Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجمہوریت کا بدلتا منظرنامہ ……ہم کیاکریں؟

جمہوریت کا بدلتا منظرنامہ ……ہم کیاکریں؟

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

پندرہ اگست 1947ء کوہماراملک انگریزوں کے پنجۂ استبداد اور نرغۂ تشددسے آزادہوااورآزادی کے بعدآئین ساز کمیٹی نے ملک کے نئے دستور ومنشورکی ترتیب کا کام شروع کیاجو تقریباً ڈھائی سال بعدنافذ العمل ہوا،اس وقت سے ہندوستان ایک مکمل خود مختار جمہوری ملک بن گیا جس کا سنہراخواب ہمارے قائدین نے دیکھا تھا اور جس کی آبیاری کے لیے علماء ہند نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اس طے شدہ دستور کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں وہ پڑھنے کے قابل اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاحظہ ہو:’’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد ، سماجوادی ، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی ، معاشی ، سیاسی انصاف ، آزادیٔ خیال ، اظہار رائے ، آزادیٔ عقیدہ و مذہب و عبادات ، مواقع اور معیار کی برابری ، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سا لمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔‘‘
سبھی جانتے ہیں کہ آئین در حقیقت نظام مملکت کے امن و امان کے ساتھ چلتے رہنے کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے ۔ آئین ہی میں لکھا ہوتا ہے کہ کس طریقے سے ملک میں حکومت تشکیل دی جائے گی اور اسے کون کون سے ادارے کس طور پر چلائیں گے نیز اداروں میں کس طرح کے افراد کا تعین ہوگا وغیرہ۔ چوں کہ ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں؛اس لیے ہمارا دستور بھی سیکولر اور جمہوری ہے جو ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سے حقوق فراہم کرتا ہے ۔شاید اسی لیے کہاجاتاہے کہ کسی بھی حکومت کو جمہوری حکومت اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ انصاف،آزادی ،مساوات ،اور اخوت کے تقاضوں کو پوار کر سکے ۔
جمہوریت کیاہے ؟: بنیادی اعتبارسے عوام پر عوامی نمائندوں کے ذریعہ جو حکومت کی جاتی ہے اس کو جمہوریت یعنی سیکولرزم کہاجاتا ہے ،جمہوری نظام میں حکمراں افراد، عوام کے انتخاب سے مقرر ہوتے ہیں ، اور عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کے بارے میں جواب دہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری نظام کی کامیابی اور خوبصورتی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اس کے سایے میں سانس لینے والے شہریوں کے ساتھ عدل و انصاف اوربرابری و مساوات کا معاملہ کیا جائے ۔ امن و سکون کا ماحول ہو، اصول و قوانین کی بنیادپرحکمرانی ہو اور تمام ادیان و مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے دینی شعائر اور اصول و عقائد کی روشنی میں زندگی گزارنے کی آزادی ہو۔مذہبی آزادی میں حکومتیں دخل انداز نہ ہوں اورسب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ ہر حکومت کے مطمح نظر ہو۔
وطن عزیز ہندوستان جو دنیا کا سب سے عظیم جمہوری ملک ہے اس کا دستور اپنے ہر شہری کو مذہبی آزادی اور تمام طبقات کو یکساں حقوق و مواقع کی ضمانت فراہم کرتا ہے ،دستورِ ہند میں مذہبی اقلیات کے لئے خاص رعایتیں بھی دی گئی ہیں جن کی حفاظت اور یقین دہانی حکومتِ وقت کی ذمہ داری اور فرضِ منصبی ہے ۔
ہمارا یہ ملک صدیوں سے آپسی بھائی چارہ اور مل جل کر جینے کا مظہر رہا ہے ،ہرمذہب کے ماننے والے جس امن وسکون کے ساتھ یہاں زندگی گزارتے ہیں اس کی مثال دنیامیں کہیں پیش نہیں کی جاسکتی؛مگرافسوس کی یہاں وقتاً فوقتاً امن و شانتی کوبرباد کرنے اور فرقہ واریت کو بڑھاوادینے کی سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ان دنوں ہمارا ملک اسی صورت حال سے دوچار ہے ،یہاں کے جمہوری نظام پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں، خود برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کی قریبی حلیف ’’شیوسینا‘‘ نے اپنے ترجمان مرہٹی اخبار “سامنا “کے ایک اداریہ میں اس قسم کے شکوک و شبہات کا برملا اظہار کیا ہے ۔ یہ شکوک کسی اپوزیشن پارٹی یا اس کے کسی ترجمان اخبار نے ظاہر نہیں کئے ؛ بلکہ حکومت کی ایک دیرینہ حلیف شیوسینا نے ظاہر کئے ہیں ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابقہ وزیر فینانس یشونت سنہا نے تو مرکزی وزراء کو یہاں تک مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اندر کے خوف کو ختم کرتے ہوئے حق گوئی سے کام کریں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی وزراء پر وزیراعظم کا خوف چھایا ہوا ہے ۔ یہ صورتحال ملک کی جمہوریت اور اس کی مرکزی کابینہ کے لئے باعث تشویش ہے ۔
حکومتو ں کا دوہرا معیار:یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت نظام حکومت میں عوام کی شرکت کا نام ہے ؛ لیکن افسوس کہ یہاں جمہوریت دس فیصد لوگوں کے لیے ان کی عیاشی اور کاروبار کا ذریعہ ہے ، ملک کے تمام وسائل و ذرائع اور مال و دولت پر گنے چنے مخصوص لوگ قابض ہیں۔یہاں ملک کی غریب عوام کے لیے نہ روزگار کے مواقع ہیں نہ کوئی ذریعہ معاش، نہ عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی ہے ، نہ جان و مال کا تحفظ۔ اس آزادی کا کچھ بد نیت لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیااور اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا؛اس طرح ہندوستان کی70 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اس ملک کے مسلمانوں کے جان و مال کی کما حقہ نہ حفاظت کی گئی اور نہ ہی ان کو دوسرے شہریوں کی طرح حقوق حاصل رہے ۔خواہ دستور ہند میں کتنی ہی آزادی ہو؛لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمان آج بھی یہاں دوسرے درجے کے شہری کی زندگی گزار رہا ہے ۔آزادی سے لے کر آج تک کانگریس کا دور حکومت پھر بھاجپا کا عہد اقتدارہزاروں مسلم کش فسادات سے بھرا پڑا ہے ۔ان میں مرنے والوں کی تعداد دوسری جنگ عظیم میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے ،زخمی ہونے والوں اوربے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے والوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے ۔ فسادات میں مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائیدادوں کو لوٹا اور جلایا گیا ۔شاید ہی ملک کا کوئی شہر ایسا ہو جو فسادات سے بچا ہو ۔ملک میں آزادی سے قبل مسلمانوں کی کتنی گھریلو صنعتیں تھیں جنہیں چن چن کر ختم کیا گیا ۔ جان و مال کی تباہی کے بعد اب روٹی روزی سے بھی محروم کر دیا گیا ۔اسی کے ساتھ پورے ملک سے اردو زبان کو ختم کرنے کی منظم سازش کی گئی ،ملک کے پچھڑے طبقوں کو ریزر ویشن دیا گیا لیکن اسی آئین کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو محروم رکھا گیا ؟آج مسلمانوں کے لئے پندرہ نکاتی پروگرام ،رنگا ناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کے حوالے دئے جاتے ہیں لیکن نہ تو مسلمانوں کو حقوق ملے اور نہ اس پر ایماندارانہ عمل درآمد کیا گیا ۔
ہم جمہوریت کا تحفظ کیسے کریں ؟:اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی خاص نصب العین اور ٹارگیٹ کو سامنے رکھ کر کوشش نہیں کرپا رہے ہیں،الیکش کا موقع آتا ہے تو اس سے قبل اور بعد خوب بیان بازیاں ہوتی ہیں؛ لیکن سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کیاجاتا کہ اس جمہوری ملک میں ہماری کام یابی کا راستہ کیا ہے ؟ہم سیکولرزم اور جمہوریت کی بقا کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟۔جشن جمہوریہ اور آنے والے مرکزی انتخابات کے تناظر میں مناسب محسوس ہوا کہ اس سلسلہ میں بھی چند معروضات پیش خدمت کیے جائیں !شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات
ہم جہاں ایک پکے مسلمان ہیں وہیں سچے محب وطن بھی ہیں ،آقائے دوعالم ﷺ نے اپنی امت کو وطن سے محبت کی تعلیم دی ہے خود جب آپ اپنا مولد ومسکن مکۃ المکرمۃ چھوڑ کر مدینہ طیبہ ہجرت فرمارہے تھے تو آپ کی آنکھیں بے ساختہ آنسو بہارہی تھیں اور آپ زبانِ حال و قال سے یہ فرماتے جارہے تھے :ائے سرزمین مکہ!ائے بطحا کی وادی!ائے وطن عزیز! تیرا فراق مجھے ہرگز گوارا نہ ہوتا، اگر تیرے باشندے مجھے اس پر مجبور نہ کرتے ۔اس لیے یہ ہمارا قومی فریضہ ہے (خاص کر ان حالات میں جب کہ وطن سے محبت کی بنیاد یہی کچھ رسوم رہ گئے ہیں ) کہ ہم جشن آزادی یا جشن جمہوریہ منانے میں دیگر ابنائے وطن سے بالکل پیچھے نہ رہیں اور یاد رکھیں !یہ ہمارا اپنا ملک ہے ،ہمارے اسلاف و اکابر نے اس کے لیے بے مثال اور یادگار قربانیاں دے کر اس امانت کو ہمارے سپرد کیاہے ؛لہذا ہم ان زریں مواقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ؛بل کہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مسلم برادران کو بھی ان تقاریب میں مدعو کریں ؛تاکہ انہیں بھی حقائق کو سمجھنے کا موقع ملے۔
ہمیں اس بات کی بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں موجود انتشار کی کیفیت ختم ہو،کم از کم کلمہ کی بنیاد پر ہم اپنے آپ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرلیں !اگر ہم متحد ہوں گے تو ہمارا اپنا وجود اپنے آپ میں ایک قوت کی شکل اختیار کرے گا، جس کو ختم کرنا بہر حال نا ممکن ہوگا۔ اگر اس کے بالمقابل ہم منتشر رہیں گے تو سرے سے ہمارا وجود بے معنی ہوکررہ جائے گا۔ اس وقت مسلمان سیاست کے میدان میں متحد ہو جائیں اور فیصلہ کر لیں کہ انھیں کسی ایک کنڈڈیٹ کو ووٹ دینا ہے تو یقین مانیے ! ہم اتنے مضبوط ہیں کہ جس کو چاہیں ، تخت پر بٹھادیں اور جس کو چاہیں تخت سے اتار دیں۔ضرورت ہے کہ ہم سنجیدگی سے مسائل کاجائزہ لیں !غور و فکر سے کام لیں اور ان کے حل کے لیے مضبوط حکمت عملی اختیار کریں ۔جمہوریت کی حفاظت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے حق رائے دہی کاضرور استعمال کریں اور سیکولر پارٹی کو ووٹ دے کر ملک میں امن وسلامتی کی فضا بحال کرنے کی کوشش کریں ؛کیوں کہ انتخابات بھی جمہوریت کا اہم ستون ہے اگر ہم نے ووٹ دینے کے مسئلہ میں سستی اور غفلت برتی یاپھر انتشارکا شکار ہوگئے تو ہم اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی رقم کرنے والے ثابت ہوں گے ؛اسی لیے اقبال مرحوم نے کہاتھا ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular