ممبئی کے شیعہ علما نے شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت کی،قانون واپسی کا مطالبہ

0
441

۔ ممبئی پریس کلب میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت اور علماآف شیعہ مسلم کمیونٹی ممبئی اور تھانہ کے بینر تلے پریس کانفرنس سے علمائے کرام نے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف جہاں پورے ملک ہندوستان میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اب یہ احتجاج شدت کی بھی شکل اختیار کرچکا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں اور اور کم و بیش ۱۷ سے زیارہ اموات بھی ہوچکی ہیں لیکن حکومت خاموش تماشی بنی ہوئ ہے ہم اس شہریت ترمیمی قانون کی اور آین آر سی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں

 

اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اس بل کو فورآ واپس لے اور جو بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں فورآ رہا کیا جائے ۔مولانا احمد علی عابدی امام جمعہ خوجہ شیعہ اثنا عشری نے کہا کہ سی-اے-اے یعنی (شہریت کے نئے ترمیمی قانون) کے ساتھ ساتھ این-آر-سی یعنی (شہریوں کے قومی رجسٹر) کو لاگو کرنے کے سرکاری فیصلے سے ممبئی اور تھانہ کے شیعہ عوام اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ چونکہ ان قوانین کے ذریعہ اقلیتی مسلمانوں کو ان کے شہری حقوق کے استعمال سے بے دخل کیا جائے گا گویا ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہو۔ بظاہر تو مجوزہ این-آر-سی قانون کا نشانہ ہندوستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے مہاجرین ہے۔ لیکن یہ قانون ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، بدھسٹوں اور جینیوں اور پارسیوں پر لاگو نہیں ہوگا۔ صرف مسلمان ہی اس کا نشانہ بنے گیں۔

با الفاظ دیگر ڈیٹینشن سینٹر یعنی (حراستی مراکز) میں صرف مسلمانوں کو ہی رکھا جائے گا۔ واضح طور پر مذکورہ قانون کے دائرے سے مسلمانوں کو درکنار کرنا ایک انتہائی بے شرمانہ کوشش ہے تاکہ انہیں حاشیے پر دکھیل کر ہندوستان کے مشہور عالم ثقافتی طرز عمل و فکر کے ساتھ ہم آہنگ رہنے سے محروم کیا جائے۔ یہ ایک دیدہ و دانستہ کوشش کی جارہی ہے کہ دوسری اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانون کی اقلیت کی تعداد کو گھٹایا جائے اور جسے انھوں نے ہمیشہ اپنا گھر سمجھا اس جگہ سے مربوط ان کے سارے امتیازی اختیارات اور حقوق ان سے چھین لیے جائیں۔ سی-اے-اے اور این-آر-سی نامی دو منصوبے ہندوستان کو یعنی اس قوم کو جسے ہم بڑے فخر کے ساتھ ہمارا اپنا کہتے آئے ہیں بنیادی طور پر بدل ڈالیں گے۔

مولانا حسنین رضوی کراروی پیش امام مسجد ایرانیان نے کہا کہ سرکار نے سی-اے-اے کو اپنی سخاوت کا ایک اقدام بتا کر پیش کیا ہے لیکن در حقیقت این-آر-سی جیسے ایک خطرناک ہتھیار کے ساتھ مل کر وہ تعصب کا ایک مہلک جفاگر اعلیٰ بن جائے گا۔ وہ جو یہ ادعا کررہے ہیں کہ ۲۵ کروڑ مسلمان شہریوں پر اس قانون کا کوئی اثر مترتب نہیں ہوگا۔ ان سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب ہماری عوام کو اب مراتب (درجہ بندی) میں باٹنے کا اشارہ کرنے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ اس پر کوئی اثر مترتب نہ ہو۔ یہ سب آخر کس لئے کیا جا رہا ہے؟ صدیوںسال پرانے امن و امان میں ایک تشویش ناک مرحلے کو کیوں ہوا دی جا رہی ہے۔ جو چیز ٹوٹی ہوئی نہیں ہے اسے جوڑا کیوں جا رہا ہے؟ قومیت کی اس انفرادی حیثیت کو کیوں چھیڑا جائے جو ہمیں ہمارے پڑوسیوں میں امتیازی مقام دیتی ہے۔ مذہب کا استعمال ہندوستانی ہونے یا نہ ہونے کے لئے کیوں کیا جا رہا ہے۔ ۵کروڑ شیعہ مسلمان جو صدیوں سے ہندوستان کے شہری ہیں اور جو ہمیشہ ہی سے سب کے ساتھ یکجہتی اور یک دلی کے ساتھ پُر امن طریقے سے جی رہے ہیں ہندوستانی سرکار کی پیش کردہ اس نئی فاشسٹی پالیسی سے بہت دل برداشتہ اور نا خوش ہو گئے ہیں۔

مولانا روح ظفر پیش نماز خوجہ شیعہ مسجد ممبئی نے کہا کہ حکمران سرکار کے کرتا دھرتاؤں نے انتخابات کے دوران سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ لگایا تھا۔ ہم نے مودی صاحب کی قیادت کو قبول کیا لیکن ہمیں ان کی طرف سے اتحاد کو مستحکم کرنے کے کسی بھی عمل میں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی بلکہ اس کے بالکل برعکس دیدہ و دا نستہ کوششیں کی جارہی ہے کہ اقلیتوں کو پسِ پشت ڈال دیاجائے تاکہ وہ تباہی کا شکار ہو جائیں۔ لہٰذا ہم پُر امن شہریوں کو غیر منصفانہ اور شیطانی عمل کی زیرِ نگرانی لانے کے سرکار کے منصوبہ کی سخت مذمت کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر کسی بھی وقت اس ترمیمی قانون کو ملک میں نافذ کیا گیا تو ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے اور اس نئے قانون کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
مولانا ذوالفقار مہدی پیش امام خوجہ شیعہ مسجد باندرہ نے کہا کہ ہماری رائے میں سی-اے-اے اور این-آر-سی کی جوڑی نہ صرف ہندوستان کے حساب کو بلکہ اس کے بنیادی فلسفے کو بھی متزلزل کر دے گی۔ ہم شیعہ مسلمان تو آزادی کی جدوجہد کے دوران مہاتما گاندھی کے ملہم امام حسین ؑ کے ماننے والے ہیں ہر ایسی چیز کی اطاعت گزاری سے انکار کرتے ہیں جو ہمارے اس عظیم الشان کنسٹیٹیوشن یعنی آئین کا مذاق اڑاے ہیں اور اسے شرمندہ کرتے ہیں جو جمہوریت، سیکولرزم اور اتحاد جیسے سنہری الفاظ سے مزین ہیں۔مولانا ذکی حسن نوری اسلامی اسکالر نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے شہرت ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس بل کو فورآ واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔پروگرام میں خصوصی طور پر مولانا حسین مہدی حسینی، کے ایس آئی جماعت کے صدر صفدرر ایچ کرم علی، ریٹائز میجر سید جاوید مہدی جعفری ،جاوید زیدی ،ایڈوکیٹ عباس کاظمی ،مولانا کمال احمد، مولانا غلام عباس، مولانا ذیشان اندھیری، مولانا عزیز حیدر ، مولانا حسن رضا ، مولانا یاور عباس ، مولانا شیخ صابر ، مولانا نجیب حیدر،مولانا علی عباس امید، مولانا یاور عباس کے علاوہ کثیر تعداد میں علمائے کرام جمع ہوئے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here