خیام شناسی پہ ایک ناقدانہ نظر

0
319
از:علی اصغر الحیدری
خیام ایک ایسا نام ہے جو سرزمین فارس میں خاص طور سے اپنے حکیمانہ،فلسفیانہ اور ریاضیاتی نظریات کی وجہ سے معروف تھا.بھر حال اس کی شعری مھارت کی شھرت،مغرب کی مرھون منت ہے.خیام فارسی ادب کا وہ واحد شاعر ہے جسکی شاعری،ایران و ھند کی سرحدیں عبور کرکے حلقہ مغرب کی علمی محافل کی زیب و زینت بن گئی.
اگرچہ خیام کی شھرت،فٹز جیرالڈ کے ترجمے کی شرمندہ احسان ہے لیکن یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ ھندستان نے “خیام شناسی” کا ایک مستقل باب رقم کیا ہے.خیام شناسی کا ابتدائی دور،علامہ شبلی نعمانی کی کتاب شعرالعجم کی عبارتوں سے شروع ہوتا ہوا ان ہی کے عزیز ترین شاگرد علامہ سلیمان ندوی کی تحقیقاتی کتاب “خیام” تک پہنچ کر اپنے ارتقائی کمال کی منزلیں طے کر لیتا ہے.اس کے بعد خیام کے شعری ابعاد اور خصوصیات پہ ایک علمی تحقیق شروع ہوتی ہے الحاقات و انتسابات رباعیات کے حوالے سے علامہ عبدالباری آسی کا نام سب سے روشن اور جلی ہے.اس سلسلے میں آسی کی جگر کاوی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھوں کس طرح مآخذ کی کمی کے باوجود،خیام کی طرف منسوب رباعیات کے اصلی خالق کا سراغ لگا کر بہت سارے شکوک و شبھات کو رفع کیا ہے.
اسکے بعد خیام فھمی اور بعدازاں “رباعیات فہمی” کا ایک سنہرا دور شروع ہوتا ہے جسمیں رباعیات کے مختلف منظوم و منثور تراجم کئے جاتے ہیں.ندوی اور آسی کی خیام کے حوالے سے علمی اور تحقیقی کاوشوں کے بعد ایک طویل ترین توقف کا دور نظر آتا ہے اگر چہ اس دور میں بھی بہت سارے تراجم منصہ شہور پہ جلوہ نمائی کرتے رہے لیکن علمی منظرنامے پہ کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکے.
موجودہ دور میں پروفیسر اخلاق احمد آھن کا خیام کے حوالے سے ایک اھم علمی اور باوقار تحقیقی کارنامہ “خیام شناسی” منظر شہود پہ اپنی بے پایاں تابانیوں کے ساتھ آیا.جسکی علمی اور پژوہشی کشش نے ہر صاحب نظر کو اپنی طرف ملتفت کرلیا
*کرشمه دامن دل می کشد که جا اینجاست*
پروفیسر اخلاق آہن،قبیلہ لوح و قلم کی بہت معروف علمی اور ادبی شخصیت ہیں.تنقید و تحقیق کا وہ کارواں، جسے شبلی و سلیمان ندوی نے بالترتیب آگے بڑھایا تھا اور جو معاصر عہد تک آتے آتے انجماد و انحطاط کا شکار ہوچلاتھا،اسے عہد حاضر میں پروفیسر اخلاق احمد جیسا آھنی عزم کا ساربان ملا جسے موصوف نے اپنی علمی نظر اور خلاقانہ بصیرت سے ایک نئے آھنگ و ساز عطا کیا.پروفیسر صاحب کی شخصیت فارسی ادب،تنقید و انتقاد، ترجمہ و تحقیق،اور شعری نقطہ نظر سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے.
زیر نظر کتاب خیام شناسی، در اصل گم شدہ بضاعت کی بازیافت کا نام ہے.یہ تحقیقی ارمغان ایک ایسا معطر گلدستہ ہے جسمیں گوناگوں رنگ و بو اور مختلف گل و بوٹے نظر نواز ہوتے ہیں.یہ پروفیسر صاحب کی عرق ریزی اور جانفشانی کا کمال ہے کہ متقدمین کے وہ نایاب مضامین جو ملک کی مختلف لائبریریوں کی کتب کے طومار میں تقریبا دبیز گرد کا حصہ ہی بنا چاھتے تھے انہیں ڈھونڈھ نکالا اور ادب پسند صاحبان مطالعہ کے کام و دھن کی تسکین کا سامان بہم کردیا.
زیر مطالعہ کتاب، تفحص و تحقیق کا ایک شاھکار نمونہ ہے.اس کا سرورق انتہائی خوبصورت مصوری سے عبارت ہے.پروفیسر اخلاق صاحب نے اسے اپنے نانا مرحوم عبدالرحمن الہ آبادی کے نام منتسب و معنون کیا ہے.کتاب خیام شناسی کی ابتدا،مرتب کے پرمغز مقدمے سے ہوتی ہے.انھوں نے مغرب میں خیام شناسی کے حوالے سے کافی اھم معلومات بہم پہونچائی ہیں.اسکے بعد ہندستانی محققین و ناقدین کی خیام فہمی کے حوالے سے گفتگو کو آگے بڑھایا ہے.رباعیات خیام کے قدیم خطی نسخوں کا تفصیلی جائزہ بھی اس مقدمہ کا ایک اہم حصہ ہے.رباعیات خیام کی تعداد کے حوالے سے محققین کے مابین جو اختلاف نظر ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،موصوف نے اس نقطہ نگاہ سے بھی بعض افادات کا اضافہ فرمایا ہے.
پروفیسر صاحب نے اردو میں خیام کے متعلق چار اہم تحریروں کا ذکر کیا ہے جسے وہ خیام شناسی کے “ڈھانچہ” سے تعبیر کرتے ہیں.اسمیں علامہ شبلی اور علامہ سلیمان ندوی کی دو تحریریں بہت شہرت کی حامل ہیں.اول الذکر تحریر کی شھرت اور ثانی الذکر کی ضخامت کے پیش نظر،مرتب نے اسے شامل کتاب نہیں کیا ہے.لیکن بقیہ دو تحریروں میں ابوالنصر آہ دہلوی کی تحریر “الخیام” غالبا نادر و نایاب کا حکم رکھتی تھی.کتاب مذکور میں اسکی موجودگی،پروفیسر صاحب کی تلاش بسیار کا نتیجہ ہے.چوتھی تحریر جو علامہ عبدالباری آسی کی کتاب “رباعیات خیام پر تحقیقی نظر”  ہے،اس پہ اگر چہ نایابی کا اطلاق درست نہیں لیکن یہ “نادر” کا حکم ضرور رکھتی ہے.مذکورہ چار اساسی تحریروں میں سے دو بنیادی خاص تحریروں کا سراغ لگا کر اہل نظر کے سامنے پیش کردینا یقینا مرتب کا اھم اور یادگار کارنامہ ہے.ورنہ شاید گردش حوادث،ان تحریروں کو بھی طاق نسیاں سے اڑا کر آغوش فنا کی قبر میں دفن کردیتی.
کتاب خیام شناسی،چودہ مضامین پہ مشتمل ہے.اس میں شامل ہر مقالہ انتہائی اھمیت کا حامل ہے.یہ تنقیدی،تحقیقی،فکری اور تفہیمی مقالے چار مختلف ابواب(الف:تعارف و تنقید.ب:تحقیق و تفحص.ج:فکر و فلسفہ.د:ترجمہ و تفھیم.) میں تقسیم کئے گئے ہیں. فاضل مرتب نے تمام مشمولہ مضامین کی جدید کاری میں املا کو موجودہ روش کے مطابق کرنے کےساتھ،مبھم اور مغلق موارد پہ مفید اور نہایت فاضلانہ تحشیہ و تخریج کا اہتمام بھی کیا ہے.تاکہ تحقیق پسند افراد منابع و مآخذ کی عدم دستیابی کے باوجود بھی تشکیک کا شکار نہ رہیں بلکہ ایک طرح سے علمی سیرآبی کا احساس بھی پیدا ہوجائے.
آخر کتاب میں، پروفیسر اخلاق احمد آھن صاحب نے دو مزید ناگزیر اور ضروری ابواب (1)انتخاب و ترجمہ اور (2) تعارف کا اضافہ کیا ہے.انتخاب و ترجمہ کا باب نہایت ہی اہم اضافہ ہے.اس میں مرتب نے بعض منتخب رباعیات کا ترجمہ پیش کیا ہے جس سے انکے ادبی ذوق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.ترجمے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کو اصل متن سے قریب کرنے اور حاصل خیز مطالب و مفاھیم کی برآری کی غرض سے لفظی ترجمہ کے بجائے “مرادی ترجمے” کو اولویت اور اولیت دی ہے.تاکہ شاعر کے احساساتی ادراکات کی تفہیم ایک نئے اور بہتر انداز میں کی جاسکے.اس ذیل میں،مندرجہ ذیل رباعی مع ترجمہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے.
آورد به اضطرابم اول به وجود
جز حیرتم از حیات،چیزی نفزود
رفتیم، به اکراه، ندانیم چه بود
زین آمدن و بودن ورفتن مقصود
(پہلے اس نے مجھ میں اضطراب پیدا کیا اور پوری زندگی میں حیرت کے سوا کچھ اضافہ نہ کیا.یہاں سے مجبوری میں لے جائے گئے اور کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ یہاں آنے،رہنے اور جانے کا مقصد کیا تھا)
مذکورہ بالا رباعی کے کئی ترجمے پیش نظر ہیں لیکن مذکورہ ترجمےمیں، پروفیسر صاحب نے “رفتیم” کے ترجمے “لے جائے گئے” سے جو لطیف پہلو اجاگر کیا ہے شاید وہ “ہم گئے” سے کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا. یہ تر جمہ جہاں کئی لطافت کا پہلو لئے ہے وہیں خیام کے فلسفہ جبر کے معارف کو بھی بیان کرتا ہے.اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پروفیسر صاحب نے خیام کے جملہ فلسفیانہ زاویہ فکر کا کس درجہ تفحص اور ژرف نگاہی سے مطالعہ کیا ہے. اگر پروفیسر صاحب الگ سے خیام کی دیگر رباعیات کا ترجمہ بھی شایع  فرمادیں تو شاید رباعیات فہمی کا ایک الگ باب وا ہو سکتا ہے.
آخری باب میں، مرتب نے کتاب میں شامل مقالہ نگار حضرات کا جامعیت اور اختصار کے ساتھ تعارف پیش کیا ہے.مقالے کی تفہیم کا کچھ دار و مدار، بہرحال مصنف کے تعارف پہ بھی ہوتا ہے.اس حوالے سے یہ باب نہایت ہی اھم ہے.مجموعی طور پہ کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر اخلاق آھن کی کتاب “خیام شناسی” نے فارسی ادب میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا ہے.اس کتاب کی جامعیت و مانعیت، مرتب کی علمی اور تحقیقی صلاحیت پہ دلالت کرتی ہے.حق بات یہ ہے کہ “شبلی” و “سلیمان” اور “آسی” کے بعد، خیام شناسی کے حوالے سے پروفیسر “اخلاق آھن” کا نام نہایت ہی اعتبار کا حامل ہے…
ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی جے این یو.نئی دھلی
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here