Wednesday, April 24, 2024
spot_img
HomeMuslim World’’بہار میں اردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘پرمیرے تاثرات

’’بہار میں اردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘پرمیرے تاثرات

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ہمااحمد
پیشِ نظرتصنیف’’بہار میںاردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘اردوکاابھرتاہواادیب محترم ڈاکٹرمحمدارمان کی تصنیف ہے۔ گذشتہ دوتین برسوں میںاردوادب کے حوالے سے شہرعظیم آبادکے ادبی منظرنامے پرجونام نہایت تیزی سے ابھرا ہے وہ نام ہے ڈاکٹر محمدارمان کا۔شہرعظیم آباد کے لئے ڈاکٹرمحمدارمان کاچہرہ نیاہوسکتاہے لیکن میںانھیںایک دہائی قبل سے جانتی ہوں اورپہچانتی ہوںجب ان کاداخلہ شعبہ ایم۔بی۔اے،گیاکالج ،گیامیںہواتھا ۔انھوںنے ایم۔بی۔اے(ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن)کی سند سے فراغت پاکر گیاکالج ، مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیاسے اردومیںایم۔اے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اورسال ۲۰۱۶ء میں پی ایچ۔ڈی مگدھ یونیورسیٹی ، بودھ گیا سے کی ۔ابھی فی الحال ’’ہمدرد‘‘ لیباروٹریزدہلی کی کمپنی میںبحیثیت Area Sales Managerہیں۔صحافت،ادب اور ملازمت کاکام ایک ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔کافی مصروفیت کے باعث اپنے ذوق و شوق سے اردوادب کی خدمت بھی کررہے ہیں۔ ڈاکٹرمحمدارمان کوحصولِ علم کاذوق اس قدر ہے کہ ملازمت کرنے کے باوجود اس جانب سے مطمئین ہوکرنہیں بیٹھے بلکہ اپناتعلیمی وتخلیقی سفر جاری رکھا۔اردومیں پی ایچ ڈی کرنے کے بعدان کاادبی ذوق مزیدبالیدہ ہوااورپروان چڑھا جس کے نتیجے میںوہ ایک تصنیف ’’بہار میں  اردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘مرتب کیے ۔ان کی نثری تخلیقات وتبصرے اکثراخبارات ورسائل کی زینت بن رہی ہیں ۔وہ عنقریب اپنے تصنیف پرمختلف حلقۂ ادب کے ادیبوں ،دانشوران اورمشاہیرِاردو کے تبصرے کامجموعہ سے نذرقارئین کرنے والے ہیں۔اب مستقبل یہ طئے کرے گا کہ اردودنیامیںڈاکٹرمحمدارمان کی شناخت بحیثیت تبصرہ نگار یانثرنگارقائم ہوگی۔
زیرِمطالعہ تصنیف’’بہارمیںاردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘۲۰۳؍صفحات پرمشتمل ہے جوضخیم نہیںہے ،قیمت معقول ہے ۔اس کتاب کی اشاعت مینار پبلی کیشن ،خزانچی روڈ،پٹنہ نے کی ہے۔یہ کتاب صوری ومعنوی دونوںاعتبارسے دلکش ہے۔کتابت عمدہ ہے،طباعت صاف ستھرہ اورگٹ اپ جاذب نظر ہے۔کتاب میں فلیپ کی تحریر پروفیسراسلم آزاد(پٹنہ)اورجناب عطاعابدی کی رقم کردہ ہے۔کتاب کا اعتراف ڈاکٹرجاویدحیات،صدر شعبہ اردوپٹنہ یونیورسیٹی ،پٹنہ کاہے جبکہ کتاب کااستقبالیہ پروفیسرعلیم اﷲحالیؔ(پٹنہ)کاتحریرکردہ ہے۔علیم اﷲحالیؔنے اس تصنیف کے تعلق سے اپنی دوٹوک رائے ان الفاظ میں دی ہے:
’’مصنف نے ابتدائیہ کے بعداپنے تحقیقی مقالے کوپانچ ابواب میں منقسم کیاہے۔ابتدائیہ میںانھوںنے موضو ع کے انتخاب کی توجیہ پیش کی ہے اوربعدکے ابواب میںعام نصابی تحقیقی خاکے کی طرح مرثیے کی تعریف وصنفی توضیح،اس کے ادبی مقام،اس کی قیمت وانفرادیت کاتفصیلی جائزہ پیش کیاہے۔ ایک اچھے محقّق کی طرح انھوں نے مرثیہ نگاری کی ابتدائی کاوشوں کاسلسلہ شعرائے دکن کی مرثیہ نگاری سے شروع کیاہے۔اس کے بعد دہلی اور لکھنؤکے مرثیہ نگاروں سے بحث کی ہے۔چونکہ محقق کے مطالعے کاتعلق خاص صوبہ جاتی تجزیہ وتحقیق سے ہے اور انھوںنے اس کے لئے بہارکے مرثیہ نگاروں کومخصوص کیاہے،اس لئے انھوںنے نہایت محنت اورکامیابی کے ساتھ یہاںکے مرثیہ نگاروں کاتجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔تنقیدی مطالعے میںانھوںنے اس خطہ کے معاشرتی اور لسانی امتیازکاجائزہ بھی لیاہے۔بہار میںمرثیہ نگاری کے آغازاورارتقا کی جو تفصیل انھوںنے پیش کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔اس کے علاوہ انھوںنے اس بات کی کوشش بھی کی ہے کہ تجزیاتی مطالعے کے درمیان بہارکے تمام اہم مرثیہ نگاروںکوسمیٹ لیاجائے۔ڈاکٹرمحمدارمان کی یہ کاوش قابلِ قدرہے۔تنقیدی جائزے میںاظہار وبیان کی مہارت ان کے صاحبِ صلاحیت ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
کتاب میںپروفیسر علیم اﷲحالیؔ کی تحریر کے بعد ڈاکٹر جاویدحیات(پٹنہ)نے مذکورہ تصنیف کے تعلق سے متعارف کرانے کی کوشش ان الفاظ میںکی ہے:
’’صوبہ بہار ہمیشہ سے فکروفن کا منبع رہاہے ۔یہاں ہردورمیںتمام شعبۂ حیات زندگی میں باکمال رہے ہیں اور اپنے فن میںبزرگی کے نشانات چھوڑ گئے ہیں۔مرثیہ نگاری میںبھی بہار کوایک اہم مقام حاصل ہے۔ صوبہ بہار میں مرثیہ نگاری کی تاریخ مستحکم اورارتقا پذیر رہی ہے۔ہردورمیںیہاںکے شعراء نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیاب اوراہم مرثیے قلمبند کیے ہیںنیز عہدبہ عہد مختلف مرثیہ نگاروں اوران کے کلام سے واقف کراتے ہوئے مصنف نے شادؔاورجمیل مظہریؔ سے ہوتے ہوئے نقی احمدارشادتک بہارمیںاردو مرثیہ نگاری کا ایک پورامنظرسامنے لایاہے۔‘‘
کتاب میں ڈاکٹرجاویدحیات کی تحریر کے بعد خودمصنف نے اپنی کتاب کے ابتدائیہ میں مقالے کی تشکیل وموادکی فراہمی اور مختلف لائبریریوںسے استفادہ کرنے میں اپنے استاد پروفیسرسراج الدین سابق صدر شعبہ گیاکالج،گیا کی رہنمائی اورحوصلہ افزائی کے لئے شکریہ اداکیاہے۔
اپنے والدکاذکر کرتے ہوئے ان کی شفقت ومحبت کومؤثراندازمیںپیش کیاہے پھر مصنف نے اپنی حوصلہ افزائی کے لیے جن حضرات کاشکریہ اداکیاان میںپروفیسرمحمدمنصورعالم،پروفیسر فصیح الزماں (مرحوم)، پروفیسرحسین الحق، پروفیسر سلمان بلخی، پروفیسرمحفوظ الحسن، ڈاکٹرشاہدرضوی، پروفیسرانورپاشا،صدر شعبہ اردو،جواہرلال نہرو یونیورسٹی، دہلی، محمداشتیاق سابق وائس چانسلر مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا، پروفیسرعلیم اﷲحالیؔ، خورشیداکبر، پرویزعالم ، حبیب اﷲنظامی، عبیداحمد، مصطفی کمال، جمیل اختر وغیرہم کے نام شامل ہیں۔موصوف نے بالخصوص اپنے تمام بزرگوں ،دوستوں اورعزیزوں کے ساتھ اپنے والدین محمد سلّم ابن محمدعیسیٰ مرحوم،نسیمہ خاتون،اہلیہ ہما احمد، بھائی تمناعالم،ارشد نعمانی اورچچا محمد شہریارمرتضیٰ،جناب شمیم احمداستھانوی،فیض احمد،صیف احمد،کیف احمد،یونس امان اور محمدارشاد وغیرہم کا شکریہ اداکرنے میںاپنی دریا دلی اوروسیع القلبی کامظاہرہ کیاہے۔ان تمام اپنے محسنین کے تعاون کاجس اندازمیںذکرکیاہے وہ قابل توجہ ہے۔
آج کے سائنس و ٹکنولوجی کے دورمیںمختلف اصنافِ ادب جیسے داستان،ناول،ڈرامہ،ناولٹ اورافسانچہ وغیرہ پرطبع آزمائی کرنے کے بجائے نیم مردہ صنف مرثیہ پرطبع آزمائی کرنااورایک کتابی شکل دینے کاسنجیدہ حوصلہ رکھناایک مستحسن قدم ہے۔ڈاکٹر محمدارمان کے تصنیف وتالیف سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ انھوںنے بہارمیںاردومرثیہ نگاری کے ارتقا سے واقف کرانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔
ریاست بہار میں شعراء نے مختلف اصنافِ سخن کی مرثیہ کی آبیاری بھی زمانہ قدیم سے کی ہے۔مصنف نے بہارکے تمام مرثیہ نگاروں کاایک مربوط تجزیہ پیش کیا ہے اوراس بات کی نشاندہی کی ہے کہ لکھنؤکی طرح یہاںکوئی انیسؔ ودبیرؔپیدانہیںہوئے لیکن بہارکے جن لوگوں نے اس صنف کواپنے فن سے بے پناہ تقویت پہنچائی اوراردومرثیہ کے معیار اوروقار کو بلندکیاان میںشاہ آیت اﷲنورالحق طپاں،ظہورالحق ظہور،شاہ امام علی ترقی ،غلام مخدوم ثروت،غلام علی راسخ ،شاہ ابوالحن فرد،غلام عظیم آبادی ،سیدعلی اکبر کاظم عظیم آبادی،جمیل مظہری،ڈاکٹرنتھوی لال وحشی،امین رضوی داناپوری،ہوش عظیم آبادی،دانش عظیم آبادی،کاظم حسین زارعظیم آبادی،مرتضیٰ اطہر رضوی، شہزادمعصومی ،نقی احمدارشاد،سیدصابرحسین صابرآروی،فردوسی عظیم آبادی،گوہرشیخ پوری،شاہ متین الحق عمادی اورشادعظیم آبادی وغیر ہم کے نام قابل ذکرہیں جنھوںنے مرثیہ کے قالب میں نئی روح پھونکی ،نیااندازوبیاں کے پیکر کونکھارااوراسے اپنے انداز میں سنوارا۔ بہارکے  مرثیہ نگاروں کے اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎
زخمی برنگ گل ہیں شہیدانِ کربلا
گلزار کی حظ ہے بیابان کربلا
کھائے چلاہے زخم ستم ظالموںکے ساتھ
ہے سربریدہ شمع شبستان کربلا
(مصطفی خاںیک رنگؔ)
مرنے سے خوف جہل ہے اے بنت مرتضیٰ
خاصان حق کوایسی جہالت نہیں روا
خالق ہے جب کہ موت کاسب کی وہی خدا
انسان کوتب خدا کی مشیت کو دخل کیا
(شادعظیم آبادی)
چلا خنجر کٹا جس دم گلا شبیر سرور کا
زمیں لرزی فلک کانپ اٹھا تب شور محشر کا
عزیر وقصہ اندوہ طور مار جفا کوئی
لکھے کیا غم سے ہوتا ہے گریباں دفتر کا
(مولوی غلام محزوں ؔ)
ضبط نالہ کریں تو سینہ پھٹا جاتا ہے
نہ کریں گر یہ تو دل غم سے جلا جاتا ہے
ناتوانی سے بدن اپنا گرا جاتاہے
صبر کا تاب و تواں دل سے اٹھا جاتاہے
(شاہ ابوالحسن فردؔ)
یا حسین ابن علی یا سید عالی جناب
اسماں مجھ کو کہاجائے ہے اب ذلت کاباب
در بدر کب تک پھروں یوں آہ با حال خراب
منت نااہل سے ہے دل کو رنج بے حساب
(راسخ عظیم آبادی ؔ)
آخری باب محاکمہ ہے جہاں پوری کتاب کالب و لباب پیش کیا گیاہے ۔محاکمہ میںاختصار کوپسندکیاجاتاہے۔ مصنف نے ان حدود کو برقراررکھنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا زیرنظر ڈاکٹرمحمدارمان کی تصنیف کردہ کتاب’’بہارمیںاردومرثیہ نگاری کاارتقا‘‘ایک معلوماتی کتاب ہے جسے مطالعہ کرنے کے بعد نہ صر ف بہار بلکہ ہندوستان کے باذوق لوگ نیز طلباء و طالبات اوردانشور حضرات مستفیض ہونگے۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ادھررواں سال بہارکے درس گاہوںسے اردو سے منسلک پی ایچ ڈی کے امتحانات میںپوچھے گئے سوالات میںایک سوال’’بہار کے مرثیہ نگاری‘‘پرمبنی تھا ۔ارما ن صاحب کایہ کام نایاب نہیںتوکمیاب ضرورہے۔
بہرحال میںڈاکٹرمحمدارمان کونہایت خوبصورت اوربامقصدکتاب کی پیش کش کے لئے تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس بات کی بشارت دیتی ہوں کہ حلقہ ادب میںاس مجموعے کوغیر معمولی پذیرائی حاصل ہوگی ۔خدا کرے ان کی تحقیقی کاوش اس کتاب تک ہی محدود نہ رہے بلکہ ان کہ زورقلم میںاور پرآرزش اضافہ ہوتاکہ ہم سب ان کی مختلف النوع تحریروں سے فائدہ حاصل کرتے رہیں۔آمین
دل کا رہ جائے ورق یوں ہی نہ سادہ سادہ
اے زلیخا تو اسے یوسفِ ثانی لکھ لے
اس عمدہ تصنیف کے مطالعہ کے خواہش مند حضرات بک امپوریم سبزی باغ،پرویزبک ہاؤس وعلمی مجلس،کیمپس گورنمنٹ اردو لائبریری پٹنہ۔۴ نیزظفربک ڈپو ،چھتہ مسجد گیاسے صرف ۳۰۰؍روپیے میںاسے حاصل کرسکتے ہیں یامصنف سے براہ راست رابطہ قائم کیا جا سکتاہے جن کا موبائل نمبر اس طرح ہے۔9931441623۔
٭٭٭
مکرمی ………آداب!!
امیدہے کہ مزاج گرامی بخیرہوگا۔
عرض تحریریہ ہے کہ راقم کی تبصرہ بغرض اشاعت ارسال خدمت ہے ۔توقع ہے کہ راقم کی تحریر آپ کے اخبارمیںزیورطباعت سے آراستہ ہوجائے۔
خاکپائے ادب
ھُمااحمد
رابطہ نمبر:9199530926
٭٭٭
شانتی باغ ،نیوکریم گنج،گیا
رابطہ:9199530926
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular