Friday, April 19, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسوچتا ہوں کہ اُس قوم کے وارث ہم ہیں جس نــے اولادِ...

سوچتا ہوں کہ اُس قوم کے وارث ہم ہیں جس نــے اولادِ پیمــبر کا تماشہ دیکــھا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

سب سے پہلے تو وقار صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے یہاں پر مدعو کیا اور آپ کی اس مجلس میں جہاں پر ہم شہید انسانیت سیدنا امام حسین ؑ کو یاد کررہے ہیں، میں شرکت اور فیضیاب ہونے کا موقع دیا۔ میرے مطالعے کے دوران ایک کتاب میں میری نظر پڑی کہ مولا علی ؑ نے فرمایا ہے کہ ’’ظلم کی کارروائی مکمل کرنے کے لئے دو فریقوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ ایک فریق وہ ہے جو ظلم کرتا ہے اور دوسرا فریق وہ ہے جو ظالم کے سامنے سر اطاعت جھکاکر اس ظلم کو تسلیم کرتا ہے، برداشت کرتا ہے اور انہوں نے فرمایا کہ دونوں کے تعاون کے بغیر اس دنیا میں ظلم ممکن نہیں ہے۔ ظالم کو انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح ہے جیسے لوہے کا ہتھوڑا اور مظلوم اس طرح ہے جیسے ایک کیل ہے جسے ٹھونکا جائے، ویکیوم یعنی خلاء میں ظلم نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جو تاریخ ہمیں حضوؐر کے ذریعے ملی، فرمایا ’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت و اکرام سے نوازا‘‘ یہ نہیں کہا کہ اس کتاب ماننے والوں کو عزت و اکرام سے نوازا بلکہ یہ کہا کہ آدم کی اولاد کو جس میں سب لوگ شامل ہیں، کو عزت و اکرام سے نوازا۔ اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں غور کیجئے، بحیثیت اس کے کہ میرا کیا عقیدہ ہے وہ میرے اوپر چھوڑیئے لیکن میری کیا عزت ہے اگر دوسرا آدمی مجھے بتائے کہ میں تمہارے اوپر حکومت کروں گا؟ کیا عزت ہے اگر مجھے رائے کی آزادی نہ ہو، اپنی بات کہنے کی آزادی نہ ہو؟ ایک حدیث میں یہاں تک فرمایا۔ ’’ملک کفر کے ساتھ چل سکتا ہے، لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا ہے‘‘ اور شاہ عبدالعزیز نے ان کے مقالات میں اس حدیث کا ذکر کیا اور اس زمانے میں، کہتے ہیں انگریزوں کے عروج کا دَور تھا، میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب آپ تالی بجاتے ہیں تو مجھے ڈر لگتا ہے، تالیوں سے نہیں ڈر نہیں لگتا، ہم نے تو ساری زندگی یہی کام کیا ہے۔ لیکن سیاسی آدمی، سیاسی میٹنگ میں ایکس پلائڈ کرنے کے لئے جاتا ہے، تالی بجتی ہے، سمجھ میں بات آتی ہے۔ لیکن انبیاء کی اور صالحین کی سُنت پتھر کھانا اور گالیاں کھانا ہے، کیوں؟ کیونکہ وہ تعریف نہیں کرتے کہ آپ بہت اچھے ہیں، ہم بہت اچھے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس کی دعوت دیتے ہیں کہ غور کیجئے، کیا ہم جس چیز سے اپنی وفاداری کا، اپنے یقین کا، اپنے اعتماد کا اور اپنے عقیدے کا اعلان کرتے ہیں، کیا اس کے مطابق ہمارا عمل ہے؟ ’’تم وہ بات کہتے کیوں ہو، جس پر عمل نہیں کرتے؟‘‘ اور جب وہ یہ کہتے ہیں تو ظاہر ہے سننے والے کو برا لگتا ہے۔ تو اگر وہ برائی نہ جھلکے وہ تھوڑی سی… بیسک، کیا خوبصورت باتیں ہمارے اقتدار صاحب نے کہیں۔ اب میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں ہم یہاں سیدنا امام حسین کی یاد میں، کربلا کا جو سانحہ، سانحہ کبریٰ، جو شہادت عظمیٰ ہے، بیشک جہاں تک سوگ کا تعلق ہے، ماتم کا تعلق ہے، غم کا تعلق ہے، تو شاید اگر اُن آنسوئوں کو اکٹھا کیا جائے جو کربلا کے بعد بہائے گئے تو شاید دریا جاری ہوجائے گا۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ہم غم کا اظہار کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔ وہ اخلاق حسنیٰ، آخر کیوں اُنہیں نشانہ بنایا گیا؟ یہ لڑائی کس کے بیچ میں تھی؟ کیا دو شہزادوں کے بیچ میں تھی؟ ایک اُموی اور ایک ہاشمی نہیں بلکہ دو طرز زندگی کے بیچ میں لڑائی تھی، دو خیالات کے بیچ میں لڑائی تھی۔ وہ اخلاقِ حسنیٰ، وہ عزم محمہ، جو موائز، افسار، جو اُن کی زندگی سے ہم سیکھ سکتے ہیں، کسی بھی کو یہ حق حاصل ہے مجھ سے پوچھنے کا کہ یہاں یہاں جو بولتے ہو تو کیا جو امام حسین ؑ کی زندگی سے سبق ملتے ہیں اس پر عمل کررہے ہو یا نہیں کررہے ہو؟ اور وہاں پر کوئی دوسرا نہیں بتا سکتا۔ ہر شخص کو خود اپنے آپ سے سوال کرنا ہے۔ یہ کام دوسرے کے کرنے کا نہیں ہے یہ سوال اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کہتے ہیں جہاں ہم نے عملی طور پر دین اور دنیا کی تقسیم کو علم کے معاملے میں مان لیا، آپ ذرا قرآن حکیم پر غور کریں۔ اس سے پہلے کہ میں عرض کروں ایک جملہ اور پہلی بات کی طرف کہہ دوں کہ کربلا کا ہونا کہ مولا علی ؑ کا بیٹا، حضوؐر کا نواسہ جس کو حضوؐر نے بالکل کمسنی میں لعابِ دہن چوسایا تھا۔ اگر وہ ظلم کو برداشت کرلیتے یہ کوئی میرے کہنے کی بات نہیں ہے، میں الزام نہیں لگا رہا ہوں، ساری تاریخ کی کتابوں میں ہے، جس حکمراں کی بیعت کرنے سے امام عالی مقام نے انکار کیا تھا، اس کی بیعت کے الفاظ یہ تھے کہ یہ چاہے ہمیں غلام رکھے یا آزاد کردے۔
اسلام تو حریت کا دین ہے، آزادی کا دین ہے، آزادیٔ ضمیر کا دین ہے، وہاں پہ جو حکمراں اُس وقت تھا وہ اپنی غلامی کی بیعت لے رہا تھا، یہ دین تو گلے میں اور پائوں میں پڑی زنجیروں کو توڑنے کے لئے آیا تھا۔ یہاں پر زنجیریں دوبارہ ڈالی جارہی تھیں، ان زنجیروں کے خلاف آواز اٹھانے کا فرض نہیں اکیلے یہ اسلام کا حق تھا کہ امام حسین ؑ آواز اٹھائیں اور امام حسین ؑ نے جو سب سے بڑی قربانی کوئی دے سکتا ہے، وہ قربانی دی اور میرا یہ ماننا ہے کہ یہ قربانی، گیلیلیوں نے، جو کہ ایک بہت ہی بڑا سائنٹسٹ تھا، جب اس کے خلاف مقدمہ عدالت میں چلا تو اس نے کہا کہ زمین گھومتی ہے اور بائبل کے مطابق ایسا نہیں تھا تو اس کے خلاف مقدمہ چلا اور اس کو سزا دینے کی بات ہوئی تو جج نے کہا کہ تم اپنا بیان بدل لو تم بچ جائو گے۔ اس نے کہا میں اپنا بیان بدلتا ہوں کہ زمین نہیں گھومتی۔ جب کورٹ سے باہر نکلا تو دوستوں نے کہا تمہاری پوری ریسرچ ہے، تھیوری ہے اور تم نے کہہ دیا کہ نہیں گھومتی۔ اس نے کہا کہ میرے کہہ دینے سے زمین کا گھومنا رُک تھوڑی جائے گی۔ لیکن یہ حقیقت ہے اگر امام حسین ؑ نہ کھڑے ہوئے ہوتے، امام نے بیعت کرلی ہوتی تو اسلام دین کی حیثیت سے ڈوب گیا ہوتا، اس میں کوئی ذراسی بھی شبہ نہیں، پھر یہ درباریوں کا، آج بھی کوئی کمی نہیں ہے ہمارے یہاں درباریوں کی، لیکن پھر یہ خالص درباریوں کا مذہب ہوتا۔ درباری کا دین ہوتا، امام عالی مقام نے اسے اللہ کا دین رہنے دیا، رسولؐ کا دین رہنے دیا اور اس کو دربار کا قیدی بننے سے روک دیا۔ مجھے شورش کاشمیری کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر یاد آرہا ہے کہ:
سوچتا ہوں کہ اُس قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشہ دیکھا
قرآن حکیم کی آیت کے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ ہے کہ ’’کہہ دو کہ اس تعلیم پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو ہمارے قرباء ہیں ان سے محبت کرو‘‘ ہم نے یہ محبت کی کہ یا تو گردنیں کاٹی یا زہر دیئے۔ ہم نے یہ محبت کی، مولانا شبلیؔ کے الفاظ میں اور ابھی میں پڑھ رہا تھا تو ڈپٹی نظیر احمد صاحب کے لفظوں میں بھی یہی بات ہے ہم نے یہ محبت کی، یہ محبت دی اُن کے قرباء کو کہ 73 سال تک مسجد نبوی سے ایشیائے کوچک و سندھ کی مسجدوں میں حالِ فاطمہؐ کے نام پر جو بدتمیزیاں ہوتی تھیں وہ اس کے لئے علامہ شبلیؔ کی کتاب پڑھیں اور میں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ کسی کی تنقید کرنا مخصوص ہے بلکہ صرف ایک بات کرنے کے لئے یہ میں کہہ رہا ہوں کہ جو حکومت رسولؐ کی اولاد کے ساتھ، ان کی گردنوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں،اُن حکومتوں کے اہل طلب، جو اُن حکومتوں سے وظیفے پاتے تھے وہ تاریخی اعتبار سے ان کے ساتھ انصاف کرسکتے ہیں۔ انہیں اس میں کوئی ہچک نہیں ہوئی اور ان ہی تعلیمات سے ہٹنے کا نتیجہ تھا، جیسے کہ ابھی فاروقی صاحب نے کہا، مجھے پکا یقین ہے کہ امام جعفر صادق کے یہاں یہ تقسیم نہیں تھی یہ علم دین ہے، یہ علم دنیا ہے۔ اُن کے یہاں فزکس جو تھی وہ علم دنیا نہیں تھی، کیوں؟ کیونکہ قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دن کارات سے بدلنا، یہ ہماری آیات ہیں ان پر غور کرو۔ تمہاری کھالوں کے رنگ، تمہاری الگ الگ زبانیں، ہماری آیات ہیں ان پر غور کرو، پیڑ پودے، پرندے ان پر غور کرو یہ سب اللہ کی آیات ہیں۔ ایک جگہ تو صاف صاف لکھا ہے، اب اسے آپ کیا کہیں گے ’’کیا تم دیکھتے ہو کہ ہم نے اونٹ کو کس طرح بنایا ہے‘‘ اب عرب اونٹ ہی کو جانتے تھے، اگر تنازل کچھ اور ہوتا تو شاید گائے کا بھی ذکر ہوجاتا، بھینس کا بھی ذکر ہوجاتا۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جانوروں کی خلقت پر غور کرو، اب اگر یہ زولوجی کی اسٹڈی کرنے کے بارے میں نہیں کہا جارہا ہے تو کیا کہا جارہا ہے۔ کہا کہ غور کرو کہ آسمانوں کو ہم نے کس طرح اونچا کیا ہے، اب ایسٹرولاجی کی اسٹڈی کے بارے میں نہیں تو کیا کہا جارہا ہے۔ پھر کہا کہ غور کرو کہ ہم نے پہاڑوں کو کس طرح نصب کیا ہے اب یہ جیولوجی کے بارے میں نہیں تو کس کے بارے میں کہا جارہا ہے اور زمین کی سطح کو ہم نے کس طرح ہموار کیا، لیکن چار آیات پر رُکنا نہیں ہے کیونکہ دو آیات اور ابھی بہت ضرور ہیں۔ اس لئے کہ وہاں ہم نے اپنا ایٹی ٹیوڈ بدل دیا، جو شکایت 300 سال کہہ کے فاروقی صاحب نے یہاں کی ہے، احیاء العلوم میں جو آج سے ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی ہے، امام غزالی نے یہی شکایت کی ہے اور کہا ہے کہ بستیوں کی بستیاں چلے جائیے کوئی ایک آپ کو مسلمانوں میں طبیب نہیں ملتا۔ کیوں نہیں ملتا؟ کیونکہ طب پڑھنے کے بعد اسے قاضی نہیں بنایا جاسکتا، مفتی نہیں بنایا جاسکتا، طب کا علم حاصل کرنے کے بعد اس کو اوقاف کا سپرنٹنڈنٹ نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں یہ امام غزالی کے جملے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی ملتا ہی نہیں، حالانکہ ان کو خود اتنا پریشان کیا گیا کہ جب وہ بغداد چھوڑنے کو مجبور ہوئے اور جب لوٹ کر آئے تو بیچارے اپنے کچھ خیالات بدلنے کیلئے بھی مجبور ہوگئے۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ اگلی دو آیات ضرور آپ کے گوش گذار کرنا چاہوں گا کہ وہیں سے سارا کرائسس پیدا ہوا ہے۔ اس کی جو اگلی آیت ہے وہ ہے آپ کو ہم ذکر کرنے کے لئے، نصیحت کرنے کے لئے بھیجا ہے، لہٰذا آپ وہ کئے جائیے۔ ہم نے آپ کو داروغہ بناکر نہیں بھیجا ہے۔ اور آج، یہ آج سے نہیں ہوا یہ ایک زمانے سے ہے، جب ہم داروغہ بن گئے جو کام ہمارا نہیں تھا، یہ تو ہمارے رسولؐ کو بھی اجازت نہیں تھی۔ اللہ نے منع کردیا کہ ہم نے آپ کو داروغہ بناکر نہیں بھیجا، یہ تو اللہ نے کہا کہ فیصلہ کرنے کا اختیار کہ جب تم سب جمع ہوگے تو میں بتائوں گا اُن باتوں کے بارے میں جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ یہاں تو یہیں جنت دوزخ کا فیصلہ ہاتھ کے ہاتھ فتویٰ، اس کو باہر، اس کو باہر۔ جب آپ کے پاس وہ اختیار آگیا تو اونٹ کیسے بنا، اس پر غور کرنے کی کیا ضرورت؟ جب یہ اختیار آپ کے پاس آگیا تو پہاڑوں کو کیسے نصب کیا گیا یہ جاننے کی کیا ضرورت؟ پھر ضرورت ہی نہیں ہے اور یہ میں نے اس لئے کہا کہ کاش! ہمیں پورا حق ہے، اس لئے حق ہے کہ جو آنکھ روتی نہیں جس میں رونے کی صلاحیت نہیں، اُس میں حساسیت نہیں اور جس میں حساسیت نہیں اس کی انسانیت میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے۔ میں اس سے بالکل انکار نہیں کرتا لیکن رونے کا مطلب یہ ہے کہ میری حساسیت جاگے اور میری حساسیت جاگے تو وہاں جس کا پیغام مجھے لینا ہے، اس پیغام کو لوں اور اگر اس پیغام کو لوں گا تو پھر وہاں سے میرے دین علوم میں، قرآن تو حکمت کی کتاب ہے، قرآن تو ایک طرح سے چابی ہے کہ جیولوجی بھی اسٹڈی کرو، فزکس بھی اسٹڈی کرو، دنیا کا ہر علم حاصل کرو اور اس حد تک کرو کہ وہ حضرت خضر کا مشہور، سورئہ کہف کا میں جو واقعہ ہے اور وہ حدیث اس کا آخری جملہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک آدمی پر کپکپی طاری ہوجائے کہ حضرت موسیٰ جیسے پیغمبر، اولوالعزم جیسا پیغمبر، ہمارا تو عقیدہ ہے کہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم پیغمبر ہی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے علم کا منبع وحی الٰہی ہے اور انہوں نے خود اپنے منھ سے کہہ دیا جب کسی نے پوچھا سب سے بڑا عالم کون؟ سب سے بڑا عالم کون؟ نہیں جواب دیا۔ جب اس نے کئی مرتبہ پوچھا تو جواب دیا میں۔ اللہ نے کہا اچھا! جائو ہمارے فلاں بندے سے علم سیکھو اور وہ فلاں بندہ جس کے پاس پیغمبر کو بھیجا گیا علم سیکھنے کے لئے، میں تفصیل میں نہیں جائوں گا کیونکہ آپ نے بارہا پڑھا ہوگا سورئہ کہف میں، لیکن وہ آخری جملہ جو حدیث کا ہے وہ ایسا اثر کرتا ہے کہ رُخصت ہوتے وقت حضرت خضر نے چھید کردیا، کہتے ہیں اس نائو میں بیٹھے تھے تو ایک چڑیا آئی تھی جس نے چونچ مارکر دریا سے پانی پیا تھا۔ کہا ہاں یاد ہے، کہا میرا اور تمہارا علم ملاکر اتنا ہی ہے جتنا چڑیا چونچ میں پانی لے گئی۔
تو علم کا لامتناہی سمندر، اللہ کا علم اور ہم اس کو تقسیم کرنے لگے، ہم اس کو بانٹنے لگے، بدقسمتی سے یہ تین سو سال نہیں بلکہ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی روایت ہے کہ بغداد کی ایک مسجد سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں پوری ایک تحریک کھڑی ہوگئی جہاں کہہ دیا گیا کہ قرآن اور فقہا کے علاوہ کسی چیز کا علم حاصل کرنا اپنا وقت ضائع کرنا ہے اور آج تک وہ ہمارے یہاں چل رہا ہے، ہمارے کچھ ادارے ہیں جہاں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی، کیونکہ تاریخ اگر پڑھائی جائے گی تو ہمیں کربلا کے بارے میں بھی سب پتہ چلے گا۔ ہمیں اور بہت باتوں کے بارے میں پتہ چلے گا اور میں یہ شعر پڑھ کر آپ سے رُخصت ہورہا ہوں کہ
جو قوم بھلا دیتی ہے تاریخ کو اپنی
اُس قوم کا جغرافیہ باقی نہیں رہتا
ہمیں اپنی تاریخ کا پتہ ہونا چاہئے، ہمیں تاریخی شعور ہونا چاہئے، تاریخی شعور رہے گا تبھی اُن چیزوں سے ہم اپنی محافظت کرسکتے ہیں جنہوں نے ہمیں گہری مذلت میں گرایا ہے، دوسروں کو برا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم دوسروں کو برا کہتے رہیں، دوسرے ہم پر الزام لگاتے رہیں، مجھے بتایئے بادشاہت کی کس اسلام نے اجازت دی ہے، کس معاشرے سے آئی ہیں یہ بادشاہتیں، اگر یہ دہشت گردی کے ذریعے نہیں آئی ہیں تو پھر کیسے آئی ہیں؟ دہشت گردی تو پنپ رہی ہے ہمارے معاشروں میں، اس میں کوئی شک ہے کیا؟ لیکن اس کے لئے عام آدمی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں، عام آدمی کے اندر بیداری پیدا ہورہی ہے جس کے نتیجے میں انقلاب ہورہے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہم وہ بیداری اپنے اندر پیدا کریں گے کہ ہم کربلا کی بنیاد کو سمجھ سکیں۔ اُس کے پیغام کو سمجھ سکیں اور اسلام کی جو روح ہے، جو اسپرٹ ہے اس سے ہم اپنی زندگیوں میں روشنی حاصل کرسکیں۔٭٭٭٭
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular