Tuesday, April 23, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجمیل مہدی :اِن مہم جویاں کو اِک دن جاوداں ہونا ہی تھا...

جمیل مہدی :اِن مہم جویاں کو اِک دن جاوداں ہونا ہی تھا !

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عالم نقوی

مشفق خواجہ مرحوم المعروف بہ ’خامہ بگوش ‘ نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ’’۔۔مرحومین کو یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کا ذکر اُسی طرح کرتے رہیں جس طرح اُن کی زندگی میں کرتے تھے تا کہ وہ ہمیں اپنے آس پاس چلتے پھرتے نظر آتے رہیں ۔۔‘‘(۱)الحمد للہ ،ہم نے اس اصول پر عمل کرتے رہنے کی شعوری کوشش کی ہے ،البتہ اس میں کامیابی ملی یا نہیں ،یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہمارا نہیں، ان قارئین کا ہے جو ہمیں کم از کم پچھلے چند برسوں سے مسلسل پڑھ رہے ہیں ۔
ہم نے جن کی انگلی پکڑ کے میدان صحافت میں چلنا سیکھا ہے اُن میں جمیل مہدی سرِ فہرست ہیں کہ روزنامہ ’عزائم ‘لکھنؤ ہی ہمارا اَولین مکتب ِصحافت تھا ۔اُن کے بعد وہاں کام کرتے ہوئے ہمارے دیگر ابتدائی معنوی اساتذہءِ صحافت حفیظ نعمانی ،اللہ ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے ،اور مشتاق پردیسی ہیں ۔البتہ ترجمہ کرنے کا ہنر ہم نے محفوظ الرحمن صاحب سے اس وقت سیکھا تھا جب ہم نے عزائم میں آنے سے دو برس پہلے 1976 میں کچھ مہینے روزگار سماچار نئی دہلی میں بطور مترجم پروف ریڈر کام کیا تھا ۔آخر الذکر دونوں حضرات آج ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔اللہ ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ فرمائے ۔آمین ۔
ہم تو استاد بننا چاہتے تھے کہ پڑھنا اور پڑھانا ہی ہمارے بنیادی شوق تھے، جو بحمد للہ آج بھی ہیں، لیکن نصیب میں صحرائے صحافت کی نوردی لکھی تھی، سو، نہ پی ایچ ڈی کر سکے ،نہ کسی کالج اور جامعہ میں پڑھانے کا خواب پورا ہو سکا ۔مولانا آزاد ،جمیل مہدی اور حفیظ نعمانی کی طرح صحافت میں ہمارا داخلہ اپنے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں قدرت کے اس طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا جس نے ہمیں 1974میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد کلکتے ،دہلی یا لکھنؤ کے کسی ادارے میں ٹکنے نہیں دیا جہاں ہم نےچار سال،1975 سے 1978تک مختلف طرح کی جز وقتی ملازمتوں کے پاپڑ بیلے تھے۔ لیکن ایک بار جب بیکاری کے ایام میں ہمارے انٹر میڈئیٹ کے کلاس فیلو دوست طاہر عباس نے، جو اس وقت نو بھارت ٹائمز میں رپورٹر تھے ،اور جمیل مہدی کی شاگردی اختیار کیے ہوئے تھے ، ہمیں روزنامہ عزائم کے دفترکوٹھی چودھری حیدر حسین امین آباد لکھنؤ میں لا بٹھایا تو اس دن سے آج تک نہ صرف ہم پھر کبھی ’بیکار ‘ نہیں رہے بلکہ بقول برادر عزیز پروفیسر اجلال انیس زیدی ’نرے اخبارچی ‘ ہو کے رہ گئے ،مطلب ان کایہی تھا جو شاید غلط بھی نہیں کہ اب ہم اخبار کے سوا اور کسی کام کے نہیں رہے ۔حبیبی طاہر عباس بھی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔اللہ ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ فرمائے ۔وہ روزنامہ صحافت کے مالک امان عباس صاحب کے بڑے بھائی تھے ۔
گزرے ہوئے اِن چالیس برسوں کے دوران ہم نے تین شہروں لکھنؤ ،دہلی اور ممبئی کی خاک چھانی اور پانچ اخباروں عزائم ،قومی آواز،انقلاب ،اردو ٹائمز اور اودھ نامہ میں کام کیا اور عملی صحافت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہے ۔ ۔خبروں کے انتخاب ،ترجمے ،اور اخباری صفحات کی تزئین و تہذیب کی بارہ سالہ مہارت کے بعد 1990میں انقلاب ممبئی میں بہ حیثیت سینئر اسٹنٹ ایڈیٹر ، ہفتہ وار کالم لکھنا شروع کیا۔پھر مدیر انقلاب فضیل جعفری صاحب کی غیر حاضری کے ایام میں اداریے لکھے۔فضیل صاحب بھی ،اللہ انہیں غریق رحمت کرے ،سال گزشتہ ( ۲۰۱۸ میں ) اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکے ہیں ۔
28فروری 2002سے لے کر چھے ماہ پہلے اگست 2018 تک روزانہ، اداریے لکھنے کا سلسلہ ،کم و بیش بلا ناغہ سولہ سال جاری رہاہے ۔ پہلے جمیل مہدی و حفیظ نعمانی پھر ظ۔انصاری اور شاہنواز فاروقی وغیرہ کی تحریروں سے جو کچھ سیکھا وہی ہفتہ وار کالم لکھنے اور اداریہ نگاری میں کام آتا رہا ۔
میڈیا کی قوت اور اثرو نفوذ کی وسعت آج کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔یہ وہ قوت ہے جو کسی بھی معاشرے کو بنانے سنوارنے یا بگاڑنے کی سب سے بڑھ کر ذمہ دار ہے ۔کسی بھی معاشرے کا اجتماعی ذہنی و فکری ماحول میڈیا ہی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے (۲)۔
صحافت کی قوت اور رعب و دبدبے کا یہ عالم ہے کہ کل تک جمیل مہدی اور حفیظ نعمانی جیسے’ مجنوں صفت عُشاق ‘ ہی اس دَشت ِبے پناہ کی سیاحی کے لیے نکلنے کی جراءت کرتےتھے لیکن ،افسوس ،کہ آج ہر دوسرے کاروبار ِزندگی کی طرح میڈیا بھی ،بیشتر ،دنیا کو حسین بنانے کے جنون میں گرفتار دیوانوں کے بجائے بوالہوسوں کی حسن پرستی اور غارت گرانِ امن و سکون کے پیدا کردہ عذاب کا شکار ہے ۔
جبکہ ایک زمانہ وہ تھا جب ،بقول برادر عزیز حقانی القاسمی ،’’۔۔میڈیا مستقبل کی آواز اور منارہ ءِنور تھا جس کا مقصد انسانی ذہن کی تشکیل و تعمیر اور حیات و کائنات کے (تمام) مظاہر (سمیت ) پوری دنیا کی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں سے (پڑھنے والوں کو)کو آگاہ کرنا تھا ۔گویا میڈیا (ایک ) ’جام جہاں نما‘ تھا جس میں انسان پوری دنیا کا چہرہ دیکھ لیتا تھا ۔۔ماضی میں خبروں نے(کہ’ اخبار‘خبر ہی کی تو جمع ہے) انسانی آنکھوں کو بہت سے خواب عطا کیے تھے اور ان کی تعبیریں بھی ۔(یہ) خبروں (یعنی میڈیا )ہی کی طلسماتی قوت تھی کہ یورپ کا جاگیردارانہ سماج ۔ماڈرن سماج میں تبدیل ہو گیا تھا ۔روؔسو ،والٹئیرؔ اور تھامسؔن نے میڈیا ہی کے ذریعے سماج میں انقلاب بپا کیا تھا ،ذہنوں کے زاویے تبدیل کر دیے تھے اور عوام میں انقلابی اسپرٹ پیدا کردی تھی ۔عوامی شعور کی بیداری میں میڈیا نے (ماضی میں ) جو رول ادا کیا ہے ،وہ (بلا شبہ )ناقابل فراموش ہے ۔(۳)حقیقت یہ ہے کہ انقلاب فرانس ہو یا انقلاب امریکہ میڈیا کے بہترین استعمال ہی کے رہینِ منت ہیں ۔
لیکن حقانی القاسمی کی بیان کردہ اس صورت حال کا اطلاق انیسویں صدی کے وسط سے لے کر ، زیادہ سے زیادہ ،بیسویں صدی کے وسط تک ہی کیا جا سکتا ہےآج ،اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں، میڈیا ،رویش کمار کے لفظوں میں ’گودی میڈیا ‘ ہو چکا ہے یعنی اب میڈیا ، قارونوں سے صرف وابستہ و پیوستہ (Embedded) ہی نہیں ہے بلکہ وہ اُن کے زائیدہ و پروردہ غلام کا رول ادا کر رہا ہے ۔ ’’آج(ہندستان جیسے ) پسماندہ ممالک میں (میڈیا) کی اس عظیم قوت نے بے یقینی ،پریشاں نظری، بے مقصدیت اور مایوسی کی فضا پیدا کر رکھی ہے ۔صحافت کی قوت کوغریب ممالک کے افلاس زدہ انسانوں کی روحیں مضمحل کرنے اور امنگیں کچلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج ہمارے ذرائع ابلاغ کا کردار مجموعی طور پر منفی ہو چکا ہے ۔اختلافات پیدا کرنے ،انہیں اچھالنے، امید کے بجائے مایوسی پیداکرنے اور (فرقہ وارانہ یا مسلکی ) نفرتوں کے الاؤ جلانے کا کام یہ(گودی میڈیا اور اس کے سمبت پاترا جیسے یرقانی صحافی ) ہٹ دھرمی سے کر رہےہیں‘‘ ۔
وہ تو کہیے کہ رویش کمار ،ونود دُوا ، پرتاپ بھانو مشرا ،حفیظ نعمانی ،پرواز رحمانی ، ڈاکٹر سلیم خان ،حسین افسر ،شمیم طارق ، معصوم مراد آبادی ، سہیل انجم اور اعظم شہاب جیسے کچھ بیباک ، بے خوف اور ایماندار صحافی ابھی موجود ہیں جو محدود پیمانے ہی پر سہی ، سماج کے ایک حصے کو بہت سے نقصانات سے محفوظ رکھتے ہیں ۔
یہ زوال، جو دوسری جنگ عظیم کے بعدپیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں ، آزادی و خود مختاری کے نام پر ، تیسری دنیا کی ٹوٹ پھوٹ سے شروع ہوا تھا، ۱۹۷۰ کے دہے میں اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ آغا شورش کاشمیری (1917-1975)جیسے دانشور صحافی یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’۔۔صحافی چلے گئے،منشی آگئے(ہیں)۔۔(اب) کوئی صحافی نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ اس کو اپنے قلم پر اعتماد ہے ۔۔(آج) صحافت میں ایک بھی ابوالکلام(آزاد)، ظفر علی خاں ،محمد علی جوؔہر اور حسرتؔ موہانی نہیں۔۔کلرک جرنلسٹ ہوگئے ہیں ۔صحافت اب صحافت نہیں رہی بساطی کی دوکان ہو گئی ہے۔ ۔بے دماغ صنعت کار،جنہیں قوم کے مستقبل سے زیادہ اپنا بیلنس شیٹ (اور اپنے مفادات) عزیزہیں ، آج صحافت کو صنعت و تجارت سمجھ کر چلا رہے ہیں۔۔(۴)
جمیل مہدی اور حفیظ نعمانی مذکورہ بالا دونوں انتہاؤں کے درمیانی عہد کے اُن معدودے چند صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے شعوری طور پر ایمانداری ،بے خوفی ،اور بلا خوف ِلومۃ لائم ، حق گوئی کو اپنایا۔ حفیظ بھائی کو(سن پیدائش ۱۹۳۰)اللہ صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے اور اُن کا سایہ ء مرحمت ہمارے سروں پر تا دیر با قی رہے ۔
آج (۱۹ فروری ۲۰۱۹ کو پریس کلب لکھنؤ )کی گفتگو تو جمیل بھائی مرحوم کے لیے مختص ہے ۔ہم اس مجلس کے انعقاد کے لیے اِس ادارے(نجب ا لنساء میموریل ٹرسٹ ،فیض اللہ گنج لکھنؤ،اور یو پی اردو اکاڈمی ) دونوں کے ازحد ممنون ہیں کہ جنہوں نے اُن کے انتقال(۱۳فروری ۱۹۸۸) کے اکتیس سال بعد ہی سہی انہیں یاد کر نے کا فرض کفایہ ادا کرنے کی شروعات کی ہے اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان کہ اِس سعادت میں یہ ناچیز بھی شریک ہے ۔
مقبول احمد لاری مرحوم ،اللہ انہیں غریق رحمت کرے ،آج ہمارے درمیان ہوتے تو اس ’یاد جمیل‘ کی سب سے زیادہ خوشی شاید اُنہیں کو ہوتی ۔ ’مسلمان کیا کریں ‘ ، ’افکار و عزائم ‘ اور ’مسائل و عزائم‘ کے ناموں سے جمیل بھائی کے زندہ و پائندہ اداریوں کے جو تین مجموعے،کتابوں کی صورت میں آج ہمارے پاس ہیں وہ اُنہیں کی بے پناہ محبت اور خلوص اور ڈاکٹر زؔکی کاکوروی کی محنتوں کی یادگار ہیں۔ اور کیا تعجب کہ لاری صاحب ہوتے تو آج کی اس مجلس میں جمیلؔ مہدی مرحوم کی باقی ماندہ تحریروں کے انتخاب پر مشتمل چند اور کتابیں چھپوا کر سبھی محبان ِجمیلؔ مہدی اور وابستگان ِصحافت کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے سپرد کر چکے ہوتے ۔
قریب نصف صدی قبل ،یکم مئی ۱۹۷۰ کو ’بیاں اپنا ‘ کے عنوان سے جمیل بھائی نے اپنے دل کا درد جن لفظوں میں بیان کیا تھا اُسے پڑھ کے ایسا لگتا ہے جیسے ۲۰۱۹ کا ہندستان بھی اپنی تمامتر ہولناکیوں کے ساتھ اُن کی بصیرت اور تدبر کی آنکھوں کے سامنےتھا:
’’میں اس بد نصیب ملت کا ایک بد نصیب فرد ہوں جسے ہندستان کی ہزار سالہ تاریخ کے سب سے ہولناک مرحلے کا سامنا ہے ۔اس ملت کی موت و زیست اور مستقبل کے ساتھ خود میری زندگی اور موت اور مستقبل کا سوال وابستہ ہے اس لیے یقیناً مجھے اس بات کا حق حاصل ہے کہ اس قومی جد وجہد کے محاز کا اپنی بساط بھر جائزہ لوں ۔اِس محاذ کو متحرک ،فعال اور مضبوط بنانے کی پوری کوشش بھی کروں ۔اس کی کوتاہیوں ،خامیوں ،کمزوریوں اور غلطیوں کا نہ صرف پتہ لگاؤں بلکہ اُن کے اظہار میں بھی کسی قسم کی( بے جا) مصالحت اور خوف کا شکار اپنے آپ کو نہ ہونے دوں ۔
’’ایک ایسا آدمی جس کے مستقبل اور زندگی کا سارا دارومدار اگلی صف کے لوگوں کے عمل اور فراست پر ہو ،محض تبلیغی ،اخلاقی وعظ و نصیحت اور ملی اتحاد میں رخنہ اندازی کے خیالی خطرے سے نہ مطمئن ہو سکتا ہے اور نہ خاموش رہ سکتا ہے ۔میری سمجھ میں یہ بالکل نہیں آتا کہ جب میں اجتماعی گمراہیوں اجتماعی غلط روی، اجتماعی غلط کیشی اور غلط سیاست کو صاف صاف دیکھ سکتا ہوں تو صاف صاف اس کا اظہار کیوں)نہیں کر سکتا )‘‘(۵)
مولانا آزاد کی طرح وہ بھی تقسیم وطن کےخلاف تھے۔اپنے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ’’ہم دوبارہ دھوکہ نہیں کھا سکتے ‘‘فروری ۱۹۷۴ میں انہوں نے لکھا کہ مولانا آزاد جیسے لیڈروں نے ’’۔۔پوری طاقت کے ساتھ (مسلم لیگ کے ) اس فلسفے کے خلاف آواز بلند کی جس کی بنیاد خوف پر تھی ۔اور جس کا انجام مسلمانوں کے حق میں مہلک ثابت ہونے والا تھا ۔۔سیاسی طاقت اکثریت و اقلیت پر منحصر نہیں ہوتی ،وہ ہمیشہ خود اعتمادی اور شعور سے پیدا ہوتی ہے ۔
’’۔۔تقسیم مسئلے کا حل نہیں (تھا۔ہمارے تقسیم مخالف لیڈروں نے یہ مؤقف بہت سوچ سمجھ کے اختیار کیا تھا کہ)جغرافیائی اور تاریخی تقاضوں کے خلاف ملک کی تقسیم سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں (ہونے والا تھا ،لیکن) مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور اُن کی ضد ،انگریزوں کی سرپرستی ،اور(پٹیل جیسے ) بعض ہندو لیڈروں کی مدد اور خواہش (کے نتیجے میں بالآخر ) ہندستان تقسیم ہوگیا اور ہندو مسلم منافرت اور تشدد کی ایک ایسی لہر اس ملک میں چلی کہ (کم و بیش ) پورا ملکفسادات ،لوٹ مار اور قتل و غارت کے بھیانک سیلاب کی لپیٹ میں آگیا ۔۔مسلمانوں کی صدیوں کی محنت برباد ہوگئی۔۔۲۵ لاکھ افراد فسادات کا شکار ہوئے اور تین کروڑ ہندو ،مسلمان اور سکھ برباد ہوکر نقل وطن پر مجبور (کر دیے گئے )‘‘اور بقول مختار مسعود ’’۔۔یہ آزادی بڑی کافر صورت اور جان لیوا نکلی ۔بس غدر مچ گیا ۔سر کٹ گئے اور سامان لُٹ گیا ۔اور لوگ بے سر و سامان ہو گئے ۔مرنے والوں کو کسی نے دفن نہ کیا مگر بچ رہنے والے زندہ در گور ہو گئے ۔ہر شہر اور قریے میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا (آواز دوست ص
۱۷۲)۔۔’’ہندستانی مسلمانوں کا کوئی مسئلہ اس لیے حل نہیں ہو سکا کہ وہ تقسیم کے وقت کے کشت و خون کے پس منظر میں ان تمام مشکلوں سے گزرنے پر مجبور ہوئے جن کے حل کے لیے مسلم لیگ نے انہیں اپنا آلہء ِ کار بنایا تھا ۔۔تین کروڑ انسانوں کے خانہ بدوش ہوجانے اور عدیم المثال مصائب برداشت کرنے کے باوجود پاکستان اور ہندستان میں کروڑوں لوگ تقسیم کے رد عمل کا سامنا کرنے کے لیے پھر بھی باقی رہ گئے ۔(۵۔الف)
۱۳ فروری ۱۹۸۸ کو محض ساٹھ سال کی عمر میں چند ماہ کی صبر آزما بیماری کے بعدانہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا ۔اس سے عین ایک برس قبل ۱۹۸۷ میں جمیل بھائی نے آزادی کے چالیس سال بعد جو کچھ لکھا تھا وہ آج ۲۰۱۹ میں آزادی کے بہتر برس بعد’نسل کشی ،انفرادی ،اجتماعی و سرکاری دہشت گردی اور ماب لنچنگ ‘کے عہد میں بھی حرف بہ حرف سچ ہے کہ:
’’۔۔ اس بات سے زیادہ شرمناک کوئی دوسری حالت (کیا ہوگی) کہ جس ملک میں دنیا کے سبھی ملکوں سے زیادہ(کم از کم بیس کروڑ کی ) مسلم آبادی ہو وہاں مسلمانوں کے پاس کوئی سیاسی نظریاتی بنیاد موجود نہ ہو اور چالیس برس کے جمہوری نظام کے تجربات کے بعد بھی وہ اجتماعی طور پر یہ بات طے کرنے کے قابل نہ ہوں کہ انہیں اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے کون سی راہِ عمل اِختیار کرنا ہے۔۔ جب بھی فساد ہوتا ہے،خنجر چلتے ہیں ،(فائرنگ ہوتی ہے )آگ لگتی ہے اور ہلاکتوں اور لوٹ مار کی آزمائش سے مسلمانوں کو گزرنا پڑتا ہے تو اُنہیں حقیقت ِحال کا مُبہم سا اِحساس ضرور ہوتا ہے ۔ایک سخت اِبتِلاء کے دور میں تیز ہونے والے شعلہ ء ِ اِحساس کی روشنی میں وہ فرقہ پرست (بلکہ حقیقی معنیٰ میں دہشت گرد ، ملک دشمن اور غدارِوطن یرقانی )تنظیموں کی منظم مخالفانہ(و دشمنانہ ) سرگرمیوں کی موجودگی کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن خود اپنی نظریاتی بنیاد نہ رکھنے کے سبب وہ ہر فیصلہ کن موقع پر اپنا ایک (محکم اور مناسب )اجتماعی رویہ متعین کرنے میں ناکام ثابت ہوجاتے ہیں۔
’’۔۔الیکشن کے موقع پر کسی طے شدہ مؤقف کے مطابق ووٹ دینے کے فیصلے کے بجائے لہروں میں بہ جانے کا رجحان غالب آجاتا ہے (یا پھر وہ سرے سے ووٹ ہی نہیں ڈالتے اور پولنگ کے روز گھروں میں بیٹھے رہ جاتے ہیں اور جو تھوڑے سے مسلمان ووٹ دیتے بھی ہیں تو ) ایک مستحکم نظریاتی مؤقف کی عدم موجودگی میں (ملت کے) اجتماعی مفاد کے مطابق عمل کرنے کے بجائے محض وقتی پسند یا نا پسند اور ہنگا می و ناقابل اعتبار فضا کے دباؤ کے تحت اپنے ووٹوں کا (غلط ) استعمال کر جاتے ہیں۔۔
’’۔۔اس تلون مزاجی کا نقصان لا محدود اور ناقابل تلافی اس لیے ہوتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی الکشن کے وقت تک ان کے ووٹوں کے بارے میں مشکوک اور مشتبہ رہتی ہے ۔۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے سے بڑے لیڈروں کا خیال ہے (اور جو غلط بھی نہیں ہے ) کہ مسلمانوں کو ہندستان میں دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور ان کی سیاسی و سماجی حیثیت ختم کردی گئی ہے ۔۔۔لیکن جب الکشن کا وقت قریب آتا ہے تو اُن میں وہ جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے کہ گویا ہندستان کا سیاسی مستقبل اور اور ہر سیاسی پارٹی کی تقدیر انہیں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے ۔۔’احساس کمتری اور احساس برتری ‘کی یہ دھوپ چھاؤں صرف اس بنا پر (نظر آتی ہے) کہ اُن کا اپنا کوئی مستقل مؤقف اور کوئی مستقل نصب العین (اور اپنی بے لوث ،مخلص اور ایماندار قیادت )نہیں ہے !
’’مسلمانوں میں ہر کس وناکس (اور نا اہلوں )کی لیڈری صرف اس لیے چل جاتی ہے کہ سیاسی لیاقت، ذہنی پختگی ،دور اندیشی ،اور تدبر جیسےضروری خصائص کی سِرے سے ضرورت ہی نہیں پڑتی اور اُن کا سارا کام زبانی لفاظی ،پرجوش خطابت ،جذباتی اشتعال انگیزی ،اَسلاف کے کارناموں کی یاد دہانی اور فخرو غرور کی نمائش ہی سے چل جاتا ہے ۔
’’۔۔ہندستانی مسلمان اپنی عبادت گاہوں کے سامنے جلوسوں کے باجے بجانے کے خلاف ،مندر مسجد کے تنازعات کے لیے ،(مسلم یونیورسٹی جیسی )اپنی تعلیم گاہوں کے اقلیتی کردار کے لیے اور(نکاح و
طلاق جیسے ) مذہبی شعائر میں مداخلت کے خوف سے تحفظ کے لیے تو لڑتے رہے مگر ۔۔روٹی روزی کے لیے ،ملک کے مستقبل کی بہتری کے لیے ،امن و امان کی بحالی کے لیے ، سماجی نا ہمواری اور بے انصافی کے خاتمے کے لیے اور ہمہ جہت ترقی و خوشحالی اور بہتر معاشی تدبیروں کے لیے کبھی نہیں لڑے ‘‘(۶) اور ،مختار مسعود ہی کے لفظوں میں ،یہ بھول گئے کہ ’’آزادی کا فائدہ نہ اٹھانے والے کم حوصلہ ،کم ہمت اور بہانہ ساز ہوتے ہیں ۔آزادی تو جہاں ملے اور جتنی ملے اُسے استعمال میں لاتے ہوئے اُس مالک کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں آزاد پیدا کیا ہے ‘‘ّ(حرف شوق ۔مختار مسعود ص ۵۱۰)۔۔لیکن ہوا یہ کہ ۔۔
بقول سلیم احمد :
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
۔۔۔اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں(۷)
اگریہ بے خبری ،بے حسی و خود غرضی اور سب سے بڑھ کے ناشکری نہ ہوتی تو آج اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والے مسلم نوجوان وطن عزیز سے غداری و دہشت گردی کے جھوٹے اور بےہودہ الزامات میں گرفتار نہ کیے جارہے ہوتے اور زی نیوز جیسے الکٹرانک میڈیا کے کچھ سرخیل نیوز چینل ،موجودہ فساد فی الارض کو صلاح و فلاح سے بدلنے کی مہم چلانے کے بجائے ، ملک کے امن و امان کو غارت کرنے میں نہ لگے ہوتے۔
ماہنامہ انشاء کلکتہ کے مدیر شہیر ف۔ س ۔اعجاز نے اخباری اداریوں کے حوالے سے صحافت کے جن اصولوں کا تذکرہ کیا ہے ، جمیل مہدی کے اداریوں میں ان سب کی مکمل اور شعوری پاسداری اظہر من الشمس ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
۔۔۔۔۔سنسنی خیزی اور جذباتیت سے اچھے اخبار کو حتی الامکان بچنا چاہیے۔مدیر کو خود جذبات اونچا ہوکر سوچنا اور لکھنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔مدیر کا کام نئی رائے کا سانچہ تیار کرنا ہے ۔خود کسی مروجہ سانچے میں ڈھل جانا نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔آئین اور قانون کے چوکھٹے میں ہر مسئلے کا حل تجویز کیا جانا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔عوام کی ذہنی تعلیمی اور اخلاقی سطح اونچی کرنے کے لیے ایک اداریہ اچھا ہدایت نامہ ثابت ہو سکتا ہے ۔(ٌ۸)
جمیل مہدی کی تحریروں میں فن صحافت کے اصولوں اور عقلی تقاضوں کی بے احترامی آپ کہیں نہیں پائیں گے لیکن ، اب اسے کیا کہیں کہ بقول سلیم احمد :
عمر ساری راہ کے پتھر ہٹاتے کٹ گئی ۔۔۔
زخم میرے ہاتھ میں اِک ’سعی ِ لا حاصل ‘کے ہیں !(۹)
آخر میں ،ایک ولندیزی ضرب المثل پرہم اپنی بات تمام کرتے ہیں جسے ہم اگر کل اپنا دستورالعمل نہ بنا سکے تو ۔۔صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔۔اس لیے ،آئیے ہم سب آج ،ابھی سے اسےاپنا دستور العمل بنانے میں لگ جائیں کہ’’الحکمۃ ضالۃ مؤمن ۔۔‘‘، ’حکمت تو مؤمن ہی گم شدہ خزانہ ہے ،جہاں سے بھی ملے اسے حاصل کرنے اور اپنا لینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے‘:
’’جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا ۔لیکن ،
اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے ۔
آبرو چلی جائے تو قریب قریب سب کچھ کھو جاتا ہے
لیکن روح مرجائے تو سب کچھ مِٹ جاتا ہے ۔‘‘
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم ماضی و حال سے سبق لیتے ہوئے اب اپنی روح کا سودا تو ہر گز ہرگز نہیں ہونے دیں گے ۔۔! ان شا ء اللہ ْ
حواشی (۱)سخن ہائے نا گفتنی ۔خامہ بگوش کی تحریروں کا انتخاب ۔اکادمی بازیافت ،کراچی ۲۰۰۴ص:۸
(۲ ،اور ۴)چوتھے ستون سے مکالمہ ۔محمد آصف بھٹی ۱۹۹۰۔ص ص۱۵،اور۹۔۱۰۔(۳)خوشبو ،روشنی ،رنگ ۔حقانی القاسمی ۔۲۰۰۹۔ص:۱۱۴
(۵)اور (۶)مسلمان کیا کریں ۔جمیل مہدی ۔آل انڈیا میر اکاڈمی لکھنؤ مارچ ۱۹۸۸۔ص ۱۱۔۱۲
اور ص ۱۷ تا ۱۹۔
(۵۔الف):ماہنامہ سیکولر ڈیموکریسی فروری ۱۹۷۴ ،شمارہ ۲۷ص ۱۰، اور ص ۴۲
(۷،اور ۹)چراغ نیم شب ۔سلیم احمد ۱۹۸۵ص ص ۵۰،اور ۱۱۱
(۸)مؤقف (مضامین)ف۔س۔اعجاز ۔کلکتہ ۲۰۰۲ص ۵
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular