Thursday, April 18, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldانور جلالپوری نے قومی یکجہتی کی روایت کو آگے بڑھایا:مولاناخالد رشید

انور جلالپوری نے قومی یکجہتی کی روایت کو آگے بڑھایا:مولاناخالد رشید

قرآن گیتا اور گیتانجلی کے ترجمے فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھاتے ہیں:راج ببر

یو پی پریس کلب کے سبزہ زار پرانور جلال پوری کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

ڈاکٹر ہارون رشید

لکھنؤ۔۱۶؍جنوری۔موت سے بچنے کی اک ترکیب ہے۔دوسروںکے ذہن میں زندہ رہو۔یہ شعر انور جلال پوری کی شخصیت پر صد فیصد صادق آتا ہے۔ شاعر،ناظم مشاعرہ،ادیب، مترجم۔مدبر،مفکر،محقق ،ناقد اور سب سے بڑھ کر ایک دردمند انسان،جس کا سانحہ ارتحال گزشتہ ۲؍جنوری کو پیش آیا تھا۔ان کے انتقال سے نہ صرف یہ کہ اردو ہندی کے ادبی حلقوں میں ایک غم کی لہر دوڑ گئی بلکہ ہر وہ انسان غمزدہ نظر آیا جس کے دل میں انسانیت کا ذرا بھی درد ہے۔انور جلال پوری کی کمی ہر شعبہ حیات میں محسوس کی جا رہی ہے۔تعزیتی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ایسا ہی ایک جلسہ کا اہتمام سراج مہدی(سابق چئیرمین اتر پردیش کانگریس کمیٹی اقلیتی سیل)نے اتر پردیش پریس کلب کے سبزہ زار پر کیا ۔جلسہ کی صدارت سراج مہدی نے کی ،مہمان خصوصی کے طور پر اتر پردیش کانگریس کے صدر راج ببر نے شرکت کی۔نظامت کے فرائض لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر عباس رضا نیر جلال پوری نے انجام دئے۔جلسہ میں ایک مرتبہ پھر سماج کے سبھی شعبوں کی نمائندگی کرنے والی مقتدر شخصیات نے شریک ہوکر انور جلال پوری کے تئیںاپنا خراج عقیدت پیش کیا۔مولانا خالد رشید نے اپنے تاثرات میں انور جلال پوری کو ایک شاعر اور ادیب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان بتایا انھوں نے کہا کہ انور جلال پوری نے گیتا ،قرآن،گیتانجلی اور عمرخیام کی رباعیات کا ترجمہ کر کے صرف ترجمہ کا کام نہیں کیا بلکہ اس گنگا جمنی تہذیب کو آگے بڑھایا جس کے لئے ہندوستان عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کے دل میں حضرت علیؑ اور امام حسینؑ جیسی مقدس شخصیات سے عقیدت اور احترام کا جذبہ نہ ہو۔انھوں نے اس موقع پر بر سبیل تذکرہ اردو اور مدارس کا بھی ذکر کیااور کہا کہ اردو مدارس ہی سے زندہ ہے۔ مدارس ہی ہیں جہاں سے ہر شعبۂ حیات میں نمائندگی کرنے والے دانشور نکلے اور نکل رہے ہیں۔یہ علمائے مدارس ہی تھے جنھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانیں قربان کیں۔مدارس نے صرف علمائے کرام ہی نہیں پیدا کئے بلکہ ڈاکٹر عبدالکلام،مولانا ابوالکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین،جیسی شخصیات نے بھی مدرسے ہی میں بنیادی تعلیم حاصل کی تھی۔انھوں نے کہا کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کبھی تلاش معاش میں پریشان نہیں ہوتے ۔انور جلال پوری نے قومی یکجہتی کے جس مشن کو آگے بڑھایا وہ جاری رہنا چاہئے۔پدم شری ڈاکٹر منصور حسن(ماہرامراض قلب) نے اپنی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انور جلال پوری نے اپنی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’’گیتا مجھے تحفتا پیش کی تھی جسے میں پڑھ رہا ہوں انھوں نے کہا کہ انور بہت مخلص انسان تھے ان کا انداز تکلم ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ہم نے ایک بہت بڑا انسان کھو دیا ہے۔ڈاکٹر منصور نے ’’گیتا ‘‘ سے کچھ بند بھی روانی کے ساتھ سنائے۔
فلموں سے سیاست میں آئے راج ببر نے اپنے تاثرات میں کہاکہ انور جلال پوری نہایت خوش خلق اور نرم خو انسان تھے۔ میری دو تین ملاقاتیں ہی رہی ہیں لیکن ہر ملاقات میں میں ان سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔انھوں نے بتایا کہ میرے بھی اجدا د کا تعلق جلال پور سے ہے لیکن وہ جلال پور پاکستان میں ہے۔میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ انور کا تعلق بھی اسی جلال پورسے ہے لیکن ایک موقع پر انور جلال پوری نے بتایا کہ بھائی ایک جلال پور ہندوستان کے اتر پردیش میں بھی ہے۔راج ببر نے کہا کہ انورجلال پوری کے تراجم کسی مذہب یا کسی خاص زبان کی کتابوں کے تراجم نہیں ہیں بلکہ ان تراجم کے ذریعہ انھوں نے ہندوستان اور ہندوستانیت کے بارے میں لکھا ہے اور ان لوگوں کو آئنہ دکھایا ہے جو مذہب اور زبان کے حوالے سے نفرت کا کاروبار کرتے ہیں۔ڈاکٹر انیس انصاری (آئی اے ایس)نے انور جلال پوری کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ پر بہت مہربان تھے۔میری بہت پذیرائی کرتے تھے ۔انھوں نے بڑے کام کئے ہیں جنھیں تسلیم بھی کیا گیا۔ان کی شخصیت اعزازات اور ایوارڈس کے محدود دائروں سے کہیں بڑی ہے۔منظوم ترجمہ نگاری میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔منظر بھوپالی نے کہا کہ میرے والد کے انتقال کے بعد سب سے زیادہ غم مجھے انور جلالپوری کے انتقال کا ہے۔منظر نے اپنی نظم ’’دلی‘‘بھی سنائی جسے انھوں نے انور جلال پوری کے ایما پر ہی مکمل کیا تھا۔ڈاکٹر نسیم نکہت نے کہا کہ انور جلال پوری سے ہمارا تعلق سن ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۷ء تک رہا۔وہ بہت اچھے شاعر ادیب اور مترجم تھے لیکن سب سے بڑھ کر وہ ایک بہت اچھے انسان تھے۔انھوں نے ہمیشہ دوستانہ سلوک بنائے رکھا نظامت میں وہ بہت دیانت دار تھے۔ان کے جانے سے مشاعرے یتیم ہو گئے ہیں۔نسیم نکہت نے اپنے تاثراتی اشعار بھی سنائے اورمرحوم کے لئے بلندی ٔدرجات کی دعا کی ۔کانپور سے آئے جوہر کانپوری نے انور کے ساتھ ٹرین کے ایک سفر کے حوالے سے انور کی انسان دوستی اور بزرگوںکے احترام کے جذبے کو بیان کیا جس میں انور نے اپنی ریزرو سیٹ پر سوئے ایک غیر مسلم بزرگ کو اٹھانا مناسب نہیں خیال کیا اور خود ایک شال فرش پر بچھا کر سو گئے،انھوں نے کہا کہ ہم سب ان کی یاد میں لکھنؤ میں ایک مشاعرہ منعقد کریں گے جس کے لئے صرف جگہ سراج مہدی صاحب فراہم کرادیں۔ شعرا کا انتظام ہم کر لیں گے۔انھوں نے اپنے تاثراتی اشعار بھی سنائے۔حسن کاظمی نے فلم اور ٹی وی سیریل سے انور جلال پوری کی وابستگی کے بارے میں بتایا اور کہا کہ انھوں نے ایک غیر معروف قصبے سے نکل کر عالم گیر سطح پراپنے قصبے اور ہندوستان کے نام کو روشن کیا۔امیر حیدر( چچا) نے کہا کہ انور جلال پوری نے قومی یکجہتی کے لئے پوری زندگی وقف کر دی ۔اورآج کا یہ تعزیتی جلسہ اس بات کا گواہ بن گیا ہے کہ انور جلال پوری شیعہ سنی ہندو مسلم کے محدود دائروں سے کتنے بلند تھے۔شبینہ ادیب نے کہا کہ وہ ایسامنارہ تھے جس کی روشنی میںہم جیسوں نے اپنا سفر طے کیا ہے۔پروفیسر رمیش دیکشت نے کہا کہ معلوم نہیں وہ کتنے شیعہ اور کتنے سنی تھے ۔میں یہ جانتا ہوں وہ گنگا جمنی تہذیب کے سچے نمائندے تھے۔انھوں نے اپنے ترجموںسے بھی یہ پیغام دیا اور آپسی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سمت قابل ذکر قدم اٹھائے ۔
ناظم جلسہ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے کہا کہ انور جلال پوری اردو ،انگریزی،ہندی،عربی،سنسکرت،فارسی اوربنگالی، سات زبانوں کے عالم تھے انھوںنے دو بہت بڑے کام کئے ایک یہ کہ انھوں نے قرآن کے پارہ عم کا ترجمہ کیا اور دوسرے ’’گیتا‘جیسی اہم کتاب کا منظوم ترجمہ بھی بڑی روانی سے کیا۔ اس ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انسانی حافظہ میں محفوظ ہوجا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ انور جلال پوری کو پس ازمرگ ’’پدم شری ‘‘دیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر جاں نثار جلا لپوری نے اپنے والد کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دنیا کی کئی بڑی زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کر کے بین المذاہب اور بین التہذیب دوریوں کو کم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ان کی شخصیت اور فن پر چار یونیورسٹیز میں تحقیقی کام چل رہا ہے جس میں سے جموں کشمیر یونیورسٹی میں ریسرچ کا کام پورا ہو چکا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب کی محبتیں اور شفقتیں ہم لوگوں کو ویسے ہی ملتی رہیں گی۔شہر یار جلال پوری نے بھی اپنے والد کی یادوں اور باتوں کو سامعین سے شئیر کیا۔اور بتایا کہ ابو گوتم بدھ پر بھی کام کر رہے تھے جو تقریبا پچھتر فیصد مکمل ہو چکا ہے ،ہم اسے اتناہی شائع کریں گے۔نہال رضوی نے کہا کہ انور جلال پوری ایک ایسی آواز تھے جسے اردو ادب اور تہذیب کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ۔ڈاکٹر طارق قمر نے کہا کہ انور صاحب اپنے آپ میں ایک شخص نہیں ایک انجمن ایک ادارہ اور ایک یونیورسٹی تھے۔ان کے نا مکمل کاموں اور منصوبوں کو مکمل کرنا ہی ان کو سچا خراج ہو گا۔ریسرچ اسکالر اجے کمار سنگھ نے کہا کہ وہ بہت سرل انسان تھے اور سرل ہی زبان بولتے تھے۔ان کے ترجمے بھی سرل زبان میں ہیں جن کو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔سردار چرن سنگھ بشر،سوامی سارنگ اورقمر سیتا پوری نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ آخر میں جلسہ کے منتظم سراج مہدی نے جلسہ تعزیت میں آئے مہمانوں اور سامعین کا فردا فردا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انور بھائی کی یاد میں ان کے نام سے جو بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں میں ان کی تائید بھی کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ تجاویز عملی شکل اختیار کریں گی ۔کیونکہ انور جلال پوری کوئی چھوٹی موٹی شخصیت کا نام نہیں ہے وہ بہت بڑی شخصیت کا نام ہے۔یہ ان کی شخصیت کی عظمت ہے کہ ان کے تعزیتی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔
جلسہ میںراج بہارد سابق وزیر،سشیل دوبے،اجے کمار سنگھ، جمیل خان،عرشی رضا،انصرام علی،رضوان احمد،پردیپ کپور،فہمی،محمد آفتاب،پرویز علوی،پرویز ملک زادہ،ظاہر قزلباش،محمد طارق، سرویش استھانا،مکل مہان اور بڑی تعداد میں سبھی مذاہب و مسالک کے افراد موجود تھے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular