Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldخطیب العرفان مولانا مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی کی عارفانہ شاعری

خطیب العرفان مولانا مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی کی عارفانہ شاعری

 خورشیدؔرضا فتح پوری
مولانا مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی کو پرور دگارِ عالم نے گونا گوں خصوصیات سے نوازا ہے۔وہ بیک وقت ایک بڑے خطیب بھی ہیں اور نامور قادر کلام شاعر بھی اور فارسی زبان و ادب کے استاد بھی خاکسار نے بھی شیعہ ڈگری کالج( آرٹس) میں بی۔اے میںان سے فارسی پڑھی ہے۔بحیثیت مدرس وہ ایک مشفق استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کے ساتھ انتہائی محبت وخلوص رکھتے ہیں۔خطیب کی حیثیت سے وہ عصر حاضر کے صف اوّل کے مایہ ناز خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔انکا انداز بیان بہت دلکش ہے۔زبان شیریں جس میں سلاست و روانی ہے۔لہجہ موثر اور آواز میں مردانہ گھن گرج ہے۔انکی خطابت مومنین کے جذبات ولائے آل محمد کو ایسا ابھار دیتی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دریا ئے ولا ہے جو موجیں مار رہا ہے ۔وہ عقائد کے معاملے میںکوئی سمجھو تہ نہیں کرتے۔انداز بیان میںجرأت و بے باکی ،صداقت و راست گوئی ہے۔ مصلحت کو دخل نہیں۔ ساری دنیامیں مجلسیں پڑھنے کے لئے انھیں مدعو کیا جاتا ہے۔ مومنین انکی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں ۔وہ اس وقت دنیا کے عظیم خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
مرزا محمد اشفاق شوقؔ لکھنوی نے مر کز عزاء لکھنو ٔمیں آنکھ کھولی۔ انکی ولادت ۱۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۱ء؁ کو ہوئی۔ان کے والد محترم مولانا مرزا محمد طاہر صاحب قبلہ طاب ثراہ اپنے عہد کے معروف و مقبول عالم باعمل اور خطیب بے بدل تھے۔میرا پچپن تھا مگر مجھے یاد ہے کہ وہ جس مسجد میں بھی نماز پڑھاتے تھے۔بعد نماز وعظ ضرور دیاکرتے تھے، مسائل شریعہ بیان فرماتے تھے۔ عقائد و مسلمات کے محافظ  تھے ۔شوقؔ لکھنوی کے بڑے بھائی خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر صاحب قبلہ (سابق برنسپل شیعہ ڈگری کالج لکھنو اور صدر آل انڈیا شیعہ پرنسپل لا بورڈ)تھے۔اجنکی خطابت کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہاتھا۔اور۲۶؍فروری ۲۰۱۷؁ء کوانکے انتقال کے بعد سے جو تعزیتی مجالس و جلسوں کا سلسلہ چلا وہ ابھی تک قائم ہے۔ ان سے بڑے بھائی مولانا مرزا محمد جعفر صاحب کراچی پاکستان منتقل ہوگئے تھے ۔  ،اور پاکستان کی محترم شخصیتوں میں ان کا شمار ہوتاتھا۔
شوقؔ لکھنوی کے والد محترم مولانا محمد طاہر صاحب قبلہ طاب ثراہ اور سرکارصر الملّت آیتہ اللہ ناصر حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے قریبی دوستوں میں تھے۔ناصرالمّلت ان کی علمی صلاحیتوں کے اسقدر معترف تھے کہ انھیں ’’کنز مخفی‘‘ (چھپا ہوا خزانہ) کہا کرتے تھے۔وہ عقیدے کی منزل معراج پر تھے۔عقیدے کی یہ پختگی شوقؔ لکھنوی کو وراثت میں ملی ہے۔ انھوں نے مخالفین عزاداری ،مخالفین عقیدہ اور مقصّرِین کی کبھی پروا نہیںکی، کبھی مصلحت کوشی سے کلام نہیں لیا۔جیسا کہ انکے اشعار سے ظاہر ہے:۔
اے واعظِ کج فہم زرا سوچ سمجھ کے
لے جائے عبادت کونہ اظہارِ عبادت
بے حب علی ؑسوئے سقرلے چلے سجدے
جاتا ہے جہنم میں گرفتار عبادت
شوقؔ لکھنوی کی باکی اور جرأت مندی کا ثبوت میں رباعی ملاحظہ کیجئے:۔
وہ اور ہیں جو شہرمیں کم واقف ہیں
سب سن لیںکہ قرآں کی قسم واقف ہیں
کیا ہمکو فریب دینگے قبلہ کوئی
عمامے کے ہر بیچ سے ہم واقف ہیں
شوقؔ لکھنوی کا شمار لکھنؤ کے مایہ ناز شعرامیں ہوتا ہے۔وہ فن سے بخوبی واقف ہیں اور اصناف سخن پر قدرت رکھتے ہیں۔انہوں نے غزل، قصیدہ، سلام، منقبت، نوحہ ،مرثیہ، رباعی، نظم ،مسدّس ،مخمس وغیرہ وغیرہ سبھی اصناف میںشاعری کی ہے اور اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے۔ انکے کلام میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی ۔وضاحت بھی ہے بلاغت بھی جذبات کی شدّت بھی ہے، واقعہ نگاری بھی، تشبیہات واستعارات بھی ،معنی آفرینی بھی ،سوزو گداز بھی ،حقیقت و صداقت بھی ۔انکے کلام میں حقائق و معارف عقیدہ و عمل ،جو دت طبع،صنا وبدائع اور محاورات کا حسین استعمال ملتا ہے۔کم عمری سے شعر کہنے کی بنا پر انکے کلام میں پختگی پیدا ہوگئی ہے۔
اگر نعت گوئی کا ذکر کیا جائے۔جسکے بانی محسن اسلام حضرت ابوطالب ؑ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے رسولؐ اسلام کی شان میںنعت کہی ،ان کے بعد جناب حسّان بن ثابت، کعبؔ بن زبیر، ابو بصریؔ جیسے نعت گو شعرا ہوئے۔اصحاب رسولؐ میں بھی بہت سے نعت گو شعرا ہوئے اور یہ سلسلہ آگے پڑھتے ہوئے فردوسی،ؔ مولانا رومؔ ،شمسؔ تبریز ، سعدیؔشیرازی، حافظؔشیرازی، جامیؔ،خاقانیؔ، نظامیؔ معین الدین چشتی ؔسے ہوتے ہوئے امیرخسرو،ؔ میرؔمیرتقی میر،مرزااسداللہ خاں غالبؔ اور میرانیسؔ ومرزا دبیرؔ، ڈاکٹر محمد اقبالؔ اور جوشؔ ملیح آبادی تک پہنچا۔شوقؔ لکھنوی بھی اسی قبیل کے نعت گو شاعر ہیں۔دو اشعار ملاحظہ ہوں:۔
لگا کر یاد کو انکی میں اپنے غم زدہ دل سے
گزرہی جاونگا آخرمحبت کی منازل سے
ہوا تقسیم دو حصّوں میں انگلی کے اشارے سے
محمدؐ کی فضیلت جا کے پوچھو ماہِ کامل سے
شوقؔ لکھنوی ایک فطری شاعر ہیں۔قدرتی میلان طبع اور کہنہ مشقی نے انھیں قدرتِ زبان عطاکی اور کمالِ فن بخشا ہے۔زبان اور سلیقۂ نظم کے لحاظ سے شوقؔ لکھنوی آسمانِ ادب لکھنؤ کے ایک روشن وتا بناک ستارے کے مانند ہیں۔انکی شاعرانہ شخصیت وحیثیت صرف لکھنؤ تک ہی نہیں دنیابھر میں مسلم ہے۔ادبی ذوق رکھنے والے انھیںاحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔شوق ؔلکھنوی نے رسائی اور منقبتی ادب میں کچھ نئے تجربے بھی کئے ہیں اور روایت کو نئی آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قدردانی کے حقدار ہیں ۔شوقؔ لکھنوی کے یہاں زبردست شعور ہے جو شدید داخلیت کاعنصرلئے ہوئے ہے۔ انکی ذات محبت اہل بیت ؑ سے عبارت ہے ۔وہ معرفت اہل بیت ؑکی اعلیٰ منازل طے کرنے میںمنہمک نظر آتے ہیں۔انکی مکمل وابستگی ان مقدس اور پاک و پاکیزہ ہستیوں سے ہے جنہیں حیات و کائنات پر تصرف حاصل ہے۔وہ معرفت محمد و آلِ محمدعلیم السلام کی جس منزل پر ہیں اس میں ان ذواتِ مقدسہ کا کرم بھی شامل ہے۔اور خاندانی ماحول و تربیت کابھی اثر ہے۔محبت اہل بیت ؑ کے ساتھ ساتھ خطابت و شاعری انھیں وراثت میں ملی ہے۔اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
ثنا خوانی پدر سے شوق ؔ نے ورثے میں پائی
نہ کیوں وہ مدحت ِ حیدر ؑ سے سرافراز ہو جائے
شوقؔ لکھنوی کے کلام میں صداقت ِ جذبات ،جوش و سادگی کے ساتھ عقیدے کی معراج پائی جاتی ہے۔شاعری کا محور محمد و آلِ محمدؐ علیم السلام ہیں محرک ان کا اپنا عقیدہ اپنی فکر اپنے رجحانات اپنے نظریات و کیفیات ،جذبات و شاہدات یہی شوق ؔکو آل محمدؐ سے جو عقیدت وموّدت ہے اسے پوری توانایئوں کے ساتھ نظم کیاہے۔ان کے ممدوح وہ ذواتِ مقدسہ ہیں جنکے سامنے نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے غیر مسلم مفکرین کے بھی سر عقیدت سے خم ہیں۔شوقؔ لکھنوی نے پورے خلوص ،شعور وادراک کے ساتھ فضائل محمد و آلِ محمدؐ  نظم کرنے میں غیر جابنداری سے کام لیا ہے۔
انھیں اردو اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔عصری علوم سے بھی واقف ہیں۔جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم تو آل محمدؐ کے حضور سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں تو انھیںمنکرین علی ؑپر افسوس ہوتا ہے:۔
اسی پہ لوگ خفا ہیں کہ یہ علی ؑ والے
جہاں بھی جاتے ہیں حیدر کی بات کرتے ہیں
شوقؔ لکھنوی نے ویسے تو سبھی اضاف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ،مگر قصیدہ گوئی میں انھوں نے کمال ِفن کار زبر دست مظاہرہ کیا ہے۔جیسا کہ ارباب ذوق بخوبی واقف ہیں کہ قصیدے کا تعلق بادشاہوں اور امیروں کے درباروں سے رہا ہے۔درباروں کے زوال کے ساتھ ساتھ قصیدے کا زوال ہونا فطری بات تھی، مگر چونکہ دربار اہل بیت ؑ پہلے ہی کی طرح آج بھی پوری زیب و زینت اور آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔لہٰذادرِ اہل بیت ؑسے وابستہ قصیدہ گو شعرا بھی موجود ہیں۔اردو میں قصیدہ گو شعراء کی تاریخ میں میر تقی میر،ؔ مرزا محمد رفیع سودا،ؔ انشااللہ خاں،انشاءؔ غالبؔ، ذوقؔ دہلوی، میر سوز،ؔ میرحسنؔ وغیرہ کا شمار معروف و باکمال قصیدہ گویوں میں ہوتا ہے۔جنھوں نے فارسی قصیددہ گویوں کی پیروی میں انکے کہے ہوئے قصیدوں پر قصید ے کہے ۔
لکھنو ٔمیں قصیدہ گوئی کا آغاز اگر چہ میر تقی میرؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ کے زمانے میں ہی چکا تھا۔لیکن خالص مذہبی قصائد کی داغ  بیل اٹھایں صدی کے اوا خر میں ہوئی۔ صدرالمحققین سرکار ناصر الملّت اعلی ٰ اللہ مقامہ نے جہاں دیگر علوم کی آبیاری کی وہی قصیدہ گوئی کی بھی سر پر ستی فرمائی ۔اپنے شریعت کدہ پر قصیدہ خوانی کی محفلیں منعقد فرمانے لگے۔جوچہاردہ معصومین ؑکی تاریخہائے ولادت پہ منعقدہوا کرتی تھیں (جنکا سلسلہ اب بھی قائم ہے)۔ ان محفلوں میں ذاکر حسین یاس ؔ،زوّار حسین طرار،ؔ کاظم حسین محشرؔ، مرزا محمد ہادیؔ عزیز ؔلکھنوی ،پروفیسر ناصری، آغا اشہر ،حکیم صاحب عالم پابندی سے شرکت کرتے تھے۔دوسری بڑی محفل مسجد تحسین علی خاں چوک میں ہونے لگی جس میں وقارؔ لکھنوی ،خبیر ؔلکھنوی ،سعیدیؔ درخشاں نصیری،ؔ ساحدؔ، توقیر،الطافؔ، یونس،ؔ ضو،ؔآصف ؔ،صغیرؔ اور حکیم صاحب عالمؔ شرکت فرماتے تھے۔اس طرح قصیدہ خوانیوںکا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور ہم تک پہنچا۔ ُاس دور میں سالکؔ لکھنوی، ماہرؔ لکھنوی، منظرؔ لکھنوی ،نہالؔ رضوی ،اکمال ؔ لکھنوی ،انور نواب صاحب انور ؔلکھنوی ،شاربؔ لکھنوی ،احمد ؔرضوی عرف بابو صاحب بی۔اے ،علامہ ساغرؔ لکھنوی ،علامہ تصویرؔ لکھنوی،حاصلؔ لکھنوی، انورؔرائے بریلوی،ڈاکٹر مصطفیٰ فطرتؔ، ریاض الحسن طاہرؔلکھنوی، دلاورؔ لکھنوی ،ناصر ؔ لکھنوی ،مشتاق ؔ لکھنوی ،نظرؔ عسکری موہانی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔بحمداللہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔دور حاضر میںکمال ؔ لکھنوی، علامہ تجسسؔ ؔاعجازی،عاف رضا عارفؔ ،سرورؔ نواب،اعجازؔ زیدی،طیب ؔ کاظمی،کاظم ؔ جرولی،عشرتؔ رضوی،فاضل ؔ لکھنوی،کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔اسی فہرست میںمرزا محمداشفاق شوقؔ لکھنوی کا نام نامی بھی سر فہرست ہے۔
شوق ؔلکھنوی نے دیگر معروف قصیددہ گویوں کی زمینوں میں انھیں ردیف قافیوں میں قصیدے کہے ہیںاور چونکہ انکے محمدوح دنیاوی لوگ نہ ہو کر محمد و آلِ محمدؐ ہیں لہٰذا شوق ؔ لکھنوی کے قصیدے بھی بہتر اور معیاری ہیں۔
حکیم مومن خاں مومنؔ کا مولا علی ؑ کی شان میں کہا ہوا ایک مشہور قصیدہ ہے۔جسکا مطلع ہے۔
کٹتی ہے میری تیغ ِزباں سے زبانِ تیغ
کیونکر سخن فردش ہو ںسوداگرانِ تیغ
اس زمین میں شوقؔ لکھنوی نے بھی قصیدہ کہاجو معیار میںمومنؔسے کم نہیں ہے۔
ملاحظہ ہو:۔
فکرِرسا زبانِ قلم ہوبسانِ تیغ
لکھنا ہے مجھکو مدح ِعلی ؑداستانِ تیغ
دیکھیں کلیم قوتِ بازوئے حیدری
ہیں سجدہ زیرپیشِ خدا ساحرانِ تیغ
اڑتے ہیں سر تو جاتی ہیں روحیں سوئے سقر
اے لیجئے اجل بھی ہوئی ہم زبانِ تیغ خود دشمنانِ تیغ گلے اپنے کاٹ لیں
گر مدح ِذولفقار کریں دوستانِ تیغ
 شوقؔ لکھنوی نے فارسی کے مشہور شاعر عرفیؔ اور قافی ؔ ،اردو کے مرزا غالب ؔ اورمیر حسن ؔ کی زمینوں میں بھی ائمہ معصومین ؑ کی شان میں قصیددے کہے ہیں۔ سالکؔ لکھنوی کی زمینوں میںبھی قصیدے کہے ۔یہ تمام قصائد اردو ادب میں شاہکار ہیں۔ میرؔ سوداؔ،غالب ؔذوقؔ، مومنؔ وغیرہ کے قصائد اردو کا گراں قددر سرمایہ ہیں۔ان قصائد کا اپنا رنگ وآہنگ ہے ۔مگر شوقؔ لکھنوی کا رنگ ان سب سے جدا ہے۔انھوں نے اپنے قصیدوں میں جدّت پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔بندش الفاظ معنی آفرینی ،عقیدہ، مودّت و محبت، فصاحت ویلاغت ،شوکت الفاظ اور مضمون کی بلندی انکے قصائد کی حیرت انگیز خصوصیات ہیں۔انھوں نے قصائد کو نئے تقاضوں سے روشناس کرایا۔علم دین سے بھر پور واقفیت اور خطابت نے بھی انکی قصیدہ گوئی کو فائدہ پہنچایا۔
انکے قصائد کے دو مجموعے’’ ایک کوثرستان‘‘ اور دوسرا’’چراغاں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ارباب ذوق سے داد و تحسین  حاصل کرچکے ہیں۔
شوقؔ لکھنوی کی شاعری میں ولائے اہل بیت ؑکی خوشبو قارئین و سامعین کے دل و دماغ کو معطر رکھتی ہے۔انکے کلام کی نغمگی میں ماتم کی جھنکار، عقائد کی تپش اور محبت اہل بیت ؑکی تڑپ ہے۔
شوقؔ لکھنوی کی سب سے مخصوص اور منفرد خصوصیت انکی محاوراتی شاعری ہے۔انھوںنے منقبتی شاعری میں محاورات کا استعمال کر کے ایک نئی روایت کا آغاز کیا ۔وہ اس صنف کے موجد بھی ہیں اورخاتم بھی ۔نہ ان سے پہلے کسی نے مذہبی شاعری میں اس کثرت سے محاوروں کا استعمال کیا نہ ان کے بعد وہ محاورات کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔انھوں نے تقریباََ ۱۱۵؍ اردو محاوروں کا استعمال مذہبی شاعری میں اس چابک دستی اور مہارت سے کیا ہے کہ مذہبی تقدس بھی محفوظ رہا ،سنجیدگی باقی رہی اور کلام کاحسن دو بالا ہو گیا ہے۔
ملاحظہ ہو۔
بس انکے چاہنے والوں میں ہم ہیں
فضائل جن کے قرآں میں لکھے ہیں
ہمیں ان سے نہیں کوئی علاقہ
جو اپنے منھ میاں مٹھو بنے ہیں
کل جو کافر تھے منافق ہیں وہ آج
رشتے داری تو نہیں توڑی ہے
چھوڑ دی چور نے چوری مانا
ہیرا پھیری تو نہیں چھوڑی ہے
میثم کی زباں کٹ کے اعلان یہ کرتی ہے
حیدرؑ کی محبت بھی کیا منھ کا نوالا ہے
علی ؑ نے جھولے میں چیرا ہے کلئہ اژدر
یہ سن کے غیر کے سینے پہ سانپ لوٹ گیا
مندرجہ بالا اشعار میں اپنے منھ میاں مٹھو بنّا،ہیرا پھری نہ چھوڑنا، منھ کا نوالہ ہونا ،سینے پر سانپ لوٹنا وغیرہ وغیرہ محاوروں کو اس خوبی سے نظم کیا ہے کہ کلام کا حسن دوبالا ہو گیا۔
شوقؔ لکھنوی کا مجموعہ ٔقصائد ’’چراغوں ‘‘میں ۲۰۰۶ء؁ میں عباس بک ایجنسی درگاہ حضرت عباس ؑ رستم نگر لکھنؤ سے شائع ہو چکا ہے جس میں نعت رسولؐ اسلام اور ائمہ معصومین جناب فاطمہ زہرا، ؐ جناب زینب ؐ ،جناب سکینہ ؐ ،جناب علی اکبر ؑ ،جناب عباس، ؑ جناب قاسم ؑ ابن حسن، جناب مسلم ابن عقیل، جناب علی اصغر ،ؑ اور محسن اسلام حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں فضائد ہیں، جنکی کل تعداد۱۰۲؍ ہے ۔ اس سے قبل ’’کوثرستان‘‘بھی شائع ہو چکا ہے۔
شوق ؔ لکھنوی نے اپنے کلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس کیا کہ دیگر مدّا حان اہل بیت ؑکی حیات و کارناموں سے دنیا کواجمالاً روشناس کرایا جائے۔ چنانچہ انھوں نے ’’تذکرئہ شعراے اہل بیت ؑ‘‘ مرتب کیا ۔جس میںدورحاضر کے تقریباً سبھی شعرائے اہل بیت ؑ کا ذکر موجود ہے اور نمونے کے طور پر کلام بھی پیش کیاگیاہے۔ یہ کتاب ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔
خورشیدؔ رضا فتح پوری
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular