چلتی پھرتی لاش

0
149

ایچ۔ایم۔یٰسین

ریلوے اسٹیشن پر قلی مسافروں کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ یہ قلی ریلوے ملازم نہیںہوتے لیکن ان کی بھرتی بھی پرسنل انٹرویو کے ذریعہ ہوتی ہے۔ قلی بننے کے لئے کبھی کبھی رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے جو قلی ٹھیکیداروں، دلالوں اسٹیشن کے رشوتی اور کا ئیاں ملازم کی نظر کی جاتی ہے۔ اسکے بعد ہی ان کے بازو کا پیتل کا بِلاّ جو ان کا شناختی کارڈ ہوتا ہے وہ ملتا ہے۔ سرخ قمیض اسکو اپنے پاس سے بنانی پڑتی ہے۔ رام گڑھ اسٹیشن پر رام لعل جو ایک بڑا کائیاں شخص تھا اور گائوں میں جس کے دھوکہ دھڑی اور چار سو بیسی کے کئی لوگ شکار ہو چکے تھے۔ اس نے بہت سارے جوڑ جتن کر کے قلی گری کا بلّا حاصل کر لیا تھا اور اب باقاعدہ رام گڑھ اسٹیشن پر قلی کا کام کرنے لگا تھا۔
رام گڑھ ایک بڑا اسٹیشن تھا جہاں ہر ٹرین آکر رکتی تھی۔ یہ اسٹیم انجن کا زمانہ تھا اسلئے اس اسٹیشن پر ٹرین کے انجن وہاں بنے واٹر کولر پر پانی لیتے اور لائنوں کے بیچ بنے گہرے شیڈ میں فالتو راکھ اور کوئلہ جھاڑتے۔ ان کی یہ کارروائی کو ئلہ اور پانی کے مرکب سے اسٹیم بنانے میں مدد کرتی اور پوری ٹرین کو انجن کے ذریعہ چلانے کے قابل بناتی۔
اس اسٹیشن پرچھ پلیٹ فارم تھے جو سب چالو تھے اور پسنجروں کو دھوپ پانی سے بچانے کے لئے بہت اونچے شیڈ لگے ہوئے تھے۔ جن میں بیٹھنے کے لیے فرش پر بینچیں اور چھت پرپنکھے لگے ہوئے تھے ۔اَپ گاڑیاں طے شدہ طریقہ پر الگ الگ نمبر ایک اور دو پلیٹ فارم پر اور ڈائون گاڑیاں نمبر تین اور چار پلیٹ فارم پر آتیں جاتیں تھیں ۔نمبر پانچ اور چھ اسپیشل پلیٹ فارم امرجنسی اور مال گاڑیوں کے لیے استعمال ہوتے۔اس اسٹیشن پر قریب 20 قلیوں کو لائسنس ملا ہوا تھا جو ٹرین آنے پر دوڑ بھاگ کر اپنے اپنے مقدر کی روزی روٹی بٹورتے۔ ٹرین چلے جانے کے بعد اکثر قلی اسٹیشن ماسٹر صاحب کے بنگلے پر جو بہت بڑے رقبہ میں بنا ہوا تھا اور جہاں ہر طرح کے پھول پودے اور پھل دار درخت لگے ہوئے تھے کام کرتے۔ ان کی سینچائی ، گڑائی وغیرہ کا دھیان رکھنا ان کے ذمے تھا۔ چونکہ ایک کے بعد دوسری ٹرین کا وقفہ تقریباً ۴ گھنٹے ہوتا تھا ۔ اس لیے قلیوں کو اس بنگلے میں کام کرنے کا کافی وقت مل جاتا۔ اور دوسری ٹرین کے آنے کے وقت یہ لوگ پھر اسٹیشن پر اپنا اصل کام کرنے لیے پہنچ جاتے تھے۔ اور اپنی مزدوری پسنجرس سے انکا سامان اٹھاکر حاصل کر لیتے تھے۔
رام لعل کو قلی گری کرتے کئی سال بیت گئے تھے۔ ہر چند کہ اپنے کائیاں پن سے وہ قلیوں کا جمعدار بن گیا تھا لیکن پیسہ بٹورنے کی اسکی ہوس کم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ نئے قلی بھرتی کرانے کے لیے جوڑ توڑ کرتا اور کامیاب ہونے والے قلیوں سے اپنے حصے کی طے شدہ رشوت لے لیتا۔ اسکے علاوہ ان نئے قلیوں سے اس نے خفیہ طور پر ہر پھیرے کے مزید پیسے بھی طے کیئے ہوئے تھے جو لے لیتا اور وہ بے چارے قلی گیری نہ چلی جائے اس خوف سے کسی سے شکایت بھی نہ کرتے یہ سلسلہ چل رہا تھا لیکن رام لعل کو تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
ایک دن رام لعل کو سڑک کنارے ایک بوڑھا غریب سا فقیر مانگتے ہوئے نظر آگیا اور اسکے شاطر دماغ اور کائیاں پن نے فوراً ایک اسکیم اسکے دل میں ڈال دی۔ فقیر سے نہ معلوم اس نے کیا گفتگو کی اور اس سے کسی دن جلدی اسٹیشن پر ملنے کے لیے کہا۔
پلیٹ فارم اور قلیوں کی ذمہ داری اسٹیشن پر پلیٹ فارم انسپکٹر کی تھی۔ ان کی ڈیوٹی کوٹھی پر کام، تقرری، نوکری سے ہٹانا سب وہی دیکھتا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر سے تو بے چارے قلی کی ملاقات اسکی کوٹھی پر کام کرتے وقت بھی نہ ہو پاتی اور اسٹیشن پر تو ان کو ٹرین کی آمد پر اپنی مزدوری تلاش کرنے میں وقت لگانا ہوتا تھا۔ اس لیے وہ مکمل طور پر پلیٹ فارم انسپکٹر کے رحم و کرم پر ہوتے اور پلیٹ فارم، انسپکٹر رام لعل کے قبضے میں۔ اس نے جادو یہ کیا کہ پلیٹ فارم انسپکٹر کی بیگم کو اپنی چرب زبانی اور کائیاں پن کی اسکیموں سے ایسا شیشہ میں اتار ا کہ وہ اپنے انسپکٹر شوہر سے اسکی تعریف کے پل باندھتی رہتی اور بھلا بیوی کے حکم سے باہرصاحب کہاں جاتا ہے۔
رام لعل کائیاں پلیٹ فارم انسپکٹر کے گھر کے کام اور بیگم صاحبہ کی فرمائیش بہت تندہی سے پورا کرتا ۔ چنانچہ ایک دن اس نے ایک غریب دیہاتی کو پلیٹ فارم انسپکٹر سے ملوایا اور کہا۔
’’سرکار یہ ہمارے گائوں کا ایک غریب فقیر ہے‘‘
’’تو کیا قلی گیری کرنا چاہتا ہے۔‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’نہیں سرکار اسکے لیے تو بہت کمزور ہے بوجھ کہاں اٹھا پائے گا‘‘۔ کائیاں نے کہا
’’پھر؟‘‘ انسپکٹر کا سوال تھا۔
’’سرکار اسے کبھی کبھی لاوارث لاش پولیس والے انتم سنسکار کے لیے دے دیتے ہیں‘‘ کائیاں بولا ’’تو‘‘؟ انسپکٹر نے سوالیہ انداز میں کہا ۔
’’سرکار اگر آپ اجازت دیں تو ابکی بار جب اس کو لاش ملے تو اس لاش کو دو ایک دن پلیٹ فارم پر رکھ کر بھیک مانگ لیگا اور پھر اسکا انتم سنسکار کر دے گا۔ اسکے کچھ پیسے بن جائیں گے۔ کائیاں نے سمجھایا۔
انسپکٹر نے گومگو کی کیفیت میں ’’اچ۔۔۔چھا‘‘ کہا
کائیاں اچھا کو اجازت سمجھ کر بولا’’سرکار یہ آپ کو بہت دعائیں دے گا‘‘
انسپکٹر جو ابھی حیران تھا، نے ایک لمبی سی ’’ہو۔۔۔۔ں‘‘ بھری
بس اب کیا تھا۔ کائیاں نے فوراً بوڑھے سے مخاطب ہو کر کہا۔’’بھاگ بے ،جا لاش کا انتظام کر‘‘ اور دونوں وہاں سے فوراً کھسک گئے۔ ان کے نزدیک گویا یہ پلیٹ فارم انسپکٹر کی ’’پرمیشن ‘‘ تھی
تین چار دن بعد پلیٹ فارم چار، جو سب سے زیادہ چالو تھا۔ اس پر ایک بچھی ہوئی چادر پر ایک لاش کپڑے سے لپٹی پڑی تھی جس پر کچھ پیسے بکھرے پڑے تھے اور ساتھ ہی ایک ضعیف بوڑھا سر پکڑے بیٹھا تھا۔
مختلف ٹرینوں سے آنے والے یہ سمجھ کر کہ کوئی غریب مسافر راستہ میں مر گیا ہے۔ اس مردے کی آخری رسوم کے لیے پیسے پھینک کر چلے جاتے ۔ دس گیارہ بجے رات تک یہ سلسلہ چلا۔
دوسرے دن یہی لاش چل کر ایک اور پلیٹ فارم پر آگئی تھی اور اسی انداز سے پڑی تھی۔
رام لعل کا کائیاں پن کامیاب تھا آج چوتھا دن تھا اور یہ لاش ایک اور پلیٹ فارم پر اسی طرح کپڑ ے میں لپٹی موجود تھی۔ جہاں چند سکے چادر پر بکھرے پڑے تھے۔لاش سڑ چکی تھی اور آج بوڑھے کے چہرے پرخوشی کے بجائے ہلکی سی غم کی لکیرکھنچی ہوئی تھی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here