اب بے قراری کی وجہ سمجھ سے باہر ہے

0
201
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی

شاید دنیا کا یہ اکیلا ایسا مسئلہ ہے جس پر ہر دن ایک نیا بیان آجاتا ہے اور ہر دن ایک نیا لیڈر اپنی تجویز بغل میں دبائے سامنے آجاتا ہے۔ یہ بات پہلی بار کب کہی گئی اور کس نے کہی اس کا ذکر تو کوئی کرتا نہیں لیکن آزادی کے بعد سب سے پہلے بابری مسجد میں ہی مورتیاں رکھ کر یہ کہا گیا کہ بابر کے زمانہ میں ان کے صوبیدار میرباقی نے رام مندر کو توڑکر یہ مسجد بنائی تھی۔ مورتیاں رکھنے اور انہیں وہاں سے ہٹانے، اس مسجد میںسرکاری تالا ڈالنے اور تالا کھولنے کا جو ڈرامہ بھی ہوا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجد میں اذان اور نماز اس دن سے بند ہوگئیں جس دن اس میں سرکاری تالا ڈالا گیا۔ اور 06 دسمبر 1992 ء میں مسجد ہی باقی نہیں رہی۔
یہ پورے 25 سال یہ ثابت کرنے میں خرچ ہوگئے کہ یہ مسجد تھی جسے عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یا اقتدار اور طاقت کی نشانی تھی؟ ہندوستان میں ایسی نہ جانے کتنی مسجدیں ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں مندر تھا اسے توڑکر مسجد بنائی گئی۔ یہ کسی نے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر مندر گرانا مقصد تھا تو اس کو گراکر مسجد بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آج جس مندر میں پوجا ہورہی ہے اسے اگر گرا دیا جائے اور مسجد بنا دی جائے تو وہ سب پوجا کرنے والے نماز پڑھنے لگیں گے؟ تو پھر ہر جگہ ایک ہی بات کیوں کہی گئی کہ مندر گرا دیا اور وہاں مسجد بنادی اور یہ کوئی نہیں بتاتا کہ وہاں مسلمان تھے یا نہیں تھے۔ اگر نہیں تھے تو مسجد کس کے لئے بنائی اور پھر وہ آباد کس نے کی؟ کیونکہ آبادی تو برسہابرس میں ہوتی ہے۔ اب کوئی مسئلہ باقی نہیں ہے اس لئے ہر طرف ایک ہی بات پر زور دیا جارہا ہے کہ ہندوئوں کو ہر طرف سے آنکھ بند کرکے دھرم کرم میں لگ جانا چاہئے۔
بابری مسجد کے بارے میں نہ جانے کتنی بار یہ کوشش کی جاچکی ہے کہ مسلمان اس کی ملکیت سے دستبردار ہوجائیں اور تسلیم کرلیں کہ وہاں رام مندر تھا۔ اور ہندوئوں کو رام مندر بنانے کی اجازت دے دیں۔ اجودھیا میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال سکیں۔ اس کے باوجود دبائو مسلمانوں پر ہے کہ وہ مسجد کی زمین مندر کو دے دیں۔ جب جب یہ بات سامنے آئی کہ دونوں فریق عدالت سے باہر سمجھوتہ کرلیں تو مسلمانوں کی طرف سے ایک ہی بات کہی گئی کہ جس زمین پر مسجد بن جاتی ہے اور وہ وقف ہو جاتی ہے تو مسلمانوں کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اس زمین کو مسجد کے علاوہ دوسرے کام میں لائیں یا کسی کو فروخت کردیں یا دان کردیں۔
جسٹس حیدر عباس رضا نے کئی مہینے پہلے جب شیعہ وقف بورڈ کے سربراہ وسیم رضوی نے بابری مسجد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ شیعہ مسجد ہے اور شیعہ وقف بورڈ تیار ہے کہ اسے رام مندر کے لئے دے دیا جائے تو کہا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں خود اُن کے قلم کا لکھا ہوا فیصلہ موجود ہے اور وہی سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد بن جانے کے بعد وہ صرف خانۂ خدا ہوجاتی ہے سنی یا شیعہ مسجد نہیں رہتی۔ ان صداقتوں کے باوجود پھر ہر مہینے ایک نئی آواز اٹھتی ہے کہ عدالت سے باہر فیصلہ کرلو۔ حیرت ہے کہ ایک شیعہ گروپ کے علاوہ کوئی مسلمان اس کے لئے تیار نہیں ہے کہ عدالت سے باہر مذاکرات سے فیصلہ کرلیا جائے کیونکہ پانچ دسمبر سے عدالت اس پر سنوائی شروع کرنے والی ہے۔ اور ہر ہندو کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی کھدائی میں جو برآمد ہوا ہے اس سے عدالت کو یقین ہوجائے گا کہ مسجد سے پہلے وہاں مندر تھا اس کے باوجود ہر ہندو لیڈر عدالت سے باہر کی بات کررہا ہے۔ پہلے سبرامنیم سوامی نے بیڑہ اٹھایا اور پھر وہ غائب ہوگئے تو اب اچانک ایک شری شری اس اعلان کے ساتھ میدان میں آئے کہ ان کی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک ممبر سے گفتگو ہوچکی ہے۔ اب وہ لکھنؤ اجودھیا میں مصروف ہیں اور ان سے باتیں کررہے ہیں جن کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ رہا بورڈ یا جمعیۃ علماء وہ ان سے ملنے پر بھی تیار نہیں تو انجام معلوم ہے۔
وشو ہندو پریشد نے بھی رام مندر کی تعمیر پر مصالحت کو بے معنیٰ قرار دیا ہے وی ایچ پی کے میڈیا انچارج نے وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ عدالت کو ثبوت چاہئے جو مندر کے حق میں اسے مل گئے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد میاں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ مصالحت کی بنیاد پر ہم بابری مسجد کسی کو نہیں دے سکتے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارا آئین پر پورا یقین ہے لہٰذا وہ جو بھی فیصلہ کرے گا ہم سرجھکاکر اسے تسلیم کرلیں گے۔
شہرت کی حد تک سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے میں صرف 20 دن باقی ہیں ان حالات میں اگر کوئی دہلی سے دوڑا ہوا لکھنؤ آتا ہے اور مذاکرات یا مصالحت کی بات کرتا ہے تو یہ بھی شبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے جج صاحبان کے فیصلہ کی سن گن مل گئی ہے اس لئے یہ بے قراری ہے۔ بات جب صرف 20 دن کی ہے تو اتنے دن تو مذاکرات اور مصالحت کی شرائط طے کرنے میں نکل جائیں گے۔ اور سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہندوئوں کی طرف سے وہ کون ہے جس پر ہر ہندو کو بھروسہ ہو اور مسلمانوں کی طرف سے وہ کون ہے جس پر سب کو بھروسہ ہو۔ صرف یہی فیصلہ 20 دن کیا 20 مہینے میں نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اب دونوں فریقوں کو صرف اور صرف عدالت کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے اور جو فیصلہ وہ کردے اسے قبول کرنا چاہئے۔ نہ جیتنے والے کو جشن منانا چاہئے اور نہ ہارنے والے کو غم دونوں فریقوں نے جب 25 برس صبر کرلیا تو 20 دن میں کیا بگڑ جائے گا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here