں۔ بے معنویت گم شدگی و بیگانگی یہا ں بھی ہے اور وہا ں بھی ۔قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں بعض دفعہ اشیاء اور انسان ،مظہری کائنات اور داخلی حسیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں واہمہ اور خواب کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ایسی صورتوں میں وہ اساطیری عناصر کے ذریعہ اعتدال و توازن قائم کرتی ہیں کیوں کہ قرۃالعین حیدر کی ذہنی تربیت میں ان چیزوں کا بہت رول ہے جس سے انسان کا جمالیاتی ذووق بیدار اور ذہن بالیدہ ہوتا ہے۔مثلاً رقص ،موسیقی ،مصوری اور باغبانی وغیرہ کی طرف ان کا رجحان عہد طفلی سے ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے افسانے میں بامعنی اور تہہ دار اسطوروں سے استفادہ کیا ہے۔ کیوں کہ اساطیری علامتوں کے انتخاب میں انسان کی نفسیات کا عمل دخل ضرورہوتا ہے ۔جوبہت حد تک جمالیاتی کیفیتوں اور گہری رومانیت کی تخلیق ہوتے ہیں۔شکیل الرحمن اس ضمن میں لکھتے ہیں:۔
’’اکثر بڑے فن کاروں کے لاشعور میں اساطیر کا تحرک موجود ہے۔ اکثر تخلیقی جمالیاتی وژن نے سائیکو اسطور سازی کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں ۔بڑی تخلیقات میں ’’متھ ‘‘(Myth)کا عمل نفسیاتی ہے۔ اپنے عہد کی سائیکی کا مطالعہ کیا جائے تو (Images)استعاروں اور تشبیہوں میں قدیم اساطیر اور ’’متھ ‘‘کی جھلکیاں دکھائی دیں گی۔ نسلی یا اجتماعی شعور کے تحرک کی پہچان ہوجاتی ہے ۔ماحول اور فضا کی تخلیق میں آرچ ٹائپ(Archetype)کا دبائو موجود رہتا ہے۔ اساطیر اور اساطیری قصوں کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سچائی بھی سامنے آجاتی ہے کہ تمام اسطوری قصے صرف دیوی دیوتاوں سے تعلق نہیں رکھتے ۔۔۔۔بڑی تخلیقات میں اسطوری تجربے (Mythic experience)اس طرح پگھل جاتے ہیں کہ ان کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے ۔نئے فنی یا شعری تجربے ان سے رشتہ قائم کرتے ہیں تو اکثر اس طرح کی لذت آمیز کیفیت طاری ہو جاتی ہے ‘‘۔6
مندرجہ بالا سطور میں جو بات کہی گئی ہے اس کا اطلاق قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں جا بجا نظر آتا ہے ۔اول تو یہ کہ ان کے افسانوں میں دیوی دیوتاؤں کے اسطورہ سے مواد اخذ کرنے کے بجائے مصری ،یونانی ،اور انجیلی روایات کے اساطیری پہلوؤں کو  بنیاد بنایا گیا ہے ۔اسی لیے ان کے کرداروں کے حرکات و عوامل اورمکالموں کی تہہ تک رسائی کے لیے مختلف اقوام و مذاہب کے اساطیری قصوں سے گہری واقفیت ضروری ہو جاتی ہے ۔ان کا افسانہ ’’سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات ‘‘مختلف النوع پیچید ہ تجربات کا مجموعہ معلوم ہوتاہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خیالی کردار محو خواب اول فول بک رہا ہے اس کے ارد گرد کی فضا عجب واہموں سے بھری ہوئی ہے ،جس میں زمان و مکاں کی حد بندیاں ٹو ٹتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔لیکن اس افسانے میں مستعمل اساطیری گرہوں کا سرا گرفت میں آنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ہر شئے کی مقدس اور گہری معنویت ہے اور سارے واقعات معنی خیز کرشموں سے معمورہیں۔اس میں بعض ایسے جملے ہیںجن کی شمولیت سے افسانہ انتہائی پراثر اساطیری حد انتہا سے متعلق نظر آتا ہے ۔مصنفہ نے اس میں عیسٰی علیہ السلام کے معجزہ کا اسطورہ استعمال کر کے ایک مری ہوئی لڑکی سینٹ فلورا کو ایک فرشتے کی کرامات سے زندہ ہوتے ہوئے دکھا یا ہے ۔انیس برس کی عمر میں اس کا باپ عشق کرنے کی جرم میں اسے ایک خانقاہ میں بند کروا دیتا ہے ۔وہاں پر مختلف راہباؤںکے ساتھ رہ کر فلورا بھی عبادت گزار بن جاتی ہے اور گرجستان کی شہزادی کی کرم فرمائی پر جارجیا کے ایک نئے خانقاہ میں راہبہ کے طور پر مقیم ہوجاتی ہے ۔رفتہ رفتہ فلورا کی وجہ سے یہ خانقاہ عقیدت مندوں ،حاجت مندوں اور حرماںنصیبوں کا معبد بن جاتا ہے ۔اس کی دعاوں کی تاثیر سے لوگ فیضیاب ہونے لگتے ہیں ۔اور پھر ایک مریض کی تیماداری کرتے کرتے اس کی بیماری فلورا میں منتقل ہو جاتی ہے جو اسے موت کے منھ میں دھکیل دیتی ہے۔زندہ ہونے کے بعد فلوراپنے لیے ا چھے کپڑے اور ایک دلچسپ مردکی خواہش ظاہر کرتی ہے ۔اس واقعہ میںروز اول کے انسانی تخلیق کا اسطورہ موجود ہے جس کو اس  علامت کے طور پر لایا گیا ہے کہ بنی نوع انسان اپنی خواہشات ،ذہنی آسودگی کے ذرائع اور مادی حالات کا قیدی ہے ۔فلورا کئی سال تک تنہا بے دست و پائی اورنفسیاتی شکست وریخت کے تجربے سے گزرنے کے بعد حیات آفریں بصیرت سے ہمکنار ہونے کے باوجود اپنی جبلی خواہشات پر قابو نہیں رکھ پاتی ۔لہٰذافلورا کی منت پر ایک سال کی مدت کے لیے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مرے ہوئے شخص فادر گر یگری کو زندہ کیا جاتا ہے ۔فادر گریگری بھی فلورا کی طرح ہی اپنی فطرت کا تابع ہے سگریٹ نوشی عیاری،مکاری جیسی برائیاں دوبارہ زندہ ہونے کے بعد بھی کرتا ہے۔
 قرۃ العین حیدر کی خلاقانہ صلاحیت کا یہ ایک بڑا کارنامہ ہے کہ انھوںنے ایسے تاریخی واقعات کو  افسانے کے قالب میں ڈھال دیا جو عقلی ثبوتوں اور شہادتوں کے بنا پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔انھوں نے پر اسرار ، رومان پرور اساطیری پیکروں اور علامتوں کے استعمال سے ناقابل یقین باتوں کو اپنے وسیع تخیل کے ذریعہ نئے تجربوں سے اس طرح ہم آہنگ کر دیا کہ وہ قدروں کی تلاش کا ذریعہ بن گئے ۔
٭٭
حواشی و حوالے:
1۔ اسطو ر کی تاریخ ،مصنف :کیرن آرم اسڑانگ ،ترجمہ ناصر عباس نیر ،مشعل بکس، لاہور پاکستان،۲۰۱۳،ص۱۷۔۱۸
2۔ روشنی کی رفتار ،قرۃ العین حیدر ،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ،۱۹۹۲،ص۱۱
3۔ ایضاً،ص۲۰۶
4۔ ایضا ً ،ص۲۰
5۔ ایضاً،ص۲۳
6۔ اساطیر کی جمالیات ،ڈاکٹر شکیل الرحمن ،ص۷
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular