Tuesday, April 23, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشریمد بھگوت گیتا کی اخلاقی تعلیمات

شریمد بھگوت گیتا کی اخلاقی تعلیمات

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر سید محمد حسان نگرامی
ہندو مذہب کے اہمپیشوا شری کرشن کی بھگوت گیتا کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ساری عمر ظلم و ناانصافی کے خلاف جنگ کرتے رہے ، سچائی کے  لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ ان کی زندگی نفس امارہ کو قابومیں رکھنے ، عبادت خداوند ی میں ڈوب کر بلندیوں پر پہنچنے کے لئے مراقبہ میں مصروف رہی اور دل کی گہرائیوں سے عقیدت بھرے وظائف کے ذریعہ بندے اور خدا کے مابین تعلق قائم کرنے میں صبح و شام ایک کرتے رہے ۔ اس مضمون میں منسوب کتاب شری مد بھگوت گیتا سے میں چند اخلاقی تعلیمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
آج کا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے فروعی مسائل اور جزوی اصولوں کے پیش نظر دیگر مذاہب کی تعلیما ت سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں ۔ حالانکہ یہ معاملہ سبھی دانشوروں کے ساتھ نہیں ہے ۔اسی جماعت میں مشہور عالم دین وسابق معتمد دار العلوم ندوۃ العلماء مولانا عبد السلام قدوائی ندویؒ کا یہ اقتباس بھی ملتا ہے ۔’ قرآن مجید نے ماحول کی مناسبت سے چند مشہور پیغمبروں کے نام لئے اور حالات بیان کئے ۔باقی کی جانب یہ کہہ کر اشارہ کر دیا کہ ہر قوم میں خدا کے ہادی آئے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کا احترام جزو ایمان بنا دیا۔ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیںہوسکتا جب تک وہ اپنے پیغمبر کے ساتھ دوسرے پیغمبروں کی صداقت پر ایمان نہ لائے اسی طرح دوسری کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ۔جن کتابوں کے نام کو قرآن مجید نے بیان کردیا ہے ان پر نام کے ساتھ ایمان لایا جائے ۔باقی کے بارے میں یہ یقین کیا جائے کہ خواہ ہم ان کے ناموں سے ناواقف ہوں۔ لیکن خدا کے پیغمبر جب ہر ملک و قوم میں آئے ہیں تو کتاب بھی ان کے ساتھ بہت سی مختلف زبانوں میں نازل ہوئی ہونگی۔سورہ بقرۃ کی مشہور آیت ہے ۔(ترجمہ) رسول بھی اس پر ایمان لائے جو ان پر نازل کیا گیا اور مومنین بھی اس پر ایمان لائے ۔سب اللہ پر ،اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے (اوریہ کہتے ہیں کہ ) ہم اس (اللہ ) کے رسولوں میں کس کے درمیان تفریق نہیں کرتے ۔
یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی پیغمبر کو مانا جائے کسی کو نہیں ،کسی کتاب کو تسلیم کیا جائے کسی کو نہیں ،بلکہ اللہ کے سبھی رسولوں اور کتابوں کا ماننا ضروری ہے ۔ایک کا انکار سب کا انکار ہے ،ادیان کی بنیادی وحدت کو تسلیم کرنا ، پیشوایان مذہب کا احترام کرنا ، مقدس مذہبی کتابوں کی عزت کرنا ، یہ ایسی باتیں ہیں جو جواہل مذاہب کے درمیان مصالحت کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ (ماخوذ از’’ مسلمان اور وقت کے تقاضے‘‘ مکتبہ جامعہ دہلی ۱۹۷۶ء ص ۳۵)
یہ ایک حقیقت ہے کہ شری کرشن اپنے دور کے عظیم مصلح (Reformer)تھے ۔
شری مد بھگوت گیتا کی تعلیمات میں سب سے اہم پیغامات ہمیں شاگرد و استاد کی باہمی محبت اور احترام اور اپنے استاد کے لئے ایثار و قربانی کا اظہار آپ پوری بھگوت گیتا پڑھ لیجئے شری ارجن اور شری کرشن کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس میں ارجن کے دلائل ضرور ہیں اور خون ریزی کے بڑھنے کا حوالہ بھی دیا اس کے جواب میں شری کرشن نے حق واقعات کی حمایت میں جنگ کو جائز اور ضروری قراردیا پھر بھی ارجن نے کسی مرحلہ میں بھی ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جس سے استاد سے اختلاف کا پتہ چلے یا ان کے احترام میں کوئی کمی محسوس ہو۔
اس کے علاوہ بھگوت گیتا میں نفس کو قابو میں رکھنے کو سب سے بڑا ہتھیار مانا گیا ہے ۔دیکھا جائے تو اگر انسان اپنے نفس پر کنٹرول کرلے تو زیادہ تر برائیوں کو روکا جاسکتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں تمام خرابیوں کی جڑ نفس کی خواہشات ہوتی ہیں۔ گیتا کی تعلیمات کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ شری کرشن نے کرم (کردار) آستھا (عقیدت) آچار (برتاؤ) وچار (فکر) آھار (غذا) کے معاملہ میں معتدل راستہ اپنانے اور اسے ہر حال میں من کی چاہ کے مطابق نہ برتنے کی تلقین کی گئی ہے۔
انسان کی دنیا و آخرت کے فلاح کے لئے دوسرا اصول جسے بھگوت گیتا میں اہمیت دی گئی ہے وہ تیاگ کی بھاونا (جذبہ ایثار ) ہے سچ یہ ہے کہ یہ اگر چہ بڑا مشکل مرحلہ ہے لیکن اپنے مفادات کے سامنے دوسروں کے مفاد کو ترجیح دینا ہی اصل ایثار وقربانی ہے ۔لچھے دار گفتگو تو آسان ہے لیکن اپنا فائدہ چھوڑکر دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔
اسی کے ساتھ بھگوت گیتا میں ریاضت اور تپسیا کو بھی روحانی تزکیہ کے لئے ضروری سمجھا گیا ہے ۔گیتا کے مطابق خدا سے تعلق قائم رکھنے کے لئے ہر وقت جسم کو تمام آرائشوں سے الگ اسی کی عبادت میں منہمک رہ کر ہی اعلی مدارج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے میں بزرگوں  سے عقیدت ان کی صحبت سے فیضیابی ، تمام مذاہب کے لئے عقیدت و احترام جیسی تعلیمات بھگوت گیتا کا اہم حصہ ہیں۔ گیتا کے چوتھے باب کے۳۴ویں اشلوک میں اس حقیقت کو بہت خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ علم و فراست بزرگوں کے پاس جاکر ان کی تعلیمات حاصل کرکے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور یہ سب کچھ بغیر سیوا (خدمات) کے حاصل نہیں ہوسکتا ۔
بقول علامہ اقبال
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ جوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
شری بھگوت گیتا میں اکتسابی علم اور علم فیض دونوں کے فرق کو بخوبی واضح کیا گیا ہے چوتھے باب کے اشلوک ۵ میں صاف طور سے ملتا ہے ۔
صر ف گیا ن علم حاصل کرکے انسان گیانی (عالم) نہیں بنتا اس کے لئے اسے بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اس میں جلاء پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ عمل کرنابھی لازم قرار دیا گیا ہے ۔
ایک اور تعلیم جو ہمیں بھگوت گیتا میں نمایاں طور سے ملتی ہے وہ عمل کے بعد جزا کی خواہش نہ کرنے کی ہے گیتا کے مطابق کرم پھل (کام کاجزا) کی امید کئے بغیر جو انسان ایثار سے عمل کرتا ہے وہی کامیابی کا حقدار بنتا ہے ۔بھگوت گیتا میں لکھا ہے کہ جو انسان کرم کے بدلہ کا انتظا ر نہ کرے وہ سنیاسی اور یوگی ہے جو صرف آگ کا تیاگ کرے وہ سنیاسی ہے اور جو صرف کاموں کا تیاگ کرے وہ یوگی نہیںہے ۔
شری کرشن کی نظروں میں سونے ، چاندی اور جواہرات سے انسان عظیم نہیں بنتا بلکہ جو مٹی ، پتھر کو بھی سونا جیسا سمجھتا ہے وہی مہان پرش بنتا ہے ۔اسی طرح ایک اشلوک میں دوسروں کے نقصان نہ پہونچانے والا ،کسی نیکی کے بعد نیکی کی توقع نہ رکھنے والا، کسی کی بے جا طرف داری نہ کرنے والا ،بلکہ صرف عوام کی فلاح و بہبود میں مصروف رہنے والا ہی نیک لوگوں میں شامل ہوسکتا ہے ۔بلند اخلاقی قدروں کا تذکرہ کرتے ہوئے شری مد گیتا میں کئی جگہ تفصیل سے ملتا ہے ایک اشلوک کا مفہوم اس طرح ہے کہ بلند درجہ پر پہونچنے کے بعد جب انسان اپنے کردار اور اپنے حواس کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور اپنی عظمت کے ساتھ دوسروں کے مرتبہ کو بھی اہمیت دے ان اخلاقیات کے ساتھ تکبر رعونت، غصہ ، دوسروں کو شرمسار کرنے کی بھی بے حد مذمت کی گئی ہے ۔دوسرے الفاظ میں کام کرودھ، اور لوبھ کو جہنم کا راستہ بتا یاگیا ہے ۔
اخلاقیات کے حوالہ سے بھگوت گیتا کے ۱۷ ھویں باب کے اشلوک کے ۱۴ نمبر میں اپنے بزرگوں ، والدین  اور اساتذہ کی عزت واحترام کی تلقین دیتے ہوئے لکھا ہے کہ خاص طور سے بزرگ والدین کے لئے کئی اشلوکوں میں ان کی خدمت و عزت واحترام کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ان تمام اخلاقی قدروں کے حوالہ سے مشہور شاعر وناظم مشاعرہ مرحوم انورجلالپوری کے کچھ اشعار پیش ہیں ۔ جن سے بھگوت گیتا کی تعلیمات پر اچھی روشنی ملتی ہے ۔
دُکھی ان سے ہے میری یہ آتما
کہ شیطان ہی ان کا ہے رہنما
یقینا جہنم ہے ان کا مکاں
زمیں ان کی ہے اور نہ ہے آسماں
غذا تین قسموں کی اچھی لگے
کہ لذت بھی تو ان کی میٹھی لگے
عبادت ہو یا یگیہ، خیرات ہو
سن ارجن کہ اب ان کی ہی بات ہو
غذائیں خوشی اور صحّت جو دیں
سبھی ساتوِک ان کو ہی تو چنیں
ان اشعارمیں شری کرشن نے تامسی اور راجسی اشخاص کی صفات لکھی گئی ہیں:
اسے راجسی تپ کہا جائے ہے
یہ قد آدمی کا گھٹا جائے ہے
جو پہنچائے دُکھ، تامسی تپ وہی
کرے ناش انسان کی زندگی
جو خیرات کو فرض سمجھا کرے
جو غیروں کو بھی اپنا مانا کرے
وہی ساتوک دان کہلائے ہے
وہ دانی کا سمّان کہلائے ہے
مگر دان جو پھل کی خواہش رکھے
جو چاہے کہ بدلے میں بھی کچھ ملے
اسے راجسی دان کہتے سبھی
غلط بھی اسی کو سمجھتے سبھی
کتاب کا آخری اٹھارہویں باب میں سنیاسی اور تیاگ دونوں کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اس میں بھگوان ارجن کو یہ سمجھاتے ہیں بے لوث انسان سنیاسی کا نام ہے اور سب کاموں کے پھل کو تیاگ کرنے کو سچا تیاگ کہتے ہیں۔ اسی باب میں دوسرے کی سیوا کو فرض سمجھ کے کرنے کی بات کہی گئی ہے، اسی باب میں شری کرشن نے سکھ کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے ان کے نزدیک جو سکھ شروع میں زہد کی طرح اور آخر میں امرت کی طرح ہو جس سے روح اور عقل کو شانتی ملے وہ سکھ ساتوک ہے، اسی طرح اندریوں کا سکھ جو شروع میں امرت کی طرح اور آخر میں زہر کی طرح ہو اسے راجسی سکھ اور جو سکھ شروع سے آخر تک آتما کو صرف لالچ، نیند ااور آلس میں ڈالے وہ تامسی سکھ ہے۔ انھیں خیالات کی ترجمانی ان اشعار میں تلاشی جاسکتی ہے:
کہا خواہشیں چھوڑ سنیاس میں
ہر اک شے سے من موڑ سنیاس میں
مگر تیاگ کرتویہ ہے فرض ہے
جو ہے کام انسان کا قرض ہے
بہت لوگ کرموں کے حق میں نہیں
وہ دنیا کے جھگڑوں کے حق میں نہیں
ہیں کچھ جن کو یگیہ، دان، تپ چاہئے
وہ کہتے ہیں دل میں تڑپ چاہئے
انھیں عمر بھر لوگ کرتے رہیں
انھیں میں ہی جیتے و مرتے رہیں
مگر تیاگ کے تین انداز ہیں
مری بات سن اس میں کچھ راز ہیں
سدا یگیہ، تپ، دان قائم رہے
یہ پاکیزگی دل میں دائم رہے
یقینا انھیں تعلیمات سے متاثرہو کر اردو کے کئی مسلم شاعروں جن میں اکثر عالم دین تھے شری کرشن کے احترام میںبہت سے شعر کہے ۔
شری کرشن کا میں احترام کرتا ہوں
اور اس میں روز نیا اہتمام کرتا ہوں
یہ اہتمام بروئے عقیدہ اسلام
بحکم صاحب بیت الحرام کرتا ہوں
ہنود بھول گئے ہیں کرشن کی تعلیم
گلہ میں ان سے یہی صبح وشام کرتا ہوں
وہ جو رو ظلم کی بنیاد ڈھانے آیا تھا
میں اس کی رسم کو دنیا میں عام کرتا ہوں
(مولانا ظفر علی خاں ؒ)
کان اب تک سن رہے ہیں بانسری کی وہ صدا
دل جو اہل ورد کا متھرا میں تڑپاتی رہی
شعلۂ عرفاں تھی، برقِ زندگی افروز تھی
اہلِ سوزو سا ز کی مجلس کو گرماتی رہی
کنس کو اور کوروؤں کو ظلم کی دے کر سزا
تیری حق بینی سدا باطل کو ٹھکراتی رہی
اے کنھیا دیکھ پھر ڈوبی ہے کشتی ہند کی
زور طوفان میں تھپیڑے موج کی کھاتی رہی
اس غلام آباد میں حالت پر اپنی مدتوں
خون کے آنسو ہمیں تقدیر رلواتی رہی
تیری رتھ بانی کا پھر ہندوستاں محتاج ہے
اور اس نے کی حقیقت کا جہاں محتاج ہے
(جناب مرتضی احمد خاں مرحوم،مدیر جریدہ ’’افغانستان‘‘)
آنکھوں میں نورِ جلوہء بے کیف دکم ہے خاص
جب سے نظر پہ ان کی نگاہِ کرم ہے خاص
کچھ ہم کو بھی عطا ہو کہ اے حضرتِ کرشن
اقلیم ِعشق آپ کے زیر قدم ہے خاص
حسرت کو بھی قبول ہو متھرا میں حاضری
سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے خاص
متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا
دم بھرتی ہے آرزو اسی کا
ہرذرہ سرزمین گو کل
 دارا ہے جمال دلیری کا
برسانہ نندگانوں میں بھی
 دیکھ آئے ہیں جلوہ ہم کسی کا
پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمہ کرشن بانسری کا
وہ نور سیاہ تھا کہ حسرت
سرچشمہ فروغ آگہی کا
انھیں بنیادوں پر آنحضرت ؐ کے نبی آخر الزماں ہونے پر مکمل ایمان کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ قرآن کریم نے آپ کو بلند ترین اخلاق والاکہا ہے اس پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا عجب ہے کہ حضرت کرشن ان ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبروں میں سے ایک ہوں ۔
اس سلسلہ کی ایک روایت مسند امام احمد کی بھی ہے۔ اس حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی یہ تعداد آنحضرت ؐ نے بتائی تھی ۔مسند امام احمد کی حدیث کے مطابق حضرت اسامہ الباہلی سے مروی ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے آنحضرت ؐ سے دیافت کیا کہ انبیاء کی تعداد کتنی ہے تو آپ نے فرمایا’’ ماۃ الف اربعۃ و عشرون‘‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار کی تعداد حدیث سے منقول ہے ۔
اس پس منظر میں ہمیں آمنت باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ  ۔۔۔۔۔کی آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیگر مذاہب پر اظہار عقیدت اور ان کی تعلیمات کا ذکر کرنا چاہئے ۔
ہماری اس پیش کش کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم اس دور میں بین المذہبی بڑھتی ہوئی خلیج کوکم کرنے کے لئے دیگر مذاہب کے لئے اسلام کے نظریہ کو واضح کر سکیں ۔اس طرح ممکن ہے موجودہ صورتحال بدلنے میں ہمیں کچھ مدد مل سکے۔
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular