9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
دانش اثری، مئو
افسانہ سے شغف کی بنیاد پر بہت سارے احباب سے رابطہ ہوا ، کچھ سے تعلقات وقتی ثابت ہوئے اور کچھ کا ساتھ ابھی بھی برقرار ہے – انہی میں سے ایک اہم نام مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے نوجوان قلمکار مجاہد سلیم کا بھی ہے – 2017کی بات ہے جب مجھے زارا فراز کے ذریعہ واٹس ایپ پر ایک ادبی گروپ ”ادبی کہکشاں“ سے جوڑا گیا – یہ گروپ تنقید و تخلیق کے لیے بڑا سازگار ماحول رکھتا تھا – کچھ گنے چنے لوگ تھے اور تعمیری تنقیدیں ہوا کرتی تھیں – مجاہد سلیم اور زارا فراز گروپ ایڈمن تھے – ایک عام ممبر کا گروپ ایڈمن سے جو واجبی سا رشتہ ہوتا ہے وہی رشتہ ہمارے درمیان بھی موجود تھا – اسی اثناء میں ایک روز زارا فراز نے میرا ایک افسانہ ”سرخ روئی ہمارا حق ٹھہرا“ پیش کیا، احباب کی طرف سے مختلف رائیں آئیں – میری ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ کبھی بھی اپنی تخلیقات کا دفاع نہیں کرتا بلکہ ہر تنقید کو خوشی خوشی گوارہ کرلیتا ہوں – مجاہد سلیم صاحب نے میرے افسانے کی تشبیہات پر اعتراض کیا تھا – زارا فراز نے مجھے ذاتی طور پر کہا کہ آپ مجاہد کی باتوں کا برا نہ مانیں ، میں نے خوش دلی سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے – ہر شخص اپنی رائے پیش کرتا ہے اس میں سے قابل قبول چیزیں لے لی جاتی ہیں اور جو چیزیں نہ سمجھ میں آئیں انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے – اتنی ذرا سی باتوں پر دل میلا کرنے کا کوئی حاصل تو نہیں – بہرحال بات آئی گئی ہوگئی ، کچھ دنوں کے بعد میری فعالیت کے سبب مجھے بھی ایڈمن بنادیا گیا – ایڈمن بننے کے بعد مجاہد سلیم سے گفتگو کا سلسلہ دراز ہونے لگا کیونکہ کسی بھی گروپ کو چلانے کے لیے سیکڑوں مسائل سے جھوجھنا ہوتا ہے اور لازمی طور پر اگر منتظمین صلاح و مشورے سے نہ چلیں تو انتشار کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے – بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا اور دھیرے دھیرے یہ تعلق گہری دوستی میں تبدیل ہوگیا – اس اثناء میں مجاہد سلیم کے کئی ایک افسانے نظر سے گزرے اور ان افسانوں کی قرات کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ مجاہد سلیم کو فن افسانہ کے تعلق سے اچھی خاصی واقفیت ہے اور جب بھی وہ قلم اٹھاتے ہیں تو کافی سوچ سمجھ کر ، سوجھ بوجھ کے ساتھ افسانے کو کاغذ کے سینے پر منتقل کرتے ہیں –
جہاں تک مجاہد سلیم کی ذاتی زندگی کا سوال ہے ان کا اصل نام مجاہد حسین ہے اور آپ کی پیدائش مہاراشٹر کے ضلع ناسک میں ، مالیگاؤں میں 15اگست 1989کو ہوئی ، انھوں نے ابتدائی تعلیم اردو اسکول نمبر 66 میں اور بعد ازاں دو سال ایس ایم خلیل ہائی اسکول میں حاصل کی۔ درجہ نو پاس کرنے کے بعد آپ نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور پیشہئ آباء یعنی نوربافی سے منسلک ہوگئے – مئو ناتھ بھنجن اور مالیگاؤں میں قدر مشترک پاورلوم پر کپڑوں کی بنائی بھی ہے – بزرگوں کے مطابق گئے وقتوں میں، مئو ، مبارک پور اور بنارس جیسے نوربافی کے لیے مشہور علاقوں سے بہت سارے افراد مالیگاؤں ہجرت کرگئے تھے اور وہیں پر سکونت اختیار کرلی – اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اہل مئو اور اہل مالیگاؤں کے درمیان خونی رشتے بھی موجود ہیں – والد صاحب کے مطابق ان کی چچازاد بہن اور بہنوئی بھی مالیگاؤں میں مقیم تھے – ہم نے بچپن میں ایک دوبار ان سے ملاقات بھی کی ، وہ گھر آیا کرتے تھے لیکن بعد میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا – بہرحال یہاں ذکر یہ کرنا تھا کہ مئو اور مالیگاؤں یا اس جیسے دیگر علاقوں میں عام طور پر اقتصادی بدحالیوں کے سبب تعلیم ادھوری چھوڑ کر دو وقت کی روٹی کی فکر کرنا زیادہ ضروری ہوجاتا ہے – مجاہد سلیم بھی انہی حالات کا شکار ہوئے لیکن انھوں نے اپنے اندر کے فنکار کو مرنے نہیں دیا –
نانیہال میں شعر و شاعری کا ماحول تھا ، لیکن اس کے باوجود آپ نے جب شعری کاوشیں شروع کیں تو انھیں اس سے روک دیا گیا اور ابتدائی دو تین تخلیقات کے بعد انھوں نے شاعری ترک کردی – صرف بارہ سال کی عمر میں افسانوی سلسلے کا آغاز ایک کہانی لکھ کر کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے – آپ کے افسانے مختلف جرائد و مجلات اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں جن میں خاص طور پر بیباک، ہاشمی آواز، انقلاب، اردو ٹائمز اور پندار وغیرہ قابل ذکر ہیں – آپ کے نمائندہ افسانوں میں چڑیا ، سوگندھی ، روشن ستارہ اور سورج کا قتل وغیرہ ہیں – سوگندھی بنیادی طور پر ایک لڑکی سوگندھی کی کہانی پر مبنی ہے جس کے بچپن میں ڈاکوؤں نے گاؤں پر حملہ کرکے اس کی ماں کو اغوا کرلیا تھا – اس حادثے کے بعد اس کا باپ شدید غصے کے عالم میں خنجر بکف گھر سے نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا ، سوگندھی کی پرورش اس کے چچا نے کی اور سوگندھی کی شادی کے بعد دوبارہ ڈاکوؤں نے گاؤں پر حملہ کیا اور اس بار وہ سوگندھی کو اٹھا لے گئے – لیکن جب ڈاکوؤں کے سردار نے سوگندھی کو دیکھا تو تڑپ اٹھا کیونکہ سوگندھی اسی کی بیٹی تھی – درمیان کی کہانی کو افسانہ نگار نے واضح نہیں کیا ہے اور یہ کہانی پس منظر میں یا یوں کہیں کہ قاری کے ذہن میں چلتی ہے کہ اس کا باپ گھر سے نکلنے کے بعد انتقام میں اندھا ہوکر خود ڈاکو بن جاتا ہے اور برسوں بعد جب وہی رسم دہرائی جاتی ہے تو باپ بیٹی دونوں ایک دوسرے کے مقابل آجاتے ہیں۔حالانکہ ڈاکوؤں کے سردار نے اپنی بیٹی کو پہچاننے کے بعد اسے بحفاظت واپس بھجوادیا تھا لیکن یہاں سے کہانی ایک دوسرا موڑ لیتی ہے اور سوگندھی کا شوہر اس سے اسقاط حمل کی فرمائش کرتا ہے – حالانکہ وہ اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ جب ڈاکو اس کی بیوی کو اٹھا کر لے گئے تھے تو اس کے ساتھ بھی وہ سب کچھ ہوا ہوگا جو دوسری مغویہ لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے – اس لیے یہ بچہ اس کا نہ ہوکر کسی ڈاکو کا ہی ہوگا لیکن آخر میں سوگندھی اپنے شوہر کو ڈاکوؤں کے سردار کا سچ بتادیتی ہے اور افسانہ ختم ہوجاتا ہے –
اس افسانے میں انتقام کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے اس حقیقت سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انتقام اکثر مجرد انتقام نہ رہ کر اسی ظالمانہ روش کو اختیار کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ انتقامی عمل شروع ہوا تھا، اس لیے انتقام کا عمل بھی جاری رہتا ہے اور ظلم و جور کا سلسلہ بھی۔ اس افسانے کے علاوہ مجاہد سلیم کے دیگر افسانے بھی حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے تلخ حقائق سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہیں – مجاہد زیادہ تر بیانیہ افسانے لکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی انھوں نے علامتوں سے کھیلنے کی کوشش بھی کی ہے – حالانکہ علامت نگاری انتہائی محتاط عمل ہے ، جسے برتنے میں افسانہ نگار کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے کہ علامتیں پہیلیاں بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کی دبازت اتنی ہی ہو کہ قاری ان کی پرتیں کھول سکے – مجاہد سلیم علامتوں کو برتنے میں بھی خاصے کامیاب ثابت ہوئے ہیں – ابھی تو سفر کی ابتداء ہے لیکن فن اور فن کار کا انداز بتاتا ہے کہ مستقبل میں اردو ادب کو مجاہد سلیم کی صورت ایک پختہ افسانہ نگار ملے گا –
ریسرچ اسکالر : مانو حیدرآباد9236741905