عصری حسیت کا شاعر: عامر قدوائی

0
748
ڈاکٹر زیبامحمود
’’میں اس لئے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آ جائے گا اور مجھ ایسے سب سر اٹھا کر چل سکیں گے۔ہمیں کوئی نیچے کرنے والا نہیں ہوگا ہماری رائے کی اہمیت ہوگی۔یہ خواب میری بے بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں‘‘۔
(راشد امجد۔عام آدمی کے خواب(کلیات)پورب اکادمی اسلام آباد ص ۱۷،۲۰۰۷؁ء‘‘)
راشد امجد کی یہ تحریر کویت میں مقیم عامر قدوائی اور ان کے فن پر صادق آتی ہے۔عامر قدوائی کا شعری لہجہ اور علامتی اظہار ان کے فن کو ایک منفرد تشخص سے آشنا کرتا ہے۔ان کے کلام میں عصری حسیت کے تمام دھارے بطور خاص سیاسی و سماجی صورت حال پر محیط ہیں جہاں موضوعات کے برتنے کا سلیقہ ،اسلوب کی برجستگی اور ندرت کی آمیزش خاص پہچان ہے۔اس کی واحد وجہ فن پر بھر پور گرفت و عبور اور ان کی ذہنی پختگی ہے۔عامر قدوائی کے شناخت نامے میں حالات حاضرہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔جس میں سیاسی اتھل پتھل پر مبنی موضوعات پیش پیش ہیں ۔ان کی زندگی کے معمولات میں دہشت گردی کا موضوع اپنے کرییہ چہرے کے ساتھ ابھر کرسامنے آیا ہے۔عامر قدوائی نے اپنے فن کے ذریعہ ایسے نا مساعد حالات اور غیر مساویانہ رویے کی سخت مذمت کی ہے۔اس حوالے سے انھوں نے متعدد نظمیںبھی لکھی ہیں۔معاشرتی تشدد کے باب میں ان کی نظم ’’تنبیہ‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو۔جس میں امت مسلمہ کی تاریخ کا اجمالی ذکر بھی ہے اور اس کے جذبہ ایمانی کے تقاضوں کا بیان بھی اور ساتھ ہی امت کو ایک مشورہ بھی۔ہو سکتا ہے کہ مشورے سے قاری اور سامعین اختلاف کریں لیکن یہ شاعر کی انفرادی سوچ ہے جس کا اسے بحیثیت انسان اور بحیثیت شاعر اختیار کلی ہے۔ملاحظہ ہو۔
ہم تماشائی نہیں ہیں کہ تماشہ دیکھیں
ہم تو دریا میں بھی دوڑاتے ہیں گھوڑے اپنے
جاگ اٹھے گا اگر جذبۂ ایماں تو سنو
روک پائے گی نہ بندوق نہ پھرفوج ہمیں
اس قدر ظلم نہیں اور نہیں اور نہیں
اب تو ہر حال میں ہتھیار اٹھانے ہوں گے
صبر کی ساری حدیں ٹوٹ چکی ہیں یارو
ہم کو سوئے ہوئے قہار جگانے ہوں گے
معاشرے میں ہمہ جہتی ارتقاء انسان کی متحرک زندگی کی پر زور علامت ہے۔بہر حال ارتقا کا برارہ راست تعلق ذہنی و دماغی نشو نما پر منحصر ہے۔عامر قدوائی کے خارجی سطح پر جتنے تلاطم نظر آئے انھیں کامیابی سے کبھی نظم تو کبھی غزل کے پیرہن میں پیش کئے۔اپنے ضمیر کی آسودگی اور اپنے وجود کی تکمیل ان کے کلام کا جواز یا طرہ امتیاز ہے۔
جو ظالمان وقت تھے بچے نہیں عذاب سے
ثمود ہوکہ قوم لوط، بستیاں نہیں رہیں
عامر قدوائی کا موقف معاشرتی ،معاشی، ثقافتی اورتہذیبی مسائل اور الجھنوں کی موافقت و مخالفت کرنا نہیں بلکہ اس کی ترجمانی ان کا نصب العین ہے۔کیونکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ تخلیق کا کام ایک انفرادی عمل ہے۔اور یہ فرد کے جذباتی اور ذہنی عمل و رد عمل سے عبارت ہے۔
’’ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں‘‘کے مصداق آپ کی عصری حسیت قابل تعریف ہے ۔یہ امر طے شدہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں جو ادب تحریر کیا جا رہا ہے اس میں نئے ذہن کے درد وکرب کا اظہار ہوا ہے۔اس کرب کی نوعیت انفرادی اور اجتماعی دونوں ہے۔نئے عہد کے کرب کی ایک تصویر اپنی نظم ’’پس منظر‘‘ میںپیش کرتے ہیں۔
چھٹی کے بعد لوٹ کے آیا تھا اپنے گھر
دیکھا تو چارپائی پہ کھٹمل دراز تھا
مریل سا ہو گیا تھا عجب اس کا رنگ تھا
لگتا تھا جیسے خون ہی اس میں نہیں رہا
میں نے کہا کہ بھائی نہ ہو اب اداس تو
لے میرا خون چوس کے چھپ جا ادھر ادھر
اس نے کہا نہیں ابھی ماحول گرم ہے
ہر سمت گوشت خوری پہ اب مار کاٹ ہے
خود ساختہ جو قوم کے خادم ہیں آجکل
ان کو اگر پتہ لگا میں نے پیا ہے خون
تو گائے کا بتا کے مجھے مار دیں گے سب
بہتر ہے فاصلے سے ذرا اب رہا کرو
میں ہوں اگر اداس تو رہنے دو اب اداس
مر جاؤں بھوک سے تو کوئی غم نہیں مجھے
فی الحال گائے بھکت سے مجھ کو بچاؤ تم
مندرجہ بالا نظم میں عصری حسیت کی آنچ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔شک و شبہ ،بے یقینی،عدم سلامتی ،گھٹن،عدم تحفظ اور بے زاری کو پیش کرنے کی عامر قدوائی نے سعی بلیغ کی ہے۔جشن آزادی کے چند شعر پیش ہیں:۔
 تم ہوئے آزاد ایسے اب اخوت ہی نہیں
دل میں نفرت کے سوااب تو محبت ہی نہیں
اب کسی چھوٹے بڑے کی کوئی عزت ہی نہیں
قوم و ملت کس طرف جاتی ہے تم کو کیا غرض
جشن آزادی مناؤ ہاں مگر تم دوستو
چھٹ گئے اخلاق اور آداب سب ہم سے کہیں
ہو گئی تہذیب بھی جیسے کہیں گوشہ نشیں
ناچتی پھرتی ہیںعریاں ہر جگہ زہرہ جبیں
مشرقی تہذیب اپنی آخری سانسوں میں ہے
جشن آزادی مناؤ ،ہاں مگر تم دھوم سے
عصری حسیت کے زہر و قند کواپنی روح میں پیوست کرنے میں جس خوشگوار اضافوں کی جستجو میں آپ سرگرداں نظر آتے ہیں اور ایک جہانِ تازہ کی دریافت میںمشغول ہیں۔عامر قدوائی نے اپنی تسکین اطمینان اور مسرت کے لئے اپنی زبان اور وہ لب ولہجہ اختیار کیا ہے جس سے تخلیقی آسودگی کے ساتھ ساتھ جذباتی وسعتوں کوبھی گرفت میں لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔نظم’’ زخمی صدائیں‘‘سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
جنوں زادو  اٹھو کہرام برپا ہے
جہاں دیکھو وہاں ہنگامہ آرائی
لہو سے سب درودیوار رنگی ہیں
قیامت ہے ہر اک جانب قیامت ہے
لہو جسموں سے اب باہر نکل آیا
لہو چلنے لگا ہے آج سڑکوںپر
لہو نے لکھ دئے ہیں نام دشمن کے
اٹھو اے نوجوانان جنوں اٹھو
عامر قدوائی کے شعری فن پاروں میں معاشرتی بحران کا انعکاس بخوبی ہوا ہے۔موجودہ دور کا انتشار ،اضطراب،تجسس،ہیجان اورپیچیدگیاں شعوری اور لا شعوری طور پربرتا ہے۔ان نظموں میں بیان کی خطابت نہیں بلکہ اظہار کی صلابت ہے۔’’آمد جنوں‘‘سے اقتباس پیش ہے۔
وہ دیکھ جنوں کی آمد ہے اب پتھر مارے جائیں گے
کرسی پہ جو چڑھ کر بیٹھے ہیں وہ بندر مارے جائیں گے
ظالم جو بنے پھرتے ہیںآج سکندر ،مارے جائیں گے
ظلم بہت برداشت کیا اب ظلم نہ رہنے پائے گا
چن چن کر بستی میں ہر ظالم کا سر کاٹا جائے گا
اب میرے وطن میں اس طرح خوشحال زمانہ آئے گا
عامر قدوائی کی عصری حسیت کا کوئی فارمولہ نہیں ،فریم نہیںاور کسی ایک نظریے کا جبر بھی نہیں ہے۔
جنوں کے شہر میں کیا کام ہے خرد والو
تباہ کر کے ہمیں جی نہیں بھرا اب تک
امیر شہر تو تہذیب بھول بیٹھا ہے
غریب شہر میں باقی ہے کچھ حیا اب تک
اسے بھی وقت کی آندھی بجھا گئی عامر
ہمیں جو راہ دکھا تا تھا اک دیا اب تک
مذکورہ نظم کے آخری مصرعہ میں راہ دکھانے والے’’دیا‘‘ کے بجھ جانے کا ذکر اس بات کی طارف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اب شاعر پوری طرح سے یاسیت کا شکار ہو چکا ہے۔اور آخری امید بھی اب معدوم ہو چکی ہے۔لیکن اسے احساس کی شدت پر محمول کیا جانا چاہئے۔وگرنہ امیدکا آخری چراغ تا قیامت روشن رہے گا۔در اصل اس نظم میں ’’دیا ‘‘ہی وہ کلیدی لفظ ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانا بنا گیا ہے۔غرض کلامِ عامر قدوائی ہم عصر سماج کی ذہنی تربیت کرنا ہے اوراسے اعتبار، وقار اور استناد بھی عطا کرتا ہے۔شاعری سے متعلق ایلیٹ کا یہ قول عامر قدوائی کی عصری حسیت کی بصارت کی مکمل نشان دہی ہے۔’’یہ ضروری ہے کہ ان کے ہاں بڑے مصنفین پیدا ہوتے رہیں اور خاص طور پر بڑے شعرا نہیں ،تو ان کی زبان زوال پذیر ہونے لگے گی۔ان کا کلچرزوال پذیر ہونے لگے گا اور شایدکسی قوی تر کلچر میں جذب ہو کر رہ جائے گا‘‘(مضمون شاعری کا سماجی منصب۔ٹی ایس ایلیٹ۔مرتبہ جمیل جالبی ص۸۴)
ٹی ایس ایلیٹ کے یہ جملے عامر قدوائی پر صادق آتے ہیں کیونکہ کسی زبان کا ادب اس کی تہذیبی اور ادبی تسلسل کو قائم رکھتے ہیں۔الغرض حساس اور با شعور شعرا کی موجودگی باعث افتخار ہے اورادب کی تخلیق کے ضامن بھی۔
ایسو سی ایٹ پروفیسر اردو
جی ایس پی جی کالج سلطانپور
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here