Wednesday, April 24, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدبستان مرشدآباد کی نامور مثنوی نگار شرف انساء شرفؔ

دبستان مرشدآباد کی نامور مثنوی نگار شرف انساء شرفؔ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سیدہ جنیفر رضوی

دبستان مرشدآباد میں اردو کی نشو و نما میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے اگر مردوں کے ساتھ خواتین اس زبان کو نہیں اپناتیں تو یہ زیادہ سے زیادہ ہندوستان میں فارسی ، بنگلہ اور انگریزی زبانوں کی طرح ایک سرکاری ، کاروباری یا دفتری زبان ہی بن کر رہ جاتی اور کبھی بھی یہ ہماری گھریلو زبان نہ ہو پاتی اور اب تک ایک قومی زبان کا درجہ اسے حاصل نہ ہوتا اور نہ ہی کڑوروں لوگوں کی آج یہ مادری زبان بن پاتی ۔ ویسے اردو زبان کی ترویج و توسیع میں اور اسے ہندوستان گیر شہرت عطا کرنے میں خواتین کا بڑا ہاتھ رہا ہے لیکن ان کے کار ناموں پر بہت کم توجہ دی گئی ہے چنانچہ شانتی رنجن بھٹاچاریہ اپنی مشہور کتاب ’’ بنگال میں اردو زبان و ادب ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’ اردو ادب کے ابتدائی دور ہی سے خواتین نے اس میں حصّہ لینا شروع کیا اور ان کی زبان ہی کو ہم نے ریختی کا نام دیا ۔ لیکن عورتوں کے کلام اور نثری کار ناموں پر بہت کم روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ‘‘ ( ص ۔ ۱۱۳)
بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ عہد قدیم کی خواتین کی تخلیقات کا بیشتر حصّہ متاع گم شدہ ہے اس کے علاوہ خواتین کے تخلیقات منظر عام پر نہ آنے کی مختلف اور بھی وجوہات ہیں جیسے آج تک تحقیق و تلاش کے میدان میں مردوں کا پلّہ ہمیشہ سے خواتین کی تخلیقات پربھاری رہاہے اور مرد شعوری یا غیر شعوری طور پر عورتوں کی تخلیقات کو کم تر درجہ کی تخلیقات سمجھتے رہے ہیں اورشاید آج بھی بڑی حد تک یہ خیال زندہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے سماج میں ایک طویل مدت تک عورتوں کو صرف ’’ گھر کی دیویاں ‘‘ بنا کر رکھا گیا تھا اور تعلیم نسواں کو غیر ضروری سمجھا گیا تھا۔ بڑی تعجب کی بات ہے کہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردو شاعر اور فلسفی علامہ اقبال بھی ایک نہایت محدود دائرے میں ہی تعلیم نسواں کو ضروری سمجھتے ہیں اور انہوں نے عورتوں کی جدید اورا علٰی تعلیم کی مخالفت کی ہے ۔ اس کے بعد تو سب سے بڑا مسئلہ ہمارے سماج کی دیگر پابندیاں اور رکاوٹیں رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں خواتین کی تخلیقات کا علم نہ ہو سکا۔ اس وجہ سے دبستان مرشدآباد کی ادبی تاریخ میں خواتین کی کار کردگی اور ان کی خدمات کی کمی کا شدید طور پر احساس ہوتا ہے۔ بحر حال دبستان مرشدآباد کی عام زبان بنگالی ہے لیکن یہاں اتر پردیش ، دہلی ، لکھنو اور بہار سے آکر بسنے والوں کی زبان اردو تھی۔ ۲۰ ویں صدی میں دبستان مرشدآباد کے نواب خاندانوں میں بہت سی نامور ادیبہ اور خوش فکر شاعرہ گزری ہیں لیکن ان کی شاعری یا انشا پر دازی کوئی افادی حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کے یہاں کوئی مستقل تصنیف یا کلام کا مجموعہ نہیں ملتا لیکن انیسویں صدی سے لیکر آج تک دبستان مرشدآباد نے جو اہل قلم خواتین پیدا کیں ان کا نام دنیائے ادب میں فخر کے ساتھ لیا جا سکتا ہے ان ہی خواتین میں سے ایک خاتون کا نام شرف انساء شرف ؔہے جن کا ذکر کئے بغیر دبستان مرشدآباد مکمل نہیں ہو سکتا ۔
دبستان مرشدآباد کے اردو ادب میں آپ کی پہچان ایک مثنوی نگار کی حیثیت سے ہے ۔ آپ نے ایک ہی مثنوی تخلیق کی ہے جس کا نام ’’ ہرمز نامہ ‘‘ ہے یہ ایک ہی مثنوی آپ کو حیات جاوید بخشی ہوئی ہے ۔ جب بھی کبھی مثنوی کی تاریخ لکھی جائے گی تب آپ کی مثنوی ’’ ہرمز نامہ ‘‘ کا ذکر کئے بغیر مثنوی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ’’ ہرمز نامہ ‘‘ نے نہ صرف آپ کو حیات جاوید بخشی بلکہ دبستان مرشدآباد کو بھی تاریخ کے اوراق میں شہرت دوام بخشی ہے۔
’’ ہرمز نامہ‘‘ ایک قدیم مثنوی ہے جس کا پتہ ہمیں سب سے پہلے وفا راشد کی کتاب ’’ بنگال میں اردو ‘‘ کے ذریعہ ہوا ہے وفا راشد اپنی کتاب ’’ بنگال میں اردو ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’ ایسی خواتین میں انیسویں صدی کے اول نصف دور میں ایک خاتون کا پتہ چلتا ہے جن کا نام شرف انساء ہے ۔ وہ مرشدآباد کے نواب ناظموں کے دربار سے وابستہ تھیں ۔ ان کی ایک قدیم ا لمثال قلمی مثنوی پروفیسر محفوظ الحق ایم اے مرحوم کے ذاتی کتب خانے میں محفوظ ہے ۔ ‘‘ ( ص ۲۵۱ ۔ ۲۵۲)
آپ کی پیدائش لکھنئو میں ہوئی لکھنئو سے مرشدآباد کا سفر آپ نے کیسے طے کیا اس کو لیکر محقیقن کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد رضا علی خان اپنی کتاب’’ مرشدآباد اردو ادب کا ایک قدیم مرکز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’ مرشدآباد نظامت خاندان کی روایت کے مطابق بی شر ف النسا مرزا ماہر عظیم آبادی کی بہن تھیں ۔ مرزا ماہر صاحب ہنر تھے اور شاعر بھی تھے نواب فریدوں جاہ کے عہد نظامت میں تلاش معاش میں مرشدآباد آئے اور نواب موصوف نے انہیں نواب مدرسہ کے نظامت ہوسٹل میں اتالیق کے عہدے پر مقرر کیا ۔ جب ماہرصاحب کا خاندان مرشدآباد پہونچا تو بی سر فن جو ان کی بہن تھی ساتھ مرشدآباد آئی تھیں مرزا ماہر کا گھرانہ تعلیم یافتہ تھا چنانچہ بی شر فن کو نواب فریدوں جاہ کے محل میں ان کی بیٹی ہرمزی بیگم اور دیگر بچوں کو تعلیم و تربیت کیلئے مقرر کیا گیا تھا بعد میں نواب فریدوں جاہ نے بی شر فن سے نکاح کر لیا اور ان کا نام شرف انساء بیگم رکھا گیا ۔ خاندانی ریکارڈس کے مطابق شرف انساء کی پہلی اولاد ۱۸۵۷ ء میں پیدا ہوئی جن کا نام خاقان مرزا تھا ۔‘‘ ( ص ۱۸۶ )
ڈاکٹر محمد ہاشم نے اپنی کتاب ’’ مرشدآباد (مغربی بنگال) کی ایک نایاب مثنوی ہرمز نامہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’ اصلا ً شرف انساء نواب فریدوں جاہ کے محل کی ایک کنیز تھیں جو ان کے منجھلے بیٹے سید علی مرزا عرف منجھلے حضور کی بیگم مہتاب آرا عرف بالا دلہن کے ساتھ لکھنو سے مرشدآباد آئی تھیں جب وہ بیاہ کر نواب فریدوں جاہ کے محل میں آئیں تو ان کے ساتھ رواج زمانہ کے مطابق کئی خواتین بھی لکھنئو سے مرشدآباد آئی تھیں انہیں میں ایک بی شر فن بھی تھیں جو کم عمر لیکن ہوشیار اور تعلیم یافتہ تھیں ۔ کنیز ہوتے ہوئے بھی محل میں ان کا بہت احترام تھا وہ فریدوں جاہ کی بچیوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں جب وہ بالغ ہو گئیں تو نواب فریدوں جاہ نے انہیں اپنے نکاح میں لے لیا اور اس طرح وہ بی شر فن سے شرف انساء بیگم ہو گئیں‘‘۔
ڈاکٹر رضا علی اور ڈاکٹر محمد ہاشمی دونوں کے مطابق یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ فریدوں جاہ نے بی شر فن کو نکاح کے بعد شرف انساء بیگم بنا دیا بحر کیف مجھے یہاں اس بات سے بحث نہیں کرنی ہے کہ وہ کیا تھیں اور کیا بنی بلکہ میں اس بات کو واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ۱۹ ویں صدی میں دبستان مرشدآباد کی بیگمات کو بھی جو محل کی چہار دیواری کے اندر زندگی بسر کرتی تھیں اور وہ بھی ایسے ماحول جس کے بارے میں ڈاکٹر جاوید نہال نے یہاں تک کہا ہے کہ ناظمین مرشدآباد کے محلات میں غیر محرم عورتوں کو بہت مشکل سے داخلہ ملتا تھا ان کے یہاں پردہ کا بہت اچھا انتظام ہوتا تھا اس طرح زندگی بسر کرنے کے با وجود یہاں کی عورتیں زبان و ادب سے گہری دلچسپی اور دلی لگائو رکھتی تھی یہ بھی اہل قلم کی سر پرستی میں نوابوں سے کسی قدر پیچھے نہیں تھیں۔
شرف انساء کی زبان میں سادگی ، سلاست اور روانی ہے ۔ آپ کی زبان دبستان مرشدآباد کی گھریلو زبان ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں مرشدآباد کے عوام کی زبان کا ایک معیار تھا اور محلات کی بیگمات کے علاوہ کنیزیں بھی اردواور فارسی میں اچھی صلاحیت رکھتی تھیں ۔
آپ کی مثنوی ’’ ہرمز نامہ ‘‘ ایک روایتی مثنوی ہے ۔ آپ نے پرانی روایت پر چل کر اس مثنوی کو تخلیق کیا ہے اس مثنوی میں عام روایت کے مطابق پہلے حمد باری تعالٰی میں شاعرہ رطب اللسان ہے اور خدائے برتر کی تعریف میں خامہ فرسانی کرتی ہیں مثال کے طو پر کچھ اشعار دیکھیں :
لکھو نام اس کاوہ ہے نام پاک
ہے مر ہم انہوں کو جو ہیں سینہ چاک
بیاں کس طر ح ہووے اس کی صفات
نکلتی نہ بپتامیں ہے منہ سے بات
مثا لوں سے باہر ہے اس کی مثال
بیاں کس طرح ہووے حسن و جمال
ڈاکٹر محمد ہاشم نے اپنی کتاب ’’ مرشدآباد (مغربی بنگال) کی ایک نایاب مثنوی ہر مز نامہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ یہ مثنوی تین سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے اس مثنوی میں کل چار ہزار اکیس اشعار ہیں ۔ مثنوی ہر مز نامہ تیرہویں صدی ہجری کی تخلیق ہے جیسا کہ خود مثنوی کی شاعرہ شرف انساء کہتی ہیں کہ
یہ تیرہ صدی اب زمانہ ہوا
کہ تمگی میں اپنا بیگانہ ہوا ‘‘ ( ص ۳۱ )
’’ ہرمز نامہ ‘‘ میر حسن کی مثنوی سحرا لبیان کی طرز پر لکھی گئی مثنوی ہے میر حسن کی مثنوی ۱۷۸۵؁ء کا شاہکار ہے اور آپ کی مثنوی ہرمز نامہ ۱۸۳۸؁ء کے بعد کی تخلیق ہے اور دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کی تصنیف ۱۸۳۷؁ء میں ہوئی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہرمز نامہ ہر دو مقبول مثنویوں کی بعد کی تحریر ہے ۔ گلزار نسیم اور ہرمز نامہ دونوں ایک ہی عہد کی مثنویاں ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ہی عہد میں دونوں مثنویاں لکھی گئیں۔ گلزار نسیم لکھنئو میں لکھی جانے کی وجہ سے مشہور زمانہ ہو گئی اور دوسری دور دراز مشرقی ہندوستان کے دبستان مرشدآباد شہر میں لکھی جانے کی وجہ سے اور ایک خاتون کی تخلیق ہونے کے سبب گمنامی کے دلدل میں گھو گئی ۔ ہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہرمز نامہ میں بہت سی خامیاں بھی ہیں لیکن ماحول کے حساب سے ان سب خامیوں کا ہونا لازمی تھا کیونکہ دبستان مرشدآباد کا ماحول بنگالی ہے اور یہاں بنگالی زبان کا چلن زیادہ ہے اس لئے بنگالی زبان کا اثر ہونا فطری ہے شرف انساء بلند مرتبہ شاعرہ نہیں تھیں اس کا انھیں خود احساس تھا ۔
کہ نظم و نثر میں نہیں مجھ کو ڈھنگ
مگر میرے آقا جو ہیں صوبہ جنگ

اس لئے وہ خدا سے دعا بھی کرتی ہیں جو مندرجہ ذیل شعر میں وا ضح ہے

اور سی لئے آپ خدا سے التجا بھی کرتی ہیں
پڑی مہنگی غلطی میں شرف انساء
نظر تجھ کو اب تک نہ آیا خدا
خدا سے یہی ہے اے التجا
جو عاجز کہ تیری ہے شرف انساء
تو کر دے سخن کو میرے سر بلند
سخن ہوئے میرے جہاں کو پسند
سحر البیان ، ’’ گلزار نسیم ‘‘ اپنے انداز بیان کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور ہوئی آپ کی مثنوی ’’ ہرمز نامہ‘‘ بھی سحر البیان کے طرز پر لکھی گئی ہے بحر بھی وہی(فعولن فعولن فعولن فعول) منتخب ہوئی ہے جس بحر میں مثنوی سحر البیان نظم ہوئی ہے آپ نے صاف اور سادہ اسلوب اختیار کیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ کے یہاں روانی اور دلکش نہیں پائی جاتی جو میر حسن کا خاصہ ہے ۔ آپ نے زبان اور بیان کا جادو نہیں دیکھایا بلکہ سیدھی سادی زبان میں کہانی قلم بند کر دی اس لئے زبان میں بھی غلطیاں نظر آئی ہیں ۔ اس میں آپ نے ہندی کے بہت سارے الفاظ و محاورات کا استعمال کیا ہے کچھ املا کی بھی غلطیاں ہیں اور کچھ تذکیر و تانیث کی بھی کمیا ں ہیں ۔ خاتون ہونے کی وجہ سے بہت سارے تجربات سے دور رہیں اور مشاہدات میں بھی کمی آئی ۔ بہت سارے محاورات و استعارات سے روشناس نہیں ہو سکیں بہت ساری فضا اور ماحول سے واقف نہیں ہو پائی اس لئے ان سب خامیوں کا ہونا لازمی ہے ۔ لیکن زبان کی سلاست و سادگی کے معاملے میں آپ کہیں کہیں میر حسن کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہیں لیکن یہ سادگی بالکل ابلے ہوئے آلو کی طرح نظر آتی ہے ۔
ہر مثنوی کی طرح ہرمز نامے میں بھی آپ نے مکالمے پیش کئے ہیں ہر جگہ ماحول کے مطابق باتیں کی ہیں آپ نے ہندوستان اور خصوصاً بنگال کے سماجی پس منظر کا بھی خیال رکھا ہے اور وہاں کے خو اصوں کے رسم و رواج پر بھی آپ کی گہری نظر ہے آپ نے عورتوں کے لباس اور زیورات کا بھی ذکر کیا ہے اس وقت ہندوستان میں جادو ٹونے ٹوٹکے کا بھی رواج تھا اس کی مثالیں آپ نے پیش کی ہیں۔ آپ نے ہندی کے الفاظ جو اپنی مثنوی میں استعمال کئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک لمبے عرصے سے ہندوستان میں قومی یکجہتی کا ماحول قائم تھا اور زبان کو لے کر کوئی تفریق نہیں تھی۔
اس مثنوی میں نئی بات یہ ہے کہ انسان پری پر عا شق نہیں ہو تا بلکہ جنوں کا با د شاہ ایک ارضی شہزادی پر عا شق ہو تا ہے اور ایک انسان کی مدد سے کا میاب ہو تا ہے ۔ انداز بیان سیدھا سا دھا ہے ۔ عربی الفاظ کی صحت کا خیال نہیں رکھا گیا ہے ۔ اکثر مثنویوں میں مخصوص مو قعوں پر حیا سوزاور عریا ں اشعار ملتے ہیں ۔ لیکن آپ نے اس مو قع پر اختصار سے کام لیا ہے ۔ عریا نی سے گریز کیا ہے ۔ چنانچہ ’ دلدار‘ اور ’دلبر‘ کی ملا قات ان تین شعروں میں ختم کر دی ہے ۔
ملے پھر تو ایسے وہ ماہ لقا
ادھر سے تھی شو خی ادھر سے حیا
اب آگے کروں کون خلوت کی بات
وہ سمجھے میسر ہو جس کو یہ رات
تھے وہ خو ب وا قف ہر اسرار سے
ملے بعد مدت جو دلدار سے
اس مثنوی میں آپ نے فارسی کے اچھے اچھے اشعار نقل کئے ہیں اس سے آپ کی شعر و شاعری کے ذوق کا پتہ چلتا ہے مثال کے طور پر ایک شعر ملا خط ہو :
سد ندوں عروساں چیں بے نشاں
ندا ند کے نام نشاں در جہاں
مگر ایسا نہیں ہے کہ آپ کی مثنوی میں صرف غلطیاں ہی غلطیاں ہیں اس میں بہت ساری خوبیاں بھی ملتی ہیں جیسے آپ نے تشبیہ اور استعارے سے کام لے کر مثنوی کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے پھر اس میں مقامی الفاظ و محاورات کا کثرت سے استعمال کیا ہے ان سب کی وجہ سے آپ کی مثنوی میں دلکشی پیدا ہو گئی ہے۔

َََََََََََََََََََ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular