Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeMuslim World اردو رائٹرس فورم کے تحت پروفیسر مجاور حسین اور پروفیسر فضل امام...

 اردو رائٹرس فورم کے تحت پروفیسر مجاور حسین اور پروفیسر فضل امام کے اعزاز میں تہنیتی جلسہ

پروفیسر مجاور حسین اور پروفیسر فضل امام علم کے منارے ہیں:پروفیسر شارب ردولوی

کھنؤ۔۱۹؍مارچ۔پروفیسر مجاور حسین رضوی اور پروفیسر فضل امام رضوی علم و ادب کے روشن مینار ہیں۔انھوں نے اپنے علم سے اوراپنے شاگردوں کے حوالے سے ایسے چراغ روشن کئے ہیں جںکا سلسلہ صدیوں تک جاری رہے گا۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر شارب ردلوی نے اردو رائٹرس فورم کے زیر اہتمام آل انڈیا کیفی اعظمی( نشاط گنج) میںپروفیسر سید مجاور حسین رضوی اور پروفیسر فضل امام رضوی کے اعزاز میں ہونے والے تہنیتی جلسہ میں کیا۔پروفیسر شارب ردولوی نے بحیثیت صدر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر مجاور حسین ایک درویش صفت ادیب ہیں انھوں نے صرف تحقیق و تنقید کے میدان ہی میں گراں قدر خدمات انجام نہیں دیں بلکہ انھوں نے ہزار سے زیادہ رومانی اور تاریخی ناول بھی تصنیف کئے ہیں ان کی ذات اور صفات دونوں تحقیق کا موضوع ہیں۔جن پر کام ہونا چاہئے۔پروفسیر فضل امام کے بارے میںانھوں نے کہاکہ وہ شش لسانی دانشور ہیں ۔وہ ایک ایسے ایستاد ہیں جو اپنے علم و تجربات کو بانٹنا چاہتے ہیں ۔وہ ملازمت سے سبکدوش ہو کر خاموشی سے بیٹھ نہیں گئے بلکہ ان کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ وہ علم وادب کی آج بھی خدمت کر رہے ہیں۔اس سے پہلے تقریب گاہ میں پروگرام کا آغاز مہمانوں کوگلہائے محبت پیش کر کے کیا گیا۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے انجام دیا۔الہ باد یونیورسٹی سے خاص طور سے تشریف لائے پروفیسر علی احمد فاطمی نے پروفیسر فضل امام کے بارے میں ایک تفصیلی مقالہ پیش کیا جس مین انھوں نے الہ باد میں فضل امام کے گذارے شب و روز کو یاد کیا اور اپنا خراج تحسین پیش کیا۔ان کے مقالے کی خاص بات یہ رہی کہ جہاں ایک طرف پروفیسر فاطمی نے پروفیسر فضل امام کی شخصیت کے پہلووں کی تعریف کی وہیں لطیف پیرائے مین ان کی طرف تنقیدی اشارے بھی کئے اور ان کی ہمہ دانی کا اعتراف بھی کیا۔پروفیسر سید شفیق اشرفی نے پروفیسر مجاور حسین رضوی ایک اجمالی تعارف عنوان سے مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے پروفیسر مجاور حسین رضوی کے حالات زندگی اور ان کی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ پروفیسر مجاور حسین نے ایک ہزار ستر ناول مختلف ناموں سے لکھے ہیں جو اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔ پروفیسر مجاور حسین نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اردو رائٹر س فورم کا شکریہ بھی ادا کیا اوراپنی ناول نگاری کے بارے میں کہا کہ وہ ناول میں نے اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لئے پبلشر س کی فرمائش پر لکھے تھے۔انھوں نے موجودہ ادب کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فسانہ عجائب تو آج بھی یاد ہے لیکن قرۃ العین حیدر کے ناول کاایک جملہ بھی یاد نہیں ہے۔اس سے موجودہ ادب  کے بارے میں ان کے نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔پروفیسر فضل امام نے بھی اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج لوگوں میں پڑھنے لکھنے کی عادت نہیں رہ گئی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایوارڈ اور اعزاز معیار طے نہیں کرتے۔جنھیں سنسکرت نہیں آتی وہ سنسکرت کے اشلوک کا ترجمہ کر رہے ہیں اور جنھیں بنگالی نہیں آتی وہ بنگالی کا ترجمہ اردو میں کر رہے ہیں۔انجینئر در الحسن نے کہا کہ کسی بھی زبان کے ادب کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کی فلاح اور بہبود کو سامنے رکھے۔اگر کوئی ادیب ایسا نہیں کرتا تو وہ ادب کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ۔جن دانشوروں کا اعزاز آج کیا جا رہا ہے انھوں نے ساری زندگی ایسا ہی ادب تخلیق کیا ہے اور ایسے ہی ادب کی تخلیق پر زور بھی دیا ہے۔ آخر میںکنوینر جلسہ وقار رضوی نے کلمات تشکر ادا  کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر جاوید اختر،ڈاکٹر عبدالحق،ڈاکٹر اکمل ،ڈاکٹر سید مطلوب،ڈاکٹر ریشماں پروین۔ڈاکٹر نور فاطمہ،ڈاکٹر ہارون رشید،ڈاکٹر سبط حسن نقوی،ڈکٹر رضوان احمد،جمیل احمد،ایچ ایم یاسین،غزالہ انور،سلام صدیقی ،عائشہ صدیقی،شاہانہ سلمان عباسی،فرزانہ اعجاز،شکیل رضوی،موسی رضا،حسن کاظمی،ممتا زاحمد،سیف بابر،حمیرہ عالیہ،عارف نگرامی،ڈاکٹر طارق حسین خاں،یونیورسٹیز کے طلبہ اور شہر نگاران کے باذوق حضرات و خواتین کی ایک بڑی تعداداد موجود تھی۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular