Tuesday, April 23, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldترجمان

ترجمان

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

تقدیس نقوی

جیسے ہی ہماری پارٹی ہائی کمانڈ نے ہمارے پارٹی کے آفیشل ترجمان یعنی spokespersonمقرر کئی جانے کا اعلان کیا تو پارٹی کے اکثر ساتھیوں’ دوستوں’ واقف کاروں’ اعزاء حتی کہ رقیبوں اور اغیار نے بھی ہمیں اتنے سارے مبارکباد کے پیغامات بھیجے کہ جیسے ہماری کوئی بڑی لاٹری نکل آئی ہو. اتنے مبارکباد کے پیغامات تو ہمیں اپنے ایم – پی بننے پر بھی موصول نہیں ہوئے تھے.ہاں شادی کے موقعہ پر ضرور کثیر تعداد میں پیغامات موصول ہوئے تھے مگر ان میں نصف سے زیادہ تعزیتی نوعیت کے تھے جو بعد میں صحیح اور مناسب ثابت ہوئے کیونکہ ایسے پیغامات میں الفاظ سے زیادہ نیت دیکھی جاتی ہے.بہر حال ہماری دانست میں یہ عہدہ کوئی بہت زیادہ اہم بھی نہیں تھا. پھر بھی لوگوں کے رد عمل سے ہمیںیہ احساس دلایا جارہا تھا کہ ہمیں ہمارےسیاسی کیرئیر کی سب سے اہم اور قیمتی پوزیشن حاصل ہوگئی ہے.
اسی الجھن کو دور کرنے کے لئے ہم نے اپنے ایک سینیر ساتھی اور مشیر پانڈے جیسے سوال کیا کہ کیا ہم اس تقرری کو اپنے لئے کوئی بہت بڑا اعزاز سمجھیں ؟ تو انکا جواب تھا ” ہاں- دور حاضر میں یہ کوئی معمولی پوزیشن نہیں ہے”
” ارے جناب یوں سمجھئے کہ اج سے اپ پوری دنیا میں گھر گھر صبح و شام جتنی مرتبہ دکھائے جائینگے اتنا تو ملک کا پرائم منسٹر اور پارٹی کا صدر بھی نظر نہیں آتا.میرا مطلب ہے ٹی وی چینلوں’ ریڈیو’ اخبارات’ پریس کانفرنسوں اور نیوز بریفنگس کے توسط سے جہاں آپکی پوزیشن ایک بے تاج بادشاہ کی ہوگی. اور اسکے لئےآپکو کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی. سارے ٹی وی چینل والے اپکے گھر ہی پر چوبیس گھنٹے موجود رہینگے. ملک کے دور دراز علاقے میں اگر کسی ان پڑھ شخص سے بھی صدر جمہوریہ اور ہماری پارٹی کے ترجمان کا نام ایک ساتھ پوچھا جائے تو وہ پارٹی کے ترجمان کا نام سب سے پہلے بتائےگا.اب اپ ہی بتائیے کہ پرائم منسٹر صاحب یا پارٹی کے صدر صاحب کے گھر پر چوبیس گھنٹے ٹی وی چینل والے ٹہر سکتے ہیں کیا؟ تو اس طرح آپہوئے سب سے اہم اور مشھور شخصیت یا نہیں ؟”
پانڈے جی کے دلائل نے ایک لمحہ کے لئے ہمارے دل میں یہ احساس جگادیا کہ یقیناً” کوئی تو ہمارے اندر ایسی خوبی ضرور رہی ہوگی کہ جس کی بنیاد پر پارٹی نے ہمیں اس اعزاز کے لئے منتخب کیا ہے.
اپنے اس خیال کو ہم نے جب اپنے بے تکلف بچپن کے یار سنجے جس کے ساتھ ہی ہم نے اپنی پارٹی جوائن کی تھی کے سامنے یونہی زکر کیا تو وہ جھٹ سے کہنے لگا :
“بیشک وہ اعلی خوبی جو اس عہدے کے لئے بہت ضروری اور اولین مانی جاتی ہے وہ تمہارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے پیشے سے وکیل جو ٹہرے تم”
” بھلا ہم بھی تو سنیں کہ وہ کونسی ایسی اعلی خوبی ہے کہ جو ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور ہمیں نہیں معلوم ” ہم نے بھی سنجے سے اسی کے لہجے میں سوال کیا.
” بھئی وہی سفید جھوٹ بولنے اور ہٹ دھرمی والی خوبی” سنجے نے اپنے داہیں باہیں دیکھتے ہوئے میری طرف مسکراتے ہوئے اہستہ سے کہا.
” جناب اسے سفید جھؤٹ کہئے یا کالا. اپنی بات رکھنے کا ہر کسی کو حق ہے. اور پھر یہاں تو پوری پارٹی کے مفادات کا معاملہ ہوتا ہے” ہم نے بھی اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی.
” دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ تمہاری یہ ہٹ دھرمی ہی تو تمہاری سب سے بڑی خصوصیت ہے اب دیکھو اڑے ہوئے ہو نہ اپنی بات پر” سنجے نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا.
” خیر یہ سب جانے دو یہ بتاؤ کہ چوبیس گھنٹے ان ٹی وی چینلوں سے کس طرح نپٹا جائیگا. آخر کچھ وقت تو گھر کے لئے بھی ہونا چاہئے ” ہم نے سنجے سے اس کی رائے مانگی.
” ارے بھئی گھر کے لئے تو اپکے پاس ٹائم ہی ٹائم ہے اپ کون سے گھر سے باہر جارہے ہیں. دیکھئے صبح سویرے اٹھتے ہی اپ سب سے پہلے ناشتے کی میز پر پہنچیں گے تو وہیں سارے چینلوں ک کیمرے پہلے سے فکس کردئے جائیں گے. اب اپ ناشتہ کرتے جائیے اور ساتھ ہی نیشنل ٹی وی پر پارٹی کی ترجمانی بھی. ٹی وی چینلوں کو پہلے سے مطلع کردیا جائیگا کہ وہ اپنے صبح کے پروگرام اپکے ناشتے کے اوقات اور دورانیہ کے مطابق مرتب کریں. کیونکہ آپ ملک کی اہم پارٹیکے ترجمان ہیں اس لئے اگر اپکے ناشتہ کرنے میں کسی وجہ سے تاخیر بھی ہورہی ہوگی تو ٹی وی چینلوں کو کوئی ٹیکنکل وجہ بتاکر سارا پروگرام اگے بڑھاکر ٹائم ایڈجسٹ کرنا ہی پڑیگا. بھلے ہی پورا ملک کسی اہم مسئلہ پر آپکی پارٹی کی وضاحت کا منتظر کیوں نہ ہو. یوں بھی ناشتے کی میز پر آپکا گرم گرم چائے یا کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اس دن کسی موضوع پر چل رہی بحثمیں اپکی پارٹی کا موقف رکھنا پروگرام میں مزید جوش وخروش بھرنے کا باعث بنے گا اور ہاٹ ڈسکشن میں گرماہٹ لانےکا زریعہ بھی. کیمرے صرف اپکے چہرے کے اتار چڑھاؤ’ غصہ اور ناراضگی کو دکھانے کے لئے اپکے چہرے پر ہی مرکوز رہیں گے تاکہ ناظرین کو اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ آپکی پارٹی ہر معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہے. اس لئے کسی کو بھنک بھی نہ پڑیگی کہ آپ نان ویج کا ناشتہ کررہے ہیں جبکہ سب کو اپکے شاکاھاری ہونے کی پریس ریلیز پہلے ہی دی جاچکی ہوگی.” : سنجے نے ہمیں روزانہ صبح کے پروگرام کے لئے کچھ ٹپس فراہم کرتے ہوئے بتایا.
” اس طرح ہمارا آدھا دن تو ایک پروگرام ہی میں نکل جائے گا” ہم نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا.
” جناب صرف ایک پروگرام نہیں بلکہ آپ دوران ناشتہ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ متعدد پروگراموں میں شامل ہونگے. اگر آپآملیٹ کھاتے ہوئے ایک چینل پر چل رہی بحث میں شامل ہورہے ہونگے تو ٹوسٹ کھاتے ہوئے کسی دوسرے چینل پر چل رہی کسی دوسری بحث میں شرکت کرینگے . اور یہ کام اپکے لئے اتنا مشکل بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہر ڈسکشن اور مباحثے میں اپ نے تو اپنی ایک ہی بات کی رٹ لگائے رکھنی ہے کہ اپکی پارٹی ہی تنہا جمہوری پارٹی ہے اور اسکا ہر اقدام پبلک کے مفاد میں ہوتا ہے جبکہ تمام دیگر سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری طرز پر چل رہی ہیں اور عوام مخالف ہیں. اس لئے اپکی پارٹی کا موقف ہی بس سہی ہے باقی سب فراڈ ہیں.اس طرح آپ ایک ہی بات کو ہر چینل پرالفاظ بدل بدل کر اپنی پارٹی کی ترجمانی کرتے رہیں گے دراصل یہی پارٹی کی حقیقی ترجمانی تصور کی جائیگی.” سنجے نے تھوڑی وضاحت کے ساتھ ہمیں ہمارے انے والی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا.
” مگر لنچ کے وقت تک تو پورے ملک سے بے شمار مسائل ٹی وی چینلوں تک پہنچنے لگتے ہیں اور انکے اینکرس تمام سیاسی پارٹیز کے ترجمانوں کی تلاش میں اک پیاسے شتربے مہار کی طرح ادھر ادھردوڑتے پھرتے ہیں. اب ایسے میں اگر کوئی سنجیدہ سیاسی یا تاریخ سے جڑا کوئی پیچیدہ مسئلہ زیر بحث اگیا تو اسکی اسٹڈی کرنے کے لیے کچھ تو وقت درکار ہوگا.” ہم نے سنجے سے اپنی جائز پریشانی ظاہر کی.
” ارے جناب آپ کوئی سارا دن ناشتے کی ٹیبل پر ہی تو نہیں بیٹھے رہینگے. اب اپکا نیا مستقر اپکی لائبریری ہوگا کہ جہاں پہلے ہی سے سارے ٹی وی چینلس کے کیمرے مستقل طور پر آیستادہ کرادئے جائیں گے جن کا زیادہ فوکس آپکی پشت پر سلیقے سے لگی ہوئی درجنوں کتابوں اورمیگزینس پر رہیگا .جس سے یہ خود بخود ثابت ہوجائیگا کہ آپزیر بحث موضوع پر نہایت عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے ہیں. مزید یہ کہ آپکے سامنے ٹیبل پر کچھ دستاویزات اور ڈیٹا شیٹ بھی رکھی ہونگی جنھیں آپ وقت ضرورت اپنے ہاتھ میں لیکر کیمرے کے سامنے ہلا ہلاکر اپنی بات میں وزن پیدا کرسکتے ہیں.س ایسی صورت میں تاریخ سے متعلق کسی موضوع پر مباحثے کےدوران آپ اپنی لائبریری کی شیلف سے کوئی بھی کتاب نکال کرکسی بھی صفحہ کا حوالہ دیتے ہوئے جب اپنی پارٹی کا موقف ناظرین کے سامنے رکھیں گے تو کچھ سیاسی پارٹیزکے ایسے ترجمان کہ جنھیں خود اپنی تاریخ پیدائش یاد نہیں ہوگیتو وہیں ہتھیار ڈالدیں گے. مگر یہ خیال رہے کہ تاریخ سے متعلق مباحث میں شرکت کے لئے آپکوتاریخ پڑھکرآنے کی چنداں ضرورت نہیں. آپکو معلوم ہے کہ آپ سے پہلے پارٹی کے ترجمان کو کس جرم کی پاداش میں اس ذمہ داری سے سبکدوش کیا گیا تھا ؟ ” سنجے نے ہم سے سوال کیا.
” کیونکہ انکو پارٹی کی کچھ دیگر ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں” ہم نے بھی سیدھا سا جواب دیا.
” نہیں ایسا نہیں ہوا. بلکہ وہ تاریخ سے متعلق کسی موضوع کے مباحثے میںغلطی سے حقیقی تاریخ کا مطالعہ کرکے آگئے تھے” سنجے نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ہمیں مطلع کیا.
“ویسے گاہے بگاہے ٹیبل پر سامنے پڑی ہوئی ڈیٹا شیٹس سے لئے گئے کچھ آعدا وشمار کی دھمکیاں بھی کافی کارگر ثابت ہوتی ہیں. جب تک اس سے متعلق ایکسپررٹس ان آعداد وشمار کو چیلنج کرتے ہیں تب تک آپ بازی مار کر کسی دوسرے مباحثے میں مصروف ہوجاتے ہیں. مثلا” اگر اپ سے ملک میں دن بہ دن بگڑتی ہوئی موجودہ تعلیمی نظام کی صورت حال پر آپکی پارٹی کا لائحہ عمل پوچھا جائے تو آپ فورا” بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی بڑھتی تعداد کا ڈیٹا فراہم کردیجئے . جس کو ثابت کرنے کے لئے اپوزیشن کو صدیاں لگ جائیں گی. کسانوں سے متعلق کوئی سوال پیش کیا جائے تواپ حال ہی میں افتتاح کی گئی کسی بھی ایکسپریس ہائی وے کی اہمیت اور اس پر خرچ کی گئی خطیر رقم کا حوالہ دے دیجئے.” سنجے نے بھی آج گویا ہماری ساری تشویشات دور کرنے کا عہد کیا ہوا تھا.
ابھی ہماری یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ پارٹی ہیڈکوارٹرس سے فون آگیا کہ ہمیں وہاں ایک ارجنٹ پارٹی بریفنگ اور مختصر ٹریننگ ورکشاپ اٹنڈ کرنی ہے کیونکہ آج رات ہی سے ہمیں میڈیا کے سامنے خود کو پارٹی کے آفیشل ترجمان کے طور پرمتعارف کرانا ہوگا. ہم طے شدہ بریفنگ روم میں پہنچے تو وہاں پارٹی کے تھنک ٹینک کے سینیر ممبر اور علاقات عامہ کے سکریٹری مسٹر دو بے کہ جو خود بھی کافی عرصے تک پارٹی کے ترجمان رہ چکے تھے سے ملاقات ہوئی. ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ہال میں ہماری اپنی پارٹی کے اعلی عہدیداروں کی تصویروں کے علاوہ سامنے دیوار پر ساری بڑی سیاسی اپوزیشن پارٹیز کے قائدین کی تصاویر بھی آویزاں تھیں مگر مختلف انداز کی. سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے رہنما کی وہ تصویر لگی تھی کہ جس میں کسی سیاسی جلسے میں انکو سیاہ جھنڈے دکھائے جارہے ہیں. دوسری تصویر بھی ایک دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے قائد کی تھی کہ جن کے اوپر کسی نے ایک سیاسی ریلی میں جوتا پھینکا تھا. تیسری تصویر بھی ایک خاتون سیاسی لیڈر کی اس وقت کی تھی کہ جب ان پر کسی نے سیاہی پھینکی تھی.
دوبے جی کی ورکشاپ شروع ہوئی جس میں انھوں نے وہاں موجود تمام ترجمان حضرات کو سب سے پہلے پارٹی کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ‘ دفاعی سمجھوتے اور پارٹی کے مینوفسٹو اور دیگر پالیسیوں کی یاد دہانی کرائی. ساتھ ہی انھوں نے یہ باور کرانے کی کوششکی کہ کیونکہ ہماری پارٹی پارلیامنٹ میں عوام کی آکثریت کی حمایت سے آئی ہے لہٰذا ہماری ساری پالیسیوں پرعوام کی تصدیق کی مہر ثبت ہے. اس لئے ہمیں ہرحال میں اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہے بھلے ہی اپوزیشن کتنا ہی شور مچائے اور کتنی ہی پالیسیوں کی ناکامیوں کا ڈھنڈورا پیٹے. اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اگر اپوزیشن ہماری کامیابیوں کی لسٹ مانگے تو اپ کوان لوگوں کو انکے دور اقتدار میں کی گئی غلطیوں کویاد دلانا ہوگا. اگر ہمارے دور کے کسی اسکام یا گھوٹالے کو زیر بحث لایا جائیگا تو اسکی صفائی دینے کے بجائے آپ لوگوں کو انکے دور اقتدار میں ہوئے اسکام اور گھوٹالوں کو یاد کراکے بحث کا رخ انھیں کی جانب موڑنا ہوگا.
ہمارے اس سوال پر کہ آخر ہماری پارٹی کے دفتر میں ان اپوزیشن لیڈروں کی یہ مخصوص تصاویر کیوں لگائی گئی ہیں تو دوبے جی نے جواب دیا کہ اس بریفنگ روم میں اگر آپ کبھی پریس کو بریفنگ دیتے ہیں تو یہ نہ بھو لئے کہ ملک میں سارے مسائل کا باعث اور فساد کی

جڑ یہ حضرات ہی ہیں. اسی کی یاددہانی کے لئے یہ تصاویر لگادی گئی ہیں تاکہ آپ لوگ ہرمسئلہ کا ذمہ دار ان ہی لوگوں کو ٹہرائیں. مگر دوبے جی نے ساتھ ہی ایک تنبیہ بھی کی کہ ہم جب بھی کسی اپوزیشن لیڈر کا نام لیں تو بڑے احترام کے ساتھ لیں. مثلا” کسی مرد اپوزیشن لیڈر کا نام لینے سے پہلے ” آدڑئیے’ شری ‘ مہودے یامحترم وغیرہ کے القاب استعمال کریں اور اگر لیڈر کوئی خاتون ہیں تو آدڑئیے وشری متی’ محترمہ وغیرہ سے مخاطب کریں. اس طرح مخاطب کرنے کے بعد آپ پھر جس طرح چاہیں انکے ساتھ سلوک روا رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ القاب استعمال کرنے سے آپ کو اخلاقی شیلڈ مل چکی ہوتی ہے .اب آپ کو اختیار ہے کہ آپ انکے خاندان’ نسل’ رنگ’ جنس اورذاتی کردار پر جس طرح چاہیں تبصرہ کرتے ہوئے انکی کردار کشی کرسکتے ہیں. کسی کے پوچھنے پرکہ دوسری پارٹیز کے ترجمان تو کھلے عام گالی گلوچ کرتے نظر آتے ہیں تو پھر ہماری یہ خوش اخلاقی کے تکلف کی کیا ضرورت ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ اسکی طرف سے آپ بالکل بے فکر رہیں. اس کام کے لئے ہماری پارٹی نے ایک شیڈو ترجمان’ بٹھا رکھا ہے کہ جس کا کام ہی سب و شتم اور مخالفین کو برا بھلا کہنا ہوتا ہے. اپوزیشن کے برا ماننے یا سخت رد عمل پر پارٹی صاف بیان دیدیتی ہے کہ وہ ہمارے آفیشل ترجمان نہیں ہیں یہ انکا اپنا ذاتی خیال ہوسکتا ہے. اس طرح سے سانپ بھی مرجاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی.
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular