Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسنہ ہجری: اُمت ِ مسلمہ کیلئے نازک موڑ

سنہ ہجری: اُمت ِ مسلمہ کیلئے نازک موڑ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

علی سنجر نیازی گونڈوی

مکرمی! موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اُمت ِ مسلمہ کیلئے نازک موڑ سامنے ہیں۔ اگر ماضی کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو اُس وقت مسلمانوں کی معاشی حالت نہایت ہی اچھی تھی یعنی اُس وقت معاشیات، اصلاحات، فلسفیات، ارضیات، ریاضیات، کیمیات، فلکیات، ماحولیات، دینیات، اسلامیات، سیاسیات، نباتات، جنگلات، ماحولیات، حیوانات، علم الہندسہ اور خاندانی منصوبہ بندی سے اچھی طرح سے واقف تھے۔ اتنی واقفیت ہونے کے ساتھ ان کا مقام بلندترین تھا۔ اسی لئے ساری دنیا عزت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی کیونکہ اتنی معلومات کے ساتھ ہی اخلاق و آداب و کردار سے بھی معمور تھے۔ مندرجہ ذیل مسلم قوم کے اخلاق و آداب ملاحظہ فرمائیں۔
مسلم قوم دنیا میں ایک مانی ہوئی اچھی قوم تھی۔ غیرقومیں بھی تسلیم کرتی تھیں کہ مسلمان کامل ایمان ہوتا ہے، مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا، گویا مسلمان معنیٰ سچ بولنے والا، مسلمان معنیٰ انصاف کرنے والا، مسلمان معنی رحم کرنے والا، مسلمان معنیٰ دوسروں کے دُکھ سکھ میں کام آنے والا، اس لئے مسلمانوں کے مذہب کواعلیٰ ترین مذہب کہا گیا۔ اور مسلمانوں کے اخلاق و محبت کو بھی پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ مسلمان کی اچھائیوں کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کا رہنما اچھا تھا۔ کیونکہ جیسا رہنما ہوتا ہے ویسی ہی اس کی قوم بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر رہنما مثل سانچہ ہے لہٰذا جیسا سانچہ ہوگا پوری قوم اُسی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوگی۔ اسی تعلیمات کا نتیجہ تھا جس سے مسلم قوم برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔ مگر آج…؟؟
اسی اخلاق و آداب کے مدنظر وزیراعظم جناب نریندر دامودر داس مودی جی نے فرمایا تھا:
’’حضرت محمدؐ علم اور ہمدردی میں یقین رکھتے تھے۔‘‘ (اودھ نامہ اردو ڈیلی لکھنؤ 30 اپریل، 2018 ء)
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم سب سے بڑی دولت ہے اور ہمدردی سب سے بڑی عبادت ہے۔ علم سے مراد ہے کہ جس نے علم سیکھا اور اس کو دوسروں تک پہونچایالیکن اگر اس پر عمل نہیں کیا تو علم کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ علم سیکھنے کے ساتھ ہی عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ایسے ہی ہمدردی ہے یعنی کسی کے ساتھ انسانی سلوک کرنا، حسن اخلاق سے پیش آنا، تفریق نہ کرنا، کسی کو برا بھلا نہ کہنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، سب کے ساتھ اچھے سلوک کرنا یہ سب ہمدردی کے اوّل پہلو ہیں۔ میری معلومات کی حد تک آزادی کے بعد سے کسی بھی وزرائے اعظم نے اس قسم کابیان نہیں دیا جو وزیراعظم مودی جی نے پیش کیا ہے۔ اس لئے مودی جی واحد شخصیت ہیں جن کی اعلیٰ مرتبت، اچھی ذہنیت اور تعلیمی اہلیت کا پتہ چلتا ہے۔
پہلا موڑ: جب سے مسلمان متعدد فرقوں میں تقسیم ہوئے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے کے بعد حق پرست کہنے لگے کہ ہم حق پر ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیگر فرقے پر جاہل، نااہل اور طعن و توہین کرنے لگے۔ تب سے زوال آنا شروع ہوگیا۔ یعنی کسی بھی فرقے نے آگے بڑھنے کی کوششیں نہیں کیں نہ ہی اپنی خامیوں کو دور کیا۔ اسی وجہ سے جو زوال آیا تو رفتہ رفتہ موجودہ حالات میں پیوست ہوگیا۔ آج مسلمانوں کے حالات دلتوں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔
دوسرا موڑ: میرے معزز دوست جناب پرشانت گورَو، بنارسی صاحب نے بات ہی بات میں دریافت فرمایا کہ ’’حضوؐر کی ولادت اور ہجرت میں تقریباً 8-7 سال کا فرق ہے کیا اس سے قبل بھی اتنا ہی فرق تھا؟‘‘ یہ سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی سلسلے میں اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر غیرمسلم قومیں انٹرنیٹ پر کسی بھی مذہب کے بارے میں باقاعدہ تحقیقات کررہی ہیں۔ ’’یوم پیدائش حضرت محمدؐ‘‘ ٹائپ کرنے پر انٹر نیٹ سے پوری تفصیل سامنے آجاتی ہے۔ گوگل پر حضوؐر کی ولادت 22 اپریل، 571 ء ہے لیکن مورخین نے 570 ء لکھا ہے۔ حضوؐر کی ہجرت ولادت سے 50 سال بعد ہوئی یعنی 622 ء میں سنہ ہجری کا آغاز ہوا اور وفات 632 ء یعنی سنہ 11 ہجری میں ہوئی۔ اور سارے اسلامی تہوار ہجری کے حساب سے ہی منائے جاتے ہیں۔ اخبارات میں ہجری کی تاریخ کے ساتھ انگریزی تاریخ بھی لکھی جاتی ہے۔ 12 ربیع الاوّل 1440 ھ کو حضوؐر کی ولادت کے کتنے سال ہوئے؟ اگر 2018 ء سے 571 ء گھٹا دیا جائے تو 1447 سال ہورہے ہیں اور ہجری چل رہی ہے 1440 ۔ یعنی سات یا آٹھ سال کا فرق آرہا ہے۔ یہ سنہ ہجری تین سو سال بعد حضوؐر کی ولادت سے بھی آگے نکل جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ نظام شمسی کے ایک دن اور ایک رات (24 گھنٹے کچھ سیکنڈ) ہوتے ہیں اور نظام قمری (23 گھنٹے 56 منٹ) ہوتے ہیں یعنی پورے چوبیس گھنٹے نہیں ہوتے۔ اس لئے ماہانہ دورانیہ 29.53 دن ہوتے ہیں اور سالانہ دورانیہ 354.36 دن ہوتے ہیں۔ یہی شمسی اور قمری میں 11 دن کا فرق ہے۔ اگر فرق والا 43.5 سال جوڑدیں تو 1483.5 ھ ہوجائے گی تب سولہویں صدی لگنے میں 16.5 سال رہ جائیں گے۔ اگر 43.5 سال گھٹا دیا جائے تو 1396.5ھ یعنی 14 ویں صدی چل رہی ہے، 15 ویں صدی شروع ہونے میں3.5 سال باقی ہیں۔ اگر آج اس پر غور نہیں کیا گیا تو یہ سائنس و ٹیکنالوجی سنہ ہجری کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے مذہبی ماہرین کی کھوپڑی کو مروڑ کر رکھ دے گی۔
تیسرا موڑ: عیسوی اور قمری میں 11 دن کا فرق ’’رویت ہلال اور چاند گرہن‘‘ (26 اگست 2018 ء) میں لکھ چکے ہیں۔ ایک سال میں 11 دن تو 100 سال میں 1100 دن یعنی 3.38 سال۔ ایک ہزار سال میں گیارہ ہزار دن یعنی 31 سال۔ دس ہزار سال میں ایک لاکھ دس ہزار دن یعنی 310 سال۔ بیس ہزار سال میں دو لاکھ بیس ہزار دن یعنی 620 سال (یہیں پر عیسوی سے ہجری ٹکرائے گی یعنی حضرت عیسیٰؑ کی ولادت سے آگے نکل رہی ہوگی)، تیس ہزار سال میں تین لاکھ تیس ہزار دن یعنی 930 سال (اس دوران ہجری عیسوی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کافی آگے نکل چکی ہوگی۔) جب 620 سال بعد ہجری عیسوی سے ٹکرائے گی تو غیرقومیں اُمت مسلمہ سے سوال کردیں گی۔
اے مسلمانو! حضرت محمدؐ کو دنیا میں تشریف لائے آج کتنے سال ہورہے ہیں؟ اس پر مل جل کر غور کرنا ہوگا۔اور سچائی سامنے لانی ہوگی ۔ ورنہ سوال کھڑے ہونگے تو اُمت ِ مسلمہ کشمکش میں پڑکر کدھر جائے گی؟ ہندو قوم میں جائیں گی نہیں، یہودی قوم کو قبول کریں گی نہیں، تب عیسائی قوم کہے گی اچھا آئو میرے مذہب میں شامل ہوجائو۔ پھر دین و مذہب کوکون سنبھالے گا؟ اس لئے تمام بزرگانِ دین علمائے کرام سے گذارش ہے کہ ابھی سویرا ہے تعصب، تکبر و تفریق کو ختم کرکے جتنی جلدی ہوسکے اُمت ِ مسلمہ کو پلیٹ فارم پر لانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اب مزید 1400 سال گذرنے نہ دیا جائے۔ اگر اب بھی آپ نے حکمت عملی سے کام نہ لیا تو نتیجہ یہی آئے گا: ’’اٹھیں اورمتحد ہوکر نئے عزم وارادے کے ساتھ کشمکش کی کشتی کو باہرلانے کی کوشش کریں۔ ‘‘
معزز قارئین کرام ! اس مراسلے کے ذریعہ ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کے ضمیر کو جگانا ہے۔ تاکہ اس سائنس و ٹیکنالوجی کے دَور میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔
486/32، ببووالی گلی، ڈالی گنج لکھنؤ۔ 226020
Email: [email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular