Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldتعلیم سے تعمیر

تعلیم سے تعمیر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ایم۔ایم۔سلیم۔

تعلیم سے متعلق سرفراز بزمی نے برسوں پہلے کہا تھا کہ”اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ”یعنی جو تعلیم بندے کو اس کے معبود حقیقی سے دور کرے وہ تعلیم، تعلیم نہیں بلکہ فتنہ ہے۔ آج اگر ہم اپنے تعلیمی نظام پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ واقعی تعلیم ہے یا کچھ اور۔
انگریزوں سے ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ذہن اب بھی ان کے غلام ہیں۔ انگریزوں کی وضع کردہ تعلیمی پالیسی آج ہمارے تعلیمی نظام میں پیوست ہوچکی ہے۔ آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بیک وقت ایک صحافی، مفسر، مدبر،مقرر، تھے۔ گویا تعلیم سے جڑے اک فرد میں جو صفات ہونی چاہئیں وہ سب مولانا آزاد میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔ آج کے تعلیمی نظام کی صورتحال سے ہم سب واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن آج وقت بدل چکا ہے. فسطائی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں . وہ تعلیم کو پوری طرح اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے بے چین ہیں۔ اس عمل کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے. ایسے وقت میں تعلیم کے سلسلے میں امت مسلمہ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔
آج کے اس تعلیمی نظام اور تعلیم نے ہماری نسلوں کو اخلاقی طور سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی عام ہوچکی ہے۔ اسکولوں میں جنسی تعلیم کے نام پر فحاشی اور بے حیائی و عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ بچوں کو ای لرننگ اور ٹریننگ کے بہانے ان کے اندر سے مطالعے کی صلاحیت کو ختم کر دیا جا رہا ہے۔
تعلیم کا مقصد کیا تھا، کیا ہونا چاہیے تھا اور آج کیا ہے؟ آج تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیسے کمانا ہی رہ گیا ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علم کی شمع سے پورا عالم روشن ہوجاتا، مگر افسوس صد افسوس، اس علم کی شمع سے خود ہمارے ذہن اور قلب تک روشن نہیں ہوپارہے ہیں تو عالم کیا روشن ہوگا! آج کی تعلیم انسان کو اندھیرے میں دھکیل رہی ہے۔ آج ہمارے تعلیمی نظام پر مغربی تہذیب پوری طرح حاوی ہو چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں گیدرنگ اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے انتہا فحاشی اور عریانیت کا پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ ریگنگ کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کو یاد رکھنے کے نام پر مختلف دنوں کو منانے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ صرف وقت گزاری یعنی ٹائم پاس۔ آج سماج میں انجینئرس، ڈاکٹرس اور دیگر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد تو بہت مل جائیں گے لیکن کیسے؟ اپنے مقصد حقیقی سے بھٹکے ہوئے…… ہم آج ترقی کے اعلی مقام پر فائز تو ہیں لیکن حقیقی مقام سے اب بھی کوسوں دور ہیں. تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔ آج کے حالات اور تعلیم اور اس کے نتائج کا علم شاید حکیم الامت علامہ اقبال کو بخوبی تھا اسی لیے تو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے پیش اندیشی کی ہے کہ
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
شبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
آج ہم تعلیم حاصل کرنے کے نام پر دین سے کتنے دور ہوچکے ہیں؟ اور پھر روز بہ روز دور ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کا ہمیں شاید اندازہ بھی نہیں ہے. حالانکہ دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم ضروری ہے لیکن ہر بات اور ہر چیز کا ایک پیمانہ ہونا چاہیے۔ آج اگر ہم سماج اور معاشرے میں نظر دوڑائیں تو سب سے زیادہ تعلیمی پسماندگی مسلمانوں میں ملے گی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے، مسلمانوں کو ہر سطح پر پسماندہ بتایا گیا ہے۔ جب کہ ہماری اصل تعلیم اور تعمیر کا سلیبس ہے اس کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی پڑھ ، تعلیم حاصل کر…..
مگر افسوس صد افسوس!
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
مغربی تعلیم و تہذیب نے ہماری مشرقی تعلیم کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس نظامِ تعلیم نے جہاں ہمیں دین سے دور کر دیا ہے وہیں ہماری تہذیب، تمدن و ثقافت سبھی کچھ ہم سے چھین لیا ہے۔ تعلیم کے نام پر ہمارا سکھ،چین، پیسہ، وقت، سب برباد ہو رہا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک کنوینٹ سے لے کر ڈگری کورس تک کے طلبہ، سب ٹیوشنوں پر انحصار کرتے ہیں ۔ آج ٹیوشن کلاسیس میں بچوں کی بھرمار ہے، وہ صبح سے شام تک ٹیوشن میں مصروف ہیں ، اس دوران ان کی نماز، روزہ، تلاوت، کچھ بھی نہیں۔ نتیجہ صِفر ۔ یہاں سینکڑوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کامیاب صرف چند ہی ہوتے ہیں۔ میں ٹیوشن کے ہرگز خلاف نہیں ہوں۔ لیکن جب کچھ حاصل نہ ہو تو پھر ایسے تعلیم اور ایسے تعلیمی نظام سے کیا فائدہ؟ ایسے نظامِ تعلیم کی ترجمانی علامہ اقبال اپنے شعر میں یوں فرماتے ہیں کہ
اور یہ اہل کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
تعلیم سے تعمیر اسی وقت ممکن ہو سکے گی جب ہم دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کو بھی سنجیدگی کے ساتھ حاصل کریں گے۔ آج ہم مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عصری تعلیم کے خلاف ہے لیکن دوستوں یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، ہم اسی وقت تعلیم سے تعمیر کو انجام دے سکیں گے جب ہم دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی اکتسابِ فیض نہ کرلیں۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ جس قوم کا ماضی تعلیم کے اعتبار سے اتنا روشن رہا ہو، آج اس کا حال اتنا تاریک کیوں ہے؟ آج دنیا تعلیم کے لئے بھٹک رہی ہے۔ ایسی تعلیم جو انہیں سکون و چین ، انصاف، مساوات، آزادی، حق و باطل کی پہچان کرائے، ان کا وقت،پیسہ برباد نہ ہو، انہیں کچھ حاصل ہو، ان کی قابلیت سامنے آئے، ایسے نظام تعلیم کی سماج کو ضرورت ہے۔ تو آئیے تعلیم سے تعمیرِ جہاں کا عزم کریں تاکہ قوم و ملت کو تعلیم سے آراستہ کرکے اس جہاں کی تعمیر کریں۔ یعنی بقول علامہ اقبال
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں ، خوابِ گراں خیز
ورنہ پھر یہ بھی جان رکھیے کہ اقبال ہی کے الفاظ میں….
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
(آکولہ)
ضضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular