انباکسیے۔۔۔ہوشیار،خبردار

0
142

ڈاکٹر فرزانہ کوکب

شرق و غرب کی بات چھوڑ کر صرف اپنے برصغیر کا ہی قصہ لے لیں۔۔جب یہاں کی پردہ دار،حیادار، نیک، شریف اور تعلیم یافتہ بیبیوں نے شعر و سخن اور نثر کے میدان میں قدم رنجہ فرمایا تو گویا وہ ان کے لئے میدان جنگ بن گیا۔جہاں کتنے ہی لعن و طعن و دشنام بلکہ بیہودہ گوئی کے محاذ ان کے خلاف کھل گئے۔بچاریوں کی جرات نہ تھی کہ اپنے نام اور اصل شناخت کے ساتھ اپنے جذبات و کیفیات اور نظریات کا اظہار کر سکیں۔کوئی نام کے ابتدائی حروف لکھتی تو کوئی مردانہ نام سے اس میدان میں قدم جمائے رکھتی۔کہ اصل نام و شناخت ظاہر کرنے کے نتیجہ میں انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جس طرح کے مسائل اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا وہ کسی بھی مہذب یا متمدن معاشرے پر داغ لگانے کے لئے کافی تھے۔
جی ایسا ہی ہوتا تھا اور بالکل ہوتا تھا۔۔۔کوئی دو صدی قبل۔تب صرف طوائفیں ہی اس معاشرے میں اپنے وجود کے علاوہ اپنی شناخت اور اپنا نام ظاہر کرتی تھیں۔اپنی خوبصورتی کیساتھ ساتھ اپنے ہنر و فن،اعلی ذوق اور دیگر صلاحتیوں کو منواتی تھیں۔شریف اور خانہ دار عورت کے لئے تو باعزت طریقے سے گھر سے نکل کرکوئی بھی کام کرنا گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنا ہی تھا۔
منٹو صاحب نے صحیح ہی کہا تھا کہ ہمارا معاشرہ ایک عورت کو تانگہ چلانے کا لائسنس نہیں دیتا جبکہ ایک طوائف کو اڈہ چلانے کا لائسنس دے دیتا ہے۔منٹو صاحب کی اس بات پر ہمیں ایک خاتون یاد آئیں۔جن کی اپنی شہرت کوئی خاص اچھی نہ تھی لیکن پتا نہیں کیوں مرد حضرات ہر پرائی عورت کو اپنے لئے مال غنیمت کیوں سمجھ لیتے ہیں۔۔تو ان خاتون کا باس ان سے غلط تقاضے کر رہا تھا اور حکم عدولی کے نتیجے میں خاتون کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ماننے کی بات ہے کہ تھیں خاصی دبنگ اور مرد مار خاتون۔فرمانے لگیں کہ میں ہرگز یہ نہیں کہتی کہ میں کوئی نیک پاک، ستی ساوتری عورت ہوں لیکن میری اپنی بھی تو کوئی” چوائس “ہو سکتی ہے نا اور پھر مسٹر باس”آئینہ دیکھ اپنا سا مونہہ لیکر رہ گئے” ہماری تو سمجھ میں یہی بات آتی ہے کہ اپنے گھر کی عورت کے سوا مرد کو شریف عورت وارا ہی نہیں کھاتی۔کیونکہ اس کے کسی “کام “کی جونہیں۔۔اور پھر” بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی” اور وہ یہ کہ شریف عورت کی قدر نہ گھر کے اندر ہے نہ گھر سے باہر۔۔۔
اب ذرا دو سو سال کے بعد کا اور آج اکیسویں صدی کا منظرنامہ ملاحظہ فرمائیں۔۔جدید ٹیکنالوجی آئی،موبائل آیا،انٹر نیٹ آیا اور پھر سوشل میڈیا۔۔عورت نے اس نئے میدان کارزار میں بھی قدم رکھ دیا۔۔پھر کیا ہوا۔۔ہراسمنٹ اور سائبر کرائمز ،اور ان کا سب سے بڑا ہدف “عورت”۔بیشتر خواتین نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنا اصل نام اور شناخت چھپا کر ہر گھڑی بدلتی ،جدت یافتہ اور ترقی یافتہ ہوتی دنیا کا حصہ بنیں۔لیکن اپنے اصل نام کے ساتھ اپنی اصل تصویر دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔اس میں ایک عجیب و غریب صورت حال یہ بھی ہے کہ وٹس ایپ پر اگر کسی خاتون کا نمبر محفوظ کیا جائے تو نمبر کے ساتھ تصویر کسی مرد کی ہوتی ہے جو بالعموم اس بی بی کے شوہر صاحب ہوتے ہیں۔اب اس بی بی کی تو کسی بھی طرح کے مسلے سے جان چھوٹ جاتی ہوگی۔مگر جس بچاری بی بی نے نمبر محفوظ کیا اس کے گھر کے مرد حضرات یقینا”اس شک میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ اس نے کسی غیر مرد کا نمبر عورت کےنام سے محفوظ کیا ہوا ہے۔اس جہاں میں بندہ مزدور کے اوقات تو تلخ ہیں ہی۔۔ اس لاچار اللہ کی بندی کے حالات تو اللہ ہی اللہ۔گوئم مشکل وگر نہ گوئم مشکل۔اور فیس بک پر کہیں بھول کر اپنا نام یا شناخت ظاہر کر بیٹھے تو پھر جو حضرات سر عام کمنٹس کرنے کا حوصلہ نہ رکھیں وہ بڑے طمطراق سے ان بچاریوں کے انباکس میں گھس آتے ہیں۔اور پھر اپنے ذہن کی ساری غلاظت سے ان کے انباکس کو آلودگی سے بھر دیتے ہیں۔۔ان میں سے اکثر اپنی وال پر دہائی دے رہی ہوتی ہیں کہ جو کچھ کہنا ہے یہاں وال پر سامنے آکر کہیں۔انباکس میں دوبارہ گھسے تو۔۔۔۔۔
ایک بی بی نے تو حد ہی کردی کہ وہ تمام اخلاق باختہ اور شرم ناک تصاویر جو انہیں انباکس میں بھیجی گئیں۔۔ان صاحبہ نے ان سب حضرات کا نام لئے بغیر ان پرلعنت ملامت کرتے ہوئے ان کی بھیجی گئی تصاویر کو کولاج کی صورت اپنی ٹائم لائن پر لگا دیا۔انباکس میں دیکھ کر تو بی بی ہی شرمندہ ہوئی ہونگی۔۔جبکہ اس اخلاق باختگی کے سرعام مظاہرے نے ان صاحبان کے ساتھ ساتھ ایک عالم کو شرم سے پانی پانی کردیا۔کئیوں نے کن اکھیوں سے دیکھا اور کئیوں نے شرم سے آنکھیں ہی جھکا لیں۔۔اور کئیوں نے اس ادا کو کوئی خفیہ پیغام اور اشارہ سمجھا۔۔اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔
ایک عورت پیر صاحب کے پاس اپنے شوہر کے لئے تعویذ لینے گئی اور دکھ بھری آواز میں کہنے لگی کہ پیر صاحب میرا شوہر ساری ساری رات گھر نہیں آتا۔میں کیا کروں؟تو پیر صاحب نے پوچھا”بی بی یہ شکوہ ہے کہ اطلاع” بھئی غلط اور حد سے بڑھ کر کوئی بھی کچھ کرے تو غلط ہی کہلائے گا نا۔۔اس میں تذکیر و تانیث کی کوئی تخصیص نہیں۔اور انہیں بالکل درست مشورہ دیا گیا کہ بی بی انباکس میں بلاک کا بھی ایک آپشن ہوتا ہے آپ بے دھڑک اسے استعمال کر سکتی ہیں۔لیکن ان حضرات کے پیروں تلے سے زمین ضرور سرک گئی ہوگی اور آنکھوں کے آگے کچھ دیر کے لئے اندھیرا ضرور چھا گیا ہوگا۔اور انہوں نے یقینا” سوچا ہوگا
“جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ بجا نہ تھا
اتنے بھی برے کب تھے اگر ہم بھلے نہ تھے ” بژے بزرگ ایسے ہی تو نہیں تنبیہہ کر گئے کہ عورت بھی اپنی آئی پے آجائے تو۔۔۔۔اور یہ بھی کہ عورت رکے تو آپ سے نہ رکے تو باپ سے۔۔اور پھر یہ تو ہوتا ہی ہے کہ تنگ آمد،بجنگ آمد۔اور پھر چاہے جان لڑانی پڑ جائے یا جان سے جانا پڑ جائے۔اصل تو یہ ہے کہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے ۔اور پھر جب جان کی بھی بازی لگا دی جائے تو ایک ہی سچائی پر ایمان ہوتا ہے”جو جیت گئے تو کیا کہنا،ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔
qq

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here