مشاعرے کی کامیاب ترین شاعرہ :نسیم نکہت

0
434

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


 

مضمون نگار: جبیں نازاں

نسیم نکہت کی پیدائش 10/اپریل1958ء اترپردیش کے شہر بارہ بنکی میں ہوئی ، ڈیڑھ سال کی تھیں کہ پھوپھی شمیم آرہ نے گود لے لیا ۔ان کی پرورش لکھنؤ میں ہونے لگی ،شمیم آرہ صاحبہ شعرو شاعری کا ذوق رکھتی تھیں – انھیں ہزاروں اشعار ازبر تھے- وہ گھر پردے کے پیچھے بیت بازی میں شرکت کیا کرتیں۔۔شمیم آرہ کے اس ادبی ذوق سے نسیم‌ نکہت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔شعر وشاعری میں دلچسپی لینے لگیں –

ان دنوں لکھنو کے امام باڑے میں ڈھائی ماہ تک نوحہ پڑھنے کا رواج تھا نسیم نکہت اپنی خالہ / پھوپھی کے ہمراہ امام باڑے پہ جایا کرتیں اور نوحہ خوانی میں شامل ہوا کرتیں- ایک بار وہاں نسیم نکہت کو ترنم میں پڑھتے سن کرمشہور شاعر *ماہرلکھنوی* نے کہا کہ آپ بہت اچھا کہتی ہیں اورماشاء اللہ ترنم بھی کمال ہے تو کیوں نہیں؟ آپ نے مشاعرے میں پڑھتی ہیں؟ یہیں سے شاعری کا سلسلہ شروع ہوا –

یہ بھی پڑھیں

اردو نا ول کے آغا ز میں دبستان عظیم آبا د کا حصہ ایک عظیم تحقیقی کارمامہ

ڈاکٹر نسیم نکہت کی شادی پندرہ سال کی عمر میں کردی گئی-ان کے خسر محترم *گوہر لکھنوی* اس وقت کے معروف شاعر تھے – انھیں سسرال میں شاعری کرنے کی مکمل اجازت تھی- بلکہ یوں کہوں کہ شوہر اور سسر نے نسیم نکہت کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ۔بلکہ انھیں شاعرہ بنانے میں ہر ممکن تعاون کیا ۔

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے اردو اور اردو شاعری میں واقعہ کربلا کے موضوع پر 1993ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اس دوران میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشاعرے میں اپنی پہچان بنا چکی تھیں –

ان کی تصانیف کے نام ہیں
دھواں دھواں
خواب دیکھنے والوں
مرا انتظار کرنا
بھیگی آنکھیں(دیوناگری)
پھولوں کا بوجھ( دیوناگری )
اردو شاعری میں واقعہ کربلا( تحقیقی مقالہ)

مشاعرے دیدہ و شنیدہ( مقالہ)مولانا ازاد سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں ان کی شاعری پر ایم فل ہوچکی ہے –
چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں!

بیٹے آوارہ گردی میں رہتے ہیں مشغول مگر
نالائق بیٹوں کی خاطر مائیں جاگا کرتی ہیں

میں نسیم ماں کی دعاؤں سے رہی رب کی حفظ و امان میں
ہوئیں سہل کتنی ہی مشکلیں کئی حادثات بھی ٹل گئے

بچھڑے ہوئے اک مدت گذری سب کو ہے معلوم مگر
مجھ میں تجھ کو ڈھونڈ رہی ہے دنیا ہے دیوانی کیا

اس سے ملنے میں رسوائیاں اور بچھڑنے میں تنہائیاں
اس محلے میں اے زندگی گھر بنانا غلط ہو گیا

نہ وہ ہم خیال میرانہ وہ ہم مزاج میرا
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی

آخر مری دعا سے اثر کیوں چلا گیا
میری بھی سن لے خوشیوں کا تحفہ مجھے بھی دے

اپنے چہرے کو بدلنا تو بہت مشکل ہے
دل بہل جائے گا آئینہ بدل کر دیکھو

بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے
ہم لوگ دکھاوے کی محبت نہیں کرتے

ملنا ہے تو آ جیت لے میدان میں ہم کو
ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے

طوفان سے لڑنے کا سلیقہ ہے ضروری
ہم ڈوبنے والوں کی حمایت نہیں کرتے

جب اترے چاند آنگن میں تو راتیں بات کرتی ہیں
وہ چہرہ خوب صورت ہے وہ آنکھیں بات کرتی ہیں

سفر کا حوصلہ کافی ہے منزل تک پہنچنے کو
مسافر جب اکیلا ہو تو راہیں بات کرتی ہیں

شجر جب مضمحل ہوں پھول ہوں شاخوں پہ افسردہ
اداس آنگن میں دیواروں سے شامیں بات کرتی ہیں

خیالوں کی بلندی ذات کی کھائی سے بہتر ہے
سمندر تیرا ساحل تیری گہرائی سے بہتر ہے

یہ میلا پیرہن کردار کی کائی سے بہتر ہے
بھلائی کے لئے اک جھوٹ سچائی سے بہتر ہے

مرے منصف سزا دے یا مجھے انصاف جلدی دے
ترا ہر فیصلہ برسوں میں سنوائی سے بہتر ہے

ڈاکٹر نسیم نکہت نے تقریباً تین دہائیوں سے زیادہ اردو مشاعرہ کی نمائندگی کرتی رہیں – اور ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہیں ۔۔یہ سرگرمیاں ہی ہمیں باور کراتی ہے کہ یہ متشاعروں سے مختلف ہیں ۔۔جن کا جلوہ صرف مشاعروں میں ہی دکھائی دیتا ہے

ڈاکٹر نسیم نکہت کو ملنے والے انعامات کی فہرست طویل ہے، نوائے میر ایوارڈ (لکھنؤ)، یاد فراق ایوارڈ، شہر ادب سمان (غازی آباد)، ساہتیہ جواہر ایوارڈ (لکھنؤ)، پروین شاکر ایوارڈ (دہلی) اور سفر کمال (کراچی) )۔ ڈاکٹرنسیم نکہت طویل عرصے تک راشٹریہ سہارا (اردو) کی سب ایڈیٹر رہ چکیں تھیں۔

ان کی وفات کے موقع پر *معروف شاعر شکیل اعظمی*” نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ ڈاکٹر نسیم نکہت بھارت کی ان معدودے چند شاعرات میں ایک تھیں جو پڑھتی بھی تھیں اور لکھتی بھی تھیں ۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ ادب کے سفر اور مشاعروں پر گزارا۔ انھوں نے ترقی پسندوں کا زمانہ بھی دیکھا تھا، جدیدیت کا پس منظر بھی اور مابعد جدیدیت کو بھی قبول کیا تھا۔ وہ مشاعروں کی سنجیدہ اور کامیاب شاعرہ کے طور پر جانی جاتی تھیں لیکن ادب سے بھی سروکار رکھتی تھیں۔”

*موت* یوں آتی ہے جیسے آدمی کچھ بھی نہیں
زندگی سب کچھ ہے لیکن زندگی کچھ بھی نہیں

[email protected]
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here