Thursday, April 25, 2024
spot_img

خوف

مصباحی ؔ شبیر

اسکول سے آتے ہی مہوش بغیر کچھ کھائے پیئے سیدھے اپنے کمرے میں سونے کیلئے چلی گئی تو دادی کو اس کی فکر ستانے لگی ۔مہوش کے کمرے میں جا کر اس سے پوچھنے لگی کہ بیٹی کیا بات ہے آج تو کچھ سہمی سہمی ہے ،اسکول میں کسی نے کچھ کہا تو نہیں یا تیری طبیعت خراب ہے ؟ نہیں دادی ایسا کچھ بھی نہیں ہے نہ مجھے اسکول میں کسی نے کچھ کہا ہے اور نہ میری طبیعت خراب ہے۔ آپ جائیے اور اپنے کمرے میں جاکر آرام کریں جب چار بجے نازش آجائے گئی تو میں جاگ جائوں گی اور اس کے ساتھ کھانا کھا لوں گئی ۔ چلو یہ بھی ٹھیک ہے کہتے ہوئے دادی وہاں سے نکلی ۔مہوش کی ماں بھی یہ سن کر اپنے کام میں مشغول ہوگئی اور دادی جاکے سونے لگی ۔ ابھی ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ مہوش کے کمرے سے آوازیں آنے لگیں دادی ،دادی،امی ،امی ،یہ سنا تھا کہ دادی کچی نیند میں ہی مہوش کے کمرے کی جانب دوڑی تو مہوش کی ماں تو بے چینی کے عالم میں گرتے پڑتے اس کے کمرے میں پہنچی۔ کیا ہوا بیٹی ؟ کیا ہوا ؟ بتائو اپنی دادی کو ،کیا کوئی برا سپنا دیکھا ؟ مگر مہوش تھی کہ بغیر کچھ بولے صرف پھٹی ،پھٹی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی اور کانپ رہی تھی ۔ جب بہت دیر بعدبھی اس کی حالت میں کوئی فرق نہیںآیا تو مہوش کی امی نے فون کرکے مہوش کے باپ اور بھائی کو بھی اس کی اطلاع دی یہ سن وہ بھی اپنا کاروبار بند کرکے سیدھا گھر پہنچے ۔ مہوش کی حالت میں کچھ فرق آیا تو بتانے لگی کہ’’ اس نے ایک سپنا دیکھا کہ کچھ لوگ اسے پکڑ کر زبردستی ایک گاڑی میں لے جارہیں ہیں ‘‘اور کچھ نہیں ہوا۔’’نہیں،نہیں بیٹا آج تم جب اسکول سے آئی تو کچھ سہمی سہمی تھی بتائو کیا ہوا تھا ضرور کوئی بات ہے جو ہم سے چھپا رہی ہے ؟‘‘دادی اب پریشان ہوئے جارہی تھی۔’’ نہیں دادی ایسی کوئی بات نہیں ہے آج وہ اسکول میں لائبریری گئی تھی تووہاں اخبار میں ننھی آصفہ کی فوٹو دیکھی تھی ،رپورٹ پڑھی تودیکھا کہ درندوں نے سات دن اسے بغیر کچھ کھانے پینے دئیے صرف نشہ آوا ر دوائیاں دے کر اس کے ساتھ درندگی کی ،کیا گزری ہوگی اس نازک بچی پر ۔بس یہ سب پڑھ کر میرااور میری سہلیوں میں خوف سا چھا گیا اور میرا تو اس دنیا سے دل اُچاٹ ہوگیا میری طبیعت اداس ہوگئی کہ اس دنیا میں ایسے بے رحم لوگ بھی موجود ہیں جو ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ایسی درندگی کرتے ہیں ،اور تو دادی ان میں سے ایک شخص خود کی بھی اتنی ہی بڑی بیٹی ہے بس یہ سب دیکھ مجھے آج کچھ کھانے پینے کا من نہیں کر رہا تھا ،میں تھوڑی دیر آرام کرکے اپنے من کو شانت کرنا چاہتی تھی ،لیکن ابھی سوئی ہی تھی کہ مجھے یہ ڈراونا سپنا آیا‘‘ ۔’’ یہ سب اس ماحول کی پیداوار ہے بیٹی تو نے اسے ذہن میں لیا ہے تو یہ سب ہوا ہے ، اب آرام کرو اور کچھ کھا پی لو ‘‘مہوش کا باپ اسے اپنی پدرانہ شفقت کے ساتھ سمجھا رہا تھا ۔سب کمرے سے باہر نکلے تو اور معاملے کو ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے۔لیکن مہوش کی دادی کہاں ماننے والی تھی اُلٹا مہوش کے باپ پر برس پڑی’’ یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے نسیم میں نے تو اسی وقت کہا تھاجب دہلی میں نربیھا کے ساتھ درندگی ہوئی تھی کہ اب بچیوں کو گھر میں ہی پڑھائو ، لیکن میری بات تو کون مانتا ہے گھر میں ارے عقل کے دشمنو : میں پڑھی لکھی تو زیادہ نہیں ہوں مگر تجربہ تو ہے مجھے اب وقت بچیوں کو گھر سے باہر بھیجنے کا نہیں ہے چاہے کہ وہ تعلیم کے لئے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ سماج میں صرف انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے انسانیت کا کہیں نام ونشان نہیں ہے ،لوگ دندوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں ‘‘ماں کی باتوں کو بیچ میں کاٹتے ہوئے مہوش کا باپ بول اُٹھا کہ’’ ماں اب مہربانی کرکے خاموش بھی ہوجائو ہمارے ملک میں قانون ہے ،یہاںہماری بچیوں کی حفاظت کے لئے پولیس ہے ‘‘’’ ارے تو چپ کر‘‘ دادی پھر شروع ہوگئی ’’تو کس عدالت کی بات کر رہاہے جہاں انصاف کیلئے لوگ ترستے ہیں ،جہاں انصاف ملنے تک مجرم بھی مر جاتا ہے اور جہاں کبھی کبھی بغیر کسی انصاف کے مجرم آزادنہ گھومتے ہیں ۔ اور جس پولیس کی تو بات کرتا ہے تو نے سنا نہیں وہ کٹھوعہ والے ریپ میں تو پولیس والا بھی شامل تھا اور بعد میں پولیس نے کیا کردار نبھا یا ‘‘
’’ماں توآپ کیا چاہتی ہیں کہ ہماری بچیاں پڑھنے نہ جائیں یہی گھر میں بیٹھی رہیں ‘‘ مہوش کاباپ ماں کواپنی بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔’’تو کیا ہوا تھوڑا کم ہی صحیح گھر میں کم ازکم ہماری بچیاں محفوظ تو ہیں ‘‘دادی اپنی باتوں کو پورے اطمینان کے ساتھ رکھ رہی تھی ۔
’’ماں آپ بس ایسی باتوں پر زیادہ توجہ مت دیں ایسے واقعات تو چیدہ چیدہ ہوتے ہیں جو کہیں کہیں درندہ صفت انسان انجام دیتے ہیں اور ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہی ہے ‘‘۔ اب کی دادی بہت ہی مایوسانہ انداز میں بولی ’’بیٹا شاید تم مجھے بے قوف سمجھ رہے ہو ایسے افراد کی تعداد کم کہاں ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے ابھی دیکھو نا کہ آصفہ کا کیس چل رہا تھا تو اسی دوران گجرات و جھارکھنڈ و اترپردیش سے بھی ایسی خبریں آرہی تھی کہ وہاں بھی کہیں بچیوں کا ریپ ہوا ہے اور تو اور ابھی جموں میں تمہیں دیکھائی نہیں دیا کہ کچھ لوگ ایسے لوگوں کی بھی حمایت کرنے نکلے جو ایک بچی کے ساتھ درندگی کئے تھے ،اور حیرت تو اس وقت ہوئی جب قانون کے کچھ رکھوالے یعنی وکیل بھی ان لوگوں کی حمایت میں اُترے ۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے مجھے تو لگتا ہے کہ ایسی تعلیم سے ہماری بچیوں کا کوئی بھلا کرنے ہونے والا نہیں ہے جو ہماری بچیوں کی عزت و جان کو خطرہ میں ڈال کر حاصل کرنی پڑیاور ہمیں بھی کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ، اور بیٹا تو کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں اب تواکثر پولیس والے بھی ان واقعات میں شریک ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جن خود کے گھروں میں بچیاں ہیں اور نابالغ بچے بھی ان میں شامل ہیں مجھے تو لگتا ہے کہ پوری انسانیت مر گئی ہے اور صرف دندے ہی دندے ہر جانب گھوم رہیں ایسے اپنی بچیوں کو ان سے محفوظ رکھنا ہمارے لئے

بہت مشکل ہے ،بس یہی ایک صورت بچتی ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو گھروں میں ہی تعلیم دیں ،باقی آپ کی مرضی آپ خود ایک سمجھ دار باپ بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراس کارگل جموں وکشمیر

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular