علاقائی تعصب ملک کی سا  لمیت کے لئے ایک بڑا خطرہ؟

0
183

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ڈاکٹر مشتاق احمد
ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور آئینی طورپر ملک کے تمام شہری کو ملک کے کسی بھی حصے میں بود وباش اختیار کرنے ، کاروبار میں قسمت آزمانے اور قومی و ریاستی سرکاری ملازمت میں حصہ داری کا حق حاصل ہے ۔ البتہ چند ریاستوں کو خصوصی مراعات حاصل ہے وہ بھی ملازمت یا کاروبار کے دائرے کو محدود نہیں کرتے۔ لیکن حالیہ دنوں میںایسا دیکھاجا رہاہے کہ مختلف ریاستوں کی سیاسی جماعتیں اور آئینی عہدوں پر بیٹھے افراد بھی علاقائی تعصب کوفروغ دینے میں لگے ہیں ۔ نتیجہ ہے کہ ایک ریاست کے لوگ دوسری ریاست میں آنے جانے سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں ۔ سرکاری ملازمت کے شعبے میں بھی علاقائی تعصب پروان چڑھ رہا ہے ۔ یوں تو پوشیدہ طورپر پہلے بھی علاقائی تعصب کا زہر تھا لیکن اب اعلانیہ طورپر ہمارے لیڈران اپنے مفاد میں لسانی تعصب اور علاقائی تعصب کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں لگے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ آزادی کے بعد لسانی اعتبار سے ریاستوں کی تشکیل ہوئی اورپھر علاقائی تعصب کی بنیاد پر ترقیاتی اسکیم بھی بنائی جانے لگی۔ لیکن جس طرح حالیہ دنوں میں اعلانیہ طورپر ایک ریاست کے باشندے کے خلاف دوسری ریاست کے آئینی سربراہ کے ذریعہ نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جا رہاہے اس طرح کا رواج نہیں تھا۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش میں پندرہ سال کا بنواس کاٹ کر لوٹی کانگریس کے نو منتخب وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے اپنی حلف برداری کے بعد پریس کانفرنس میں بہار اور اترپردیش کے باشندوں کے لئے جس طرح کا نظریہ واضح کیا ہے وہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی خطرہ ہے ۔اگرچہ اس زمرے کے لیڈران میں صرف کمل ناتھ ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے مہاراشٹر میں شیو سینا کابھی یہی موقف رہاہے اور آسام میںبھی برسوں سے یہ جنگ جاری ہے کہ وہاں دوسری ریاستوں کے غیر آسامیوں کے خلاف تشددکے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔دہلی کی سابق زیر اعلیٰ شیلا دکچھت نے بھی ایک بار اس طرح کا متنازعہ بیان دیا تھا۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کمل ناتھ ہوں یا شیلادکچھت یہ سب ملک کے آئین کا حلف لیتے ہیں اور اسی آئین میں ملک کے تما م شہری کو زندگی جینے کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔یہ اور بات ہے کہ اتر پردیش اور بہار کے سیاست دانوں نے اپنے باشندوں کووہ سہولت نہیں دی کہ وہ اپنے خطے میں رہ کر اپنی زندگی جینے کے سامان حاصل کرسکیں۔ مجبوراً انہیں ہجرت کرنی پڑتی ہے لیکن اس سچائی سے بھی تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندی پٹی جن میں بہار، اترپردیش اور راجستھان کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش بھی شامل ہے ان ریاستوں کے باشندوں نے ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنی محنت سے ترقی کی رفتار بڑھائی ہے ۔ یہ المیہ ہے کہ بہار اور اتر پردیش کے لیڈران آزادی کے 72سالوں بعد بھی اپنے باشندوں کو ہجرت سے روک نہیں پائے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں وہ روزی روٹی کے لئے جد وجہد کررہے ہیں وہاں ان کے لئے زمین تنگ کی جائے ۔ قومی اثاثے میں ہر شہری کا حصہ ہے یہ بات ہمارے لیڈران کو سمجھنی ہوگی ۔ وقتی سیاسی مفاد کے لئے تعصبانہ بیان دینا نہ صرف ان کی سیاسی جماعت کے لئے مضر ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیو ںکہ بہار اور اتر پردیش میں بھی دیگر ریاستوں کے نہ صرف سرکاری شعبے میں ملازم ہیں بلکہ تجارت اور دیگر شعبے میں بھی ان کی حیثیت مستحکم ہے۔ اگر آپ پورے ہندوستان میں راجستھان کے تاجروں کو تلاش کریں تو وہ ہر جگہ نمایاں حیثیت میں دکھائی دیں گے ۔ تو کیا ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے راجستھانی مارواڑی برادری کے تاجروں کے خلاف آواز اٹھانا سود مند ہوگا؟ گجرات کے تاجروں سے ملک کا کوئی خطہ بچا ہوا نہیں ہے تو کیا اب گجراتی تاجروں کے خلاف بھی صدا بلند ہوگی؟بہار اور اتر پردیش میں اگر چھوٹے بڑے صنعت کے کارخانے نہیں ہیں تو اس میں یہاں کے باشندوں کا کیا قصور ہے؟ اس کے لئے ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت قصوروار نہیں ہے؟اس لئے جب اس طرح کے علاقائی تعصبانہ بیانات سامنے آتے ہیں تو کہیں نہ کہیں اس جمہوری ملک کے آئین پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا ہوتا ہے ۔ اسی لئے خواہ وہ کسی بھی جماعت کے لوگ ہوں انہیں اس طرح کے غیر آئینی اور متنازعہ بیانات سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اگر چہ یہ سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے سنسنی خیز بیان کا مقصد محض سیاسی مفاد ہوتا ہے کیوں کہ اگر واقعی ہر ریاست کے سیاسی لیڈران اپنی اپنی ریاست کے عوام کے مفاد میں کام کرتے تو آج ملک میں کو غریبی اور بے روز گاری ہے اس کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا۔کانگریس کی واپسی مدھیہ پردیش میں ہوئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش میں دیگر ریاستوں کے باشندوں کے خلاف متنازعہ بیان دے کر اس ریاست کے عوام کو مبینہ طورپر خوش کیا جائے بلکہ اس ریاست میں جو غریبی اور بے روزگاری ہے اس کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ اس ریاست کے عوام الناس کو زندگی جینے کی سہولیات فراہم ہو سکے ۔اگر واقعی کانگریس مدھیہ پردیش کی تصویر بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہے لیکن لسانی ، مذہبی اور علاقائی تعصب سے پرہیز کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ مدھیہ پردیش کی حالیہ حکومت کو بے دخل کرنے میں عوام کا نظریہ کسی خاص تعصب کے خلاف ہی تھا۔ اس حقیقت کی اندیکھی اگر کانگریس کرتی ہے تو وہ نہ صرف ریاست کے لئے بلکہ ملک کے لئے بھی مضر ثابت ہوگا۔ کیوں کہ آسام ، مہاراشٹر میں اس علاقائی تعصب نے ملک کو خسارہ عظیم پہنچایا ہے ۔ مہاراشٹر میں اگر شیو سینا علاقائی تعصب کو فروغ دیتی ہے اور آسام میں اگر اسم گن پریشد غیرآسامیوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا دائرہ ٔ عمل ریاست تک محدود ہے مگر کانگریس کا دائرہ عمل تو پورا ملک ہے ۔اس لئے کانگریس کے کسی لیڈر کے ذریعہ اس طرح کا تعصبانہ بیان اس پارٹی کی قومی حیثیت کو بھی نقصان پہنچا سکتاہے ۔ خاص کر آئندہ سال پارلیانی انتخاب ہوناہے ایسے نازک وقت میں کمل ناتھ کا یہ بیان کانگریس کے لئے خود کشی کرنے جیسا ثابت ہو سکتاہے اس لئے کانگریس کے قومی لیڈران کو نہ صرف اس بیان کی مذمت کرنی چاہئے بلکہ مدھہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کو اس بات کے لئے مجبورکیا جانا چاہئے کہ وہ اپنا متنازعہ بیان واپس لیں اور بہار واتر پردیش کے اند باشندو ں سے معافی طلب کریں جنہوں نے مدھیہ پردیش کی تعمیر وترقی میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے ۔
9431414586
٭٭
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here