Wednesday, April 24, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبٹیاں رہ گئیں اب سیاست کے لیے

بٹیاں رہ گئیں اب سیاست کے لیے

غلام علی اخضر
شام میں دوستوں سے مقالات کی غرض سے آشوکا پارک پہنچا۔ کچھ دیر تک باتیں ہوئیں، پھر سبھی احباب چائے نوشی کے لیے چائے کی دوکان کی طرف چلے۔ وہاں پہنچا تو کافی بھیڑ دیکھا اور لائٹ بھی نہیں تھی۔ہم لوگ چائے نوشی کے بجائے کچھ دیر کے لیے دوسری طرف تفریح کے لیے چلے۔ پھر واپس آئے تو معاملہ جوں کا توں دیکھا۔ ہم لوگوں نے سوچاکہ انتظار کرنے سے بہت دیر ہوجائے گی ۔ اس لیے روڈ پر ہی کھڑے کھڑے چائے نوشی کرلی۔ میں اپنے روم کی طرف نہ آکر عامر بھائی کے ساتھ ان کی ضد کی وجہ سے چاند صاحب کے روم پر گیا۔ سب بیٹھے تو چاند صاحب نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ کچھ آپ نے سنا ہے۔ غازی آباد میں ایک دل خراش واقعہ پیش آیا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ تب انھوں نے اپنے موبائل فون میں نیوز(آج تک) چالو کرکے میرے ہاتھ میں دیا۔ میں نے دیکھا کہ روہت سردانا بڑے جوش میں خبر نشر کررہے ہیں اور کہہ ہے ہیں کہ ’’کب پکڑا جائے گا بلت کاری مُلا‘‘ ایک کینڈل مارچ کی بھی تصویر دکھائی دی۔ جس میں لوگ ہاتھوں میں بڑی بری تحریر کی زبانی یہ اعلان کرہے ہیں کہ ’’ہندو بیٹی کو انصاف دو‘‘ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کینڈل مارچ میںمنوج تیواری جی بھی پیش پیش تھے،جو بی جے پی کے لیڈر ہیں۔ ذرا سوچیے کہ سینٹرل میںحکومت ان کی ہے ۔ یوپی میں ان کی ہی سرکار، توانصاف کون دے گا۔ آپ کی سرکار ہے اور آپ ہی انصاف کے لیے ہلا بول رہے ہیں۔ اچھی سیاست ہے۔ سیاست چمکانے کے لیے عوام کے بیچ اچھی کلا بازی ہے۔ کچھ بے غیرت انسان اس میں شامل ہو کر جذبات میں بھڑکائولب و لہجہ استعمال بھی کررہے تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گر آپ یقینی طور پر ہمدردی رکھتے ہیں ، تو ہندو مسلم کی سیاست نہ کرکے صرف انصاف کی باتیں کرتے ، مگر افسوس کہ اس جلوس میں انصاف سے زیادہ بھڑکانے والی صدا گونج رہی تھی۔ روہت سردانا نے بھی اس کو خوب ہوا دیا۔ ایک بار میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ’’ غلام علی جی! ملک میں اگر میڈیا سدھر جائے تو ملک کا ماحول صحیح ہوجائے گا۔ کچھ بھی ملک میں ہوا۔ بس کیا ہے چار نیتا جی کو بلالیے ؛ دو ایک بی جے پی کے ، دوایک کانگریس کے اور دوایک دیگر پارٹی کے یا غیر پارٹی کے، پھر مدعے پر بحث کرنا شروع کردیئے، اس میں مدعے پر بحث کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی زیادہ ہوتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ تمھاری حکومت میں کیا نہیں ہوا تھا ، کوئی کہتا ہے کہ بچنے کی کوشش مت کرو مدعے پر بات کرو۔ایک دوسرے کو چور بنانا،غرض کہ طرح طرح کی باتیں ، لیکن اصل میں مذھب کی سیاست زیادہ ہے اور مطلب کی سیاست کم۔
ملک میں سیاسی لیڈر اس طرح کے واقعات میں فوراً خبر کی سرخی بٹور نے اور ساتھ ہی سیاسی مقصد کو کامیاب کرنے کے لیے میدان میں فوراً اتر آتے ہیں تا کہ اس کو قوم ہمدرد سمجھے۔ بات یہ ہے کہ جب لڑکی نے پولیس کے سامنے یہ بات بتائی کہ ان کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے توکچھ لوگ بلاوجہ اس کے ساتھ ہمدردی جتلاکر ہنگامہ آرائی شروع کردی اور فرقہ وانہ کشیدگی پھیلاکی کوشش  کی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ کٹھوااور انائو کے دل دہلانے والے واقعات کو لے کر جو بلا تفریق مذہب و ملت ملک گیر مظاہرے ہوئے ۔ یہ مظاہرہ دراصل ایک خاص طبقے کے ذہن میں کھٹک رہا تھا۔ جو ہمیں ان مارچوں کے ذریعے دیکھنے اور سنے کو ملا۔ وہ کہتے ہیں’’کٹھوا پر اتنا شور تو اس معاملے میں خاموشی کیوں؟ایسی ذہنیت کے لوگ جو اپنے نیتائوں کو بچانے کے لیے پیش پیش تھے آج وہی بغیر تحقیق کے اس بات کی مانگ کر رہے ہیں کہ ’’ملا کو پھانسی دو‘‘۔ مگر خبریں کچھ چوکانے والی بھی آرہی ہیں۔گیتا کے ساتھ جس مولانا کو منھ کالا کرنے میں شریک بتایا جارہا ہے،انھوں نے ہی خود نارکو ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ہے، جو شاید اس سے پہلے کبھی کسی نے کیا ہو۔ممکن ہے کہ اس بات سے سیاسی جماعتوں میں بدہضمی پیدا ہوگئی ہو۔ مجرم ٹھہرائے ہوئے مولوی نے مزید کہا ہے کہ ’’اگر میں قصور وار ہوں تو مجھے بر سرعام پھانسی دی جائے‘‘ ۔ کچھ خبریں اس طور پر بھی ہیں کہ لڑکی خود اپنی رضا مندی سے آئی تھی۔ جس پر سی سی ٹی وی کیمرا فوٹیچ دال ہے۔ اگر یہ باتیں واقعی میں صحیح ہیں توپھراسے زنا بالجبر سے تعبیر کرنا نہایت ہی ناانصافی ہے۔ اس پر کافی سنجیدگی سے جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل جو سب سے گندی سیاست ہورہی ہے وہ ہے؛جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مجرم کا مذہب معلوم کرنا اور پھر اسی اعتبار سے سیاست کرنا ۔ مجرم اگر غیرمذہب ہے توفوراً پھانسی کی مانگ اور نہیں ہے تو مجرم قصور وار ہونے کے باوجود اس کی براء ت و آزادی کے لیے آواز بلندکرنا اور ہنگامہ کرنا۔
خیر! یہ سب تو ہوتا ہی رہے گا جب تک عوام سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتی رہے گی اور ان کے ہاتھ کا کٹ پتلی بنی رہے گی۔ میرا تو کہنا ہے کہ انائوکا معاملہ ہو یاکھٹوا یا سورت یا گیتا  یا دیگر جگہوں کے معاملات ان میں یا تو ایسی قوم کی بیٹی ہے جو مذہب کو آڑ بناکر سیاست کرنا نہیں جانتی ہے۔ یا تو ایسی معصوم کلیاں ہیں جو ابھی مذہب کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتی ہیں ۔ وہ جانے بھی کیسے،جن کا مذہب صرف ابھی کھیلنا ہی ہو۔ اس لیے ہمیں مذہب کی سیاست نہ کرکے انصاف کی سیاست کرنی چاہیے۔ پھر یہ کہ مجرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کسی فرقے سے تعلق رکھے وہ اگر مجرم ہے تو مجرم ہے۔چاہے مجرم مولوی ہو یا پنڈت ہو، کوئی لیڈر ہو کہ کوئی مذہبی رہنما اگر وہ مجرم ہے تو سخت سے سخت سز اہونی چاہے۔ تاکہ اس طرح کی فحاش حرکت معاشرہ میںباربار نہ ہو،اورملک کی فضا مکدر ہونے سے بچ جائے۔ کچھ باتیں ہمیں اپنی بہنوں سے بھی کہنی ہیں کہ آج بھی سماج میں تم ایک پست مقام پر کھڑی ہو تمھیں انصاف دلانے کے بجائے اس سے کہیں زیادہ تم کو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں کاسٹنگ کائوچ‘‘ بزبان سروج خان ،رینو کاچودھری اور شتروگھن سنہاطشت ازبام ہوئے ۔ اس بات نے تو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ،کہ آج بھی سماج میں لڑکیوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے کن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے تم مذہب کی سیاست سے آزاد ہوکر اپنے وقار کی جنگ لڑو!۔
٭ایم ،اے اردو دہلی یونیورسٹی۔
7275989646
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular