رضا علی وحشتؔ کلکتوی

0
1932

پرویز شکو ہ

خان بہادر مولانا رضا علی وحشت (۱۸؍نومبر۱۸۸۱ء تا ۲۰ ؍جولائی ۱۹۵۶ء ) بیسویں صدی کے بنگال کے اردو ادب میں ایک منفرد اور اہم نام ہے ۔ان کے والد ماجد مولوی حکیم شمشاد علی تھے ۔جنہوں نے ہگلی میں عربی وفارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ وہ ایک مختصر وق فے کے لئے ہگلی میں انسپکٹر مقرر ہے لیکن بعد میں کلکتہ میں مختلف ڈاک خانوں میں بحیثیت پوسٹ ماسٹر تعینات رہے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کرلی ۔
ویسے ان کے خاندان میں طبابت کا سلسلہ کئی پشتوں تک چلتا رہا وحشت کے دادا حکیم غالب علی ابن حکیم غلام علی بڑے اچھے طبیب اور کہنہ مشق شاعر بھی تھے ۔ان کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں پرعبور حاصل تھا اور وہ ان دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ۔اٹھارہویں وانیسویں صدی میں بنگال کے ہگلی ،کلکتہ ،مرشد آباد وغیرہ میں اردو شعر وسخن کی محفلیں عام تھیں ۔
بعض محققین کلکتہ میں وحشت کی ولادت ۱۸ ؍نومبر ۱۸۸۱ء کو لکھتے ہیں ۔کچھ ناقدین ان کی جائے پیدائش ہگلی بتاتے ہیں ۔ بنگال کا ضلع ہگلی اردو شاعری کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔
علمائے ادب اور ناقدین ادب نے وحشت کی شاعرانہ انفرادیت کا اعتراف کیا ہے ۔اپنی اس امتیازی شناخت کا وحشت کو بھی احساس تھا ۔مثال کے طور پر ان کا ہی ایک شعر ہدیۂ قارئین ہے ۔
سرزمینِ ہند گونج اٹھی تری آواز سے
شعر نے وحشت ترے ایک شور برپا کردیا
وحشت نے باقاعدہ شرف تلمذ ابو القاسم محمد شمس کلکتوی سے حاصل کیا تھا ۔شمس کلکتوی اردو کے مشہور شاعر عبد الغفور نساخ کے صاحبزادے تھے ۔مشاہیر ادب جنے وحشت کی فنی عظمت کا اعتراف کچھ اس طرح کیا ہے ۔
آل احمد سرور :
وحشت استاد فن ہیں فن کے لحاظ سے
وحشت کا درجہ بلند ہے ۔‘‘
(بحوالہ : دبستان وحشت کا تنقیدی مطالعہ ، از راز عظیم ، ص ۱۹۴ ) مولانا حسرت موہانی :
مولوی رضا علی صاحب وحشت متوطن کلکتہ زمانہ موجودہ کے ان چند برگزیدہ شعراء میں سے ہیں جن کے حسن کلام پر اردو شاعری کو فکر کرنا چاہیے ۔‘‘
(اردوئے معلیٰ ،بابت اپریل ۱۹۱۰ء مشمولہ :دیوان وحشت ۱۹۱۰ء )
نیاز فتحپوری
پڑھا لکھا آدمی جب غزل میں اپنی قابلیت کے اظہار پر آجاتا ہے تو غزل کو بالکل برباد کردیتا ہے ۔ لیکن وحشت کی خوش ذوقی نے کبھی یہ نقص اپنے کلام میں پیدا ہونے نہیں دیا۔‘‘(ماخوذ از تبصرہ ، مطبوعہ ، نگار ،بابت جون ۱۹۴۶ء )
اثر لکھنوی
وحشت ایک بالغ نظر ماہر فن سخن تھے ۔رنگ غالب کو اتنی خوبی اور کامیابی سے برتنے والے اس دور میں کن سوا ان کے سوا اور کوئی نہ تھا مگر خود ان کا بھی ایک خاص رنگ تھا ۔(مکتوب بنام وحشت ، مشمولہ ،دیوان وحشت ۱۹۱۰ء )
مجنوں گورکھپوری
وحشت کلکتوی باوجود قدیم اور روایتی دبستان کے شاعر ہونے کے اپنے کلام میں ایک انفرادی لہجہ کا پتہ دیتے ہیں ان کے کلام میں فارسی کا لطیف عنصر ایک خاص طرز ہے جو غزل کے مزاج کو قائم رکھتے ہوئے شاعر کے کلام کو عام سطح سے کچھ بلند کردیتا ہے ۔وحشت کی شاعری کی سب سے زیادہ محسوس اور نمایاں خصوصیت جذبات کا نہایت رچا ہوا توازن اور انداز بیان کا عابد رضا بیدار ،خدا بخش اورنینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ :۱۹۵۵ء ص ۴۳ ۔۴۴)
محشر لکھنوی
کلام پر تنقیدی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب وحشت کو سرمایہ شاعری منجانب اللہ عطا ہوا ہے اکتسابی کوشش کا ذرا لگاؤ نہیں ۔(مکتوب بنام وحشت ،مشمولہ :دیوان وحشت ۱۹۱۰ء )
وحشت کلام کو پیچیدگیوں سے پاک رکھنے اور لطیب زبان کو کسی بھی حال میں ترک نہ کرنے کی نشان دہی کرتے ہیں جس کا غماز یہ اشعار ہیں ۔
پیچیدگی سے پاک رکھ اپنے کلام کو
وحشت سخن میں چاہیے لطف زبان رہے
وحشت مری نظر میں مکمل نہیں وہ شعر
جس میں کہ حسن معنیٰ ولطف زباں نہ ہو
وحشت کمال شعر فصاحت کانام ہے
مضمون کے خیال میں لطف زباں نہ چھوڑ
ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے ۔
شرف تلمذ حاصل کرنے والوں میں علامہ جمیل مظہری اور مولانا شاکر کلکتوی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔وحشت سے شرف تلمذ حاصل کرنے والون میں صاحب دیوان اور صاحب تصانیف شعراء شامل ہیں ۔
بقول وحشت
پیچھے پیچھے ترے ہوگا اہل فن کا قافلہ
وحشت اک دن تو ہی میر کارواں ہوجائے گا
وہ اپنے شاگردوں سے اپنی اولادکی طرح محبت کرتے تھے۔بعض شاگردوں کے ساتھ دوستانہ روابط بھی ملتے ہیں ۔دیوان کے آخر میں وحشت کا فارسی کلام بھی شامل اشاعت ہے ۔
وحشت کا دوسرا دیوان ترانۂ وحشت کے نام سے ۱۹۵۳ء میں شائع ہوا تھا ۔
وحشت کا تیسرا مجموعۂ کلام نقوش وآثار کے عنوان سے ۵۷ ۱۹ء میں ان کی وفات کے بعد ڈھاکہ سے شائع ہوا تھا ۔
وحشت صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔وہ ایک اچھے شاعر اور استاد ہونے کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے ۔
وہ ہر شخص سے بلا تفریق محبت سے پیش آتے اور بڑی خندہ پیشانی سے ملتے تھے ۔
ایثار ، لحاظ ومروت ، کم گوئی ،سنجیدگی ، خوش مزاجی،مہمان نوازی اور حسن سلوک ان کی شخصیت کے ناگزیر پہلو ہیں ۔
ابراہیم ہوش وحشت کی بلند اخلاقی کا اعتراف کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت وحشت جتنے بڑے شاعر تھے اس سے بڑے انسان تھے ان کی بلند اخلاقی اور اعلیٰ سیرت ان کی تمام شاعرانہ خوبیوں اور محاسن پر حاوی تھی ۔میرا خیال ہے کہ اس معاملہ میں کوئی دوسرا شاعر ان کا ہم سر نہیں تھا اور نہ شاید ہوسکتا ہے ۔
(سوغات ،مرتبہ ، اسد الزماں اسد ، مغربی بنگال اردو اکیڈیمی ۱۹۸۱ء ص ۲۶۳)
رضا علی وحشت نے یوں تو نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کا اصل میدان غزل گوئی رہا ۔ وہ اردو غزل کا ایک معتبرنام ہیں ۔وحشت اردو ادب میں کلاسکی رجحانات کے حامل تھے ۔ بے جا جدت پسندی اور طوالت انہیں گوارا نہ تھی ۔
نمونۂ کلام نذر قارئین ہے ۔
گراں ہوتا ہے طبع شعر کوطولِ سخن وحشت
اگر پرلطف رکھنا ہے غزل کو مختصر کردے ۔
شعا راللہ خاں رام پوری نے ایک جگہ وحشت کی اور غزل کی آبیاری کا کچھ اس طرح تذکرہ کیا ہے ۔
خان بہادر رضاعلی وحشت بیسویں صدی کے ان معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنہیں شعر وسخن کی آبرو کہا جاتا ہے ۔انہوں نے کلاسکی اردو شاعری میں مہارت فن کی بدولت منفرد انداز پیدا کیا اور حسرت موہانی کی طرح تمام عمر مشق سخن جاری رکھی اور غزل کے گیسو سنوارتے رہے ۔
(بحوالہ : سہ ماہی روح ادب ، ۱۹۹۲ء مغربی بنگال اردو اکیڈیمی)
بحیثیت استاد بھی وحشت خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
۱۹۰۱ء میں وحشت گورنمنٹ آف انڈیا امپریل رکارڈ ڈپارٹمنٹ کے شعبۂ فارسی میں چیف مولوی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔برسوں اس ملازمت پر قائم رہ کر اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیتے رہے ۔
۱۹۲۶ء میں اسلامیہ کالج کلکتہ میں تقرری ہوئی ۔ یہاں انہوں نے دس سال تک بحیثیت پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو وفارسی اپنی اہم خدمات انجام دیں ۔ آخر میں لیڈی برابورن کالج میں بحیثیت پروفیسر وابستہ رہے اور یہیں سے سبکدوش ہوئے ۔
ان کے درس وتدریس میں بھی اخلاق وخلوص کی جھلک تھی۔وحشت شاگردوں کے ساتھ اپنی اولاد کی طرح بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے ۔ اپنے ان اوصاف کی وجہ سے انہیں ہر دلعزیزی حاصل تھی ۔شعبہ کی جانب سے سالانہ مشاعرے کی بنیاد ڈال کر وحشت نے کالج میں ایک خصوصی علمی وادبی ماحول قائم کیا ۔وحشت ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے ۔ ان کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ بنام ’’مضامین وحشت ‘‘ ۱۹۸۲ء میں مغربی بنگال اردو اکیڈیمی کی جانب سے شائع ہوچکا ہے ۔وحشت کے یہ مضامین جدید اردو کلکتہ ،مخزن لاہور ، خاور ڈھاکہ ، جادو ،ڈھاکہ ، ہر نیم روز کراچی وغیرہ میں شائع ہوئے تھے ۔وحشت کے ان مضامین کو جناب جمال احمد صدیقی صاحب نے مرتب کیا تھا ۔اس مجموعہ میں مضامین کے علاوہ وحشت کی بعض ریڈیویائی بات چیت اور کچھ تبصرے بھی شامل اشاعت ہیں ۔حالانکہ یہ مجموعہ وحشت کے سبھی مضامین کا احاطہ نہیںکرتا ۔ان مضامین کے علاوہ وحشت نے متعدد مضامین سپرد قلم کئے تھے ۔
غصہ اور اس کے نتائج وحشت کا ایک قابل ذکر مضمون ہے جو مضامین وحشت میں نہیں ملتا ہے ۔وحشت کا یہ مضمون ماہنامہ شمس ، کلکتہ (جلد اول ، شمارہ ۳ دسمبر ۱۹۰۷ء میں شامل اشاعت ہے ۔)
آل انڈیا ریڈیو کلکتہ سے وحشت کی تقریریں ،غزلیں ، نظمیں اور تبصرے نثر ہوتی رہتی تھیں۔اس طرح اردو زبان وادب کی ترویج کے لئے انہوں نے ریڈیو سے اپنا تعلق بنائے رکھا ۔
پاکستان ہجرت کے بعد وحشت اپنے وطن کے چھوٹ جانے کے سبب بڑے افسردہ رہنے لگے تھے ۔ ان کا عرصہ تک ریڈیو سے تعلق نہیں رہا ۔
پہلی بار پاکستان ریڈیو سے ان کا ایک پروگرام ۱۱؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو نثر ہوا تھا جس میں انہوں نے ایک نہایت موثر انداز میں ایکمرثیہپیش کیا تھا ۔یہ مرثیہ واقعات کربلا سے متعلق تھا ۔
وحشت نے اپنی ۷۵ سال کی عمر میں اپنی تصانیف کے علاوہ تالیفات ،ترجمے اور تدوین میں بھی اپنی گراں قدر خدمات انجام دی۔ وحشت کی تالیفات میں دیوان شمس اور خواب وخیال خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
وحشت کے نثری سرمایہ میں ان کے خطوط بھی ادبی اعتبار سے اپنی انفرادی اہمیت کے حامل ہیں ۔وحشت کے ایک سو بیاسی (۱۸۲) خطوط کا مجموعہ بنام مکاتیب وحشت ۱۹۵۷ء میں بزم شاکری کلکتہ کی جانب سے شائع ہوا تھا ۔وحشت کے مکاتیب کو حاجی شمس الدین احمد عازم نے مرتب کیا تھا ۔مکاتیب وحشت کے علاوہ بھی وحشت کےمتعدد خطوط مختلف رسائل وغیرہ میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں ۔جنہیں ترتیب دے کر محفوظ کرنا چاہیے ۔
بقول مظفر حنفی:
مکاتیب وحشت کا مرتبہ ،یقیناً بلند ہے کہ یہ ان کی زندگی ان کے فن اور ان کی دل نواز اور پہلو دار شخصیت کے آئینہ دار ہیں اور انہیں نظر انداز کرکے وحشت کے کلام کی صحیح قدر وقیمت کا تعین کرنا ممکن نہ ہوگا۔
(مغربی بنگال ، کلکتہ ، وحشت نمبر ، ۱۹۹۶ء ص ۵۷ )
وحشت کے معاصرین میں علامہ شبلی نعمانی ،اکبر الہ آبادی ، خواجہ الطاف حسین حالی ، پنڈت برج نرائن چکبست ،عبد الحلیم شرر ، علامہ اقبال ،منشی نوبت رائے نظر،عزیز لکھنوی ،محشر لکھنوی ، فانی بدایونی ،صفی لکھنوی ، جگر مراد آبادی ، وفارام پوری اورجوش ملیح آبادی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
وحشت ساری زندگی اردو زبان وادب کی خدمت کرتے رہے اورشعری اور نثری ادب میںمنفرد اضافہ کیا ۔ان کی علمی اور ادبی خدمات کے لئے حکومت برطانیہ نے انہیں خان بہادر کے خطاب سے نوازا جو خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
خان بہادر مولانا رضا علی وحشت کے کردار پر مشرقی تہذیب کے اثرات نمایاں طور سے مرتب تھے ۔ ان کی تحریر ان کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں جو اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں ۔
[email protected]
Mobil: 09305571537
9963041595

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here