آج بھی انسانی قدریں باقی ہیں

0
160

سید وقار مہدی رضوی

 

ایک شخص بے تحاشہ بھاگا چلا جارہا تھا کہ حضور کے کتے کا انتقال ہوگیا ہے اور اسے تعزیت پیش کرنے میں سبقت حاصل کرنی ہے کسی نے راستے میں اسے بتایا کہ کتے کا نہیں خود حضور ہی نہیں رہے، جیسے ہی اس نے یہ سنا تو وہ اُسی تیزی سے واپس لوٹ پڑا، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب حضور ہی نہیں رہے تو میں دکھائوں گا کسے کہ میں بھی ان کے غم میں شریک ہوں۔ بالکل کچھ ایسا ہی منظر عابد سہیل، ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، ڈاکٹر نیر مسعود اور اب انور جلال پوری کے تعزیتی جلسے میں تھا جس نے یہ ثابت کردیا کہ اگر وارثانِ صاحب ِ اقتدار ہیں تو تعزیت دینے والوں کا ایک ہجوم ہوگا، ورنہ لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تعزیتی جلسے کی خبر تو اخباروں میں چھپوا لیں گے لیکن تعزیتی جلسے میں شریک ہونے کی زحمت گوارہ نہ کریں گے۔ لیکن اس منافقت کے دَور میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جن کے دل ابھی منافقت سے پاک ہیں، جن میں انسانی اقدار ابھی باقی ہیں، جو واقعی اُردو کے عاشق ہیں اور اُن لوگوں کی طرح احسان فراموش بھی نہیں جنہوں نے ان جیسی تمام محترم ہستیوں کو اپنے ڈائس کی زینت بناکر این سی پی یو ایل، اُردو اکادمی جیسے اداروں سے خوب پیسے کمائے، انہوں نے بھی زحمت نہیں کی کہ اگر وہ خود ان کے شایانِ شان تعزیتی جلسہ نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم منعقد تعزیتی جلسے کا ہی حصہ بن جائیں۔
ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نے اپنے آخری وقت میں اپنی علالت کے دَور میں بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے جلسے میں جانے سے کبھی گریز نہیں کیا لیکن اُن لوگوں نے اُن کے جانے کے بعد اُنہیں کیسے یاد کیا سب خوب جانتے ہیں۔ اس بے مروّتی اور منافقت کے شبہات تو عابد سہیل، ملک زادہ منظور احمد اور نیر مسعود کے تعزیتی جلسے میں ہی اُجاگر ہوگئے تھے لیکن تصدیق انور جلال پوری کے تعزیتی جلسے میں ہوئی جب گورنر رام نائک، ڈاکٹر دنیش شرما، ریتا بہوگنا جوشی کے ساتھ مجمع بھی اُٹھا، باہر گیلری میں کافی دیر تک اپنی قربتیں اور وفاداریاں ثابت کرتا رہا اور پھر اُن ہی کے ساتھ چل بسا، ایسا لگا کہ یہ سارے کے سارے لوگ انور جلال پوری کے تعزیتی جلسے میں نہیں بلکہ ان لوگوں سے صرف ملنے آئے تھے اس لئے یہ چلے تو ان کی موجودگی کا بھی کوئی مقصد نہیں رہا اور وہ بھی ان ہی کے ساتھ چل دیئے۔ اچھا ہی ہوا ورنہ منافقوں کی بڑی جماعت میں اُن لوگوں کی نشان دہی ہرگز نہ ہوپاتی جو ہر طریقے کی منافقت سے پاک ہیں اور ان ہی کے دم سے آج بھی انسانی اقداریں باقی ہیں۔
بھلا ہو این سی پی یو ایل، اردو اکادمی جیسے اداروں کا جن سے پیسے کمانے کیلئے غالبؔ اور اقبالؔ جیسے لوگوں کو یاد کرلیا جاتا ہے ورنہ ان سب کا تو کوئی نام لیوا بھی نہ ہوتا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here