اردو کا زندانی ادب اورمولانا آزاد

0
350
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

اطہر حسین

جذبہ آزادی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ عام انسانوں کے مقابلے میں ادیب زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اس لیے ادیب و فنکار میں آزادی اور خود مختاری کا نہ صرف جذبہ ہوتا ہے بلکہ وہ عوام اور د یگر لوگوں کو آزادی کے جذبے سے سرشار بھی کرتا رہتا ہے ۔ وہ حکو مت کی ناپاک سازشوں اور عوام پر ظلم و زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے ۔ادیب و فن کار اس رویے کے سبب نہ صرف معتوب قرار پاتا ہے بلکہ بسا اوقات اسے د اخل زنداں کر دیا جاتا ہے ۔ادیب کا قلم ہی اس کے لیے سب سے بڑا ہتھیارہے ۔زمانے کے حالات خواہ کیسے بھی ہوںوہ ہر صورت میں حیات انسانی کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ ظلم و تشددکو کسی بھی صورت میں پسند نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ سازشوں کا سینہ چاک کرتا رہتا ہے اور لوگوں کو ایسی دنیا بسانے پر زور دیتا ہے جہاں انسانیت کو عزت اور تکریم ملے ۔زنداں کی کا ل کوٹھری میں بیٹھ کر بھی وہ ادب تخلیق کرتا ہے۔جس سے کہ ظلم و جورکی شب تاریک میں امیدکی کرن روشن ہونے لگتی ہے ۔ زندا ں کی چہار دیواریوں کے اندر حالت اسیری میں لکھا گیا ادب اردو ادب میںزندانی ادب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ادب کی تخلیق میں زنداں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ اردو میں زندانی ادب کی  روایت کافی قدیم ہے۔ ۱۸۵۷ کے بعد سر زمین ہندوستان پرانگلستان سے آئے ہوئے انگریزوں کا مکمل طور پر تسلط ہو گیا تھا۔ وہ  پوری طرح سے حاکم اور ھندوستانی عوام محکوم بن چکی تھی۔ وطن پرست مجاہدین آزادی خصوصاً ہمارے علماء کرام نے جنکے اندر وطن پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی انھوں نے وطن کی غلامی اور محکومی سے نجات دلانے کے لیے مسلسل جدو جہد کی جسکے نتیجے میں انھیں سلاخوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں بغاوت پر غداری کے الزام میںانگریزوں نے قید وبند، پھانسی اور کالا پانی وغیرہ کی سزائیں دی تھیں۔شعراء و ادباء علماء کی ایک بڑی تعداد کو انگریزوں نے کالا پانی کی سزایں دیں ۔ ان مجاہدین آزادی و وطن پرست علماء و فضلاء نے پھانسی و اسیری کی پر واہ کیے بغیرعلمی وتخلیقی خدمات میں خود کو مصروف رکھا بلکہ اسیری کے حالات میں بذریعہ قلم حب الوطنی اور جزبہ آزادی کو صفحہ قرطاس بکھیرتے رہے۔اس طرح زندانی ادب کا ایک بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا ۔ زندانی ادب کا وجود اور تصور بہت قدیم ہے ۔ در اصل ادیبوں کے خیا لات کے اظہار پر پابندی عائد کرنے اور انکے باغیانہ  و انحرافی ادبی اظہار کے رد عمل کے طور پر ان کو قید بند میں ڈالنے یا انکے ادبی شہ پاروں کو ضبط کیے جانے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ با ضابطہ طور پر اس صنف کا آغاز ۱۹ وی صدی کے نصف آخر میں ہوا۔ چنانچہ تواریخ عجیب موسوم بہ ’’کالا پانی ‘‘ کو اس صنف میں اولیت حاصل ہے۔ بعض مورخین ادب نے اسے پہلی خود نوشت بھی قرار دیا ہے۔  قائد انقلاب مولانا جعفر تھانسیری کی دو جلدوں پر مشتمل سرگزشت ہے جسے انھوں نے ۸۰۔۱۸۷۹ء میں کالا پانی کی اسیری کے دوران تحریر کیاتھا۔ پھر اس کے بعد تو زندانی ادب میںیک بعد دیگر مسلسل کتابوں کا اضافہ ہوتا رہا جو کسی نہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔مجموعی دیکھا جائے تو ایسے مصنفین کی فہرست کافی طویل ہے جنہوںنے زندانی ادب تخلیق کیا، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، بہادر شاہ ظفر ، واجد علی شاہ ، مولانا ظفر علی خان، حسرت موہانی ، مولانا محمد علی جوہر ، مولا نا محمد حسین دیوبندی ، شورش کاشمیری، حضرت مولانا سید حسین مدنی، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری ، مجروح سلطان پوری، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جس کی تفصیل کے لیے ایک طویل ضخیم دفتر درکار ہے ۔ چونکہ میری غرض و غایت مولانا ابوالکلام آزاد کی زندانی خدمات سے ہے تو میں طوالت سے انحراف کرتے ہوئے مولانا کی زندانی خدمات کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات گرامی ہمہ جہت ، ہمہ صفات اور عبقری شخصیت کے مالک تھے، وہ ایک اچھے خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرز نثر نگار، حق گو صحافی اور غیور سیاست داں تھے۔ ان کی شخصیت میںوطن پرستی، حب الوطنی اور آزادی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔مولانا نے ملک کی آزادی ،ملک کی تعمیر وترقی اور حصول آزادی کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کیاہے۔حضرت مولانا کی شخصیت بڑی متأثر کن اور انفرادیت کی حامل تھی۔قدوقامت سے بڑے جاہ وجلال اور رعب ودبدبہ کا احساس ہوتا تھا ۔ان سے جو بھی ملتا انہیں کا ہوکر رہ جاتا تھا۔مولانا عبد الماجد دریابادی نے ان کی شخصیت کا خاکہ یوں پیش کیا ہے: ’’ ۱۹۰۹ء تھا کہ میں کیننگ کالج کا طالب علم تھا کہ ایک دن ،دن کے وقت لکھنواسٹیشن کسی کو رخصت کرنے گیا تھا ،دیکھا کہ ایک نوجوان وجیہ شکل ،داڑھی مونچھ صاف سکنڈ کلاس ویٹنگ روم سے باہر نکلے ۔غالباً سگریٹ منھ میں دباہوا تھا ۔کالا ترکی کوٹ ان کے گورے رنگ پر بڑا ہی بھلا لگتا تھا ۔کسی نے بتایا کہ ابوالکلام یہی ہیں ۔یقین نہ آیا مگر یقین کرنے کرنے کے سوا کوئی  چارہ بھی نہ تھا۔‘‘ (معاصرین عبد الماجد دریابادی صفہ ۱۸۵)  اس اقتباس سے مولانا کی شخصیت اور قدوقامت کا بھی اندازا ہ ہوتا ہے ۔مولانا آزاد کم عمری ہی سے ملکی سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی استعمار کی چیرہ دستیوں سے وہ بخوبی واقف تھے اور فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مولانا آزاد اس کے سد باب کے لیے متحرک ہوگئے ۔انگریزوں نے ہندستانیوں کے بھائی چارہ اور باہمی اخوت ومحبت کے جذبے کو نفرت اور تعصب میں بدلنے کی کام یاب کوشش کی جبکہ مولاناآزاد ہندو مسلم کو بھائی  بھائی اور ایک خاندان کا فرد سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ملک اسی وقت مضبوط اور طاقت ور ہوگا جب مختلف قوموں اور مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ مل جل کر رہیں گے اسی لیے مولانا آزاد تن من دھن سے ملک کو طاقت ور بنانے میں مصروف ہوگئے ۔مولانا نے عملی اقدام کے علاوہ قلمی اقدام بھی کیا۔ مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ۱۹۱۲ء میں الہلال نکالا ۔اس پر پابندی عائد ہوجانے کے بعد البلاغ نکالا ۔غرض الہلال والبلاغ کے مضامین نے برطانوی سامراج میں کہرام مچا دیا حکومت خوف زدہ ہوگئی۔حکومت نے مستقبل کے خوف سے مولانا کو بنگال بدر کیے جانے کا حکم سنادیا۔مولانا اپنی اس جلا وطنی کے متعلق رقم طراز ہیں : ’’ ۲۳ مارچ ۱۹۱۶ء کو گورمنٹ بنگال کے ڈفنس ایکٹ کی دفعہ ۳ کی  بنا پر حکم دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر حدود بنگال سے باہر چلاجاؤں ان الحکم الا اللہ رونا کہاں ہوا مجھے دل کھول کر نصیب  دو آنسوؤں میں نوح کا طوفان آگیا ۳۰ مارچ کو کلکتہ سے باہر سالہا سال کے متصل قیام پر بے جا نہیں اگر وطن کہوں نکلا اور رانچی پہونچا  اس وقت یہ غم نامہ حسرت لکھ رہا ہوں ،رانچی میں شہر سے باہر مور آبادی نامی ایک گاؤں کے قریب تنہا مقیم ہوں ۔‘‘(تذکرہ،مولانا ابوالکلام آزاد صفحہ ۳۳۲۔۳۳۳) اس ظالمانہ فیصلے کے بعد مولانا کی شخصیت میں نیا انقلاب پیدا ہو گیا ۔جدوجہدآزادی کی تحریک میں تیزی پیدا ہوگئی ۔یہی وہ زمانہ ہے جب مولانا کی ملاقات گاندھی جی سے ہوئی تھی ۔ان دونوں نے ملک کو آزاد کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مولانا نے جمعتہ العلماء ہند ،تحریک ترک موالات،ہندوستان چھوڑو تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مولانا کو سب سے کم عمری میں کانگریس کی صدارت کا اعزازملا ۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کا اعزاز مولانا کو ہی حاصل ہے۔مولانا ۱۹۵۸ء میں اس دارفانی سے کوچ کر گیے ۔اس مختصر سی زندگی میں انہیں چھ مرتبہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں،جو مجموعی مدت کے اعتبار سے تقریباً دس سال یعنی اپنی زندگی کا ہر ساتواں دن آپ نے اسیری میں گزارا ہے۔ اپنی اسیری کے بارے میں مولانا غبار خاطر میں لکھتے ہیں : ’’ قید وبند کی زندگی کا یہ چھٹا  تجربہ ہے ۔پہلا تجربہ ۱۹۱۶ء میں پیش آیا تھا جب مسلسل چار برس تک قید وبند میں رہا تھا ۔پھر ۱۹۲۱،۱۹۳۱،۱۹۳۲،اور ۱۹۴۰ میں یکے بعد دیگرے یہی منزل پیش آتی رہی ۔پچھلی پانچ مدتوں کی اگر مجموعی مدت شمار کی جائے تو سات برس آٹھ مہینے سے زیادہ نہ ہوگی۔عمر کے ترپن برس جو گزر چکے ہیں ،ان سے یہ مدت وضع کرتا ہوں تو ساتویں حصے کے قریب پڑتی ہے۔گویا زندگی کے ہر سات دن میں ایک دن قید خانہ کے اندر گزری ۔‘‘(غبار خاطر :مولانا  آزاد ص۳۳) مولانا نے اپنی دس سالہ قید کی زندگی میں اردو ادب کوجو کچھ عطا کیا وہ ادبی تاریخ میںشاہکار کادرجہ رکھتا ہے ۔مولانا نے ملکی اور سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی بڑے علمی کارنامہ کا انجام دینا دشوار تھا مگر وقفہ سے وقفہ نظر بندی سے مولانا کبھی کبیدہ خاطرنہیں ہوئے بلکہ خلوت کو نعمت تصور کرتے ہوئے غبار خاطر،ترجمان القرآن ،تذکرہ،قول ،فصیل،سیرت شیخ احمد سر ہندی جیسی شاہکار کتابیں تخلیق کیں ۔ تذکرہ : یہ مولانا آزاد کی خودنوشت سوانح عمری ہے ۔جس کو مولانا نے ایک عزیز دوست مرزا فضل الدین احمد کی فرمائش پر۲۳ مارچ ۱۹۱۶ کو لکھا جب مولانا رانچی کی جیل میں اسیر تھے ۔مولانا نے اکبر اعظم کے معاصر شیخ جمال الدین معروف بہ شیخ بہلول دہلوی کی احوال سے جو مولانا کے پردادا کے ننھال بزرگ تھے اس کتاب کا آغاض کیا ہے ۔تذکرہ میں مولانا نے تاریخ اسلام کی بعض عظیم ونامور شخصیات کی حیات اور ان کے کارناموں پر بھی روشنی ڈالی ہے جیسے شیخ جمال الدین ،شیخ محمد جون پوری ،شیخ احمد سرہندی ،شاہ ولی اللہ ،احمد بن حنبل اورابن تیمیہ وغیرہ ۔اس کی دو جلدیں لکھنے کا ارادہ تھا مگر پہلی جلد ہی مکمل ہوسکی۔مولانا نے اپنی خودنوشت حیات(تذکرہ) محض پانچ ماہ میںلکھی۔تذکرہ کا مقصد کچھ بھی رہا ہو مگر زندانی ادب کی تاریخ میں اس کو اہم مقام حاصل ہے۔ترجمان القرآن : مولانا آزاد کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش کارنامہ ترجمان القرآن ہے ۔اردو کی دیگر تفاسیر کے مقابل میں اس کی اپنی الگ انفرادیت ہے ۔علمی واسلامی حلقوں میں ترجمان القرآن کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔مولانا کو قرآن پڑھنے اور اس کی صحیح تفہیم تک پہنچنے میں مولانا کو بچپن سے شوق تھا چونکہ مولانا کی ولادت مکہ میں ایک اسلامی دین دار گھرانے میں ہوئی تھی ۔مزید ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا ان تمام باتوں کا انہوں نے خود ترجمان القرآن کے دیباچہ میں کیا ہے۔ مولانا نے ترجمان القرآن کا سلسلہ اپنی اسیری سے قبل شروع کر دیا تھا ۔آٹھ پاروں کا تذکرہ اور تین پاروں کی تفسیر مکمل ہو بھی چکی تھی ۔مگر پوری تفسیر قید و بند کی مختلف صعوبتوں کے دوران لکھی ۔ مولانا کے مطابق ۱۹۳۰ میں انہوں نے اس تفسیر کو مکمل کر لیا تھا مگر مولانا کی گرفتاری کے وقت حکومت نے تلاش وجستجو میں ترجمان القرآن کا اکثر حصہ بھی ضبط کر لیا جس کے سبب صرف دو جلدیں یعنی صرف ۱۹ پاروں کی تفسیر مطبوعہ شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ترجمان القرآن زبان وبیان ،ترجمہ وتفسیر کے تمام اصول وضوابط کے معیار پر کھری اترتی ہے اور علمی و اسلامی حلقوں میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔غبار خاطر: یہ اردو ادب کا شاہکار اور لازوال کارنامہ ہے جو انشائیوں کہ شکل میں خطوط کا مجموعہ ہے ۔جس میں ۲۴ خطوط ہیں ۔جس کو مولانا نے ۱۹۴۲ ء کی گرفتاری قلعہ احمد نگر کی اسیری میں خود کو مصروف رکھنے ،دل کے غبار کو سامنے لانے اور تنہائیوں کو کم کرنے کی غرض سے اپنے دوست حبیب الرحمن خان شروانی کو لکھا ۔غبار خاطر ایک ایسا دستاویز ہے جس کے بغیر مولانا کی شخصیت کی تفہیم ممکن نہیں ۔غبار خاطر میں مولانا کے شخصی حالات ،زنداں کے شب وروز ،زنداں کے مشاہدات وتجربات کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً چڑیا چڑے کی کہانی ،چائے کا شجرہ،زاغ وبلبل کی حکایتیں ،فن موسیقی،چائے کی تاریخ پر قلم اٹھایا ہے۔اور ان تمام واقعات کو مولانا نے بڑے دلچسپ انداز میں جگہ جگہ عربی فارسی اشعار کی مدد سے غبار خاطر کے اسلوب کو دلچسپ بنا دیا ہے۔خلیل الرحمن اعظمی غبار خاطر کے متعلق رقم طراز ہیں : ’’ غبار خاطر کا سلوب ابوالکلام واعظ اور خطیب نہیں ہے یہان ایک رچاؤ سے اس کی شخصیت کا داعی ،فلسفی اور حامی مذہب ،ادیب اور شاعر مصور اور مغنی ایک اکائی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔غبار خاطر ایک ایسا پردہ ہے جس پر ابوالکلام کی روح پورے طور پر جلوہ گر ہے۔اس لئے اسے محض خطوط کا مجموعہ سمجھ کر پڑھنا صحیح نہیں ۔‘‘ ( مولانا آزاد فکر ونظر کی چند جہتیں ،صفحہ ۱۲۰) خلیل صاحب کے اس اقتباس اور اردو ادب میں غبار خاطر کی مقبولیت سے مولانا کی شخصیت اور قلمی صلاحیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے قید کے دوران ،جیل کی اس زندگی کوجسے سوائے قیدیوںکے کوئی دوسرا نہیں جانتا اسے پیش کرنے کی کام یاب کو شش کی ہے ۔یقینا مولانا کی شخصیت قابل تعریف اور اپنی مثال آپ ہے ۔اس کے علاوہ مولانا نے قول وفصیل،سیرت شیخ احمد سر ہندی جیسی زندانی شاہکارکتابیں تخلیق کیں جس کی اپنی الگ انفرادیت ہے ۔ان تمام تصانیف کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانانے جوقید وبند صعوبتیں جھیلیں ہیںاس کو بھی بیکار نہیں جانے دیا ۔ان مشکل حالات میں بھی انکا قلم قوم وملت کے لیے چلتا رہا ۔ ان کی شب وروز مصروفیت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اگر مولانا اسیر نہ ہوتے تو شاید ایسی شاہکار تصانیف نہ دے پاتے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here