اہل ِ بیت سے دوری کی وجہ سے اسلام پر دہشت گردی کا الزام

0
180

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

اودھ نامہ کے زیر اہتمام منعقد ’’حسین ڈے‘‘ میں کی گئی تقریر

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی

شہنشاہِ بقاء کی بابت ترپاٹھی صاحب نے جس خوبصورت انداز میں باتیں کی ہیں، ظاہر ہے وہ میرے بس کی بات نہیں ہے، لیکن چونکہ میں پچھلے 60-50 سال سے سائنس کا ایک طالب علم رہا ہوں۔ لہٰذا میں آج کے اس موضوع کو ’’اسلام میں دہشت گردی اور واقعۂ کربلا‘‘ جو آج کا موضوع گفتگو ہے۔ دیکھئے سائنسی اصول جب اپنالیا جاتا ہے تو وہ کئی مدارج سے گذرتا ہے پہلا سائنسی فلسفہ سامنے آتا ہے پھر وہ سائنسی تھیوری بن جاتا ہے پھر وہ مشاہدہ کہلاتا ہے، مشاہدے میں آتا ہے اور پھر اُس پہ جب عمل کیا جاتا ہے اور نتائج وہ نکلتے ہیں جن کی توقع کی جاتی ہے تو پھر اسے سائنسی اصول کہا جاتا ہے۔ تقریباً یہی سب کچھ دین اور مذاہب کی بابت بھی ہے، جب حالات خراب ہوتے ہیں اور ایک نیا دین، ایک نیا فلسفہ آتا ہے تو لوگ اسے آسانی سے قبول نہیں کرتے ہیں لیکن جب نئے فلسفے کو جو دین کا فلسفہ کہلاتا ہے، اس کو لوگ قبول کرتے ہیں تب اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جو دین کی بیسک اور بنیادی باتیں ہیں کہ ان کو ماننے والے کتنے ہیں؟ اور ان کو ماننے والے کیسے ہیں؟
اسلام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ اللہ کے کلمات سب انسانوں کے سامنے آئے لیکن ایک بڑی تعداد نے اس فلسفے کو ماننے سے انکار کردیا، لیکن یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ وہ کیسے ہوا؟ کیسے کامیابی ملی؟ بہرحال ایک وقت وہ آیا جب اس فلسفے کو ماننے والے سامنے آئے اور انہوں نے اسلام کی بنیادی باتوں کو صرف یہی نہیں کہ صحیح مانا بلکہ اس پر عمل کیا اور اُن بنیادی باتوں میں ایک بہت بڑی بنیادی بات تھی اور وہ نہ صرف عرب کے تنازل میں بلکہ پوری دنیا کے تنازل میں وہ ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی کہ ساری انسانیت ظلم سے کانپ رہی تھی۔ ایں جناب آتے رہے اور آں جناب جاتے رہے آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی یہ بات آج کہی گئی تھی لیکن تھی اس وقت کی، چنانچہ مسلمانوں میں اصحاب نے بڑے بڑے ظلم کا سامنا کیا لیکن ایک وقت وہ آیا جب کربلا کا واقعہ ہوا اور ظلم کے خلاف نہ جھکنے کا جو رُکن تھا اس پر مہر لگ گئی تو سچ پوچھئے تو یہ اسلامی اصول کی ظلم کے خلاف جھکنا نہیں ہے، ظالم کے سامنے جھکنا نہیں ہے یہ شروعات تو رسول کے زمانے میں ہوگئی تھی لیکن اس پر مہر حضرت امام حسین ؑ کے زمانے میں لگی اور یہ جو مہر ہے پچھلے 1400 سال سے بار بار دُہرائی جارہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ دَورِ انصافِ اسلامی میں صرف مسلمان کیا ساری دنیا اس کو بھول چکی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کو یہ اظہار کردیں کہ جو واقعۂ کربلا ہوا تھا وہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ وہ اسلام کا ایک پیغام تھا جس پر جب تک عمل ہوتا رہا اسلام ساری دنیا میں چھایا رہا اور جب عمل نہیں ہوا تو اسلام دَورِ انحطاط اسلامی میں آگیا۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام کی جو بلندیاں تھیں اس کو ساری دنیا نے مانا تھا۔ اسپین سے لے کر ہندوستان تک مسلمان قیادت کررہا تھا اور شاید آپ میں سے زیادہ تر جانتے ہوں کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی تھی، اس کی شروعات ہوئی تھی علم کی اس پیاس سے جو مسلمانوں کو تھی۔ اور شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ علم کی پیاس کا ایک شخص جابر بن حیان تھا جو حضرت امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں بارہ سال رہا۔ اس نے صرف دین حاصل نہیں کیا بلکہ اس نے علم کی ترغیب حاصل کی اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ اتنا بڑا سائنٹسٹ بن گیا کہ آج یوروپ والے اس کو فادر آف کیمسٹری کہتے ہیں۔ جابر بن حیان ساری دنیا میں (مسلمانوں میں نہیں) فادر آف میڈیسن کہلاتا ہے، اس کی تربیت ہوئی، ایک وہ شخصیت جو اہل بیت میں سے تھی جس نے صرف دین ہی اس کے سینے میں منتقل نہیں کیا بلکہ دنیا کا علم روشن کردیا اور وہ روشنی اس حد تک پھیلتی رہی کہ اسلامی دنیا میں اتنے بڑے سائنسداں ہوئے جو ساری دنیا میں چھا گئے۔ اگر آپ معاف فرمائیں تو اسلامی قیادت جو تھی وہ علمی قیادت تھی، وہ دین کے ساتھ تھی، بغیر دین کے نہیں تھی۔ جب مسلمان اس دین سے دوری بڑھانے لگا تو دین رہ گیا اور وہ بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں اور دنیا اس سے دور ہوگئی، وہ ذلیل و خوار ہونے لگا اور ہر دہشت گردی اس کے نام سے منسوب ہونے لگی۔ یہ غلطی آپ کے اور ہمارے دشمنوں کی نہیں ہے، اگر ہم اپنا احتساب کرلیں تو یہ غلطی ہماری ہے۔آخر کیا وجہ ہوئی کہ ہم اس ساری دنیا میں انسانوں کی قیادت کررہے تھے اور 16 ویں صدی کے بعد ساری اسلامی دنیا یوروپ کی غلام ہوچکی تھی۔ کیا وجہ ہے؟ لوگ کہتے ہیں ہم نے اللہ کی رسی نہیں پکڑی، میں اس کو پورے طور سے سمجھ نہیں پاتا ہوں۔ ظاہر ہے لوگ کہتے ہیں تو صحیح ہی کہتے ہوں گے۔ لیکن میرے نزدیک اللہ کی رسی پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکم کو مانو اور جب اللہ کے حکم کو مانوگے تو وہ حکم تم کو ضرور یاد ہوگا جو قرآن اور حدیث میں بسلسلہ ٔ علم دیا گیا ہے اور اگر وہ حکم آپ کو یاد نہیں ہوگا تو آپ اللہ کی رسی پکڑے رہئے، اس سے کیا ہونے والا ہے؟ تو اصل مسئلہ ہمارے دشمنوں کا نہیں ہے، معاف کیجئے گا! اصل مسئلہ جو ہے وہ ہمارا اپنا ہے۔ دیکھئے ایک بات جو بہت اہم ہے کہ اگر آپ مسلمانوں کی تاریخ پڑھیں، یہ میں اس لئے نہیں کہ میں مسلمان ہوں، مسلمانوں کی تعریف کررہا ہوں اور ماضی میں چلا گیا کہ مسلمان تو یہ تھا اور وہ تھا اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، اہم سوال یہ ہے کہ مسلمان اب کیا ہے؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ اب سب لوگ کہتے ہیں کہ صاحب دیکھئے قرآن میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص کہ جواننوسینس ہے، نیک ہے، جو بدکار نہیں ہے، اس کی آپ نے جان لی ہے تو گویا آپنے پوری انسانیت کی جان لی ہے۔ اور اگر ایک معصوم کو آپ نے بچایا ہے تو پوری انسانیت کو آپ نے بچایا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ یہ تو ہر دین کا دنیاوی مقصد ہے یہ دین لوگ بھول جائیں وہ تو بات الگ ہے۔ کرشچیانیٹی میں بھی آپ کسی کو چانٹا نہیں مارسکتے، آپ کسی سے بدلہ نہیں لے سکتے اور وہی اسلام میں بھی ہے۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ ہماری کتاب میں کیا لکھا ہے یہ اہم نہیں ہے، ہم کیا کررہے ہیں ہم نے عمل کیا کیا ہے یہ زیادہ اہم ہے۔ یہ بات مان لینے کی ہے کہ ہم جو کچھ بھی دعوے کررہے ہیں اپنے دین کے متعلق اپنے دین کی عظمت کے متعلق، اپنے بزرگوں کی عظمت کے متعلق سب صحیح ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ وہ دعوے جو ہم کررہے ہیں اور اپنے ماضی کی تابناکی بیان کررہے ہیں وہ اگر ہم سے پوچھیں کہ حضور والا بہت اچھی بات ہے، آپ کے باپ دادا بہت پڑھے لکھے تھے، بہت بڑے عالم تھے، آپ پچھلے دس سال سے ہائی اسکول میں کیوں فیل ہورہے ہیں؟ تو اس کا جواب ہمارے پاس یہی ہوگا کہ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ کیا تھے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم کیا ہیں؟ اور اگر آپ سے معلوم کرنا چاہیں کہ ہم کیا ہیں؟ تو میں بتادوں صرف چند جملوں میں کہ ہم کیا ہیں؟ ہماری طاقت کیا ہے؟
اس وقت ساری دنیا کی جی ڈی پی 60 ٹریلین ڈالر ہے، مسلمانوںکے پاس کل ملاکر جس میں پٹرول بھی شامل ہے، جی ڈی پی 2.5 ٹریلین ڈالر ہے۔ مسلمان دنیا میں 25 فیصد، مسلمانوں کے پاس دولت 5 فیصد۔ عیسائی دنیا میں 33 فیصد اس کے پاس دولت 72 فیصد اور یقین رکھئے، ابھی پرسوں میں نے ریڈیو پر مولانا کلب صادق کی تقریر سنی، بہت اچھی بات انہوں نے کہی، اچھی بات وہ اکثر کرتے ہیں، میں ان کی اچھی باتوں کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتا ہوں کہ جیسے میں وہ خود کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ جتنے مسئلے ہیں، جو دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ان کا حل صرف ایک ہی ہے وہ ہے تعلیم اور غریبی کا خاتمہ اور میں ان سے صرف 90 فیصد متفق ہوں 10 فیصد میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ دیجئے تعلیم لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم، اگر سائنس اور ٹیکنالوجی ہم سے دور ہوگئی تو ہم غریبی ختم نہیں کرسکیں گے اور ظلم جو دہشت گردی کے نام پر ہم پر ہورہا ہے اُسے ہم مٹا نہیں سکیں گے۔ اب صرف ایک بات میں آپ سے اور عرض کردوں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں دہشت گردی اور غالباً انٹرنیٹ اور ویب سائٹوں پر آپ دیکھتے رہتے ہوں گے کہ اتنے زبردست مضامین پڑے ہوئے ہیں اسلام مخالف کہ انسان جو ہے وہ دہل جائے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ سیکڑوں ایسے اسلام مخالف مضامین ہیں جو اس وقت انٹرنیٹ پر آپ کو مل جائیں گے اور ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ٹیررزم کا مذہب ہے۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ہم بھی ان ہی کی طرح کا علم حاصل کریں اور ان کو بجائے ان پر غصہ ہونے کے ان کا جلوس نکالنے کے بجائے ان کا پتلا جلانے کے ہم ان کو ان ہی کے علمی طریقے سے ان کا جواب دیں، بغیر اس کے یاسبل نہیں ہے۔
سرسید نے ایک مرتبہ کہا تھا رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی گئی تھی تو لوگوں نے جلوس نکالے تھے، انہوں نے کہا جلوس سے کیا فائدہ، جس نے گستاخی کی ہے، کتاب لکھی ہے، ایک کتاب اس کے جواب میں تم بھی لکھو اور تمہارے لئے مشکل کیا ہے؟ تمہارے پاس تو قرآن اور حدیث کا سارا مواد موجود ہے۔ تم اس کی بنیاد اپنا بچائو آج ہی نہیں بلکہ قیامت تک کرسکتے ہو۔ تو آج کیوں نہیں کررہے ہو؟ لیکن بہرحال اصل بات، اس وقت ہمارا دفاع کمزور ہے اور کمزور صرف اس لئے ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور ہوگئے ہیں۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے قریب آنا چاہئے۔ جابر بن حیان کی طرح کے لوگ، جو ابتری صلاحیت کے لوگ ہیں ان کو ہمارے درمیان ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے امام جعفر صادق ہم میں بار بار آنے والے نہیں ہیں۔ لیکن ہم ان کو یاد کرکے ان کا دیا درس ضرور حاصل کرسکتے ہیں، اتنا تو ہم کرہی سکتے ہیں۔ بہرحال میں اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ آج مسلمانوں پر اتنا پریشر پڑرہا ہے کہ شاید ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں کہ دین اور دنیا کو دو خانوں میں بانٹنے کا جو طریقہ ہم نے پچھلے تین سو برسوں سے اپنا رکھا ہے، وہ ختم کیا جائے اور اتحاد کا نظریہ پھر سے اپنایا جائے۔
٭٭٭
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here