Saturday, April 20, 2024
spot_img

غزل

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
9219782014
تمہارے پاس پہنچنے میں کئی زمانے لگے
مرے عزیز فسانے کئی بنانے لگے
ارادہ میں نے کیا تھا سفر پہ جانے کا
غبار میری طرف راستے اُڑانے لگے
تمہارے بعد خدا جانے کیا بہار کا ہو
تم آگئے ہو تو پتھر بھی مسکرانے لگے
ضرور ہوگی شکایت کسی کی آنکھوں کو
ہم آنسوئوں کے خزانے اگر لٹانے لگے
سنا ہے سب کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
اُٹھا کے ہاتھ یقیں کو وہ آزمانے لگے
تم اپنے ساز کی آواز ٹھیک ہی رکھنا
ہوا کا کیا ہے پتہ کب یہ گنگنانے لگے
یہ جنگلوں کا دھواں کہہ رہا ہے شہروں سے
درخت خود ہی بدن اپنا اب جلانے لگے
جہاں اداسی ٹپکتی تھی لاکھوں صدیوں سے
تمہارے ساتھ وہ رستے سبھی سہانے لگے
ہمارے سامنے آیا جو حال کا چہرہ
تو واقعات بھی ماضی کے سب فسانے لگے
خزاں میں سوکھی ہوئی شاخ کیا کرے گی اب
پرند اپنے ٹھکانوں پہ پھر سے آنے لگے
نگاہ ان کی اٹھی جو تمام محفل پر
تو ہم بھی سوکھے ہوئے لب انھیں دکھانے لگے

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular