آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں

0
167

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمدرضی احمدمصباحی

14؍فروری 2019(کشمیرکے پلوامہ میں ہوئے آتنک وادی حملے)کے بعدسے ابتک ذہن کوسکون نہیں ہے،قلبی طورپربہت زیادہ پریشان ہوں،باربارجلی ہوئی،بکھری ہوئی شہیدوطن کی لاشیں دماغ کے اسکرین پرسوارہوکرہتھوڑے مارتی ہے۔شہیدجوانوں کااجڑاہواگلشن دماغ کومضمحل کرڈالتاہے۔بہت کوشش کیاکہ ان کے خیالات میراپیچھاچھوڑدیں لیکن جوانوں کے کٹے پٹے جسم میرے حواس پرسوارہے اوریہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بہت ہوگیااب تورازسے پردہ اٹھادو،اصل گنہ گارکوجکڑنے کی کوشش توکرویاپھرقوم کے سامنے کچھ ایسی ترکیب پیش کروکہ اب سرحدپرہمارے مزیدفوجی جوان بھائی سازش کاشکارنہ ہوں۔انہیں خیالات کے بیچ مجھے اپنی زندگی کاایک انوکھاسفریادآگیا۔غالباًدوسال پہلے میں دہلی میں ،تجارتی سامان کی خریداری کے بعدگوااپنے چھوٹے بھائیوں سے ملنے کے لئے حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے،اے سی ٹرین میں ممبئی تک کے لئے سفرکررہاتھا۔اتفاق سے اس ٹرین میں اوربھی کئی پہچان کے تاجرتھے اورہم لوگ قریب ہی قریب بیٹھے تھے۔گاڑی اپناسفرطے کرتے ہوئے غالباًراجستھان کے رتلام یارتنام اسٹیشن پہنچی ہی تھی کہ دوتین سادے لباس والے میرے ہی کوچ میں داخل ہوئے اوردوسری طرف سے نکل گئے،تھوڑی دیربعدچارپانچ سویل ڈریس والے اوردوتین پولس وردی میں کچھ آفیسران پھرمیرے ہی کوچ میں گھسے،کوچ میں بیٹھے تمام مسافرکے اب کان کھڑے ہوچکے تھے کہ کچھ گڑبڑضرورہے۔آفیسران نے ہمارے سامنے والے کمپاؤنڈمیںبیٹھے چارجوانوں کوگھیرے میں لے لیااوران کے سامان کی تلاشی شروع کردی۔تلاشی کے دوران لڑکوں کی شکل وصورت اوران کے آؤ بھاؤ سے وہ لوگ کسی یونیورسٹی کے طالب علم لگ رہے تھے،کھانے کے ٹفن کے ڈبے سے کوئی سفیدچیزبرآمدہوئی۔آفیسران نے ڈبے میں کوئی بات نہیں کی،جس کے سامان سے وہ سفیدپاؤڈربرآمدہواتھااسے اپنے ساتھ لے گئے۔ہم لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اب اس بچے کی پوری زندگی بربادہوجائے گی۔کیوں کہ وہ کوئی نشیلی اشیاء تھی۔لیکن ٹرین کے چلنے سے پہلے ہی اس کے تمام ساتھی اسے بچالائے اورآپس میں کسی بڑی رقم کے اداکرنے کی بات کرتے رہے۔دوچیزوں نے مجھے اس دن حیرت میں ڈال دیا۔ایک یہ کہ اب ہماری پولس کتنی چوکناہوگئی ہے کہ اسے ان نشیلی اشیاء کی مکمل جانکاری وقت سے پہلے ہوجارہی ہے وہ بھی اس طورپرکہ کس کوچ میں،کن لوگوں کے پاس ہے؟دوسری بات اس مجرم بچے کوصرف ایک بڑی رقم لے کرچھوڑدینا۔اس دن ایک تحیرآمیزخوشی ہوئی تھی کہ اب ہماراانٹیلی جینس شعبہ جاگتارہتاہے۔ہمارے ملک میں اندرونی حالات پرگہری نظررکھنے والے جب اتنے بیدارہیں توجوشعبہ باہری سازشوں پرنظررکھ رہاہوگاوہ اس سے زیادہ بیدارمغزہوگا لیکن 14؍فروری2019،پلوامہ (کشمیر)کے آتنکی حملے نے ساری قلعی کھول دی بلکہ اس وقت میں ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظرساری حقیقتیں دبے لفظوں میں سازش کوبے نقاب کرنے لگیں۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ حملہ پاکستانی دہشت گردتنظیم نے کیاہے۔یہ پاکستان کی بزدلانہ حرکت ہے۔اس وقت اسے تباہ ہوتے معاشیات پرکنٹرول کرنے کی فکرکرنی چاہئے۔اس کے ان حملوں سے نہ ہندوستان بربادہوسکتاہے اورنہ مٹ سکتاہے۔پاکستان کوبھی اس بات کاعلم ہے کہ اگرہندوستان کے سارے فوجی ہی پاکستان کی طرف رخ کرلیں توپاکستان کی زمین اپنی جگہ سے کھسک جائے گی۔یہ بھی ممکن ہے کہ کشمیری الگ وادیوں نے یہ حملہ کیاہو؟۔اسی کے ساتھ قرائن ایسے بھی ہیں کہ اندرونی سازش سے بھی انکارکردیناحماقت ہے۔ اپنی ہرناکامی کواپنے دشمن ک سرمنڈھ دیناسیاست کی عقل مندانہ سیاست سے بغاوت ہے ۔
فوجی کتنے ڈسیپلین میں اورچاق وچوبندرہتے ہیں یہ سب کوپتہ ہے۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہماراانٹیلی جینٹ شعبہ سب سے زیادہ حساس سرحدپرکام کرتاہے،مشینری،کیمرے اوردیگرطاقت ورحساس آلے نصب ہوتے ہیں۔بہت ہی کم فاصلے پرآگ برسانی کی پوزیشن میں تیارملک کافوجی جوان کھڑاہوتاہے۔وہ بھی اتنی مستعدی کے ساتھ کہ اگرکوئی پتہ بھی کھڑکے توان کی نظرسے نہیں بچ سکتا۔ملک کے اندرونی حصے میں جوفوجیوں کی چھاؤنیاں ہوتی ہیں وہاں عوام کی بکری اورمرغی تک جانے سے خوف کھاتی ہے اوراگرجانے کی جرأت کرے تواندرگھسنے سے پہلے ہی کسی نہ کسی جوان کی نظرمیں آجاتی ہے ۔لیکن کشمیری سرحدپرجہاں 7؍لاکھ جوان اور7؍سے زیادہ میجرچیک پوسٹ ہیں۔150؍300؍یاپھر 200کیلوRDXکے ساتھ ایک سنکی ملک میں گھس جاتاہے اورساری مشینری ،حساس آلے،انٹیلی جینس اورفوج کے مستعدجوان اس سے بے خبررہتے ہیں۔حیرت انگیزبات تویہ ہے کہ فوجی کے جس قافلے سے آتنکی کی گاڑی ٹکرائی ہے اس میں صرف وہی ایک گاڑی تھی جوبلیٹ پروف نہیں تھی۔یہ اتفاق بھی ہوسکتاہے۔لیکن آتنکی کے باخبرہونے کی شق سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا۔تفتیش انہیں شقوں کے ساتھ شروع بھی ہوتی ہے جوتمام سازش بے نقاب کرسکتی ہے۔اگرآتنکی تمام جانکاریوں کے ساتھ حملہ آورہواہے اوریقین بھی یہی ہے کہ اتنی بڑی واردات انجام دینے سے پہلے ساری جانکاری ضروراکھٹی کی گئی ہوگی توسوال یہ ہے کہ فوجی قافلے کے اس رازسے کتنے لوگ باخبرتھے؟،کون ہوسکتاہے وہ اصل دشمن جواس سازش میں ملوث ہے۔اب آئیے ایک نظراسے بھی دیکھ لیں کہ ہمارے ملک کے مہاپرش عالی جناب پردھان منتری مودی جی کے پانچ سالہ دوراقتدارمیں کتنے آتنک وادی حملے ہوئے اورکتنی دفعہ سیزرفائرکی خلاف ورزی ہوئی۔2014میں 222حملے جس میں کل 47فوجی جوان شہیدہوئے،2015میں 208حملے ،جس میں 39فوجی شہیدہوئے،2016میں 322حملے ،جس میں 82جوان شہیدہوئے،2017میں 324حملے ،جس میں 80جوانوں نے موت کوگلے لگایا۔2018کے صرف ایک مہینے میں 28حملے ہوئے جس میں 30کے قریب جوانوں نے ملک کی عظمت کے لئے جان کے نذرانے پیش کئے۔سیزرفائرکی خلاف ورزی ۔2014میں 582مرتبہ،2015میں 405مرتبہ،2016میں 449مرتبہ،2 017میں 881مرتبہ۔ایک بات اورجواس وقت بہت زیادہ گونج رہی ہے وہ ہے سیاسی رہنماؤ ں کاردعمل اورخاص بات جسے اکثرعوام نوٹ کرنے لگی ہے یہ ہے کہ ”جب بھی کوئی الیکشن قریب آتاہے توفوجیوں کواپنی جا ن کی قربانی کیوں دینی پڑجاتی ہے؟ بی جے پی کے ایک ممبرپارلیمنٹ نیپال سنگھ’ نے اسی دن ایک حیرت انگیزبیان دے کرسب کوسکتے میں ڈال دیاکہ’ فوجی مرنے کے لئے ہی تنخواہ لیتے ہیں ،سرحدپرفوجی نہیں مرے گاتوکیاعام آدمی مرے گا نہ کوئی افسوس نہ کسی طرح کاکوئی غم۔یہ ہیں وہ لیڈران جن کی اس طرح کی بے تکی اورفضول باتوں نے ہندوستانی عوام کوحیرت میں ڈال دیا۔اس آتنکی حملے کے بعدمیرے ایک قریبی دوست،جوخیرسے صحافی بھی ہیں نے مجھے فون کیااورپوچھایہ بتاؤ یہ حملے کیسے روکے جاسکتے ہیں؟،میں نے جواب دیااپنے ملک کے سیاسی لیڈران کے بچوں کوفوج میں جانالازمی کردواورفوج میں ان کی پہچان چھپادوحملے رک جائیں گے ۔اس کااستعجاب ختم کرنے کے لئے میں نے کہا جب ان سیاسی رہنماؤں کے بچے فوج میں ہوں گے،ہماری انٹیلی جینٹ ایجینسی مستعدی سے کام کرے گی اورہرلیڈرکی توجہ ہمیشہ سرحدکی طرف ہوگی ۔اخیرمیںہم پلوامہ میں ہوئے آتنک وادی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت ہندسے درخواست کرتے ہیں کہ اس میں ملوث افرادکے ساتھ سخت سے سخت کاروائی کی جائے،دکھ کی اس گھڑی میں ہم ہندوستانی مسلمان دیش اورنثاران وطن فوجیوں کے گھروالوں کے ساتھ ہیں اورہم سب ان کے غم میںبرابرکے شریک ہیں۔
دارلفرقان،کنزالایمان،نیلنگہ،لاتور،مہارشٹرا
09075661664

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here