مسلمانوں کا ماضی میں علمی عروج

0
991

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: حکیم سراج الدین ہاشمی ایڈوکیٹ

ماضی میں علم کے لحاظ سے عالمی سطح پر مسلمانوں کی اپنی ایک خاص پہچان اور شہرت تھی۔ علم سے مسلمانوں کو عشق تھا اس لیے انھوںنے علم کی خاطر وہ مراحل طے کئے کہ آج ان مراحل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ابن رشد اور ابن خلدون اپنے وقت کے وہ عالم تھے کہ ان کا کسی سے مقابلہ کرنا تو درکنار ان کی خاک کو بھی آج تک دنیا میں کوئی نہیں پہنچ سکا۔ اسلامی تعلیم کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ ماضی میں مسلمانوں میں کیسے کیسے بڑے بڑے عالم و فاضل تھے جنھوںنے اپنے علم سے دنیا کو فیضیاب کیا۔ ماضی میں بے شمار فلسفی اور ماہر طب مسلمان ہی تھے۔ مسلمانوں نے علوم و فنون میں وہ مقامات حاصل کئے کہ آج لوگ تصور بھی نہیں کرپاتے۔ دنیا کے علماء اس حقیقت کو عیاں کر چکے ہیں کہ اگر مسلمان ماضی میں اتنا علم حاصل نہ کرتے اور کتابوں کی صورت میں جو مسلمانوں سے علم حاصل ہوا اور یورپ نے ان کی علمی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا تو یورپ علم سے محروم ہی نظر آتا۔ اس پر طرہ یہ رہا کہ جہاں یورپ مسلمانوں کی علمی کتابوں کے ترجمے کررہا تھا، وہاں اس کا یہ سازشی عمل کارفرما رہا کہ مسلمانوں نے جو کتابیں لکھیں ان پر یورپی مترجم کا نام لکھ دیا جاتا تھا، اس طرح کتاب کا جو مترجم تھا کتاب کا اصل مصنف سمجھا جائے گا اور مسلمان آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگے اور ایک وقت ایسا آیا کہ یورپی علم میں سب سے آگے نکل گئے۔ اگر مسلمان علم کا خزانہ نہ رکھتے تو آج دنیا میں علم اس طرح نظر نہیں آتا جس طرح آج صرف یورپ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں نظر آرہا ہے۔ یعنی علم کی دین اگر ہیں تو صرف مسلمان ہیں۔ ان بے شمار عالموں میں آج بھی ابونقرہ فارابی خراسانی، ابوبکر محمدابن ذکریا، بوعلی سینا، ابن رشد، ابن خلدون، ابو عبداﷲ بن یوسف، نصرالدین طوسی اور ابو جعفر موسیٰ یہ وہ عالم ہیں جنھوںنے بے شمار کتابیں لکھیں اور اس وقت کے عوام کو اپنے علم سے فیضیاب کیا۔ ان علوم میں طب، فلسفہ، تاریخ، منطق، نفسیات، ریاضی، اجرام فلکی ، علم نجوم، جغرافیہ، ادب اور سیاست شامل تھے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو سرجری میںزبردست مہارت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ ابن رشد وہ عالم تھے جنھوںنے مختلف علوم پر بے شمار کتابیں لکھیں جس نے دنیا کو علم سے روشنا کرایا۔ وہ ان کا ہی دم تھا، ان کے بارے میں مختصر طور پر لکھنا بھی ضروری ہے۔ ابن رشدم ۱۴؍اپریل ۱۱۲۶ء میں اسپین کے شہر قرطبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت انتہائی پُرکشش تھی لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے تھے۔ انھوںنے دینیات ، علم فلکیات، فلسفہ، علم الحساب، طب، منطق اور قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ابن رشد نے مختلف علوم پر بے شمار کتابیں لکھی تھیں۔ ان میں قواعد زبان عربی، طب، علم فلکیات، منطق اور قانون خاص ہیں۔ وہ صرف فلسفہ سے ہی دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا رجحان دیگر علوم کی جانب بھی تھا جیسا کہ ان کی لکھی ہوئی کتابوںسے عیاں ہے۔ وہ قاضی القضاۃ تھے۔ ان کے والد اور دادا بھی قرطبہ میں قاضی رہ چکے تھے۔ ابن رشد نے اپنی زندگی میں جو کتابیں لکھیں وہ مختلف علوم پر تھیں اور مطالعے کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوںنے صرف دو راتوں کے علاوہ کبھی مطالعہ نہیں چھاڑا۔ ابن رشد کے فلسفے کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ انسان کا ذہن خاص ایک طرح کی صلاجیت ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کرتا ہے اور پھر اس کو علمی صورت دیتا ہے یعنی انسان از خود یا پیدائشی ذہین نہیں ہوتا۔ جمال الدین العلوی نے ابن رشد کی ایک سو آٹھ (۱۰۸) تصانیف شمار کی ہیں۔ان کی ان تصانیف میں خاص بات یہ ہے کہ انھوںنے ارسطو کے ورثے کی شرح لکھی ہے۔ ارسطو پر ابن رشد نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ ان کی مشہور اور اعلیٰ تصانیف (۱) الکلیات ۱۱۶۲ء: یہ کتاب اصول طب پر ہے، (۲) تلخیص الجہموریہ ۱۱۷۷: یہ جمہوریہ افلاطون کا خلاصہ ہے۔ (۳) شرح البرہان ۱۱۸۳ء: یہ ارسطور پر ایک بڑی شرح ہے۔ (۴) شرح مابعد الطبیعہ ۱۱۹۳ء تا ۱۱۹۴ء۔ یہ ان کی زرخیز ترین اور مشہور ترین کتابوں میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

دنیا کی پہلی اسمارٹ جائے نماز

دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی مصر کے شہر قاہرہ میں جامعہ ازہر کے نام سے قائم ہوئی۔ اس یونیورسٹی سے بے شمار طالب علم فیضیاب ہوئے اور علم کی بنیاء پر علمی سطح پر شہرت پائی۔ مسلمانوں کو آج بھی فخر ہے کہ انھوںنے علم کی اہمیت سمجھتے ہوئے دنیامیں سب سے پہلی یونیورسٹی کے بانی ہیں۔ اس کے بعد عراق میں بغداد یونیورسٹی قائم کی اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے تعلیم کو فروغ دیا گیا۔ یورپ کے طلبہ نے ان یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور یہ یورپی علم سے مسلسل مستفیدہوتے ہوئے ایک مذہب قوم بن گئے۔ دنیا پر مسلمانوں کی یہ احسان مندی ہے کہ انھوںنے یورپ کے ممالک کو اپنے علم سے فیضیاب کیا اور یورپ مسلمانوں کے ذریعہ علم سے فیضیاب ہونے کے بعد یہ جتاتا ہے کہ علم کے علمبردار ہم ہیں۔ ہمارے اسلاف نے جو علمی کارنامے انجام دئیے تھے ان سے متعلق آج بھی کتابوں کے انبار ان یورپی کے پاس سی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ آج بھی سائنس جس پر یورپ فخر کرتا ہے عربوں کی مرہون منت ہے۔

لیکن آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اقلیت قرار دے کر قومی دھارے سے الگ کر دیا گیا ہے اور یہ ملک کے حکمرانوں کی سوچی سمجھی بات ہے۔ اقلیت کو بنیاد ر جو حقوق مسلمانوں کو دئیے گئے وہ اب تک محدود ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں تیس کروڑ ہے اور تیس کروڑ کی آبادی کم نہیں ہوتی، اگر غور کیا جائے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جتنی آبادی ہے اتنی اور اس سے بھی کم آبادی والے دنیا میں بہت سے ممالک ہیں۔ کسی قوم کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ عزائم مستحکم ہوں اور اتحاد ہو؛ لیکن مسلمانوں میں نہ اتحاد ہے، نہ قیادت اور نہ عزائم جو کچھ بھی ہے وہ منتشر حالت میں ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اس منتشر حالت سے سب ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اٹھاتے رہیںگے اور یہ تیس کروڑ کی تعداد اسی طرح عالم مجبوری میں ہر صورت کی پسماندگی میں اپنی زندگی اندھیروں میں کاٹتی رہے گی۔ لکھنے والے بہترین، خوب صورت اور جذباتی انداز میں اپنے قلم کو جنبش دیتے رہیںگے، اپنی بات کرتے رہیںگے۔ مسلمانوں کو تیس کروڑ کی طاقت کا احساس کراتے رہیںگے جو بے مقصد بھی ثابت ہوتی رہی ہے کیونکہ لکھنے والے اپنے زور قلم کا اثر اخبارات میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ انھوںنے کسی بات کو کتنے خوبصورت انداز اور الفاظ میں عیاں کیا ہے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مسلمان کس حالت میں ہیں ، کوئی ان سے ہمدردی رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج کے یہ مسلم نوجوان اپنی اسلامی معاشرتی تہذیب کو بھول کر یہ مغربی تہذیب اور مادہ پرستی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ آج کا مسلم نوجوان مغربی فیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ یہ اپنی قومی ذمہ داریوں سے منہ موڑ رہے ہیں۔ جبکہ مغربی تہذیب کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ مغربی طرز حیات مادیت اور مادہ ترقی پر منحصر ہے اور زندگی گزارنے کا مقصد صرف حصول لذت ہے جس سے الحاد اور بے دینی پھیلتی ہے۔ جس عمل سے مسلم قوم کا وقار بلند ہوسکتا ہے اس جانب ان کی نگاہیں نہیں ہیں۔ قومی روایات کو یہ مسلم نوجوان یکسر بھا بیٹھے ہیں اور اسلامی رویات سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے ۔ منفی عناصر دن بہ دن فروغ پارہے ہیں جس سے مسلم قوم دلدل میں دھنستی جارہی ہے اور یورا معاشرہ زوال پذیر ہے۔

اس طرح یہ اپنی پہچان بھی کھوتے جارہے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی روایات گھر سے ختم ہورہی ہیں۔ جہاں صبح نماز کے لیے اٹھتے تھے اب موبائل کی بیل بجنے پر اٹھتے ہیں اور گھنٹوں گھنٹوں میں غرق رہنے کے بعد پھر سو جاتے ہیں۔ مدارس میں بچے نہیں پڑھتے جبکہ وہاں اسلامی تعلیمات کا سلسلہ ہے۔ وہاں قرآن کی ہدایات کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، کفر کیا ہے، ایمان کسے کہتے ہیں اس کا فرق ان مدارس میں بتایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تعلیم کا سلسلہ بھی ہے۔ قرآنی علوم کے علاوہ دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن مدارس کی تعلیم سے غافل ہیں، ایسی صورت میں کیا مسلم قوم آگے بڑھے گی؟ علامہ اقبال نے اس مسلم قوم کو گرمانے کے لیے کہا تھا

خودی کو کربلند اتنا ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

لیکن افسوس! آج مسلمان ہی علم میں سب سے پسماندہ ہیں۔آج مسلمانوں کی علمی پسماندگی کو عروج دیا جارہا ہے اور ہر طرح سے مسلمانوں کو علمی پسماندیگ کا احساس دلاکر احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا سماجی اور معاشرتی طریقہ کار ایسا ہے کہ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ علم کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں اور اپنے وجود کو ایسا بنا لیا کہ دیکھنے والے غور سے دیکھتے ہیں کہ یہ مسلم نوجوان کس سمت جارہے ہیں۔ ان میں اپنے آپ کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ان کو اپنے وجو دکا احساس تک نہیں ہے جبکہ حضرت علی ؓ کا قول ہے ’’جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا۔‘‘ لیکن علم سے محرومی نے ان کو کیسا بنا دیا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان فضول اور غیر اہم موضوعات پر بحث و مباحثے میں اپنا وقت خراب نہ کریں بلکہ بنیادی مسائل کی جانب دیکھیں۔ مسلم نوجوان اپنے آپ کو قنوطیت کے حصار سے باہر نکالیں، احساس کمتری کو خود نفسیاتی تجزیہ کرکے ختم کریں اور اپنے اندر ایک نئی روح پھونکیں اور اس جانب نظر کریں کہ ٹیکنالوجی اور سائنس تو ہمارے اسلاف کی میراث ہے۔

لہٰذا اس کو حاصل کرنا آج بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔ اپنے اجداد کی میراث کو زندہ رکھنا ہمارا اولین فرض ہے۔ اپنے اجداد کے لیے اور موجودہ وقت کے لحاظ سے علم کو حاصل کریں اور ایسا فروغ دیا جائے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے۔ ہمیں اپنے اخلاق، کردار کو بہتر سے بہتر بنانا ہوگا۔ گندی ذہنیت سے اپنے آپ کو پاک رکھنا ہوگا، جہاں تک ممکن ہو سکے دین پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ منافقوں کی محفلوں اجتناب کیا جائے کیونکہ مسلمان جو قابل احترام سمجھے جائیںگے وہ اس بنیاد پر سمجھے جائیںگے کہ وہ عالم اور باکرادر ہیں۔

M. 9058058077

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here