دور حاضر میں اردو کی بدلتی صورت

0
305

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

 

 

 

فروغ احمد

اکیسویں صدی کے ہندوستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی زندگی کے سبب سیاسی نظریات میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، آج ہندوستان کی سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماضی کے بہت سے سماجی اور سیاسی رویّے از کار رفتہ ہو چکے ہیں۔ بدلتے ہوئے اقدار، زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ امر بدبختانہ ہے کہ آزادی کے ۰۷برس بعد بھی ہمارے ماہرینِ علم و ادب نوآبادیاتی دور کی ذہنیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکے اور ہندوستان کی اُبھرتی ہوئی تازہ حقیقتوں کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔ہندوستان میں اردو ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جسے کسی نے بھی سلیقے سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔آج جب کہ کم عمر کہلانے والی اردو زبان نے ایک طویل فاصلہ طے کرلیا ہے، ایک تابناک ماضی اس کی قسمت کا حصہ رہ چکا ہے، ایک شاندار دور اس کے ارتقائی سفر کے گرد راہ ہے، تو ایک بار پھر ہمیں از سر نو اس کی تاریخی روایت اوراس کے تابناک ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنا ہوگا اور یہ جائزہ لینا ہوگا کہ موجودہ عہد میں یہ زبان کس مقام پر ہے، کیا موجودہ دور کو اردو کے لیے ترقی یافتہ دور کہاجاسکتاہے؟ یا پھر ترقی پذیر دورسے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
ایک طرف تو دور حاضر کے ادب شناس اور اردو زبان وادب کے علمبردار مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اردوزبان ہنوز ترقی پذیردورمیں ہے، اور ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہے۔نیز ملک کی بعض ریاستوں میں اردو کو سرکاری سطح پر دوسری زبان کا درجہ ہونے کی دہائی بھی دی جارہی ہے، علاوہ ازیں سیاست دانوں کی طرف سے اردو کے ایک مہذب زبان ہونے کی قصیدہ خوانی بھی ہو رہی ہے، اور اردو کی تہذیبی سروکار کی ستائش بھی۔
ادھرایک طویل عرصے تک اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں سے متعلق بے کار بحثیں ہوتی رہیں۔ یعنی ادنیٰ سطح پر جو نوآبادیاتی دور کی سطح سے بلند نہ ہوئیں۔ ان میں کوئی گہرائی نہیں تھی۔ تکرار اس پر ہوتی رہی کہ اردو مسلمان حملہ آوروں کی زبان ہے۔ یہی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی ذمّے دار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہندوستانی سماج میں عوام کا جو بنیادی تعلق اس زبان سے تھا اس موقف کو اس سے چھین لیا گیا۔ ایک کوتاہی اس زبان کے بولنے والوں کی بھی رہی کہ اس زبان کو انھوں نے آرٹ اور ادب تک محدود کر دیا۔ اس کے علاوہ ممبئی کی فلمی دنیا میں عام طور پر اردو زبان کو لے کر مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اردو زبان اور مسلمانوں کے کلچر کی جو تصویر کھینچی گئی اس نے بھی بدگمانیاں پیدا کیں۔ قوالی، مجرہ اور مشاعرہ اس زبان کی پہچان بن گئے۔ اس طرح آزاد ہندوستان میں اردو کو عام استعمال کی زبان نہ سمجھا گیا۔ اس کا فائدہ حکومت کو بھی اپنے خزانے کی بچت سے ہوا۔
ہندوستان کثیر زبان رکھنے والا ملک ہے، جہاں بے شمار علاقائی زبانیں و بولیاں بولی جاتی ہیں، اور ہر زبان وبولی اپنے محدود خطہ وعلاقہ کی پہچان تصور کی جاتی ہیں، زبانوں و بولیوں کی اس بھیڑ میں کئی ایک زبانیں ایسی بھی ہیں جو اپنے محدود دائرہ سے نکل کر ملک گیر سطح پر اپنی شناخت کو دوبالا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اور ان کے چاہنے وماننے والے اپنے خلوص وجذبہ سے اپنی زبان کو ایک نئی جہت دینے میں مصروف ہیں۔زبانوں کے اس جم غفیر میں اگر اردو کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی بعض ریاستوں نے اردو زبان کو دوسری زبان کا درجہ دے کر وسیع القلبی کا ثبوت دیا ہے، تو کیا اس وسیع وعریض ملک میں جہاں ۹۲ ریاستیں اورسات یونین ٹریٹریز آباد ہیں اردو کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے؟ اور اگر ان ریاستوں کا احسان تسلیم کرلیا جائے جنہوں نے اردو کو دوسری زبان کا درجہ دیا ہے، تو کیا وہاں کی حکومتیں اردو کے منصب ومقام کو پہچاننے کی سعی کر رہی ہیں؟ کیا ملکی حکومت نے بھی کبھی اردو زبان کی وقعت کو سمجھا ہے؟ کبھی اس کو جائز مقام ومرتبہ دینے کی کوشش کی ہے؟ کبھی اس کے فروغ و ترقی کے لیے صحیح سمت و راہ متعین کرنے کی جدوجہد کی ہے؟ کبھی اس کے حقوق کی پاسبانی کی ہے؟
ظاہر ہے ایسے سوالات اب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں، کیونکہ کچھ ریاستوں کے دستور نے اس زبان کو دوسری زبان کا درجہ ضرور دے دیا ہے، لیکن حکومتوں نے اس کا دائرہ صرف اور صرف کاغذی سطح تک محدود کردیا ہے۔ اور اگر اردو کی ترقیاتی کاموں میں حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کیا جائے تو بھی حکومتی ادارے ہندوستان میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کی طرح اردو کے فروغ کے لیے اتنی کوشاں نہیں، ہندوستان کی موجودہ سیاسی وسماجی صورت حال میں جبکہ اردو زبان کو ایک مخصوص قوم کی زبان کے طور پر دیکھا جارہا ہو، اس کی پرورش وپرداخت نفرت کے سائے میں ہو رہی ہو، ایسے میں یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسران اردو کے تئیں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا جتنے مواقع ہندوستان کی دوسری زبانوں کو دئے جاتے ہیں، اردو کو بھی دی جاتی ہے۔ پوری اردو قوم ان بھیانک حقائق سے بخوبی واقف ہے، اس بات کا احساس ہے کہ اردو مسلسل سازش کا شکار ہورہی ہے، آئے دن اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، دن بدن اس کی ترقی کی راہوں کو مسدود کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک بات اردو کو ”دوسری زبان“ کا درجہ دینے کا ہے تو یہ محض خواب آور گولی ہے، جس کے نشے میں اردو داں طبقہ بہت دنوں تک نہیں رہ سکتا۔
یہ مقام افسوس تو ہے ہی کہ ہندوستان کی سب سے شیریں زبان جس کادعویٰ آج سے نہیں بلکہ اس کے خمیر اٹھنے کے وقت سے ہی نہ صرف اپنے بلکہ اغیار بھی کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اردو دشمن افراد پیٹھ پیچھے خنجر بھونکنے کے کارناموں کو بھی بخوبی انجام دیتے رہے ہیں۔ اس زبان کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ان حالات میں بھی اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے اردو کے بہی خواہ، اور اس کی الفت کا دم بھرنے والے افسر شاہ قسم کے لوگ اپنے بلند وبانگ دعو¶ں سے باز نہیں آتے، اور ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں جنہیں انہیں فاش کرنا تھا، اپنے خوبصورت اور بلند آہنگ جملوں سے اردو داں طبقہ کو پُرفریب وادیوں کی سیر کراتے رہتے ہیں، اپنے جاہ ومنصب کا غلط استعمال کرکے اردو کی زبوں حالی پر مسلسل پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں، ان حالات میں بھی ایسے افراد کو اردو کا محب و راہبر تصور کیا جاتا ہے، کیا ایسے افراد اپنی منافقانہ چالوں سے اردو کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں؟ یہ مسئلہ بحث چاہتا ہے۔
یہیں سے یہ بحث بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں اردو زبان کی شناخت کیا ہے؟ ایک سیکولر زبان کی یا کسی مخصوص قوم کی زبان کے طور پر؟ آئے دن اخباروں کے تراشے، مضامین، ناعاقبت اندیش ذمہ داران کے خطابات، ملک کے سیاست دانوں کی تقریریں، اور دوسرے اردو کا بھلا چاہنے والے افراد مسلسل اس بات پر اپنی قوت گویائی صرف کر رہے ہیں کہ اردو سیکولر زبان تھی، اور رہے گی۔اردو کی موت کا اعلان پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ زبان جتنی شیریں وسبک ہے، اتنی ہی سخت جان بھی، کیونکہ لاتعداد دشواریوں سے آنکھیں چار کرتے ہوئے وسائل کے فقدان کے باوجود آج بھی سانس لے رہی ہے۔ بعض اہل نظر افرد کا یہ خیال ہے کہ زبانوں کی ترقی میں وسیلئہ روزگار سے زیادہ جذبہ کی کارفرمائیاں ہوتی ہیں، لیکن اردو کے لیے تو یہ دونوں چیزیں برائے نام رہ گئی ہیں، وسیلہ روزگار سمٹتا جارہا ہے، اور جوش وجذبہ کا فقدان مسلسل جاری ہے، اس کے باوجود اردو زندہ ہے، اور بساط بھر اپنی خوشبوں سے لاتعداد ذہنوں کو معطر کر رہی ہے یہ خوش آیند بات ہے۔
اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ترقی یافتہ نہ سہی، لیکن زندہ ضرور ہے، یہ بات اور ہے کہ اردو کئی مہلک اور خطرناک امراض سے مسلسل جوجھ رہی ہے، جن میں سب سے اہم بیماری منافقت و گروہ بندی ہے، جو خود ہمارے اپنے گھر کے افراد میں موجود ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ گھر کا بھیدی بن کر ہمیشہ ہی قوم وملت کے زوال کا سبب بنے ہیں، آج زبان نشانے پر ہے۔اگر ہم اس زبان کی تعمیر و ترقی کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوے تو ہماری حالت اس مردہ قوم کے مانند ہو جائیگی جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی وقار کو مجروح کیا ،اس لیے ہم کو اس کا کھویا وقار واپس دلانا ہوگا اور اس کو افق چمکانا ہوگا ،تبھی ہم اپنے کو اردو داں کہلانے کے حق دار ہونگے۔
موبائل نمبر8920537607
ایم اے اردو سال اول،جواہرلال نہرو یونیورسیٹی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here