Thursday, April 25, 2024
spot_img

آہ

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

رمانہ تبسم
شہلا قد آدم آئینہ کے سامنے خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے سنگھار میز پر ایک طائرانہ سی نظریں دوڑائیں ۔سنگھار کے تمام سامان آج بھی
بالکل اسی طرح رکھے ہوئے تھے ۔اس نے دراز سے پھولوں کے گجرے نکالے جو بالکل سوکھ گئے تھے۔اس سوکھے ہوئے پھولوں کے گجرے کو اس نے اپنے ہونٹوں سے ثبت کرتے ہوئے میز پر رکھ دیااوراٹھ کر واڈروب کھولا۔جس میں رنگ برنگے قیمتی لباس رکھے ہوئے تھے۔اس نے تمام کپڑے نکال کر بیڈ پر پھیلا دیااور دوبارہ آئینہ کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ اس آئینہ کے سامنے وہ اپنی شادی کے دن پہلی بار تیار ہو کر کھڑی ہوئی تھی۔اس نے آئینہ پر جمی ہوئی دھول کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔اس کے بال آدھے سے زیادہ سفید ہوگئے تھے۔اس کا گورا رنگ کالاپڑ گیا تھا۔اس کے چہرے پر جھریاں بہت زیادہ آگئی تھیں۔اس کی خمار بھری آنکھیں جس کا وہ دیوانہ تھا۔گڈھے میں چلی گئی تھی اور آنکھوںکے نیچے کالے دھبے پڑ گئے تھے۔آنکھوں میں قدرتی زیبائش موجود تھی لیکن اجڑی ہوئی تھی ،ہڈی سے چمڑا بالکل الگ ہو گیا تھا۔
 اس کی زندگی سے دھنک کے تمام رنگ ہوا کا تیز جھونکا اپنے ساتھ سب بہاکر لے گیا۔ وہ بیچ صحرا میں چٹان بن کر کھڑی طوفان کا مقابلہ کر رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اللہ اپنے نیک بندوں کا  ہمیشہ امتحان لیتا ہے اورایک دن اللہ تعالیٰ کاکرم ضرور ہوگا۔یقینااللہ سب بندوں کا نگہبان ہے ۔ اس کے ساتھ انصاف ضرور ہوگااور اللہ کا کرم تھاکہ اب طوفان تیزی سے کروٹیں بدلنے لگا اور آج اس ٹھہرے ہوئے طوفان میں اختر اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔اس کے چہرے پر زردی بہت زیادہ تھیں۔بالکل بیمار اور لاغر لگ رہا تھا۔بڑھے ہوئے الجھے سفید بال، بھونیں اور شیوبھی سفید ہو گئی تھیں۔ اس پر ملگجے کپڑے ،لیکن اس کے چہرے پر اب بھی صداقت کا نور تھااور نگاہوں میں چمک تھی۔ اتنے عرصہ بعد اس کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کا دل بیقرار ہو گیا۔ اس وقت اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور بے شمار آنسو اس کی آنکھوں سے گرنے لگے ۔
وہ خاندان کا سب سے خوبصورت ذکی فہیم اور ملنسار لڑکا تھا۔خاندان کے سبھی لوگ اس کے اخلاق اور ذہانت کی داد دیتے تھے۔جب وہ اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے بیرون ملک سے لوٹا تو اس خوشی کے موقع پر گھر میںایک چھوٹی سی پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔جس میں قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعوں کیا گیا تھا۔اختر گھر آنے والے مہمانوں سے بڑے تپاک سے مل رہا تھااور بیرون ملک سے اپنے ساتھ لائے تحفے سبھی کو بڑے خلوص سے دے رہا تھا۔تحفہ لینے کے بعد سبھی دوستوں اور رشتہ داروں نے جب اختر سے سوال کیا۔
  ’’اختر میاں! بیرو ن ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک لوٹے ہو۔ اپنی تعلیم سے ہمارے سماج کو کیا دو گے؟ہمارے سماج کو تمہارے اصلاح کی ضرورت ہے۔‘‘
 ’’ـ مسلمانوںمیں تعلیمی بیداری پیدا کرنا میرا مقصد ہے ۔بس مجھے آپ لوگوںکی دعاء کی ضرورت ہے ۔‘‘اختر نے مسکراتے ہوئے کہا۔اختر کی بات سن کر سبھی کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔
  ’’ اتنے عرصہ بعد غیر ملک سے آنے کے باوجود اختر میاں کے اخلاق اور سوچ میں تبدیلی بالکل نہیں آئی ہے۔‘‘
رات کافی ہونے کی وجہ سے سبھی مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگے ۔سبھی مہمانوں کو شب بخیر کہنے کے بعد وہ صوفہ پر آکر نیم دراز ہو گیا۔تبھی روشنی کے انعکاس میں جب اس کی نظریں اپنی خالہ زاد شہلاپرپڑی۔جو سامنے کھڑی اپنے کسی کام میںمنہک تھی۔اس نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیںہو رہا تھاکہ یہ شہلا ہے۔ جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے جا رہا تھا۔اس وقت وہ  بالکل الہڑ سی ہر فکر سے بے نیاز لڑکی تھی۔چھٹیوں میں جب وہ اس کے گھر آتی تھی تو اس کی ضد اور شرارتوں سے لوگ پناہ مانگتے تھے ،لیکن اب وہ بالکل باشعور لگ رہی تھی۔ بچپن کی اس کی وہ شوخیاں اب دلربائی کی شوخیوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ وہ کنکھیوں سے اب بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی نظروں کے تصادم پر وہ گھبرا گئی اور اس کے قریب آکرشکایت بھرے الفاظ میں جھکی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اختربھائی!آپ نے سبھی مہمانوںکوتحفے دیئے میرے لئے کچھ بھی نہیں۔‘‘
اس کی بات سن کر اختر کے لبوں کو حرکت ہوئی اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا۔
 ’’آپ کے لئے ۔۔۔۔۔ میںخود آگیا ہوں۔۔۔۔۔ !‘‘
اس نے بات مکمل کرکے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اختر کے منہ سے یہ جملے سن کر شہلا کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ ایک لمحہ کے لئے ان کی نگاہیں ایک دوسرے سے ملیں۔ دونوں کی نگاہوں نے ایک دوسرے کو بہت کچھ کہااور مسرت کی ایک تیز لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی اور شرما کر وہاں سے بھاگ گئی۔جاتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تواختر کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس کی مسکراہٹ میں شہلا کے لئے ایک پیغام تھا۔۔۔۔۔ محبت کا آغاز تھا۔
اس روز کے بعد شہلا اس کے سامنے آنے سے شرمانے لگی اور اس سے پردہ کرنے لگی۔جب بزرگوں کو اختر کی پسند معلوم ہوئی تو گھر میں مسرت کی لہر دوڑ گئی،کیونکہ اختر کے والدین کی پہلی پسند شہلا ہی تھی اور دونوں کو رشتہ ازواج میں منسلک کر دیا۔
 شہلا کو شریک حیات بنا کر وہ کافی خوش تھا۔اس کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر عہدوپیماں کے وعدے کر رہا تھا۔دونوں کے وعدے ابھی پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس کے کمرے کے باہرتیز آواز میں بحث کرنے کی آواز آنے لگی۔اس نے کمرے کے باہر آکر دیکھا تو پولس کی وردی والے اس کے گھر کے آنگن میں کھڑے تھے اوراس کے والدین کی ان سے بحث ہو رہی تھی۔
 ’’ نہیںیہ جھوٹ ہے ۔ آپ لوگ اس پر غلط الزام تراشی کر رہے ہیں۔میر ا  اختر دہشت گرد نہیںہے۔‘‘
’’ابو۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔امی۔۔۔۔۔!!‘‘
’’کیا ہوا۔۔۔۔۔ ؟ ہمارے گھر میں یہ پولس۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔یہ لوگ کس کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔‘‘اختر نے پریشان ہو کر اپنے والدین سے پوچھا۔
’’اختر بیٹا! ۔۔۔۔۔یہ لوگ تم پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ‘‘اس کی امی نے روتے ہوئے کہا۔
  ماں کی بات سن کر اختر پر رقت طاری ہو گئی۔اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’میں۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ۔دہشت گر د۔‘‘
’’ہاں اختر!یہ لوگ تم پر الزام  تراشی کر ر ہے ہیںکہ تمہارا رابطہ آئی۔ایس۔آئی سے ہے اور ان دنوں ہمارے ملک میں جو بھی واردات ہوئے ہیں۔اس میں تم بھی ملوث تھے ۔‘‘
ماں کی باتیں سن کر اختر نے تعجب خیز نظروں سے پولس والوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بیرون ملک جاکر مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنااوروہاںسے لوٹ کر یہاں کے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنا آپ لوگوں کی نظروں میں دہشت گردی ہے۔‘‘
اختر کی تیز آواز سن کر عروس جوڑے میں ملبوس شہلا بھی کمرے سے باہر آکر کھڑی ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اختر کے چہرے پر پولس والوں نے نقاب ڈال دیااور اسے گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں بیٹھا لیا۔شہلا اپنی پھٹی پھٹی نظروں سے سب دیکھتی رہی اور اس کے اوپر سکتہ کا عالم طاری ہو گئی۔
اس طرح اختر پر الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے دہشت گرد قرار دے دیا گیا ۔ میڈیا والے زور زور سے چلا کر اسے دہشت گرد کہہ رہے تھے ۔ہر طرف سے بریکنگ نیوز آرہی تھی۔اس صدمہ کو اس کے والدین برداشت نہ کر سکے  اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ شہلا اس طوفان میں چٹان بن کر کھڑی رہی۔ اسے اللہ کی ذات سے پوری امید تھی کہ اختر ایک دن با عزت بری ہو کر ضرور آئیںگے۔
  شہلا بے خیالی کے عالم میں روز دروازے پر صبح سے رات کی تاریکی ہونے تک بیٹھی رہتی،جبکہ رات کی تاریکی میںخدا کی مخلوق آرام کر رہی تھی  ۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ وہ ہر آہٹ پر بے چین ہو جاتی کہ شاید اختر باعزت بری ہو کر آگئے ہوں۔
 دن۔۔۔۔۔ مہینے۔۔۔۔۔ اور مہینے سال میں گزرتے گئے ۔۔۔۔ ۔او ر۔۔۔۔۔پھر پورے بیس سال گزر گئے۔ آج جب وہ سو کر اٹھی توآفتاب کی روشنی پورے گھر  میں پھیلی ہوئی تھی۔ آفتاب کی پھیلی روشنی دیکھ کر نہ جانے کیوںایک مدت کے بعد اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے اخبار اٹھا کر دیکھا۔ اس کی نظریں اخبار کی سرخیوں پر جا کر ٹھہر گئیں۔ جس میں بے قصور مسلمانوں کو باعزت بری ہونے کی خبریں تھیں۔اس میں اس کے اختر کا نام بھی شامل تھا۔شو ہر کی فرقت میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ یہ خبر پڑھ کر اس کی رگوں میں پھر سے تازہ خون دوڑنے لگا۔اس عبارت کو پڑھ کر وہ سجدے میں گر گئی اور بے قراری کے عالم میں پورا دن اور ساری رات ٹہل کر دعا پڑھتی رہی ۔ اللہ اور اس کے محبوب کا واسطہ دے کر دعا مانگتی رہی۔
 ـ’’  شہلو۔۔۔۔۔!‘‘
اس کے کانوں میں ایک ہلکی سی آواز گونجی۔اس کی آنکھوں سے آنسوآبشار کی طرح بہنے لگے۔ اس نے یہ آواز آج پورے بیس سال کے بعد سنا تھا۔ اس نے بے تابی کے عالم میں پلٹ کر دیکھا۔ اس پر رقت طاری ہو گئی۔اختر نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا لیکن اس میں اب اتنی طاقت نہ تھی کہ اس کو سنبھال سکے ۔ صوفہ کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔
’’ آپ باعزت بری ہو کر آگئے۔‘‘شہلا نے بھیگی پلکوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گلوگیر آواز میں کہا۔
 ’’ہاںشہلو!یہ تمہاری دعائوں کا اثر تھا،کہ اس پاک پروردگار کے رحم و کرم سے آج میں باعزت بری ہو گیا۔‘‘اختر نے اس کے آنسو اپنی کمزور انگلیوں سے پوچھتے ہوئے کہا۔
’’شہلو!بس ایک اللہ سے ہی امید تھی کہ وہ اپنے بے قصور بندے کے ساتھ انصاف ضرور کرے گا۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے ٹارچر کر کے الزام قبول کرنے کے لئے جو اذیت دی تھی بیان نہیں کر سکتا ۔ ‘‘اختر نے گلوگیرآواز میں کہا ۔
’’انہوں نے ہماری زندگی کے قیمتی بیس سال لے لئے۔‘‘شہلا نے بھیگی پلکیں  اٹھا کر کہا۔
’’ہاں شہلو!ان بیس سالوں میں ہماری نسلیں جوان ہوجاتیں۔ ‘‘اختر نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
اس کی بھرپائی کون کرے گا ۔۔۔۔۔پولس والے۔۔ ۔۔۔میڈیا والے یا ہماری حکومت ۔۔۔۔۔یا پھر عدلیہ۔۔۔۔۔جو کسی بے قصور کو انصاف دینے میں اس کی زندگی کے قیمتی سال لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور دونوں بے اختیار ہو کر سسک پڑے۔
رابطہ۔9973889970
،پٹنہ سٹی
ٔ
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular