Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدُشمن اسلام ہمفرے جاسوس اور اس کی ذمہ داریاں

دُشمن اسلام ہمفرے جاسوس اور اس کی ذمہ داریاں

سید دُرّالحسن الرضوی اخترؔ اعظمی

تقریباً ڈھائی سو سال پہلے، (1750) کے آس پاس حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ تجارت کے نام پر پوری دنیا میں جاسوسی کا جال پھیلا دیا تھا۔ ہمفرے برطانیہ کا ایک عظیم جاسوس تھا جو حکومت کے مختلف عہدوں پر رہ کر حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاسوسی کے ایک اہم عہدے پر فائز ہوگیا۔ مشرق وسطیٰ (عراق، ایران، ترکی اور عرب ریاستوں) میں مسلم علماء، عوام اور خود ریاستوں کے درمیان اختلاف و انتشار پیدا کرکے حکومت برطانیہ کے لئے فوائد حاصل کرنا اس کا خاص مشن تھا۔ اپنے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اس نے ان ریاستوں میں جو کام کئے اُنہیں ڈائری (روزنامچہ) میں اپنے تبصرہ کے ساتھ لکھتا جاتا تھا۔ یہ ڈائری جو کتابی شکل اختیار کرچکی تھی دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک جرمن کے ہاتھ لگ گئی۔ اس نے ایک جرمن رسالہ ’’اسپیگل‘‘ میں اسے قسط وار شائع کرایا، جس کی بڑی شہرت ہوئی۔ پھر یہ فرانسیسی میگزین میں قسط وار شائع ہوئی۔ اس کے بعد لبنان سے عربی زبان میں منظر عام پر آئی۔ اردو زبان میں سب سے پہلے ’انجمن نوجوانانِ پاکستان گارڈن ٹائون لاہور‘ نے یہ کتاب ’ہمفرے کے اعترافات‘ نام سے شائع کیا۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ’’جعفری سوسائٹی مقبرئہ عالیہ گولہ گنج لکھنؤ‘‘ نے 1999 ء میں ’ ہمفرے کے اعترافات‘ شائع کرکے برطانوی سامراج کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رچی گئی سازش کو بے نقاب کیا۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل نام سے شائع ہوئی ہے:
‘Colonization Ideal Mr. Humphery’s Memories’
( The English Spy in Islamic Countries)
کاش علمائے اسلام (خصوصاً وہابی اور سلفی علمائے کرام) اس کتاب (ہمفرے کے اعترافات) کو پڑھیں اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اسلامی اتحاد کو انتشار سے بچائیں۔
ہمفرے ایک بہت ہی چالاک، زیرک، باصلاحیت برطانیہ کا ایکٹیو جاسوس تھا۔ 1710 ء میں حکومت برطانیہ کی نوآبادیاتی وزارت نے اسے مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت کے مرکز استنبول (ترکی) کی جاسوسی پر مامور کیا۔ اس کی اصل ذمہ داری یہ تھی کہ ان علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا کرکے درہم برہم کردیا جائے اور اسلامی ریاستوں میں برطانوی حکومت کے زیراثر سامراجی نظام قائم ہوجائے۔
ہمفرے کا پہلا سفر استنبول کا ہوا۔ ترکی پہونچ کر اس نے نہ صرف یہ کہ ترکی زبان پر عبور حاصل کیا بلکہ عربی زبان، قرآن، اس کی تفسیر اور کافی حد تک فارسی زبان بھی سیکھ لی۔ ہمفرے کا بیان ہے کہ ’’مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ میں ان زبانوں میں یسی مہارت حاصل کروں کہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں زبان کے اعتبار سے کوئی فرق محسوس نہ ہو…‘‘ اپنی ذمہ داریوں کے بارے میںہمفرے نے لکھا کہ ’’کئی مہینے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد آخرکار ہم عثمانی دارالخلافہ میں پہونچے۔ جہاز سے اترنے سے قبل میں نے اپنے لئے ’’محمد‘‘ کا نام تجویز کیا اور جب میں شہر کی جامع مسجد میں داخل ہوا تو وہاں لوگوں کے اجتماعات، نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی دیکھ کر محظوظ ہوا…‘‘ ہمفرے نے شیعہ سُنی اختلافات کا بھی گہرا مطالعہ کیا… عراق جانے سے پہلے سکریٹری نے ایک نشست میں ہمفرے سے کہا ’’… اس سفر میں تمہارا اہم ترین فریضہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں تمہیں اس کی اطلاع لندن کے حکام تک پہونچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں سُنی شیعہ فساد برپا کردو تو گویا تم نے حکومت برطانیہ کی عظیم خدمت کی ہے… پس اے ہمفرے! تمہیں چاہئے کہ تم پہلے اپنی پوری قوت صرف کرکے ہنگامے، شور شرابے، پھوٹ اور اختلافات کی کوئی راہ نکالو اور پھر وہاں سے اپنے کام کا آغاز کرو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس وقت عثمانی حکومتیں کمزور ہوچکی ہیں۔ تمہارا فرض ہے کہ تم لوگوں کو اُن کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائو۔‘‘ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 38/39 )
ہمفرے کو وزارت برطانیہ کی طرف سے دو کتابیں دی گئیں جن میں اسے آئندہ کی حکمتوں اور کارگذاریوں سے متعلق تفصیلی ہدایات اور احکامات درج تھے۔ دوسری کتاب کا نام ہی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’اسلام کو کیونکر صفحۂ ہستی سے مٹایا جائے‘‘ رکھا گیا تھا۔ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 116 ) اس میں وہ خطرناک عملی پروگرام مرتب تھے جن پر ہمفرے اور اس کے پانچ ہزار دیگر ساتھیوں کو کام کرنا تھا، جیساکہ سکریٹری نے اپنی دوسری ملاقات میں ہمفرے سے کہا تھا کہ ’’ہمفرے! جن امور کو تمہیں انجام دینا ہے اس میں تم اکیلے نہیں ہو بلکہ تقریباً پانچ ہزار سچے اور کھرے ا فراد مختلف گروہوں کی صورت میں تمام اسلامی ممالک میں تمہاری مدد کے لئے آمادہ ہیں… جب بھی ہمیں اس عظیم گروہ (مسلم ریاستوں) کی تشکیل میں کامیابی ہوئی ہم تمام عالم اسلام پر چھا جائیں گے اور اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹا دیں گے۔‘‘ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 117 )
اس کے بعدسکریٹری نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں تمہیں یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ہم آئندہ ایک صدی میں اپنی مراد کو پہونچ جائیں گے اور اگر آج ہماری نسل اس کامیابی کو نہ دیکھ سکے تو ہماری اولادیں ضرور یہ اچھے دن دیکھیں گی اور یہ ایرانی ضرب المثل کتنی معنی خیز ہے جس میں کہا گیا ہے ’’کل دوسروں نے بویا ہم نے کھایا، آج ہم بورہے ہیں کل دوسرے کھائیں گے۔‘‘ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 117 ) گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سکریٹری ہمفرے سے کہتا ہے: ’’(ہمیں مسلمانوں کے درمیان) شراب، جوا اور شہوت رانی کو اس طرح پھیلانا ہے کہ نوجوان نسل دین و مذہب کو بھول جائے۔ ہمیں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو بھی ہوا دینا ہے۔ ہر طرف ہرج مرج اور فتنہ و فساد کا بازار گرم کرنا ہے۔ ارکان حکومت اور صاحبان ثروت کو حسین و جمیل اور شوخ و چنچل عیسائی عورتوں کے دام میں پھنسانا ہے۔‘‘ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 119 ) آج سعودی عرب کے اُمراء و حکام اور سعودی خاندان اس کی زندہ مثال ہیں) ’’اور اُن کی محفلوں کو ان پری و شوں سے رونق بخشنا ہے تاکہ آہستہ آہستہ اپنے دینی اور سیاسی اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹھیں لوگ ان سے بدظن ہوجائیں اور اسلام کے بارے میں ان کا ایمان کمزور ہوجائے۔ اور ایسے حالات میں ان کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکاکر ہم ان مسلم ممالک میں اسلام کی بنیاد جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔ (ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 119 )
یہ تو تھا سکریٹری کا ہمفرے کو زبانی درس ہدایت۔ سکریٹری نے جو دوسری کتاب ہمفرے کو دی تھی اس کا نام تھا ’’اسلام کو کیونکر صفحۂ ہستی سے مٹایا جائے‘‘ یہ کتاب ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ اس میں چند باتیں بہت اہم ہیں جنہیں اختصار کے ساتھ یہاں درج کیا جارہا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی جن کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ قابل فکر و نظر ہیں، کاش ملت اسلامیہ اس پر توجہ دے کر اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے:
’’۱۔(الف)شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا۔
(ب)حکمرانوں کے ساتھ عوام کے اختلافات کو بھڑکانا۔
(ج)ایرانی اور عثمانی حکومتوں کے اختلافات۔
(د)قبائلی اختلافات۔
(ہ)علماء اور حکومت کے عہدہ داروں کے درمیان غلط فہمیاں۔
۲۔تمام مسلم مملکتوں میں جہالت اور نادانی کی فراوانی۔
۳۔فکری جمود اور تعصب۔
۴۔مادّی ترقیوں سے بے توجہی، جنت کی لالچ میں حد سے زیادہ عبادت۔
۵۔خودسر فرمانروائوں کے ظلم و استبداد۔
۶۔آپسی امن و امان کا فقدان۔
۷۔آبپاشی کا فقدان اور کھیتی باڑی کی کمی۔
۸۔حکومتی دفتروں میں بدانتظامی۔
۹۔قرآن اور احکام شریعت کے احترام کے باوجود عملی، بے حسی و بے توجہی۔
۱۰۔پسماندہ اور غیرصحتمندانہ اقتصاد، نتیجتاً غربت اور بیماری کا دور دورہ۔
۱۱۔صحیح تربیت یافتہ فوجوں کا فقدان، اسلحے اور دفاعی ساز و سامان کی کمی اور موجود اسلحوں کی فرسودگی (پراناپن یعنی Obsolete weapons )
۱۲۔عورتوں کی تحقیر اور ان کے حقوق کی پامالی۔
۱۳۔شہروں اور دیہاتوں کی گندگی، ہر طرف کوڑے کرکٹ کے انبار، سڑکوں، شا ہراہوں اور بازاروں میں کھلی ہوئی اشیاء کی فروخت۔
۱۴۔مسلمانوں پر حقیقی اسلام کی روح سے بے خبری…‘‘ وغیرہ وغیرہ
(ہمفرے کے اعترافات صفحہ: 92 تا 119 )
مسلم حکومتوں اور مسلم عوام کی کمزوریوں کو لکھنے کے بعد ان کی ترقی اور پائیداری کے محکم ستونوں کو کمزور بنانے کے عملی راستوں پر مکر و فریب کی دلیلوں کے ساتھ ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ ان خطرناک اقدامات کی ایک مختصر فہرست ملاحظہ ہو:
۱۔’’بدگمانی اور سوء تفاہم کے ذریعہ شیعہ اور سُنی مسلمانوں میں مذہبی اختلاف پیدا کرنا اور دونوں گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف اہانت آمیز اور تہمت انگیز باتیں لکھنا اور نفاق و تفرقہ کے اس سودمند پروگرام کو روبہ عمل لانے کے لئے بھاری اخراجات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرنا۔‘‘ (صفحہ 99 )
کاش آج کے مسلمان اور مسلم حکومتیں برطانیہ، امریکہ، اسرائیل وغیرہ کے متحدہ محاذ کی اسلام کش مکاریوں اور بغض و عناد کو سمجھ کر اسلامی طاقت کو کمزور ہونے سے بچالیتیں۔
۲۔’’مسلمانوں کو جہالت اور لاعلمی کے عالم میں رکھنا… بچوں کو دینی مدارس میں جانے سے روکنے کے لئے علماء اور مراجع دینی پر تہمتیں لگانا۔‘‘ (صفحہ 99 )
۳۔’’ہر طرف خانقاہوں اور درویشوں کا پھیلائو اور ایسی کتابوں اور رسالوں کی طباعت جو مردم بیزاری اور گوشہ نشینی کی طرف مائل کریں…‘‘ (صفحہ 100 )
۴۔’’راستوں میں میں بدامنی کے اسباب فراہم کرنا۔ بداندیش افراد کی مدد سے شہروں اور دیہاتوں میں فتنہ و فساد برپا کرنا اور غنڈوں، فسادیوں اور ڈاکوئوں کی پشت پناہی کرنا اور انہیں اسلحہ اور رقم فراہم کرکے ان کی تشویق کرنا…‘‘ (صفحہ 101 و 102 )
۵۔’’اسلامی حکمرانوں کے مزاج کو بدلا جائے اور ان میں شراب نوشی، جوئے بازی اور دیگر اخلاقی برائیاں پیدا کی جائیں…‘‘ (صفحہ 103 )
۶۔’’شراب خوری، جوئے بازی، بدفعلی اور شہوت رانی کی ترویج، سورکے گوشت کی ترغیب، ان کارگذاریوں میں یہودی نصرانی، زردتشتی اور صابئی اقلیتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ بٹانا چاہئے اور ان برائیوں کو مسلم معاشرے میں زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہئے جن کے عوض نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت انہیں انعام و اکرام سے نوازے گی۔‘‘ (صفحہ 105 )
محترم قارئین! ڈھائی سو سال پہلے حکومت برطانیہ کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا نظریات تھے اور ان نظریات پر عمل کرکے مسلم حکومتوں اور مسلم عوام کو کس قدر منتشر، ذلیل اور کمزور کیا جاچکا ہے، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اور آج امریکہ اسرائیل اور ان کے اتحادی ممالک کھل کر اسلام کی بیخ کنی پر لگے ہوئے ہیں۔ کاش! مسلمانوں کی آنکھوں پر پڑے ہوئے کفر و نفاق کے پردے ہٹ جاتے، کاش! مسلمان حضور اکرؐم کی 23 سالہ محنتوں اور مشقتوں کی قدر کرتے، کاش! مسلمان قرآن مجید پر دل و جان سے ایمان لاتے، کاش مسلمان! برطانی، امریکی، اسرائیلی اور اسلام دشمن شکنجوں سے آزاد ہوکر سچا مسلمان بننے کی قسم کھاتے اور متحد ہوکر اسلام دشمن طاقتوں کو شکست دیتے اور اپنی کھوئی ہوئی طاقت، ایمان اور عزت و و قار کو بحال کرلیتے!!

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular