Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldخوش خوراک شاعر

خوش خوراک شاعر

عزادارحسین ساجدؔ جلالپوری

ہمارے اس عنوان سے کوئی صاحب ہر گز یہ نتیجہ نہ اخذ کریں کہ ہم شعرائے کرام کو پیٹو جیسی مخلوق بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔چونکہ روٹی ،کپڑا اور مکان انسان کی تین اہم ضرورتوں میں روٹی کی سب سے زیادہ اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ انسان نے جس وقت زمین پر قدم رکھا تو کھانے کی تلاش میں حیران و سر گرداں رہنے لگا ۔ کھیتی باڑی کا ہنر نہیں معلوم تھا تو آس پاس کے جانوروں کو شکار کر کے کچا ہی چبانے لگا ۔قدیم پتھر کے زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ اس کا مشاہدہ آج بھی کر سکتے ہیں کہ جب کوئی انسان کسی پر بہت زیادہ خفا ہوتا ہے تو غصہ میں آکر کہتا ہے میں تمہیں کچا چبا جائوں گا ۔ کیوں کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی۔
ویسے اب تک کی تحقیق کی مطابق اناج کے سب سے بڑے دشمن خود حضرت انسان ہیں۔ اس کے بعد چوہے وغیرہ آتے ہیں ۔ شاید اسی لئے سائنس دانوں نے تحقیق و تجربے کے سارے دروازے چوہوں کے لئے ہی کھولے ہیں کیوں کہ اناج کے معاملہ میں ان کے حریف و مقابل جو ٹھہرے۔اس لئے تجربہ گاہوں میں چیڑ پھاڑ ،اور پوسٹ مارٹم سے سب سے زیادہ آفت چوہوں پر ہی آئی ۔ تاکہ ان کی آبادی کم ہواور انسان اناج کی کمی کا شکار نہ ہو اور بھوک سے نہ مرے ۔
لیکن پھر یہ بات کہ شاعروں کا کھانے سے کیا خصوصی تعلق ہے ۔پوری دنیا کھانے کی لذتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے تو شعرائے کرام بھی اس کا ذائقہ لے رہے ہیں ۔اس میں کو ن سی نئی بات ہے لیکن شاعروں کے معلق کچھ نہ کچھ بات تو ہے ہی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ محترم شعرائے کرام اتنی محنتیں کرتے ہیں ،دماغی ورزشیں کرتے ہیں ،تو تھکان کا احساس ہوگا ہی ۔ بھوک پیاس زیادہ لگے گی۔اس لئے یہ مختلف قسم کے خمیرے،ٹانکیں ، معجون ، دماغین ، حیاتین ، خواتین استعمال میں لاتے رہتے ہیں ۔ بعض شعراء تو اس میں نئے نئے تجربے کر کے خود حکیم بھی بن جاتے ہیں اور بعض ترقی کرکے حکیم الامت تک پہونچ جاتے ہیں ۔
عام طور سے لوگ شاعروںسے کچھ نہ کچھ لکھنے کی فرمائش کرتے رہتے ہیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شعراء بے وقوف ہیں جو مفت میں بغیر کسی توقف کے(نان اسٹاپ)لکھنے کے لئے وقف ہیں ۔ کوئی بھی قوم شاعروں کی قوم کو دھوکا نہیں دے سکتی ۔ اگر یہ کسی کی فرمائش پوری کرنے کے لئے اپنے دماغ کا تیل نکالتے ہیں تو اس سے زیادہ فرمائش کرنے والے کے یہاں تیل مسالہ لگوا کر کھانا کھا لیتے ہیں ۔ خسارے کا سودا نہیں کرتے ۔ آخر پر مغز جو ٹھہرے ۔ اگر اپنا بھیجہ (دماغ)خرچ کریں گے تو میزبان سے بھیجہ منگوا کر کھا لیں گے۔شعر لکھنے کی خاطر خون جگر صرف کریں گے تو اس کی خانہ پری کے لئے کلیجی کی فرمائش کر دیں گے ۔ لیل و نہار مطالعہ میں غرق رہتے ہیں تو صبح نہار منھ اٹھ کر کلچہ نہاری کا ناشتہ کر لیتے ہیں ۔ کوئی صاحب اس سے یہ نتیجہ نہ نکالیں کہ یہ شعراء کرام کھانے کے اتنے شوقین ہیں کہ گوشت کی دکان کھول کر بیٹھے ہیں ۔ یہ نہایت چالاک ہیں ۔خود دوکان نہ کھول کر دوسروں سے دوکان کھلواتے ہیں ۔جیسے پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ نے ’’ فسانۂ آزا د ‘‘میں اپنے ایک کردار سے کلیجی کی دوکان کھلوائی تھی۔
اگر قدیم زمانے کے خطاط چاول کے دانے پر ’’ سورۂ قل ہواﷲ‘‘ اپنی فنکاری سے رقم کر دیتے تھے تو ہمارے یہ شعراء بھی ان سے کچھ کم نہیں ۔ یہ چاول کے ایک ایک دانے اور بوٹی کے ایک ایک ریشے کا ذائقہ بتا سکتے ہیں ۔ اتنے باریک بین ہوتے ہیں کہ دانے دانے پر ان کے کھانے والوں کا نام بغیر کسی دوربین کے پڑھ لیتے ہیں۔ ان کے یہاں دعوت لینے کی وہ کلا اور آرٹ ہے کہ جیسے جادو گر عوام کو نظر بند کر کے کھیل دکھانے کے بعد آسانی سے اپنا پیسہ وصول لیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ جس کو چاہیں آسانی سے میزبان بنا کر دعوت کھا لیں ۔ شادی بیاہ ، ختنہ ، عقیقہ ، ولیمہ ہی نہیں فاتحہ، چہلم میں بھی آسانی سے دعوت کھا سکتے ہیں اتنے بڑے فنکار ہیں ۔ ایک عام آدمی سے پوچھو کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا تو ایک سانس میں دفن ،کفن ، منکر نکیر ، حشر نشر ، میزان ، صراط ، جنت ، جہنم ، سب گنا ڈالے گا لیکن اگر یہی سوال شاعر سے پوچھیں تو بلا جھجھک یہی کہے گا ۔
؎ بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہو گا ۔ پلائو کھائیں گے احباب،فاتحہ ہو گا
عام طور سے لوگوں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ یہ شعراء اپنے غریب خانے پر کسی کو مدعو نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو غریب بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ چونکہ یہ چالاک قسم کی مخلوق ہے یہ سب جھمیلے اپنے یہاں کیو ں پالیں ۔ اپنی بیوی کو کیوں زحمت دیں ۔ جب دوسروں کے یہاں وہی نعمت ،عزت اور خدمت مفت حاصل ہوجائے۔
ایک شاعر کے متعلق ملتا ہے انہوں نے صرف گھاٹ گھاٹ کا پانی ہی نہیں پیا ہے بلکہ کھاٹ کھاٹ اور ٹاٹ ٹاٹ پر وہ ٹھاٹ باٹ سے کھایا ہے کہ وہ دستر خوان پر سجے مختلف پکوان کو ایک نظر دیکھ کر ہی اس کا ذائقہ ایسے بتا دیتے ہیں جیسے قدیم حکیم نبض پر ہاتھ رکھتے ہی صرف مریض کی بیماری ہی نہیں بلکہ کیا کھانا کھا کرآئے ہیںبتا دیا کرتے تھے ۔ یا اس دور جدید کے بعض نگاہ باز عشاق حسینوں پر ایک نظر ڈالتے ہی اس کی تاریخ و جغرافیہ زبانی بتا دیتے ہیں ۔
’’ مان نہ مان میں تیرا مہمان ‘‘ محاورہ کا سو فیصدی استعمال ہی نہیں اس کی جان نکال لیتے ہیں ۔ جب مشاعروں سے فارغ ہوئے کافی دن گذر جاتا ہے گھر کا کھانا نوش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں ۔گھر کی مرغی بھی دال لگنے لگتی ہے تو کسی میزبان مہربان کے یہاں پہونچ جاتے ہیں دروازے پر دستک دے کر فرضی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کافی دن ہو گیا تھا ۔بڑی شدت سے نہ صرف آپ کی یاد آ رہی تھی بلکہ برابر ہچکیوں کی ’’ مس کال ‘‘ آ رہی تھی تو سوچا آج ہی آپ سے ملاقات کرتے ہیں ۔ پھر مہمان کی خدمت کے اتنے فضائل قرآن اور اپنے دیوان کی روشنی میں گنا ڈالتے ہیں کہ سامنے والا چوندھیا جائے۔ اور میزبانی کے لئے آمادہ ہو جائے ۔ جس طرح بعض شاطر اور چالاک سامانوں کی خرید و فروخت میں تب تک مول بھائو کرتے ہیں جب تک ماتھے پر پسینہ نہ آ جائے یا اچانک کوئی حسینہ نہ آ جائے ۔ اسی طرز پر یہ تب تک فضائل سنائیں گے جب تک وہ مہمان بنانے پر راضی نہ ہو جائے ۔پھر آگے کا وہ عالم کہ مہمان ، میز بان اور دسترخوان تینوں ایک ساتھ ہو جاتے ہیں ۔ مال مفت دل بے رحم کا صحیح نظارہ کرنا ہو تو ان کو وقت طعام دکھ سکتے ہیں ۔ کچھ شعراء تو دوسروں کے دسترخوان پر اتنا’’ بے دریغ‘‘ ٹوٹتے ہیں کہ درمیان سے حرف ’’ر‘‘ نکل جاتا ہے ۔ اور ان کا شکم مبارک مثل دیغ(دیگ) بن جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک شاعر ایم اسلامؔ کا شکم دوسروں کی دعوتیں اڑاتے ہوئے اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ ان کے کرسی پر بیٹھ کر کلام سنانے کی تصویر کسی منچلے نے واٹس ایپ پر لوڈ کردی۔ اور اس کے نیچے لکھا کہ’’ اسلام پھیل رہاہے ‘‘ اب ظاہر سی بات ہے کہ ان کی اس خوش خوراکی سے اسلام مذہب ایسے ہی پھیل گیا تو دعوت و تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑے گی ہاں مستقبل میں قوم بھکمری کے دہانے پر بھلے پہونچ جائے ۔چونکہ اﷲ نے پیٹ کو وہ گہرائی عطا کی ہے کہ آپ تا قیامت کھاتے رہیںیہ جہنم کبھی نہیں بھرے گا اگر ایک ایک شاعر ہی نہیں ایک ایک انسان کی زندگی بھر کی خوراک کو ’’ دھرم کانٹا‘ ‘ میں تولا جائے تو کئی بیگھا گیہوں ،چاول ، سبزی کی فصل غرق شکم ملے گی ۔ساتھ میں سیکڑوں مرغیاں ،ہزاروں پرندے ،پچاسوں بکرے ، دنبے، بھیڑیں ا ور کئی بھینسیں بھی اس پیٹ کے چلتے پھرتے قبرستان میں دفن ملیں گی۔
مستند خوش خوراکوں کا قول ہے کہ آداب دسترخوان و طعام کا عرفان حاصل کرنا ہو تو شاعروں کی صحبت و شاگردی اختیار کریں ۔تعریفیں کر کے کھانے کا ہنر سیکھنا ہو تو شاعروں سے سیکھں ۔ جس طرح یہ اپنی شاعری میں خیالات کو تل کے ذریعہ تاڑ بنا ڈالتے ہیں ۔ غیر موجود شے کو وجود بخش دیتے ہیں ۔چونکہ یہ تخلیق کار ہیں ۔ان کا قول ہے کہ خدا صرف بندوں کا خالق ہے بقیہ چیزوں کی تخلیق ہم خود کرلیتے ہیں ۔ کسی بھی چیز پر ان سے شعر یا نظم لکھنے کی فرمائش کر دو یہ فوراً لکھ دیں گے ْاردو ادب میں آپ کو بے پناہ نظمیں مل جائیں گی جس میں شعرائے کرام نے کھانے کی ایک ایک چیز کو بڑے پر لطف انداز میں بیان کیا ہے ۔ روٹی، نان ، شیرمال، کباب ، گوشت، مٹن ، چکن ، مرغ مسلم سب پر نظمیں مل جائیں گی یہاں تک کہ کھانے سے فراغت کے بعد چائے پان ، حقہ، سگریٹ ، کا دور چلتا ہے تو اس پر بھی اشعار مل جائیں گے۔
ایک شاعر محترم کو دوسروں کے دسترخوان پر نعمتیں چننے کا اتنا طویل تجربہ ہو گیا ہے کہ وہ پر لطف کھانوں کے اقسام کو اتنی تیز گناتے ہیںکہ جیسے کسی ہوٹل کے تجربہ کار و مشاق ویٹر،کھانے کی ’’ ڈش‘‘ کو دماغی ریموٹ سے اتنی تیز بدلتے ہیں کہ جیسے’’ ڈش انٹینا ‘‘ پر چینل۔
(جاری)
سنا ہے کہ ان کا گلا ارادہ ایک بہترین قسم کی ہوٹل کھولنے کا ہے اسی بہانے وہ دوسرے شعراء کی ضیافت بھی کریں گے۔اورمشاعروں کی دنیا سے رٹائرمنٹ کے بعد اس میں رنگا رنگ کھانوں سے مستفید بھی ہوں گے ۔ اور مشاعروں کی قضا دعوتوں کو اس انداز سے بھی کفارہ سمجھ کر ادا کریں گے ۔ اور اگر کبھی اشعار سنانے کی تمنا دل میں بیدار ہو گی تو شعراء کو دعوت طعام و کلام دے کر مشاعرہ کا قیام بھی کر لیں گے۔
بعض شاعروں کی خوش خوراکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ایسے شاعروں سے میزبان بھی امان مانگتے ہیں ۔ ویسے شاعروں کو کھانے کے لئے کوئی خاص زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ۔ بس کسی کے مہمان بن جائیں تو ساری ذمہ داری میزبان کے سپرد۔اور وہ یہ شعر کہہ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ
؎ اب تمھارے حوالے چکن شاعرو۔ اب تمھارے حوالے مٹن شاعرو
معرکہ دست و دہن کے لئے پانی پت کا میدان نہیں بلکہ میزبان کا مکان اور دسترخوان چاہئے۔ اس میں شعرائے کرام ماہر تو ہیں ہی ۔ جیسے قرطاس و قلم کا معرکہ آسانی سے جیت لیتے ہیں ویسے یہ معرکہ بھی آسانی سے سر کر کے میزبان کو سر درد دے دیتے ہیں ۔ دعوتوں میں لگاتار مشغولیت و مصروفیت کی وجہ سے کبھی کبھی شاعروں کے اہل و عیال کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کیوں کہ ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ گھر میں کھانے کی شے موجود ہے یا نہیں ۔ جب پیٹ بھرا ہو تا ہے تو لگتا ہے کہ پوری دنیا ہی شکم سیر ہے کیوں کہ۔۔
؎ جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے جب جیب میں پیسے ہوتے ہیں۔ہر قطرہ شبنم لگتا ہے ہر ذرہ ہیرا لگتا ہے
شاعروں کو دنیا کی تمام مخلوق سے محبت ہے انسان ،حیوان ، چرند ، پرند سے خصوصی محبت ہے ۔پرندوں میںانہیں بٹیروں سے دشمنی کی حد تک محبت ہے ۔ ان کے گوشت سے لذت اٹھاتے ہوئے تمام محاورے بھی اس پر بنا ڈالے۔آدھا تیتر آدھا بٹیر، بٹیر لڑانا ، اندھے کے ہاتھ بٹیر لگناوغیرہ۔
ہماری ان باتوں سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ شاعر پرندوں کے دشمن ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی ان کا دل پرندوں کی حالت دیکھ کر پسیج جاتا ہے ان پر رحم آ جاتا ہے جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ۔۔
؎ ایک لقمے کے لئے میں نے جسے مارا تھا ۔ وہ پرندہ بھی کئی روز کا بھوکا نکلا
شعرائے کرام چونکہ نام رکھنے میں ماہر ہوتے ہیں لہٰذا مختلف قسم کے کھانے جو ہم اپنے دستر خوان یا کھانوں کی دوکان پر دیکھتے ہیں یا ویٹروں سے آرڈر دینے پر سنتے ہیں یہ سب انہیں شاعروں اور ادیبوں کے کرشمے ہیں ۔ اسی لئے ملت بیضہ (انڈے کی قوم)، ملت مرغا، ملت دنبہ، ملت بکرا، حتیٰ کہ ملت بھینسا ان قوموں سے خصوصی طور پر پناہ مانگتی ہے ۔ کیوں کہ ان کی سب سے زیادہ نسل کشی اور استحصال اسی قبیلے نے کیا ہے ۔ عام طور سے لوگوں کو مرغ حلال کے مسئلے بتاتے ہیں لیکن خود پر نافذ نہیں کرتے اسی لئے ایک مرغی نے اپنے قبیلے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملائوں اور شاعروں سے ہوشیار رہنا ۔ ان کی گرفت میں نہ آنا ۔یہ تو مری مرغی بھی حلال کر کے کھا جاتے ہیں ۔
ایک بار ایک مرغی کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ پیاری اماں انسانوں کے بچوں کی طرح ہم لوگو ں کا نام بھی پیدائش کے بعد کیوں نہیں رکھا جاتا تو مرغی نے آہ سرد کھینچی اور کہا پیارے بیٹے تمھارا نام رکھنے والے شاعروں نے ہمارے قبیلے میں یہ رسم قائم کی ہے کہ تمھارا نام مرنے کے بعد تمھاری حالت ،لذت ، دعوت اور کیفیت دیکھ کر رکھا جاتا ہے جیسے چکن فرائی ، چکن کڑاہی ، چکن تندوری، چکن چلی ، چکن تکہ، چکن سوپ، چکن روسٹیڈ،چکن کریم ، چکن ڈریم ، چکن رول ، چکن رائس ، چکن فحم ،المعروف چکن کوئلہ ، مرغ مسلم ، وغیرہ اس لئے تمہیںاپنا نام پانے کے لئے جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور شاعروں کے پیٹ میں جانے سے پہلے سالن کے دریا میں اسی طرح ڈوبنا پڑے گا جس طرح یہ شعراء ایک عدد محبوبہ پانے کے لئے آگ کے دریا میں ڈوب کر جاتے ہیں ۔
مرغ مسلّم کی شعراء کے درمیان وہ مقبولیت ہے کہ مسلم ہی نہیں غیر مسلم شعراء بھی بڑی شدت سے مسلّم کی تشدید ہٹا کر مرغ مسلم سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔
آپ نے حضرت فراق ؔ گورکھپوری کا واقعہ سنا ہو گا کہ ایک مشاعرے میں ان کے مذہبی احترام میں میزبان نے گوشت کا انتطام نہیں کیا تھا جب دسترخوان سجا تو انہوں نے ایک طائرانہ نگاہ ڈال کر فرمایا ۔ بھائی کئی دن ہو گیا ہے مرغ مسلم نصیب نہیں ہوا ۔ کہیں سے فوراً بندوبست کرو ۔ہاں اگر وہ نہ ملے تو بھینسے کا ہی لائو ۔ کئی دن سے سبزی دال کھاتے کھاتے بے حال ہو گیا ہوں ۔
کسی بھی کام کو کرنے کے لئے ہر وقت ذہن آمادہ نہیں رہتا۔کتنا ہی عظیم شاعر کیوں نہ ہو۔چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت شعر موزوں نہیں کرتا بلکہ شعر گوئی کے لئے طبیعت کو آمادہ کرنا پڑتا ہے ویسے ہی کھانا کھانے کے لئے بھی طبیعت کو گرم کرنا پڑتا ہے جیسا کہ سوداؔ صاحب نے میر صاحب کے لئے ایک جگہ فرمایا۔۔
؎ بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کرکے میرؔ۔ کچھ شیر مال ،قورمہ، کچھ نان کچھ پنیر
کوئی شاعر اس سے یہ نتیجہ نہ نکالیں کہ میرؔ صاحب خوش خوراک تھے بلکہ وہ نہایت صابر و شاکر قناعت پسند انسان تھے چونکہ حضرت سوداؔ اور حضرت میرؔ کے درمیان اتنی محبت اور شاعرانہ چشمک تھی کہ شاعروں سے بھری دلّی میں جس وقت میرؔ صاحب کی نظر میں صرف پونے تین شاعر تھے انہوں نے سوداؔ کو آدھا ،پونہ نہیں بلکہ پورا شاعر تسلیم کیا تھا ۔ اس لئے محبت میں انہوں نے یہ شعر کہا۔
اردو ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بڑے بڑے شاعر و ادیب گذرے ہیں جو نہایت خوش خوراک ثابت ہوئے ہیں ۔ پہلوان سخن کے ساتھ پہلوان بدن بھی ہیں ۔ حضرت ناسخ ؔ کا نسخہ خط نسخ و خط نستعلیق میں لکھ لکھ کر ان کے شاگردان ابھی تک سینے سے لگا کر نسل در نسل منتقل کر رہے ہیں ۔ بعض شاعروں نے تو ان کا نسخہ قدیم سمجھ کر منسوخ کر دیا اور خوش خوراکی کا اپنا الگ نسخہ رائج کر دیا ۔
ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض شاعروں کی اولادوں نے جو ان کی علمی وراثت کو نہیں سنبھال پائے ان کی کتابوں کو بیچ کر کھانے کی دوکان میں تبدیل کر دیا ہے تاکہ والد مرحوم کی روح اسی بہانے سرشار رہے اور ثواب جاریہ و کباب جاریہ کا سلسلہ قائم رہے۔
بعض شاعروں کی یادداشت اور حافظہ کا وہ عالم ہے کہ برسوں پہلے پڑھے گئے مشاعرے کے لفافے کی موٹائی ، شیر مال کی گولائی اور چاولوں کی لمبائی تک دماغی کمپیوٹر میں محفوظ رکھتے ہیں ۔ اسی بنیاد پر ایک شاعر کا یہاں تک دعویٰ ہے کہ اگر ’’ صفر’’ (zero)کی دریافت ’’ آریہ بھٹ‘‘ نے کی ہے تو ابجد ھوز کے حرف ’’ الف‘‘ اور ایک عدد کی کھوج بھی ایک قدیم شاعر نے چاولوں کی لمبائی کو دیکھ کر کی ہے ۔ یعنی ریاضی اور علم حروف کا سہرا بھی شاعروں کے سر بندھتا ہے ۔
حکومت کی گوشت بندی اسکیم سے جہاں سڑکوں پر آوارہ جانوروں کی دھما چوکڑی بڑھی ہے۔ ایکسیڈنٹ میں اضافہ ہو ا ہے ۔ اس سے شاعروں کو بھی فکر لاحق ہو گئی ہے ان کا قول ہے کہ پہلے یہ جانور خود اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچا رہے تھے غریبوں کا پیٹ بھر رہے تھے اب یہ خود دوسروں کی جان لے رہے ہیں ۔
ابھی ہمارے دیش میں بھوک سے مرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ایسی حالت میں بعض لوگ شاعروں کو وزیر خوراک بنانے کے لئے مشورے بھی دینے لگے ہیں ۔ ان کی دلیل ہے کہ ان کے منتری رہتے ہوئے عوام کو قحط و خشکی سالی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا نہ ہی بھوک سے مرنا پڑے گا کیونکہ اگر کوئی غذائی قلت کا شکار ہوا تو یہ اس کو اشعار سنا سنا کر اس کا پیٹ بھر دیں گے ۔
بہر حال ہم شعرائے کرام کو احترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ہمارے اس مضمون کا مقصد ہر گز نہیں کہ ہم دسترخوان سجا کر شاعروں کو للچائیں یا کسی کی رال ٹپکائیں ۔ کیوں کہ ان کے لئے تو جنت کا ابدی دسترخوان حوروغلمان سجائے ہوئے انتظار کر رہے ہیں۔ بہر حال ہمارے اس مضمون کے توسط سے اگر کسی کے منھ میں پانی آ جائے تو اس کا ثواب خوش خوراک شاعروں کو ایسے نذر کر دیں جیسے غالبؔ اپنے سفر حج کا نذر کرتے تھے۔
غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لیں چلیں ۔حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی

9415581432

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular