Tuesday, April 23, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldآبی گل !!!!

آبی گل !!!!

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ناہیدطاہر
سعودی عرب۔ریاض

سوربیر۔۔۔۔۔! اپنی عمر کے بارہ سالہ زینے پر پہنچتے ہی اپنے پتاجی مہاویر کے ہمراہ اُن کا ہاتھ بٹانے کے لئے مچھلیوں کے شکار پر نکل پڑا تھا ،پھردھیرے دھیرے یہ روز کا معمول بن گیا۔اس کاتمام تر وقت سمندر پر گزرتا۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو سمندر کو فتح کرنے کا شوق جیسےسر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔اسی جنون کے تحت وہ گہرے سمندر میں بہت دورتک نکل جاتا۔کئی بار خطرناک سمندری جانوروں سے سابقہ بھی پڑا لیکن سوربیر کی سوربیرتا نے موت پر بھی فتح پالی تھی۔
ایک دن سفر کی طوالت نے واپسی کا راستہ بھلا دیا۔ وہ سمندر کی ضدی لہروں کو چیرتا ہوا کسی انجان جزیرے پر جا پہنچا۔جزیرہ بہت خوبصورت تھا۔وہ سستانے کی خاطر جزیرے پر اترا۔چھوٹی چھوٹی چٹانیں ،تنگ پگڈنڈیاں اور خوبصورت گھنے درخت جو آسمانوں کو چھوتے ہوئے جیسےسرگوشی کرتے نظر آرہے تھے۔زمین پر خوبصورت ہریالی کسی مخملی چادر کی طرح بچھی ہوئی نظر آئی۔جزیرے کے اطراف حدِ نظر سمندر پھیلا ہوا تھا جو اس جزیرے کو جیسےاپنی باہوں میں سمیٹاجھولاجھلاتا ہوامحسوس ہورہا تھا۔رنگ برنگی چنچل تتلیاں بے خوف اڑتی ہوئی نظر آئیں اور مختلف اقسام کےخوبصورت پرندے معصوم چہچہاہٹ بھرتےہوئے ربِ کائنات کی تسبیح میں مشغول اپنی نغمگی کے ساتھ گویااس جزیرے میں ایک جل ترنگ کا سماں باندھ رکھا تھا۔
اس نے بیگ سے کھانے کا سامان نکالا سینڈوچ اور پھل کے ساتھ کچھ مشروبات بھی موجود تھے۔تھکان کے باوجود پیٹ میں چوہے دوڑتے محسوس ہورہے تھے۔وہ آرام سے بیٹھ گیا اور کھانے کے ساتھ انصاف کرنے لگا۔ساتھ ہی اس کی نگاہیں قدرت کی اس خوبصورتی کو نہار رہی تھیں۔کھانے کے بعد تھکان سی محسوس ہوئی تو وہ لیٹ گیا۔
کچھ ہی پل میں گہری نیند نے آدبوچا۔پتا نہیں رات کا کونسا پہر تھا ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوئی تووہ نیند سے جاگ گیا۔ اس کے قریب کوئی موجود تھا جس کی عجیب خوشبو سے فضاءمعطر تھی ۔ وہ چونک اٹھا۔سامنے نہایت حسین دوشیزہ بیٹھی ہوئی تھی ، جوچٹکتی چاندنی میں کسی ماہرمصور کا تخلیق کردہ شہکارنظر آرہی تھی۔سوربیر اس کے حسن سے مرعوب ہوئے بغیر رہ نہ سکا لیکن اس جزیرے میں کسی انسانی وجود کا تصور حیران کن تھا۔
ک۔۔کون۔۔۔؟وہ اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے ہکلایا۔ ٹھنڈی ہوا کے تازہ جھونکوں کے باوجود اس کاجسم پسینے سے شرابور ہوگیا تھا۔
آبی گل۔۔۔! اس کی پنکھڑیوں نما لبوں نےجنبش کیں۔
آبی گل کون۔۔۔؟سوربیر دوشیزہ کے بے پناہ حسن سے متاثرتوہوا، لیکن اس سنسان جزیرے میں کسی وجود کو پاکر اندر ہی اندر خوف زدہ بھی تھا ۔
تم تو ڈرگئے۔۔۔۔۔!!! سوربیر ہو ۔۔۔! ڈر ، تم پر نہیں جچتا۔۔۔!!!وہ اپنی جلترنگ ہنسی کے ساتھ کہنے لگی۔ اس کی سرگوشی کان کے اس قدر قریب تھی کہ سوربیر کے بدن میں ایک سنسناہٹ سی دوڑگئی۔
تم مجھے جانتی ہو۔۔؟سوربیر نےحیرت زدہ چہرے کے ساتھ سوال کیا۔
ہاں۔۔۔! اکثر تمھیں ساحل کے کنارے،تو کبھی لہروں کی باہوں میں ،کبھی سمندر کی گہرائیوں میں دیکھا ہے۔۔۔!!! سوربیر نے دیکھاچاند سیاہ بدلیوں سے نکل آیا ہے ،لیکن دوشیزہ کے حُسن نے اسے بھی جیسے پھیکا کر دیا تھا۔وہ اپنی خوبصورت چاندنی اس دوشیزہ پر نچھاور کرتا ہوا مسرور اندازمیں جھومتا نظر آیا۔سوربیر کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔یہ قربت انوکھی تو تھی مگر اسے سرشار بھی کیے جارہی تھی۔سور بیر کی نظریں آبی گل کے خوبصورت چہرے سے پھسلتی ہوئیں اس کے سراپے کے گرد حصار باندھنے کی کوشش کیں تواچانک سوربیر کے وجود میں برف سی ٹھنڈک پھیلتی چلی گئی۔وہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق تھی۔۔۔۔!!!
سمندر کی سیر کوچلو گے۔۔۔؟وہ سرگوشی کرتی ہوئی سوربیرکی جانب جھک آئی۔اس کے بدن سے اٹھتی ہوئی خوشبو سے سوربیر کی دھڑکنیں بے قابوہونے لگیں۔۔۔وہ تیزی سے کھڑا ہوا اورصبح صادق کے پھوٹ پڑنے سے پہلے وہاں سے راہِ فرار حاصل کی۔
لیکن سوربیرکے سینے میں ایک سرکش دل تھا، اس خوبصورت حادثے کے بعد دل نےدوبارہ اس جزیرے کا رخ کرنے کی ضد کی۔جسے وہ چاہ کر بھی ٹال نہ سکا۔پھر یہ سلسلہ اس کی دیوانگی میں تبدیل ہوتا چلا گیااوروہ ہر دوسرے دن اس جزیرہ پر کھِنچا چلا آنے لگا ۔
ایک دن آبی گل وقت کے مطابق جزیرہ کی سطح پر نہ آئی تو سوربیر کی بےقراری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ ذہنی طور پر پاگل سا ہوگیا۔پھر اچانک کئی دنوں بعد وہ نظر آئی۔ سوربیردوڑتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور ہسڑیائی انداز میں چیخ پڑا ۔
کہاں غائب ہوگئی تھی ۔؟
تمھیں آزما رہی تھی ۔۔۔۔۔!!!! اس نےدلکش انداز میں مسکرا کر جواب دیا۔ سور بیر کی جھلاہٹ برقرار تھی
کوئی اس طرح کسی کی جان لیتا ہے۔۔۔۔!!!
آبی گل نےدھیرے سے مسکرایا اور اپنے گلے سے ایک چمکتی ہوئی زنجیر نکالی، جس میں ایک بیش بہا موتی جھلملا رہا تھا ۔اسے سور بیر کے گلے میں پہنادیا اورسحر خیزانداز میں گویا ہوئی
اس موتی کے زیراثر ہماری دنیا کی سیر کرسکوگے۔۔۔!!! آکسیجن کی ضرورت پیش نہیں آئےگی ۔۔۔۔!!!
ارررے وااہ یہ تو طلسماتی موتی ہے۔سوربیر کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔
آبی گل دلکش انداز میں مسکراتی ہوئی گویا ہوئی
ہاں۔۔۔! کہیں موتی لے کر فرار نہ ہونا، ورنہ زندگی کا پنچھی تمہاری آبی گل سےہمیشہ کے لئے روٹھ جائےگا۔۔۔!!! یہ سمجھ لو، تمہاری اس جانٍ بہار کی زندگی اسی موتی میں قید ہے۔۔۔۔!
آبی گل اسے اپنے ہمراہ لئے سمندر کی گہرائیوں میں بڑھتی چلی گئی۔۔۔سوربیر نے دیکھایہاں کی دنیا بالکل جدا ہے۔۔۔۔خوبصورت و رنگین،چاروں طرف آبی گل کی ہم جنس جھلملاتی ہوئی تیرتی نظر آئیں۔قدرت کی یہ بھی ایک خوبصورت تخلیق تھی۔۔۔۔لیکن افسوس انسان کے لئے قطعی نہیں تھی ۔۔۔!!!
ایک دن سوربیر اس خوبصورت جزیرے سے واپس ہورہا تھا۔آبی گل کوطلسماتی موتی لوٹانا بھول گیا ۔آبی گل شدت سے انتظار کررہی تھی دو دن بیت گئےلیکن وہ نہیں لوٹا۔ آبی گل کا دم گھٹنے لگا۔وقت کی سوئی بڑی بے رحمی کے ساتھ آبی گل کے سینے پر نشتر پیوست کرتی چلی جارہی تھی۔وہ موت کے قریب سے قریب تر ہونے لگی۔
میری سانسیں ٹوٹ رہی ہیں۔۔۔۔۔!
میری محبت کو یوں رسوا نہ کرو۔۔۔!
تمہیں دولت سے محبت تھی تو ایک بار مجھ سےکہ دیا ہوتا،سمندر کی تہہ سے سارے موتی لا کر تمہارے قدموں میں رکھ دیتی۔۔۔۔آبی گل تڑپنے لگی ۔ اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ شایدزندگی کا پنچھی آزادی کا منتظر ، آخری ہچکی کا انتظار کررہا تھا۔
آبی گل۔۔۔۔آبی۔۔۔!!!سوربیرکی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔آبی گل نے اپنی آخری ہچکی کو بمشکل روکا۔
لالچی انسان۔۔۔۔!!!آبی گل ٹوٹتی سانسوں کے درمیان کربناک لہجے میں کہتی ہوئی بڑی نفرت سے سوربیر کی جانب دیکھا ۔
مبارک ۔۔۔! شاید اُس موتی نے تمہیں اب ایک امیر ترین انسان بنا دیا۔۔۔۔۔۔!!!وہ طنز سے مسکرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
ایسا نہ کہو۔۔۔۔۔!!!
تم۔۔۔۔ نے۔۔۔۔ میری۔۔۔۔ جان۔۔۔ کا سودا کیا۔۔۔۔۔!!!وہ دم توڑتی سانسوں کے درمیان شکوہ کرگئی۔
مجھے معاف کردو۔وہ تڑپ کر کہتا ہوا اس کا سر اٹھا کر اپنے زانوں پر رکھ لیا، گلے سے زنجیرنکال کر اسے پہنانے لگا۔
نہیں۔۔۔۔! اب اس کی کوئی ضرورت نہ رہی۔میری سانسیں مکمل ہوچکیں۔اب یہ طلسماتی موتی میرے کسی کام کانہیں ۔!!!
بے وفا۔۔۔۔! وہ نہایت کرب سے کہہ دی۔
میں بےوفا نہیں ہوں۔۔۔۔!!! وہ تڑپ کر ہذیانی انداز میں چیخا۔ہچکیوں کے درمیان گویا ہوا۔
آبی گل۔۔! میں بے وفا ہرگز نہیں۔جب واپس لوٹ رہا تھا ، راستے میں موتی کا خیال آیا جس میں تمھاری زندگی قید تھی۔پریشان ہوکر گھوما اور پوری رفتار سے تمھارے پاس لوٹنا چاہا۔لیکن افسوس اچانک ایک حادثہ کی زد میں آگیا۔کئی گھنٹوں بعد ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں پڑا پایا۔آبی گل نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے سوربیر کی جانب دیکھا۔ وہ واقعی زخمی حالت میں خون سے لت پت تھا۔ جسم سےخون ابھی بھی بہہ رہا تھا۔
مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔!!!! بے پناہ محبت ۔۔۔!!! وہ کہہ رہا تھااس کے الفاظ ٹوٹنے لگے ۔
میں۔۔۔۔ بےوفا۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ ہوں ۔۔۔!!! الفاظ ٹوٹ کر ہوا میں تحلیل ہونے لگے۔اس نے زنجیر قیمتی موتی کے ساتھ پانی کی جانب اچھال دیا۔
آبی گل کی پرسکون ہچکی کے ساتھ سوربیر کے دل کی دھڑکنیں بھی تھم گئیں۔۔۔۔!!
ختم شد

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular