شام جب ڈھل رہی تھی۔

0
254

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

مسرورتمنا

 

 

نگار آپا نے فردوس کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھا آج وہ بہت ناراض تھیں ۔۔۔ اور یہ پہلی بار تھا انہیں غصہ بہت کم ہی اتار تھا ۔۔ شاھنواز سے بہتر کوی نہی ۔۔۔۔ تمہاری شادی اس سے ہو تو میری نظروں کے سامنے رہوگی اور وہاں خوش بھیرہوگی ممانی جان پلکوں پر بٹھا کر رکھینگی۔۔ امی کی بھی یہی خواہش تھی۔۔۔ نگار آپا نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر فردوس نے صاف کہدیا ۔۔ میری زندگی میں قاسم ۔۔۔ چپ کر لڑکی۔۔۔ اس سے تیرا نکاح نہی ہوگا ۔۔۔ تیرا دماغ خراب ہے کیا۔۔ تیری چھوٹی بہن کا رشتہ طے ہو ہے تیرا نہی۔۔۔ رعنا تجھ سے چھوٹی ہے اس گھر کی ہونے والی بڑی بہو اور ایک کو دوران کرسکتی ہوں دونوں کو نہی جان سولی پہ لٹکی ہے میری پال پوس کر جون کیا ہے کیا یہی رہ گئی۔۔۔میری حیثیت۔۔ نہی آپا فردوس نے گلے میں بانہیں ڈال دی۔۔۔۔ میری زندگی تو بس اب وہی ہے وہ مسکرای ۔ رعنا نے کہا پھوپھی۔۔ارہ ہیں میرے اور فواد۔۔کی منگنی کرنے۔۔ ہاں قاسم بھی ارہے ہیں ان سب کے ساتھ۔۔۔ فردوس کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا۔ پتہ نہی۔۔کیوں پھوپھی کو فردوس پسند نہ تھی خوبصورت اچھی اور نیک انکی قاسم کی پسند۔۔ مگر انکی مرضی نہی تھی دیکھو نگار فواد کو بھابھی جان نے پسند کیا تھا رعنا کو میں نے۔بھئی یہ محبت کے چونچلے میری سمجھ سے تو باہر ہے۔۔۔ اخراج جوڑ بھی تو ہو۔۔ چار سال بڑی ہے نا۔۔۔ نگار آپا گھبرایں نہی پھوپھی۔ رعنا سے دوسال بڑی ہے۔ ارے قاسم بھی تو چھوٹا ہے نا دوسال ہی سہی بڑی تو بڑی ہوئی نہ ۔جانے بھی دیں باجی ممانی جان نے کہا مجھے فردوس تو اپنے بچے کے لئے بے حد پسند ہے مگر اسے رعنا سے پیار ہے ۔۔ بن۔ماں کی بچی ہے اپنے ہیں سب ۔۔۔ شاھنواز کے لئے میں راشدہ کو چن لونگی ۔۔رعنا سے ایک سال چھوٹی ہے۔۔ اپنے گھر کے بچوں کو ہم نہی سمیٹےنگے تو باہر والے کیا کہینگے آج تک خاندان سے باہر لڑکی گئے ہے ہماری جانے دیں ناراضگی چھوڑیں۔۔ نگار بھی دو جان سے ہے ٹینشن لےگی تو پریشانی بڑھ جاےگی۔۔ ارے ہاں بھابھی۔۔۔اس نگار کو کتنے بچے ہوتے جارہے۔۔۔ اللہ کی دین ہے دولت بھی اور اولاد بھی۔۔۔بہت سنبھالا بھای بہنوں۔ قاسم بہت مشکل سے ملے تھے۔۔ فردوس جان چھڑک رہ تھی انڈیا سے دوران بھیج کر نگار آپا کا دل ہر پل دہلتا رہتا ۔۔۔۔ پھوپھی نے فردوس کے ساتھ قاسم کو بھی نظر انداز کردیا رعنا کی بہت اہمیت تھی ۔۔۔ رعنا کوشش کرتی کے فردوس کو بھی وہ حق ملے ۔۔مگر پھوپھی کہتیں تم۔۔۔۔گھر کی بڑی بہو ہو۔۔ قاسم کی نوکری چلی گئی فواد اسپین میں ہوٹل مینجمینٹ۔ کی پوسٹ پر تھے۔۔ قاسم کی نوکری کیا گئی پھوپھی نے اسے الگ کردیا ۔۔ فردوس گھر کے سارے کام پہلے کی طرح کرتی اوپرماحول سے دو بچے کی ذمہ داری۔۔ رعنا چھپا کر راشن دے جاتی ۔۔ قاسم نے کہیں نوکری کر لی تھی ایک ہوٕ گھر میں دو بہنیں سکھ اور دکھ بنکر جی رہی تھیں۔۔۔ ایکدن قاسم نہی ائی ادھی رات کو لوگ اسے گھر پہونچا گئی۔۔۔مفلوج جسم لئے۔ وہ بستر پر پڑے رہتے آنکھوں سے انسو جاری رہتے۔۔ فردوس نے بھاگ دوڑ کر نرس کی نوکری کر لی اب وہ شوہر بچے گھر سب سنبھال رہی تھی۔تین سال گزر گئے قاسم بستر سے ہلے تک نہی اور ایکدن فردوس کو روتا چھوڑ کر دنیا چھوڑ گئے ہائے قاسم یہ تم نے کیا کیا۔۔میں نے اپنی آپا اپنا وطن سب کچھ تمہارے لئے چھوڑ دیا اور تم ۔۔۔ ہمیں چھوڑ گئے۔۔ یہ میری بدعا تھی پھپھی نے تلخی سے کہا ۔۔۔ ایک ماں اپنے بچے کو دعا دےتی ہے بدعا نہی ۔۔ ہاں پھوپھی نے کہا تجھے بدعا دےے ہوے میں بھول گئی تھی کے سہنا تو میرے بچے کو پڑا وہ مرگیا توٗندہ ۔۔ کاش پھوپھی اسکی جگہ میں مرجاتی خبردار آج کے بعد مجھے کچھ بھی نا کہنا۔۔ میں تیری منحوس شکل نہی دیکھنا۔۔ چاہتی ۔۔ اور گھر کے بیچ دیوار کھڑی ہوگئی۔۔ جب شام ڈھلتی ہے اندھیروں کو جگہ مل جاتی ہے ایک ہی گھر میں چھوٹی بہن کی شام روشن تھی بڑی اندھیرے۔۔میں جب شام ڈھلتی۔۔۔ اسکے اندر کا اندھیرا باہر پھیل جاتا۔ وہ قاسم قاسم پکارتی روتی رہتی مگر تنہای کا زہر اسے جکڑ لیتا اسکی۔۔۔آواز حلق۔۔۔۔۔۔میں دم توڑجاتی وہ قاسم قاسم پکارتی جب شام ڈھلتی۔۔ضضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here