دہلی میں رام بھکتوں کی مہابھارت کے مسلمان تماشائی – Muslim spectators of the Mahabharata of Ram devotees in Delhi

0
96

Muslim spectators of the Mahabharata of Ram devotees in Delhi

ڈاکٹر سلیم خان
یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ 2013 میں منموہن سرکار نے بھوک مکت بھارت بنانے کی غرض سے فوڈ سیکیورٹی ایکٹ بنایا لیکن اس پر بدعنوانی سنگین الزامات لگنے لگے۔ اس دور میں ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ کا انقلابی نعرہ بلند ہوا ۔ عوام نے خوش ہوکر اقتدار کی کنجی نئے چوکیدار کے حوالے کردی ۔ اچھے دن لانے والوں کی سرکار نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کے اصول پر اس طرح عمل کیا کہ نہ تو خود غریب عوام تک راشن پہنچانے کو یقینی بنایا اور دیگر صوبائی حکومتوں کو اس پر اکسایا بلکہ ان کی راہوں میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنے لگے ۔ اس کی تازہ مثال مرکزی حکومت کے ذریعہ دہلی سرکار کی گھر گھر راشن پہنچانے کی اسکیم پر روک لگا نا ہے ۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ بی جے پی کے جو وزرائے اعلیٰ اپنے صوبے کے غریبوں کا خیال نہیں رکھتے ، ان کے کان ایٹھنے کے بجائے مرکزی حکومت اس کیجریوال کو پریشان کررہی ہے جو عوام کی بھوک مٹانا چاہتے ہیں۔ انہیں مرکز سے تعاون کے بجائے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
اروند کیجریوال کے پاس ایسے میں یہ سنہری موقع تھا کہ وہ کچھ کیے بغیر لوگوں کے سامنے جاکر مرکزی حکومت کی شکایت لگاتے اور یہ کہتے کہ میں تو تمہارا بھلا کرنا چاہتا تھا مگر مرکز نے روک دیا اس لیے اس کو سزا دو یعنی کمل پر جھاڑو پھیر دو۔ اس کے بجائے کیجریوال نے دانشمندی سے کام لیتے سپر ڈال دی ۔ انہوں نے مرکزی حکومت کی جانب سے گھر گھر راشن منصوبے پر روک لگائے جانے کے بعد فیصلہ کیا کہ اب بغیر کسی نام کے عوام کو راشن پہنچایا جائے گا۔ عوام کو کام سے مطلب ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کا کام کون کررہا ہے؟ اس لیے کیجریوال نے اعلان کردیا کہ انیںک مرکزی حکومت کی تمام شرائط منظور ہیں۔وزیر اعلیٰ کیجریوال نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ 20 برس پرانا خواب تھا کہ غریبوں کو بہ آسانی صاف ستھرا راشن فراہم ہو ،اس لیے اب وہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جارہا ہے ۔
کیجریوال کے مطابق عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل راشن کی چوری ہوتی تھی۔ راشن مافیا پوری طرح حاوی تھا۔ مخالفت کرنے پر راشن مافیا حملہ کردیا کرتا تھا، اس وقت انہوں نے یہ خواب دیکھا تھالیکن عآپ کی حکومت کے قائم ہوجانے کے بعد اس پر عمل در آمد کے لیے منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے چار سال پہلے جب اس منصوبہ پر کام شروع کیا توطاقتورراشن مافیا کی جانب سے اس انقلابی منصوبے میں کافی مشکلات کھڑی کی گئیں ۔ ان سب پر قابو پانے کے مرکز کے مہا مافیا نے ان کی راہ مسدود کرنے کوشش کی لیکن ان کا مقصد ایمانداری سے عوام تک راشن پہنچانا ہے اور وہ اس کام کو کریڈٹ لینے کے لئے نہیں کررہے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے انکار سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہےمگر 25 مارچ سے یہ اسکیم بغیر کسی نام سے لاگو ہوگی۔ اس طرح اپنی حکمت سے اروند کیجریوال نے مرکزکی رعونت کو زیر کردیا۔
دہلی میں رام بھکتوں کے درمیان جاری اس مہابھارت کا خمیازہ غریب عوام کو چکانا پڑ رہا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت کے ٹکراو کی قیمت ہمیشہ عوام چکاتے ہیں اس لیے وہی دونوں کو منتخب کرتے ہیں ۔ اب دہلی والوں کو دیکھیں کہ پارلیمانی انتخاب میں وہ سب کمل دھاری ہوجاتے ہیں اور ریاستی انتخاب میں جھاڑو تھام لیتے ہیں ۔ اس دورنگی کی سزا اگرانہیں نہیں تو کس کو ملے گی؟ ایسے میں اگر مرکزی حکومت یہ قانون بنادیتی ہے کہ دہلی حکومت کا مطلب لیفٹیننٹ گورنر ہے تو اس میں کون قصور وار ہے؟ اس آئینی ترمیم کے خلاف ایوان بالا میں عام آدمی پارٹی کے سشیل گپتا ، سنجے سنگھ اور این ڈی گپتا نےپارلیمان کے احاطے میں گاندھی جی کے مجسمے کے سامنے دھرنا دیا ۔ ان کے مطابق یہ غیر آئینی قانون ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے 4 جولائی ، 2018 کے فیصلے میں لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت کے روزمرہ کے کاموں میں مداخلت سے روک دیا تھا ۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی مدد توکرسکتے ہیں اور وزراء کونسل کے مشیر کی حیثیت سے بھی اپنا کردارنبھاسکتے ہیں مگر وہ حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
وزیراعلیٰ کیجریوال کا بھی دعویٰ ہے کہ اس قانون کی آڑ میں بی جے پی پسِ پردہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہےجبکہ یہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی نفی کرتا ہے۔ ویسے یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ 4 جولائی 2018 کو 5 رکنی آئینی بنچ نے تشریح کی تھی کہ قانون بنانا دہلی حکومت کا اختیار ہے۔ اس وقت یہ بات تسلیم کی گئی تھی کہ اصلی طاقت کابینہ کے پاس ہے اور منتخب حکومت ہی دہلی کو چلائے گی ۔ نظم و نسق ، پولس اور زمین علاوہ دیگر امور میں ایل جی کابینی مشورے کے مطابق کام کریں گے ۔ اس کے باوجود14 فروری 2019 کو دہلی میں اختیارات کے تقسیم کو لے کر سپریم کورٹ کے دو ججوں میں اختلاف رائے ہوگیا اور اس معاملے کو سہ رکنی بنچ کے حوالے کرنا پڑا۔ اس وقت جسٹس سیکری کا موقف تھا کہ سکریٹری سطح کے افسران ایل جی اور دیگر کا تقرر دہلی حکومت و ایل جی کے اتفاق رائے سے ہو۔ اختلافات کی صورت میں صدر جمہوریہ سےرجوع کیا جائے ظاہر ہے صدر مملکت مرکزی حکومت سے مشورے کیے بغیر کوئی فیصلہ تو کریں گے نہیں اس لئے وہ فیصلہ بلاواسطہ مرکز کے حق میں تھا۔ انسدادِ رشوت (اے سی بی) کے معاملہ میں جسٹس سیکری نے کیجریوال کو مرکز کے ملازمین پر کارروائی کرنے سے منع کردیا تھا۔
جسٹس سیکری نے بے ضرر معاملات جیسے بجلی بورڈ کے سربراہ کی تقرری کا اختیار صوبائی حکومت کو دیا مگر وہاں بھی ایل جی کی رضامندی کو لازمی قرار دے دیا اور تنازع چکانے کی خاطر صدر جمہوریہ کے پاس جانے کی ہدایت کردی ۔ اس کے برخلاف جسٹس بھوشن نے اختلاف کرتے ہوئے اسے آئینی بنچ کے پاس بھیجنے کی سفارش تو کی مگر سروسز پر دہلی حکومت کے اختیار ات کی نفی کردی اور دہلی اسمبلی کو اس بابت قانون بنا نے سے روک دیا ۔ اس طرح عدالت تو پہلے ہی کیجریوال کے پر کتر چکی ہے۔ ان فیصلوں کے باوجود دہلی فسادات کے معاملے میں ایل جی اور مرکزی حکومت نے صوبائی حکومت کے مقرر کردہ خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز کے پینل کی پر دباؤ ڈالا، ظاہرکپل شرما جیسےلوگوں کو بچانے کے لیے یہ ضروری بھی تھا ۔ اس لیے کہ اگر سرکاری وکیل ہی ملزم کا حامی ہوجائے تو اس کا بال بیکا نہیں ہوسکتا۔ گجرات اور دہلی دونوں جگہ اسی طرح فسادیوں کو بچایا گیا۔
بی جے پی کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہ اول تو مسلمانوں کی دشمن ہے نیز سیکولر پارٹیوں کے خلاف ہے لیکن دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال تو اپنے آپ کو رام کے ساتھ ساتھ ہنومان کا بھکت کہتے نہیں تھکتے ۔ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ ان کی حکومت نے پچھلے ۶ سالوں میں دہلی کے اندر’رام راجیہ’لانے کی کوشش کی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ نے اعلان کیاہے کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے بعد ان کی حکومت ضعیفوں کو دہلی سے ایودھیا مفت لے جائے گی۔ان کے مطابق اگر ہم رام سے متاثر ہوکر ان کے ‘رام راجیہ’ کے تصور کے راستے پر بامقصد کوشش کر سکتے ہیں تو ہماری زندگی کامیاب ہوگی۔رام راجیہ کایہی نعرہ یوگی بھی لگاتے ہیں۔کورونا کے زمانے میں تبلیغی جماعت کوبدنامی کرنے کی خاطر کجریوال یوگی سے دو قدم آگے نکل گئے تھے۔ دہلی فساد کے وقت کجریوال کی پراسرارخاموشی بھی تشویشناک تھی ۔نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے دیش بھکتی بجٹ کی وضاحت میں کہا کہ دہلی کی ترقی دیش بھکتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ سسودیہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے دل میں رام اور بغل میں آئین ہے اور آئین کے ساتھ ہم دہلی میں رام راج لائیں گے۔ ایجوکیشن بورڈ کا اولین ہدف اسکولوں میں کٹر دیش بھگت طلبہ کی فوج تیار کرنا بتایا گیا۔
دہلی کے مسلمان رائے دہندگان جھاڑو والے رام بھکتوں کے ساتھ کمل دھاری رام بھکتوں کی اس مہابھارت کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں ۔ اگلے سال کا سیمی فائنل کہلانے والے حالیہ ایم سی ڈی کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں نے اپنے من کی بات ظاہر بھی کر دی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں ہی مسلمانوں پر انحصار کرتی ہیں ۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات میں صرف ہندووں کی بدولت عام آدمی پارٹی کو 28 اور مسلمانوں کے ووٹ سے کانگریس کو 8 سیٹیں ملی تھیں، لیکن سال 2015 میں جب مسلمان عام آدمی پارٹی کی طرف جھکے تو اس کو 67 سیٹیں ملی گئیں اور وہ مسلمانوں سے بے فکر ہوگئی۔ سی اے اے مظاہروں سے دوری، فسادات میں خاموشی اور تبلیغی جماعت کے تئیں سردمہری نے مسلمانوں کو ناراض کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں شالیمار کی سیٹ اس نے بی جے پی سے چھین کر کمل کا صفایہ کر دیا وہیں چوہان بانگڑ کی اپنی نشست کانگریس کے ہاتھ گنوابیٹھی ۔
28 فروری کو ہونے والے میونسپل کارپوریشن کے پانچ ضمنی انتخابات میں اعدادو شمار دہلی والوں کے موڈ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ترلوکپوری سے عآپ کے امیدوار وجے کمار 4986 ووٹوں کے فرق سے بی جے پی کو ہرایا ۔ روہنی سی بلاک نشست سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار رام چندر نے 2985 ووٹوں سے بی جے پی پر کامیابی حاصل کی۔ کلیان پوری میں عآپ کے امیدوار دھریندر کمار نے 7043 ووٹوں سے بی جے پی امیدوار کو دھول چٹائی ۔ یہ تینوں نشستیں پہلے بھی عآپ کے پاس تھیں مگر اس کی امیدوار سنیتا مشرا نےبی جے پی سے شالیمار باغ کی سیٹ 2705 ووٹ کے فرق سے چھین لی اس کے برعکس فساد زدہ مشرقی دہلی کی چوہان بانگر سیٹ سے کانگریس کے امیدوار زبیر احمد نے 10،642 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ ایک طرف تو کامیابی کا فرق دیکھیں اور اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں عآپ کو اپنی سیٹ گنوانی پڑی ۔ اس میں کیجریوال کو اشارہ ہے کہ مسلمان مجبور محض نہیں ہیں ۔ وہ اپنی رام بھکتی سے ہندووں کو تو بڑے پیمانے پر ہمنوا نہیں بنا سکتے مگر مسلمانوں کا ساتھ ضرور گنوا سکتے ہیں اور یہ جوا ان کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ دہلی کے ہندو کا دھرم سنکٹ میں اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان دونوں میں رام کون ہے؟ اور راون کون ہے؟؟ جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے ان کے لیے دونوں برابر ہیں ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here