قرآن کریم انسان و انسانیت

0
256

فساد مذہب نہیں ہے


آیت اللہ حمید الحسن

 

قرآن کریم انسان کو متوجہ کرتا ہے تو یا ایہاالناس(اے لوگو!) کہہ کر اور جب وہ اسے ان احکام اور قوانین کو جو انسانی زندگی کو بہتر بناتے ہیں مان لینے والا دیکھتا ہے تو وہ انہیں یا ایہا الذین آمنو(اے ایمان والو۱) کہہ کر خطاب کرتا ہے۔یہ قرآن حضورؐ کی اعلان نبوت کے 23سال میں 13سال پہلے مکے میں آیا تو یہاں زیادہ تر اس نے یا ایہا الناس کہہ کر لوگوں کو پکارا۔ اور جب 13سال میں وہ بہت کچھ سمجھ گئے کہ کیا انسانیت ہے کیا اسلام ہے اور کیا نہیں تو مدینے کی حضور کی دس سال کی زندگی میں انہیں ایمان والوں کہا گیا۔ قرآن کریم انسان کو صرف نام کا مسلمان بنانے نہیں آیا تھا وہ ہم کو اللہ کا وہ مومن بندہ بنانے آیا تھا کہ جہاں اسلام حکم الٰہی کے سامنے سرجھکالینے کا نام ہو۔ صرف نام کا اسلام نہ ہو۔اسے مزید سمجھیں قرآن مکے اور مدینے میں آج سے تقریباََ پندرہ سو برس پہلے نازل ہو ا مگر اس نے بکثرت جگہوں پر جن ہستیوں۔ شخصیتوں، واقعات کے بارے میں بتایا وہ اس سے پہلے کے ہزاروں سال سے متعلق ہیں۔ تو وہ ہزاروں سال پہلے سے اپنے نازل ہونے تک کی باتیں کیوں کر رہا ہے صرف اس لئے کہ وہاں ہزاروں سال میں نہ کوئی عیسائی نہ یہودی نہ مشرک نہ کافر نہ مومن نہ مسلمان وہاں صرف دو ہی نام نظر آئیں گے یا اللہ والے بن جائو تو آدم بنی آدم کہلائو گے یا اللہ والے نہ بن کر اس کے احکام کی مخالفت کرو تو اس کے منکر اور شیطان راستے ہر چلنے والے قرار پائو گے۔ اس نے ان کی تقسیم انبیا ، ائمہ ، اوصیا اور ان کے مقابل ظلم کرنے والے، منکر ، کافر، فرعون، شداد ، نمرود جیسے لوگوں سے کی۔ اور ان کے ذریعہ جس انسان کو اعلیٰ انسان بنانا چاہا ان کے لئے کچھ اچھی کچھ بری باتیں بتائیںانہیں اپنے منتخب بندوں کے کرداروں میں نمایاں کر کے پیش کیااور جوبری باتیں تھیں انہیں بھی بتایا اور جو اس کے عادی بنے ان کوبھی پیش کیا گیا۔
ہم یہاں قرآن کریم کے اس انداز کو چند لفظوں میں سمیٹتے ہوئے تمام دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو دعوت فکر دیں گے کہ وہ بتائیں ان میں سے کون سی بات ناقابل قبول ہے۔ کون سی بات غلط ہے۔ کون سی بات انسانی برادری، سوسائٹی انسانی سماج کے لئے مضر ، مہلک ، برباد کرنے والی ہے۔
اگر ہم مذہبی ہیں تو اپنے اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات پر نظر ڈالیں کیایہ سب ایک دوسرے کی تائید نہیں کر تیں۔ اور اگر مذہبی نہیں ہیں تو نام کے مذہبی ہونے سے سوائے فساد کے ہم نہ کچھ پا سکیں گے نہ سماج کو کچھ دے سکیں گے۔ یہ فساد چھوٹا بھی ہو سکتا ہے کسی ایک ملک کی بد امنی کی طرح اور یہ فساد بہت بڑا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کا خطرہ دور کرنے کے لئے دو شخصیتیں سنگاپور میں اس طرح آمنے سامنے ہیں کہ جیسے یہی دونوں تمام روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی زندگیوں کے مالک ہیں کہ یہ ایک دوسرے سے مل کر چلے توٹھیک ورنہ ایسا فساد کہ تمام دنیا مٹ جائے ۔ اسلام ،مذاہب، دنیا کے مصلحین ، اللہ کے منتخب بندوں نے یہی سب ہمیشہ سمجھایا۔آیئے ایک فہرست ترتیب دیں اور دیکھیں جو قرآن جو اسلام اسے انسانیت بتاتا ہے اسے دنیا میں کوئی ناپسند کریگا ۔
قرآنی انسان ۔قرآنی انسانیت
اچھا کیا ہے؟ مقابل میں برائی کیا ہے۔ذرا دیکھیں
مواسات، اخوت ،بھائی، چارہ، محبت، احترام، عزت، ایک اچھے انسان کی پہچان ہیں۔ اس کے مقابل، صرف اپنی غرض کاکس طرح پورا کرلینا بہت سے لوگوں نے اپنایا جس سے سماج میں فسادات، بربادیاں، خونریزیاں سامنے آئیں۔ ہم جلدی جلدی انہیں لکھیں، امانت-مقابل میں بددیانتی،انصاف – مقابل میں ظلم، ایثار -سامنے خود غرضی، تواضع انکسار-مقابل میں تکبر،حلم-سامنے غضب، توبہ غلطی پر ندامت مقابل میں خودسری، انا، میں ، بے شرمی جسارت،ضد۔ دعا، دعا کا مذاق۔ سخاوت-مقابل میں بخل، کنجوسی۔ صلہ رحم ، اپنوں کی مصیبت میں ان سے روابط۔ مقابل میں انہیں سے لا پرواہی۔عہد وپیمان کی پابندی-مقابل میں جھوٹے وعدے، عفو معاف کردینا اس کے بجائے اذیت دینا۔ سزا دینا جس کی خطا اس سے بھی آگے جا کر اس کے تمام وابستان کو بھی مبتلائے عذاب کرنا۔ احسان نیکی ماں با پ سے لیکرانتہائی غریب اجنبی انسان کے لئے بھی- مقابل میں صرف اپنی ذات۔ اصلاح اپنی ہی نہ کر سکیں غیر کو کیا جانیں۔ اخلاص- مقابل میں منافقت۔ صدق سچائی مقابل میں جو خود کریں یا کہیں وہی حق وہی سچ۔ رشتو ں کا احترام-مقابل میں والدین تک کی بے احترامی باقی کون کیا۔ کیا جانیں۔ ہم یہاں مختصر طور پر یہ فہرست پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے قرآنی تعلیمات موجود ہیں۔
اس طرح دیکھیں، عبادات، عدالت ،مشورت، امانت، ایثار ، تواضع ، علم ، حلم، معافی، توبہ ، غلطی کا احساس، دعا، صدقہ ، بے نیازی، تعقل ، تفکر، شجاعت،پاس عہد، وفا، ان سب کے مقابل، حرص ، حسد ، ظلم، جہل، غیبت، تہمت، افترا، جھوٹ، بہتان، تحقیر ،تکبر، فحش، ریاکاری، غصب حقوق، بے عزتی۔ مذاہب ان صفات کو ان کے اچھے برے ہونے کو سمجھاتے ہیں۔ مثالوں سے ان کی اہمیت پیش کر تے ہیں۔ قرآن یہی سب اپنے جس اعلیٰ انداز میں سمجھاتا ہے وہ اس طرح ہے کہ اسی کو معجزہ کہا جائیگا۔ کیا یہ معجزہ نہیںتھاکہ پندرہ سو برس پہلے سماجی زندگی میں جو باتیں بری ہو کر بھی اس طرح رائج تھیں کہ کوئی انکو برا سمجھتا ہی نہ تھا۔ انتہائی مختصر وقت میں لوگ سمجھ گئے یہ کتنی بری باتیں ہیں یہ نہ صرف یہ کہ سمجھ گئے بلکہ ان سے توبہ بھی کر لی۔ جواری جو ئے سے نفرت کرنے لگے شرابی شراب کو حرام سمجھنے لگے۔ جھوٹے سچ بولنے پر فخر کرنے لگے، ظالم ظلم سے نفرت کرنے لگے۔ غصب کرلینے والے جس کا مال غلطی سے بھی پا لیا اسے واپس کرنے لگے۔ ایک دوسرے سے نفرت، عداوت ، لڑائیاں ، جھگڑے کرنے والے ایک دوسرے کو بھائی دوست، محبت کرنے والا سمجھنے لگے، لڑکیوں کو بے غیرتی کی نشانی ، غربت میں اضافے کا سبب سمجھ کر انہیں دفن کر دینے والے انہیں اپنی عزت سمجھنے لگے۔قرآن کریم نے اگر کل کے لوگوں کو سینکڑوں سال پہلے کے لوگوں کو مختصر ترین مدت میں 23سال میں یہ انقلاب دیا تو وہ ـصرف ان کے لئے نہ تھا وہ ہر آنے والے دور کے لئے بھی تھا وہ آج کے لئے بھی ہے اور آنے والے زمانوں کے لئے بھی ہے۔ شرط یہ ہے کہ قرآن کریم صرف پڑھانہ جائے پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی نیت سے پڑھا جائے۔
قرآن کریم نے خود ہی اسے سمجھایا کہ نیکی کیا ہے اور نیکی کیا نہیں ہے۔ قرآنی سورہ البقرہ کی 177ویں آیت ’نیکی بس اتنی نہیں ہے کہ (نماز میں) اپنا منھ پورب یا پچھم کی طرف کرلو بلکہ نیکی تو اس کے لئے ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور ملائکہ اور (آسمانی)کتابوں پر اور انبیا پرایمان رکھے اور اس کی (اللہ کی)محبت میں اپنامال قرابت داروں میں ، یتیموں میں، محتاجوں میں، اور پردیسیوں میں سوال کرنے والوں (فقیروں) میں کنیزوں اور غلاموں پر (انہیں آزاد کرانے میں) صرف کرے اور نماز پڑھے ، زکاۃ ادا کرے اور جب کوئی عہد کرے توا سکو پورا کرے اور سختیوں میں و مشکل مواقع پر صبر کرنے والوں میں ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی لوگ باکردار ہیں۔ آیت قرآنی صرف مسلمان ہو جانا صرف نمازی بن جانے کو ایک مسلمان کے لئے شرف قرار نہیں دیتی کسی بھی مذہب کا ماننے والاہو وہ اسے دیکھے عقیدہ تو یہ ہوا کہ اللہ ، آخرت، ملائکہ ، آسمانی کتابیں، اور انبیا پر ایمان مگر قرآن صرف اتنا ہی نہیں اس کی عملی زندگی میں یہ سب دیکھناچاہتا ہے۔ قرابت داروں کے لئے وہ کیا ہے؟ یہ قرابت دارکبھی کبھی کسی دوسرے مذہب والے بھی ہوتے ہیں۔وہ یتیم بچوں ، مجبوروں وغیرہ کے لئے کیا کررہا ہے۔ اہم یہ ہے کہ جب تمام باتیں جو اچھا بنائیں کہی جا چکیں تب کہا گیا اور وہ جب کسی سے معاہدہ کر لیں تواس کے پورا کرنے والے بھی ہوں تب ان کو صدق، سچائی کے ماننے والے اور اللہ سے ڈرنے والا مانا جائیگا۔ صرف نمازی بن جانا کافی نہ ہوگا۔دوسرے لفظوں میں صرف مذہبی کہلانا کام نہیں آئے گا۔ مذہب کے نام پر اس دنیا میں کیا کیا نہیں ہوجاتا ہے کیاکیا نہیں ہوتارہا ہے۔ بہت دور نہیں ہم اپنے سامنے اپنے شہر اپنے محلے کی ایک بات سنا دیں۔ ’’شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات‘‘ جب لکھنو میں فساد کے سبب کرفیو لگتا تھا ہم اپنے محلے کی گلیوں میں کچھ حال احوال لینے نکلے۔ چھوٹی چھوٹی رہائشی دکانوں میں سے ایک میں ہم نے دیکھا ایک عورت ایک چولہا جلائے اسپر ایک چھوٹا سا توا رکھے اپنے تین بچوں کو تسلی دے رہی ہے دیکھو یہ روٹی ابھی دیتے ہیں سب ملکر کھا لو آٹا گر گیا ہے اور روٹی نہیں ہے ۔ ہم نے دیکھا بہت چھوٹی سی ایک پتلی سی روٹی کچھ جلی ہوئی توے پر ہے۔ نیچے کہیں گرا ہوا آٹا نہیں تھا۔ ساتھ والوں سے میں نے کہا یہ کیا ہے؟ جواب ملا بھوکے بچوں کو یہ ماں جھوٹی تسلی دے رہی ہے۔ دوسرے وقت دوسری جگہ گذرے بالکل وہی منظر تھا مگر چولھے پر بجائے توے کے ایک چھوٹی سی پتیلی تھی کھولتے پانی میں ایک بڑا سا آلو پک رہا تھا۔ کیسا ذہنی جھٹکا لگا یہ سنکر وہ آلو نہیں تھا اس کی شکل کا ایک پتھر تھا جسے ماں بچوں کو آلو بتا کر تسلی دے رہی تھی۔ اسی زمانے میں ’قومی آواز‘ نکلتا تھااس کے رپورٹر نے لکھا۔ وکٹوریہ اسٹریٹ پر غفرآنماب، آغاباقر امام باڑوں کی موڑ پر ایک بوڑھا کچھ خراب کیلے زمین پر رکھے بیٹھا تھا۔رپورٹر نے پوچھا کچھ دیر میں کرفیو شروع ہو جائے گا یہ کیلے اور خراب ہو جائیں گے۔ اس نے جواب دیا۔ کیا کریں جب کوئی خریدنے والا نہیں آیا۔ اب ہم خود کھا لیں گے۔ کئی وقت سے کچھ کمایا بھی تو نہیں ہے۔ یہ اور ایسے بکثرت واقعات ہم نقل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی۔ اس لئے لکھا کہ مذہب مجبوروں کی مدد کا حکم دیتا ہے یا دوسروں کو مجبور بنانے کا ۔مذہب یتیموں کی مدد سمجھاتا ہے یا دوسروں کو یتیم بنا دو بتاتا ہے۔ مذہب پابند لوگوں کے آزاد کرانے کو ، بہتر بتاتا ہے یا مذہب کے نام پر قیدی بنانے کو ۔ مجھے معاف کیا جائے۔ ہمارے ملک میں سنجیدگی سے مذہبی باتیں پیش کرنے والے کسی شمار میں نہیں مذہبی پر جوش لوگ بڑے محبوب قرار پاجاتے ہیں۔ جب کہ مذہب وہی ہے جو انسانی زندگی کو امن و سکون عطا کرے۔
بادشاہ روم نے حجاز سے آنے والے سے پوچھا تم نے وہاں کیا دیکھا سنا ہے کوئی نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں نیا دین پیش کر رہے ہیں۔ اس نے کہا میں تجارت کے لئے گیا تھا ان سب باتوں کی طرف توجہ نہیں کر سکا۔ پوچھا تجارتی کام سے یثرب (مدینہ) بھی گیا تھا کہا ہاں گیا تھا۔ کہا وہیں تو وہ بھی ہیں نبوت کا دعویٰ کرنے والے ، ان کے بارے میں کوئی تو بات سنی ہوگی وہی بتائو۔ تاجر نے کہا اتنا سنا تھا کہ وہاں دو قبیلوں اوس و خزرج میں مدتوں سے خونریزی تھی اس نے ان دونوں میں صلح کرا دی اب وہ بڑی محبت سے ساتھ رہتے ہیں۔ بادشاہ روم نے کہا ’بس بس یہی تو میں سننا چاہتا تھا ، جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ لوگوں میں صلح کرادیتے ہیں لڑواتے تو بادشاہ لوگ ہیں۔ ضروروہ اپنے دعوے میں سچے ہونگے۔
یہ معیارغیر مسلم ہو کر بھی روم کا بادشاہ جانتا تھا کہ اقتدار اگر روحانی ہے تو امن ہے اگر دنیا وی ہے تو فساد ہے۔ اب جو انہیں کے راستوںپر چلنے والے ہوں گے وہ تبلیغ ضرور کریں مگر اسی حد تک جائیں جاہاں غریبی اور نہ بڑھ جائے جہاں فقیری اور نہ آجائے ۔ وہ غریب ماں جو پتھر کو آلو بتا کر اپنے بچوں کو پال رہی تھی اور وہ معصوم بچے جو اپنی ماں سے ایک چھوٹی سی جلی روٹی پاکر زندگی کے مصائب جھیل رہے تھے وہ کس کے سبب؟ وہ سب آج بڑے ہو چکے ہونگے مگر کیاہم اپنے اس طرز عمل کو صحیح قرار دیں گے ۔ مکہ، حضورؐ، خاندان،، اصحاب، مگر آخری حد تک کیا ہوتا رہا۔ حضرت جعفر کتنے شجاع کہ جنگ موتہ اور عیسائی لشکر میں ان کی شجاعت یادگار تھی مگر اس سے پہلے 83آدمیوں کے ساتھ حبشہ چلے گئے۔ مذہب کے نام پر خونریزی نہ ہو۔ خود حضورؐ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ آگئے یہاں بھی آٹھ سال آنے والوںسے مقابلہ کر لیا گیا کہ ساتھیوں کی جانیں بچ جائیں۔ واپس مکہ آئے مگر خونریزی کے لئے نہیں۔ نجران سے 40عیسائی علما مدینے آئے اسلام کی تبلیغ کو 22سال گزر چکے ۔ یہ علما مذہبی باتیں کرنے آئے کسی خونریزی کی شکایت لیکر نہیں آئے۔
ہم آج اسی ماہ رمضان میں صرف افطار کرا لینے ہی کو ثواب نہ سمجھیں اس کی کوشش کریں کہ بلا تفریق مذہب ہم آئندہ زندگی میں کتنے مجبورو بیکس ، بے بس لوگوں کے کام آسکتے ہیں۔ تو یہی سب سے بڑاکار ثواب ہوگا۔ قرآن یہی ہے ، بسم اللہ، یہی ہے، الحمد یہی ہے، شریعت یہی ہے، دین یہی ہے، عملِ انبیاو مرسلین یہی ہے، کربلا کے پیاسوں کی یاد یہی بتاتی ہے، رمضان کے روزوں کی بھوک یہی سمجھاتی ہے۔
پیوند و رفو چاک گریباں پہ تبسم
پیراہن ہستی بڑا نایاب ہے میرا
اس نے ہمارے مالک ہمارے خالق نے ہمیں پکارا ۔کس طرح؟
یا ایہاالناس ۔ اے لوگو ہمنے تم کو مردوں اور عورتوں سے پیدا کیا ہم نے تم کو مختلف شاخوں و قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم اسے پہچانو کہ تم میں سب سے زیادہ باعزت اللہ کے نزدیک وہی ہے جو جتنا اللہ سے ڈرنے والا ہے۔(قرآن 49سورہ کی 13ویں آیت)
اور اس نے کہا یا ایہاالناس۔ اے لوگوں ڈرو اپنے اس رب سے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے کو خلق کیااور پھر اس نے مردوںوعورتوں کی کثیر تعداد پھیلا دی تو دیکھو ڈرو اس اللہ سے جس کا واسطہ دیکر تم ا ٓپس میں صلہ رحمی (قرابتوں کے تعلقات) کا سوال کرتے ہو تمہارا اللہ تم پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن کے چوتھے سورے النساء کی پہلی آیت)
کیا اب بھی ہمیں شک ہے کہ ہر انسان اس کی مخلوق ہے ہماری تخلیق کو وہ نہیں۔اسے حق ہے کہ وہ کہے یحی ویمیت۔ زندگی وہی دیتا ہے موت وہی دیتاہے۔
بات تو کہہ دینا ہی اچھا ہے اگر بات اچھی لگے۔ ورنہ اعتراض کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں۔ اسلام، قرآن سلامتی و امن کا دین ہے، خونریزی اور فساد کانہیں۔ کبھی بھی نہیں۔ کسی بھی جگہ نہیںَ نہ گھر میں نہ میدان میں نہ مسجد میں نہ مدرسہ میں نہ محراب میں نہ منبر پر
جیون کے اس ساگر میں کتنی لہریں کون گنے
ہرپل جینا ہر پل مرنا کیسے کوئی بات بنے
پاس بھنور ہے دورکنارا گھور گھٹائیںچارطرف
ایسے میں کب کوئی کسی کاکس کی کوئی بات سنے
مگر ہمت اپنی ہو۔ سہارا قرآن کاہورہنمائی حضورؐ وان کے اہلبیتؑ اطہار کی ہو۔ سچائی کی بات بتاتے رہیں یہی سچ ہے۔ سچائی کو اس طرح بتائیں کہ سچ سچ رہے ۔فساد نہ بن سکے۔یہی اسلام ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here