Tuesday, April 16, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاسی باعث تو قتل عاشقاں کو منع کرتے تھے

اسی باعث تو قتل عاشقاں کو منع کرتے تھے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

حفیظ نعمانی

کسی سیاسی پارٹی سے رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ہم نے صرف مسلمانوں کی خیرخواہی کے خیال سے جو ضروری سمجھا وہ لکھا جس وقت راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے الیکشن ہورہے تھے اس وقت پوری کوشش کی کہ کانگریس اور بی جے پی کی سیدھی ٹکر ہونے دی جائے مایاوتی اپنے مزاج کے مطابق سنجیدگی سے اور اکھلیش ان کی مروّت میں وہاں اُمیدوار کھڑے کررہے تھے جس کی ہم نے کھل کر مخالفت کی۔ پھر جب لوک سبھا کے الیکشن کی گونج شروع ہوئی تو ہم نے یاد دلایا کہ گورکھ پور سے کیرانہ اور نور پور تک اکھلیش یادو نے مایاوتی کی حمایت لے کر جو فضا بنائی ہے اس میں کانگریس خلل نہ ڈالے لیکن نہ جانے وہ کون بقراط ہے جس نے راہل کو مشورہ دیا کہ پورے ملک کو چھوڑکر صرف اُترپردیش کو نشانہ بنائو اور اپنے ترُپ کے پتہ پرینکا اور مدھیہ پردیش کے چپہ چپہ سے واقف سندھیا کو اُترپردیش میں قربان کردو۔
تقریباً دس مہینے پہلے جب کیرانہ اور نور پور میں وزیراعظم کی زہرپاشی سے ہندو مسلمان ہی نہیں اکھلیش جیسے ہندو اور یوگی جیسے ہندو کے درمیان دیوار کھڑی ہوگئی تھی ایسی زہریلی فضا میں دونوں سیٹوں پر مسلمان اُمیدواروں کو اُتارکر اور جاٹوں کو ساتھ لے کر جو کارنامہ کردکھایا اس کے بعد ہر مسلمان اور سیکولر ہندو کے دل پر نقش ہوگیا تھا کہ بی جے پی کو اُترپردیش سے دو چار سیٹوں سے زیادہ نہیں لے جانے دیں گے۔ لیکن مسلمان دلالوں سے پہلے راہل گاندھی نے اچانک پرینکا اور سندھیا کو اُترپردیش میں آدھی آدھی سیٹوں کا انچارج بنا دیا اور اس احسان کو بھی یاد نہیں رکھا کہ اکھلیش اور مایاوتی نے رائے بریلی اور امیٹھی دونوں جگہ اپنے اُمیدوار کھڑے نہ کرنے کا بغیر مانگے پہلے ہی اعلان کردیا تھا۔ راہل گاندھی نے پرینکا کا روڈشو کرایا تو باولے گائوں میں اونٹ جیسا تماشہ ہوگیا۔ سب نے تسلیم کیا کہ برسوں سے ایسا روڈشو نہیں ہوا۔ کانگریس کا وہ صوبائی دفتر جس میں برسوں سے جھاڑو لگانے والا بھی کوئی نہیں تھا دولہن کی طرح سجایا گیا اور ہر وہ بات کی گئی جس سے یہ اندازہ ہو کہ کانگریس میں زبردست انقلاب آگیا ہے اور اب اُترپردیش کی 80 سیٹوں میں 40 تو کانگریس لے ہی جائے گی۔ ابھی روڈشو کو دو ہفتے بھی نہیں ہوئے کہ خبریں آنے لگیں کہ مناسب اُمیدوار نہیں مل رہے۔ راہل گاندھی شاید بھول گئے کہ 1980 ء کے الیکشن میں ان کے چچا سنجے گاندھی نے پوری کانگریس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور ان منجھے ہوئے بزرگ کانگریسیوں سے جو پارٹی کو کاندھوں پر اٹھاکر لائے تھے بے تکلف کہا تھا کہ جیتنے والا گھوڑا لائو اور یہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ جیتنے والا گھوڑا وہ ہوتا ہے جس نے دو چار قتل کئے ہوں بدعنوانی سے سیکڑوں کروڑ کمائے ہوں کروڑوں روپئے حوالے سے ادھر سے ادھر کیا ہو اور اب جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ جیتنے والا ٹکٹ 20 کروڑ روپئے میں خرید رہے ہیں۔ اب اسے راہل گاندھی سوچیں کہ وہ ہزاروں میں الیکشن لڑنے والوں کو 50 کروڑ میں لڑنے والے سے لڑاکر کتنی سیٹیں جیت سکتے ہیں؟
موجودہ لوک سبھا میں 443 ممبر کروڑپتی ہیں اور یقین ہے کہ ان میں سے ایک نے بھی 20 کروڑ روپئے میں ٹکٹ نہیں خریدا ہوگا اور اب نوٹ بندی کا صدمہ جھیل کر بھی جو 20 کروڑ میں ٹکٹ خرید رہا ہے وہ یقین کیجئے کہ وہ ہے جس کے کالے کو سفید کرنے کے لئے نوٹ بندی کی گئی تھی یا وہ ہے جس نے آٹھ بجے سے رات کو بارہ بجے تک سوٹ کیس بھرے نوٹوں کے بدلے میں شو کیس بھرے زیور خریدے تھے اور چار گھنٹے کیلئے خرید فروخت اس زمانہ کی طرح ہوگئی تھی جس میں سامان کے بدلے سامان لیا اور دیا جاتا تھا اب یہ قسمت کی بات ہے کہ نقصان کسے ہوا اور نفع کسے؟ نوٹ بندی کا جس وقت اعلان ہورہا تھا اس وقت ہر سنار کا شوکیس اور شوروم بھرا ہوا تھا اور تین دن کے بعد جب بازار کھلے تو سونے چاندی کے شوروم سب خالی تھے ان میں تانبے کے سکے بھی نہیں تھے۔
راہل گاندھی کی اس ضد یا خوش فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اُترپردیش ہی نہیں مایاوتی مدھیہ پردیش کی ہر سیٹ پر اور اتراکھنڈ کی چار سیٹوں پر اپنے اُمیدوار کھڑے کررہی ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ راہل گاندھی کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گی۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ نہ مدھیہ پردیش میں جیتیں گی اور نہ اُتراکھنڈ میں اور اگر ایک دو سیٹ جیت بھی گئیں تو اس کی حیثیت کیا ہوگی لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ دونوں جگہ کانگریس کو بہت نقصان پہونچائیں گی۔ یہ بات کانگریس کو یاد رکھنا چاہئے کہ پورے ملک میں دلت ہر جگہ ہیں اور جہاں مایاوتی چاہیں گی انہیں اُمیدوار مل جائیں گے اور یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ اگر ووٹوں سے بھرا ٹکٹ 20 کروڑ میں بک رہا ہے تو وہ صرف بی جے پی کا نہیں بی ایس پی کا بھی لینے والے بہت ہوں گے اور وہ ایسے اُمیدواروں کو بھی لڑاسکیں گی جن کی حیثیت کمزور ہوگی۔
بات صرف ان تین چار صوبوں کی ہی نہیں پورے ملک کی ہے جس میں دہلی بھی ہے جہاں کی سات سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ شیلا دکشت 15 سال وزیراعلیٰ رہیں اور جب کجریوال سے ان کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے کانگریس کو صاف کردیا آج نہ لوک سبھا میں کوئی ہے اور نہ اسمبلی میں۔ کجریوال کو وزیراعظم نے اپنے ہارنے کی ایسی سزا دی ہے جیسی دشمن کو دی جاتی ہے۔ اور غیرجانبدار ہوتے ہوئے کجریوال کی تعریف کرنا چاہئے کہ اسے جتنا مودی نے ستایا اس کی زبان اتنی ہی دھاردار ہوتی رہی اب ان کا تکیہ کلام ہے کہ مودی اور شاہ کی جوڑی کو ہر حال میں ملک سے نکالنا چاہئے انکا ہر نعرہ ایسا ہے کہ راہل گاندھی کو گلے میں ہاتھ ڈال دینا چاہئے لیکن راہل نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ جب دشمن کا دشمن دوست نہیں ہوسکتا تو اسے بدنصیبی کہا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ راہل پہل کرتے اور کجریوال نخرے کرتے حیرت ان سے زیادہ سفید بالوں والی شیلا دکشت پر ہے کہ انہوں نے بھی نہیں کہا کہ آئو ہم مل کر مودی اور شاہ کو نکالیں پھر آپس میں نمٹ لیں گے اس کا مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ راہل گاندھی نے 2019 ء کو مقابلہ کے بجائے 2024 ء کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔
9984247500

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular